باجرے کے لمبے لمبے ٹانڈوں نے چاروں طرف سے کیکر کے کانٹوں بھرے ،بڑے سے درخت کو گھیر رکھا تھا ۔ایکڑ بھر باجرے کے درمیان اس پرانے درخت نے اپنی جگہ یوں خالی کرا رکھی تھی جیسے گاؤں کے بڑے کسی ایسے ویسے کو پنپنے نہیں دیتے کہ کل کو سر نہ آ جائے ۔جُوں جُوں اس درخت کے قریب جائیں باجرے کے پودے چھدرے ، چھوٹے اور درخت کی چھتری کے بالکل پاس تو مکمل معدوم ہو جاتے تھے ۔
ساون بھادوں کی خاموش، چمکتی، تیکھی دوپہر کا حبس اساڑھ ، جیٹھ کی بھرپور لیکن خشک گرمی سے کہیں بڑھ کر تکلیف دہ ہوتا ہے ۔ جسم سے پسینہ پھوٹتا ہے اور گیلی زمین کے بخارات سر کو جا پکڑتے ہیں ۔ دیہات کی برساتی گرمی کی سُنسان دوپہر میں فصلوں بھرے کھیتوں کے بیچ دُور نکل جائیں تو پُراسرار خاموشی عجیب اُداسی طاری کرتی ہے ۔
خیر ، کیکر کے گرد کھڑے اس باجرے کے بیچ گوارے کی فصل بھی ملا کر بوئی گئی تھی ۔ گوارے کے پتوں اور تنوں سے چمٹے نادیدہ منحنی کانٹے جسم کے ننگے حصے سے مس ہوں تو چُبھتی ہوئی خارش بن کر جسم چٹخا دیں ۔
یہ گوارا، باجرے کے سٹے اتار لینے کے بعد بچے ہوئے تنوں کو ملا کر ٹوکے سے گزارنے پر خُشک اور تر کے ملاپ سے خوش ذائقہ چارہ بناتا تھا جسے کھا کر گائیں بھینسیں میٹھااور گاڑھا دودھ دیتی اور بیل , بھینسے طاقت کے خزانے جمع کرتے تھے ۔
وہ ان سب چیزوں کو محسوس کئے اور خاطر میں لائے بغیر باجرہ دونوں ہاتھوں سے ہٹاتا گوارے سے ٹکراتا کھیت میں گھُستا چلا گیا ، تا آنکہ درخت کے بالکل نیچے خالی ،نم زمین پر دوزانو بیٹھ گیا ۔
یہ اُن دنوں کی بات ہے جب دیہات ابھی خالص دیہات تھے ۔
اکثر گاؤں کچے راستوں ہی سے متعارف تھے جو فصلوں کھیتوں کھلیانوں کے بیچ لہراتے انہیں دور کہیں شہر کو جانے والی سڑک تک پہنچا کر گاؤں لوٹ جاتے ۔ پنجاب کے اس بارانی علاقہ کو اللہ کی دی بارش کے علاوہ بس کُنوؤں کی مدد سے سیرابی کا کچھ آسرا تھا ۔ گندم ، جو، مسُور ، چنا، باجرہ ربیع کی فصلیں تھیں جبکہ خریف میں باجرہ ، ماش، مکی ،جوار اور کہیں کہیں گنا اور پانی میسر ہونے پر کچھ چاول بھی بو لئے جاتے تھے ۔
اپنے استعمال کا غلہ اور گُڑ شکر رکھ کر کسان زائد پیداوار گاؤں کے کُمہاروں کے ہاتھ بیچ دیتے تھے جنہوں نے برتن بنانے کا دھندا چھوڑ کر گدھے اور خچر پال لئے تھے ۔ کمہار کسانوں کی فصل کی زائد پیداوار خرید کر گدھوں اور خچروں پر لاد کر دس پندرہ کوس دور قصبے کی آڑھت یا غلہ منڈی میں لے جاتے تھے اور اپنا معمولی سا نفع رکھ کر باقی وصول رقم گاؤں کے کسانوں کو ادا کر دیتے تھے ۔
یہ کمہار آڑھتی اور چھوٹے کسان کے بیچ کا رابطہ تھے جن کے ذریعے آڑھتی غریب کسانوں کو بوائی کے وقت بیج، کھاد وغیرہ کے خرچ کے لئے ادھار پیسے بانٹ دیتے اور بدلے میں فصل پکنے پر اونے پونے غلہ خرید کر اپنی رقم سے کہیں زیادہ وصول کر لیتے ۔ یُوں کمہار جنہیں جاٹ کمیں کمین اور کم ذات سمجھا کرتے تھے وقت کے ساتھ ترقی کر کے اچھے خاصے بااثر لوگ بن چکے تھے اور اس علاقے کے چھوٹے موٹے کسانوں سے زیادہ آسُودہ حال تھے ۔
“اشرف ! دینے سے کہہ دینا کل چوہدری اللہ دتے کی کنک (گندم) بھرنی ہے ۔ کہیں اور نہ نکل جائے ۔ فجر کے بعد تکڑی باٹ لے کر سیدھا اللہ دتے کے ڈیرے پہنچ جائے ۔ اُس نے کسی اور کو اٹھوا دی تو پچھلے پیسے پھنسے رہ جائیں گے ۔ پھر ساؤنی میں کیا ملنا ہے ۔ بارانی والوں کی تو خدا سے یاری ہے ۔
کنک رکھ کے بیٹھا ہے کہ مہنگی ہوگی تو بیچے گا اور یہ دن آگئے ۔ آڑھتی ،میاں فضل نے میری جان کھائی ہوئی ہے کہ ربیع کا کھاتہ بند کر ،خریف کی فصل آنے والی ہے ۔ بڑی مشکل سے اللہ دتے کو منایا ہے کہ کنک اٹھوائے اور پچھلا حساب ختم کر ے۔ اگلی ساؤنی جا کر پھر اساڑھی سر پر کھڑی ہے “۔
عُمر کمہار جب بولنے پر آتا تو بولتا ہی چلا جاتا ۔
اس وقت اس کی تاکید بلاوجہ بھی نہیں تھی کیونکہ اس بار اللہ دتے نے حد کر دی تھی ۔ اگرچہ ہر سال کی طرح پیسے تو ملک فضل کی آڑھت سے انگوٹھا لگا کر پہلے ہی نکلوا لایا تھا لیکن غلے کو جپھی ڈال کر بیٹھا تھا کہ ابھی گندم نہیں بھروانی مہنگی ہوگی تو اٹھواؤں گا ۔
میاں فضل جہاں کمہاروں کی ذریعے اور کبھی براہ راست پیسے بکھیرنے میں دریا دل تھا وہیں سرمایہ واپس سمیٹنے میں خاصا سخت گیر تھا ۔ اگر ایسا نہ کرتا تو اس کی آڑھت ایک آدھ سال ہی میں جاٹ کاشتکاروں میں بٹ جاتی اور وہ کشمیر واپس جانے کی سوچ رہا ہوتا ۔ کامیاب کاروباری روئیے کی وجہ سے اس کی آڑھت دن بدن پھیل رہی تھی ، پھل پھول رہی تھی ۔ اسی آڑھت نے اسے تنگ سے بازار سے نکال کر قصبے کے نئے بنے بائی پاس پر وسیع احاطے ، گودام اور کھُلے ، بارُعب دفتر کے علاوہ شہر میں کئی دکانوں اور مکانوں کا مالک بنا دیا تھا ۔
وہ اپنے اصولوں پر سخت اور پکا تھا اور انہی اصولوں نے اسے بقا اور خوشحالی بخشی تھی ۔
گاؤں رتیالہ کا اللہ دتہ ویسے تو چھوٹا سا جاٹ زمیندار تھا لیکن نمبردار غلام حیدر کا چچا زاد بھائی تھا اور غلام حیدر نمبردار شیخ فضل کا پرانا دوست تھا ۔ یہی تعلق ایک وجہ تھی کہ شیخ جیسے پتھر کو بھی جونک لگی اور اساڑھ کا ادھار چکاتے چکاتے ساؤنی آ کئی ۔ عُمر کے ذریعے اللہ دتے کو گندم اٹھوانے اور پرانا حساب چکتا کرنے کے پیغام تو کئی پہنچتے لیکن وہ ہر بار کوئی نہ کوئی جواب گھڑ دیتا ۔
آخری جواب یہ تھا،
“یار چار پیسے بڑھ لینے دے، لڑکے ریاست کی فیس دینی ہوتی ہے ۔ لاہور پڑھانا آسان نہیں ۔شیخ فضل مر نہیں جائے گا میرے چند ہزار روپوں کے بغیر ۔ ریاست نے کہا ہے اگلے مہینے چھٹیوں پر آئے گا تو اپنے سامنے کنک بھروائے گا ۔”
اب یہ اللہ دتے کا لڑکا ریاست بھی اپنی ہی طرز کا بندہ تھا ۔ قریبی قصبے سے میٹرک پاس کرنے کے بعد اسے لاہور پڑھنے کا شوق چُرایا ۔
اکلوتا ہونے کی وجہ سے لاڈ پیار کا پالا تھا ۔ منت سماجت اور دھونس دھمکی سے باپ کو منا کر لاہور کے مشہور کامرس کالج میں جا داخل ہوا ۔ریاست اکلوتا اور انگوٹھا چھاپ سیدھے سادھے کسان کا بیٹا ہونے کے باوجود سنجیدہ اور سیانا سا تھا ۔
عام جاٹ لونڈوں سے خاصہ مختلف ۔ اس کا تایا غلام حیدر کہا کرتا،” یار اللہ دتے ! یہ ہمارے جٹوں کے خاندان میں کدھر سے کراڑ پیدا ہو گیا ہے ۔ بھئی یہ تو ہم میں سے لگتا ہی نہیں ۔ اس کی سیانی باتیں مجھے حیران کر دیتی ہیں ۔ اسے واہی جوتی میں نہ ضائع کرنا ۔ پڑھنے دینا ۔ کوئی تو آگے نکلے ہماری برادری میں سے”۔
خیر اس بار اللہ دتے نے ریاست کے دباؤ میں آ کر ابھی تک گندم روک رکھی تھی لیکن کب تک ۔ اب بات روائتی مرو٘ت سے آگے نکلنے کو تھی اور اللہ دتے کو اس کا خیال تھا ۔
دینا، جس کا اصل نام خیر دین تھا اس گاؤں کا پکا تولا تھا ۔ وہ اگرچہ ذات برادری کے اعتبار سے جاٹوں کے ہم پلہ نہیں تھا لیکن اس کی دینداری ، شرافت اور نیک نامی نے اسے باعزت اور معتبر بنا رکھا تھا ۔ اس پر سب اعتبار کرتے تھے ۔ کاشتکار غلہ تولنے کا کام دِینے کے ذمے لگاتے اور وہ گندم تول تول کر کمہاروں کی بوریوں میں بھرواتا جاتا ۔ عام طور پر ایک بوری میں اڑھائی من گندم ڈالی جاتی اور پٹ سُن سے سلے مُنہ والی بوریاں گن کر سارا حساب کر لیا جاتا ۔
دینے کا حساب پکا سمجھا جاتا اور اسی کی بنیاد پر گاؤں کا یہ نظام پچھلی چار دہائیوں سے چلتا چلا آ رہا تھا ۔دیہات کے لوگ ایک دوسرے کو پُشت ہا پُشت سے جانتے ہیں اور انہیں کسی کے بارے میں رائے قائم کرنے کے لئے کوئی لمبی چوڑی تحقیق نہیں کرنی پڑتی ۔ ہر کسی کا آگا پیچھا ،سیاہ و سفید ، کچا چٹھا سب کے سامنے کھُلا ہوتا ہے ۔
یہی صورت حال رتیالہ کی تھی اور سب ایک دوسرے کو پُشتوں تک جانتے تھے ۔
“ پُتر ریاست ! کل فجر ویلے عُمر کمہار اور دینا پہنچ جائیں گے ۔تیری مان لی ہے پُتر ۔ اب کنک بھروا لینے دے ۔ میاں فضل تیرے تائے کی وجہ سے خاموش ہے ورنہ اب تک دُہائی مچا دیتا ۔ پھر بھی ایک دوسرے کے مُنہ لگنا ہوتا ہے پُتر۔ بس ربر کو اتنا ہی کھینچ کہ ٹُوٹ نہ جائے ۔ پُتر تیری مان لی ہے ۔ اب ضد نہ کر ۔ اللہ کا نام لے کر کل صبح اپنے سامنے کنک بھروا دے”۔
ریاست نے نوخیز مونچھوں کو خواہ مخواہ تاؤ دینے کی کوشش کی اور باپ سے نظریں ملائے بغیر جُوتے سے زمین کریدتا ہوا بولا،
“ ٹھیک ہے ابا ۔ اب بھروا لے کنک ۔ اب تو ساؤنی کے دانے بھی آنے والے ہیں ۔ بھاؤ بھی بہتر ہوگیا ہے ۔ بس کل بھروا لے کنک”۔
اگلے دن فجر کے بعد عُمر کمہار کے پچیس خچر خالی بار دانہ اٹھائے اللہ دتے کے ڈیرے پر آن پہنچے ۔ عُمر کا بیٹا اکرم بھی بڑا سا بانس کا ڈنڈا جسے وہ “ چواڑی “ کہتا تھا کاندھے پر ٹکائے سب سے طاقتور اور قد آور سفید رنگ کے خچر پر سوار سب خچروں کو اپنی مخصوص آوازوں سے دھمکاتا، راستے پر رکھتا ، آ پہنچا ۔
تھوڑی ہی دیر میں عُمر اور اس کے ساتھ دِینا بھی تکڑی باٹ سنبھالے پہنچ گئے ۔
ریاست نے فجر کی نماز ڈیرے پر بنے کچے چبوترے پر پڑھی ، جو اسی مقصد کے لئے بنایا گیا تھا اور اب انہی لوگوں کا انتظار کر رہا تھا ۔
بھنڈار کا دروازہ بڑی مشکل سے کھُلا کیونکہ کھُلی گندم کمرے میں دروازے تک بھری تھی ۔
باردانہ ڈھیر کردیا گیا ۔ چارپائی بچھا کر ریاست ذرا فاصلے پر بیٹھ گیا جبکہ عُمر اور دینا مُنج کی بُنی ہُوئی پیڑھیاں گندم کے ذخیرہ کے ساتھ ملا کر اُن پر ٹک گئے ۔
دینے نے ترازُو نکالا ، اس کے دونوں پلڑوں کی رسیوں کے بل نکالے،ترازو کو دستی سے پکڑ کر سیدھا کیا اور اونچا اٹھا کر دونوں پلڑے دیکھے کہ برابر ہیں ۔ پھر دینے نے عُمر اور ریاست کی طرف ترازو اٹھا کر دکھائی ،جیسے اُن کا اطمینان کروا رہا ہو ،لیکن اُن دونوں نے کچھ زیادہ توجہ نہ دی ۔
ایک پلڑے میں باٹ رکھے گئے اور تلائی شروع ہوئی ۔
عُمر گندم کو قریب کرتا جاتا اور دینا خالی پلڑے کو گندم کے نیچے گھسیڑ کر ترازو بائیں ہاتھ سے اٹھا دیتا ۔ اگر گندم والا پلڑا زیادہ جھُکا ہوتا، اور اکثر ایسا ہی ہوتا ، تو وہ دائیں ہاتھ سے دانوں والے پلڑے سے دانے نیچے گراتا جاتا تا آنکہ دونوں پلڑے تقریباً برابر ہو جاتے ۔ اس مرحلے پر وہ گندم اس بوری میں انڈیل دیتا جس کا مُنہ دونوں ہاتھوں اور بازؤوں کی مدد سے کھول کر اکرم پاس کھڑا ہوتا ۔
یہ سلسلہ یُونہی چلتا رہتا تا آنکہ ایک بوری میں اڑھائی من گندم ڈال دی جاتی ۔
پھر دوسری بوری کی باری آتی جسے پہلی بوری کے ساتھ ہی سلائی کر کے لمبائی کے رُخ جوڑا گیا تھا ۔ جب دونوں بوریاں بھر جاتیں تو پانچ من گندم سے بھری بوریوں کو ہٹا کر بوریوں کا دوسرا جوڑا بھرا جاتا ۔ پھر ان سب بوریوں کے منہ پٹ سن کی رسی سے ایک بڑے سُوئے (بڑی سُوئی) کی مدد سے سی دئیے جانے تھے ۔
یہ پانچ من کا جوڑا ایک خچر پر اس طرح لادا جاتا کہ اڑھائی من کی بوری خچر کی پُشت کی ایک طرف اور اڑھائی من کی دوسری بوری دوسری طرف متوازن ہوجاتی اور یوں خچر پانچ من غلہ اٹھائے اپنے سفر پر روانہ ہونے کو تیار ہو جاتا ۔
خیر بوریاں بھرتی گئیں ۔
دینا اور عمر مصروف رہے ۔
برکت ( پہلے تول کو برکت بولا جاتا ) ، دُونے ، وادھے (تین) چوتھا۔۔۔۔۔۔
بوریوں کے تئیس جوڑے بھر گئے اور گندم ختم ہو گئی ۔
ریاست نے مُڑ کر اپنے باپ کی طرف نگاہ کی جو کچھ دیر سے آکر اس کی پُشت پر کھڑا تھا ۔
پھر اس نے عُمر کمہار کی طرف دزدیدہ نگاہوں سے دیکھا اور مری ہُوئی آواز میں بولا،
“ چاچا عُمر ساری کنک واپس انڈیل دو ۔ ہم نے ابھی نہیں بیچنی “۔
اللہ دتہ تیزی سے آگے آیا اور اونچی آواز میں تحکمانہ لہجے میں بولا،
“ اوئے عُمر ! کنک خچروں پر لاد اور سیدھا آڑھت پہنچ ۔ دینے کو اس کی تلائی میں بعد میں دے دونگا ۔
چل اللہ بھلا کرے ۔
اس جھلے ریاست کی بات مت سُن ۔ اسے ابھی کیا پتہ۔ نیا لونڈا ہے ۔
چل میرا شیر۔
نکلنے والی گل کر”۔
باجرے اور گوارے والے کھیت کے درمیان ،پاگل کردینے والے حبس اور چُبھتی ہوئی دھوپ والی دوپہر کیکر کے چھدرے سائے میں بیٹھ کر دینے نے اپنے دائیں ہاتھ سے بائیں پاؤں سے فُٹ بھر لمبا ، غفُورے موچی کے ہاتھ کا سئیا ، بھینس کے چمڑے کا بنا ، بھاری دیسی جُوتا اُتارا اور بائیں کندھے کے اُوپر سے لہرا لہرا کر پُوری قوت سے کئی جُوتے اپنی پُشت پر جڑ دئیے ۔
پھر اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھُپا کر روتے ہوئے بلبلایا،
“تَولَا”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔