۔ یہاں زندگی اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ جلوہ گر ہے ۔ حسن و دلکشی مجسم حشر ساماں ہے لیکن مجبوری اپنی ہی زنجیروں میں قید نوحہ کناں ۔ یہاں کی عمارتیں گویا تپتے ریگزاروں میں نخلستانوں کا وجود ۔ شاہوں کی جاہ و حشمت جلوہ گر رہے اسی لیے غلام بستیاں آج اپنا چولا بدل چکی ہیں ۔
آج سے سات سال پہلے یہاں نوکری کی غرض سے آنا کوئی اتفاق نہیں تھا یہ میرے تصور کی روشن سرزمین تھی , جہاں تخئیل کے پرندے ہر لمحہ ہی محو پرواز رہے ہیں , جب یہاں پہنچا تو مجھے لگتا تھا کہ میرے پیر زمین سے اٹھ کر ہواؤں کے سنگ دوش بدوش سفر پر ہیں ۔ تین گھنٹےکی فلائٹ اور پھر دیگر مراحل سے گزرنا , پورے چوبیس گھنٹوں کے بعد نیند و تھکن سے بے حال وجود کو بستر نصیب ہوا تھا , دو دن کی رعایت نجانے کیوں دی گئی شاید اس لیے کہ ہم ماحول اور گرد ونواح کے عادی ہوجائیں یہ بھی یک گونہ غنیمت ہی رہا ۔ آرام کے لیے جو گوشہ مہیا کیا گیا یہ ایک بڑا ہال نما کمرہ تھا اور یہاں چودہ بنکر بیڈ نصب تھے یعنی میں تیرہ افراد کے ساتھ جڑ گیا تھا پھر وقت نے یہ ثابت بھی کیا ہم سب ایک دوسرے کے غم پر افسردہ ہوتے اور خوشی میں خوب چہکتے ۔ دو دن دعا سلام اور کام کی نوعیت جاننے اور ادھر ادھر گھوم پھر کر گزارنے کے بعد مجھے میرے کام کی جگہ پر لے جایا گیا ۔یہ ایک کنسٹرکشن سائٹ تھی یہاں بے شمار کام تھے ۔ خلقتِ خدا تعمیراتی شہکار تراش رہی تھی , مجھے بھی میرے فرائض سونپ دیے گئے جو کہ دوران تعمیر سازو سامان تیاری کے لوازمات کو ڈھونا تھا , چشم زدن میں ہی اپنی بے سرو سامانی اور وقعت خوب سمجھ میں آگئی۔ آہ! میں اپنے وجود میں اتنا بے وزن ہوں آج اندازہ ہوا , تو کیا اب ایسے جینا ہوگا ! سخت گرمی اور سخت مشقت جسے میں نے خواب میں بھی تصور نہ کیاتھا ۔ڈیوٹی کرنے کے بعد رات کو تھکاوٹ کا یہ عالم کہ روح بس عالم بالا ہر ہی نہ جا کر نینید کی وادیوں میں کہاں کہاں بھٹکی کچھ خبر نہ ہوئی اور صبح ہوگئی .۔ …میں یہ بھی نہہں سوچتا تھا کہ یہاں کی زمین سونا اگلتی ہے یا یہاں پیڑ پر پیسے اگتے ہیں لیکن خیالوں میں بھی اتنی سخت ترین مشقت کا گزر نہ تھا ۔میں ہمیشہ ناز پرور ,تنک مزاج اور گھر بھر کا لاڈلا رہا ۔گریجویشن کی سیکنڈ کلاس ڈگری کو بڑا فخر سمجھتا رہا یہاں کی مشقت نے چار دنوں میں ہی دل کے آنگن میں گھر اور وطن کی یاد کا ایک کونا آباد کردیا ۔رات تھکن سے چور جب بستر پر لیٹتا تو ماں کی یاد سب سے پہلے دامن پکڑتی۔
” وے بالے اٹھ جا! چھیتی اٹھیا کر پتر ,سویرے رزق ونڈدا اے , رب نو ناراض نہ کر میرے لال! ”
” اماں تو جا! میں اٹھ جاناں ”
پھر بھائی عاصم کی آواز گونجتی !
“بالے! دکان پر آجانا ….روز بلاتا ہوں پر مجال ہے جو یہ کان دھرے! ” بھابھی بھتیجے کو میرے پاس لٹا جاتی کہ اسے اب یہی اٹھائے گا …..میں پھر بھی ڈھیٹ بنا چارپائی توڑتا رہتا .…آہ!
ہاتھوں کے چھالوں کے ساتھ دل پر بھی چھالے بنتے ہیں سوکھتے ہیں اور میں بھی مشقت کا عادی ہو رہا ہوں ۔ اس کمرے کے نفوس ایک دوسرے کے رازداں و غم گسار ہی نہیں ایک دوسرے کے لیے خاندان کی طرح ہی تھے اب میں بھی ان کا حصہ بن گیا یہاں ہر ایک کی کہانی جدا تھی مگر درد مشترک , غربت و افلاس میں لپٹی ہوئیں کہانیاں , مجبوریوں کے جنگل میں اگے خواہشوں کے خس و خاشاک کی کہانیاں , حسرتوں اور وحشتوں کی کہانیاں , جدائیوں اور نارسائیوں کی کہانیاں ,ہمکتے بلکتے غموں اور دل میں جڑ پکڑتی موہوم امیدوں کی کہانیاں ۔ دوسال ایک طویل رات کے مانند گزر ہی گئے اور مجھے رخصت کی نوید ملی تو خوشی اور آزادی کا احساس بھر پور انگڑائی لے کر بیدار ہوا۔ روم روم میں ترنگ جاگ اٹھی , ماں کا پرنور چہرہ تصور میں لیے اپنے گاؤں پہنچا تو لگا جیسے میں یہاں کا وہ راجا ہوں جو کسی مہم سے واپس آیا ہے اور اہل خانہ میرے درباری ۔ اتنی عزت تو کبھی خواب میں بھی نہ ملی تھی جو اب ہر گزرتے دن کے ساتھ مل رہی تھی ہائے یہ سکوں کی چمک ! کیسے آنکھوں کو خیرہ اور زبانوں کو گنگ کر ہر زخم کا مرہم بن جاتی ہے ۔ پندرہ دن کی چھٹیاں پلک جھپکتے میں ختم ہوگئیں ۔ واپس جانے کا سوچ کر ہی خون خشک ہورہا تھا جی چاہتا تھا کہ بھاگ کر جاؤں اور بھائی کے گلے لگ جاؤں اور کہوں ! “بھّیا !میں دکان کا سارا کام سنبھال لوں گا بس مجھے روک لو! ” …… ” ماں ! وہاں کون رات کو میرا انتظار کرے گا ؟ کون مجھے دودھ پینے کی تاکید کرے گا ! کون میرے بالوں میں تیل کی مالش کرے گا ! محبت کے یہ رنگ مجھے بھلا پہلے کیوں نہ دکھائی دیے ! ”
لیکن ان خیالات کا گلا گھونٹ کر میں نے رخصت لی ۔
*********
بھّیا کافون آیا ہے انہیں گھر تعمیر کرانا ہے تاکہ میرا ویاہ بھی ہوسکے اور دونوں بھائی آرام سے رہ سکیں ….”اندھا کیا چاہے دو آنکھیں “۔ مجھے بہت خوشی ہوئی کہ کسی نے تو میرے بارے میں بھی سوچا ۔ بس پھر کیا تھا فوراً سے پیشتر میں نے بھائی جی کو تمام پونجی ٹرانسفر کی اور مستقبل کے سہانے خواب سجانے شروع کردیے ۔ تین ماہ بعد بھائی جی نے گھر کی کنسٹرکشن مکمل ہونے کی خبر دی اور بتایا کہ” نیچے والی منزل کو مکمل تعمیر کروا لیا ہے اور اب اوپر والے پورشن کو تیرے آنے کے بعد ہی چھیڑیں گے تب تک تو اور رقم کا انتظام کر ! ” دھڑام !!! یہ کیا ؟……. ہاں یہ میرے خوابوں کا محل گرنے کی آواز تھی ۔ یعنی اتنی کثیر رقم بھی ناکافی رہی , ریزہ ریزہ وجود گھسیٹ کر جمع کرنا کیا ہوتا ہے یہ میں نے اب جانا ۔
نہ چاہتے ہوئے بھی میں نے اپنے کانٹریکٹ کو توسیع کروالیا ۔
پھر وہی روز و شب , وہی دن کی مشقت اور شام ڈھلے تنہائی اور تھکن کا احساس جو ڈھلتی رات کے ساتھ دھیرے دھیرے گہرا ہوتا جاتا ۔ میں تین سال مزید میں انہی روز وشب کا اسیر تھا ۔اکثر چھٹی والے دن بھی میں اوور ٹائم کے لیے پہنچ جاتا . اب تو خود پر ہی حیرت ہوتی ہے کہ میں کتنا بدل گیا ہوں ! کیا میں وہی اقبال احمد عرف” بالا “ہوں ! جو گھر کے کسی کام کو بھی خود پر ظلم تصور کرتا تھا اور اب یہاں رہ کر زندگی کے جو رنگ دکھائی دیے وہ حقیقت میں سنگلاخ چٹان ثابت ہوئے ۔ میں نے یہاں رہ کر خوب محنت کی ہے اور اب میں ترقی کرتے شفٹ انچارج بن چکا ہوں ۔ میرے قریبی ساتھی نظیر چاچا کہتے ہیں کہ تمھاری شادی بھی ہوجائے تو بھی تم یہاں ہی نوکری کرتے رہو گے ۔ یہ ایسا دیار ہے جو یہاں آتا ہے یہیں کا ہو رہتا ہے ۔ شاید یہاں کے ماڈرن غلاموں کی آہیں اور سسکیاں سر شام ہی گیسو کھولے کسی عفریت کے روپ میں گھومتی رہتی ہیں جو یہاں آنے سے پہلے اپنے سحر میں جکڑ کر یہاں بلاتی ہیں پھر یہاں سے جانے والے ہر قدم کو روکتی ہیں ۔کوئی دامن چھڑا کر چلا بھی جائے جلد ہی اسے مجبور کردیتی ہیں کہ وہ یہاں لوٹ آئے اور ان کرلاتی شاموں کا ساتھی بنا رہے پھر دھیرے دھیرے زمیں کی گود میں سو جائے ۔ نظیر چاچا کے لہجے میں بے بسی بل کھاتی , چپکےچپکے آنسو بہاتی وقت کے نشیب و فراز بیان کرتی جاتی ہے اور ہم سب دم بخود محو تماشائے لب بام کی طرح انہیں سنتے ہیں ۔ نظیر چاچا میری ہی عمر میں یہاں آئے تھے پہلے دو بہنوں کی ذمہ داری اور اب دو بیٹیوں اور ایک بیٹے کی ذمے داری انہیں یہاں کا مسقل مکین بنائے ہوئے ہے ۔ میں اکثر سوچا کرتا ہوں حالات کے دھارے کو بدل دوں ! اس اگتے سورج سے کہوں کہ آج مغرب سے طلوع ہو جائے ! یا رات سے کہوں کہ یہیں تھم جائے اور میں سمندر کے اس حسین کنارے پر بیٹھے بیٹھے عمر تمام کردوں ! یا پھر یہاں کہ مشہور ریستوران میں بجنے والے بربط کی صدا بن کر فضاؤں میں گم ہوجاؤں ! کاش ! ….
**********
کچھ دن پہلے ہی امی نے بھائی کے سسرال میں میرا رشتہ طے کیا ہے میں تھوڑا سا خوش ہوں کہ میری تنہا راتوں میں ایک دیا تو روشن ہوا , میرے لب بھی بے خیالی میں اچانک مسکانے لگے , میرے ہونٹوں پر اونچے گیت مچلنے لگے کہ کوئی میری ذات سے بھی منسوب ہے , مکمل میرا ہوگا اور میں اب کسی کے خیالوں کا محور ہوں ۔ پھر ماں کی جدائی کی خبر میرے قدم اکھیڑ گئی ۔ میں کسی نہ کسی طرح جنازے پر پہنچنے میں کامیاب ہوگیا اور ماں کی خواہش کے مطابق سادگی سے نکاح کی سنت بھی نباہ آیا ۔
سود و زیاں کا حساب اپنوں سے کیسے کرتا بھائی عاصم کا خوشحال گھرانہ اور کامیاب جنرل اسٹور (جو پہلے چھوٹی سی کریانہ کی دکان تھی ) کو دیکھ کر دعا دی اور واپسی کی راہ پکڑی ۔ ماں کی ممتا چھن جانے کا غم مجھے نگل جاتا اگر نسرین کے معصوم و پر خلوص وجود کا ساتھ نہ ہوتا ۔ اب اس کے فون اور خطوط کہیں نہ کہیں وجود میں روشنی سی بھر رہے ہیں میں خوش رہنے لگا ہوں , میری مسکراہٹ اور زندہ دلی نظیر چاچا کو بھی ہمت دیتی ہے ۔ چاچا کہتے ہیں کہ : “بیٹا جی ! جس دیس رہو بس اپنے سنگ رہو ” اور میں دل سے آمین کہہ کر اپنے کام میں مگن ہوجاتا ہوں ۔
کل رات بھائی عاصم کا فون آیا ہے وہ اوپر کا پورشن میرے لیے بنوانا چاہتے ہیں انہیں سرمائے کی ضرورت ہے ۔ میں سوچ رہا ہوں کہ مسجدیں” سانجھی ” اور گھر” وکھرے” ہی ہوں تو بنیادیں مضبوط رہیں گی ۔ نظیر چاچا کا کہنا ہے کہ: ” زندگی تو اب شروع ہوگی “۔ لیکن کیا میں اس جدید غلام بستی کی روحوں سے آزاد ہو سکوں گا ؟ ۔
(ختم شد )