لندن اور اس کے مضافات کا موسم کچھ زیادہ ہی خراب ہو گیا تھا ۔ چند دنوں سے سردی اپنے عروج پر ہونے کی وجہ سے برف باری ہونے لگی تھی۔ دن کے وقت یوں لگتا جیسے شام ہو گئی ہو ۔ اس روز بھی برف باری کے بارے میں پیشین گوئی کی گئی تھی۔ میں دفتر سے نکلا تو ہلکی ہلکی برف باری شروع ہو چکی تھی۔ زمین دوز ریلوے اسٹیشن تک پہنچتے ہوئے مجھے زیادہ وقت نہیں لگا۔تاہم پھر بھی مجھے کافی سردی محسوس ہو نے لگی تھی ۔ اس سے پہلے کہ مجھے کپکپاہٹ شروع ہوتی ،میرے روٹ والی ٹرین آئی تو میں اس پر سوار ہو گیا ۔بوگی کے اندر داخل ہو تے ہی مجھے کافی سکون محسوس ہوا ۔
اگلے دن چھٹی تھی ۔بوگی میں کافی رش تھا ۔لوگ اپنے اپنے کاموں سے واپس گھروں کو لوٹ رہے تھے ۔ لاشعوری طور پر میری نگاہیں اس لڑکی کو تلاش کرنے لگیں جو پچھلے دوماہ سے مجھے اسی وقت ، اسی ٹرین میں دکھائی دیتی تھی ۔پہلے پہل ایسے ہی اجنبیت تھی جیسے کچھ دیر کے مسافروں میں ہوتی ہے ۔ پھر روزانہ ہی اس وقت ہم ایک دوسرے کو دیکھنے لگے تو مسکراہٹ کا تبادلہ ہو نے لگا۔ایک خاص طرح کی آشنائی ہو گئی تھی۔کبھی کبھار وہ مجھے یا میں اسے سیٹ کی آفر کر دیتا ۔شکریہ ، مہربانی ، وغیرہ کے لفظوں کے تبادلے سے بات آگے نہیں بڑھی تھی ۔ یہاں تک کہ ہم نے ایک دوسرے کا نام بھی نہیں پوچھا تھا ۔ آخر میری متلاشی نگاہوں نے اسے دیکھ ہی لیا۔ وہ تھوڑے فاصلے پر کھڑی میری طرف ہی دیکھ رہی تھی ۔ نگاہیں ملتے ہی اس نے ایک نرم سی تھکی ہوئی مسکراہٹ میری جانب اچھالی اور پھر ادھر اُدھر دیکھنے لگی ۔ وہ درمیانے قد کی قدرے فربہ مائل لڑکی تھی ۔ تیکھے نین نقش، رنگ صاف گندمی ، سر پر اونی ٹوپی ، گلے میں مفلر،اور کوٹ پہنے ہوئے تھی ۔ وہ مجھے ہمیشہ ہی ایسے دکھائی دی تھی ۔ اس لئے میں اس کے بدن کے خال وخد کے بارے بالکل بھی نہیں جان سکا تھا ۔وہ اپنے نقوش سے کوئی ایشین ہی لگتی تھی ۔اتنے سارے کپڑوں میں ڈھکی ہوئی اس لڑکی کے ہاتھ اور چہرہ ہی دکھائی دیتا تھا ۔
تقریباآدھے گھنٹے کے سفر کے بعد ہماری منزل آ گئی ۔ وہ مجھ سے پہلے ہی پلیٹ فارم پر اتر گئی تھی ۔ میں اس سے دو قدم پیچھے اترا تھا ۔وہ اپنے سیل فون پر نگاہیں جمائے آہستہ قدموں سے چلتی چلی جا رہی تھی ۔ میں اس کے برابر آ چکا تھا ۔ تبھی اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا
” اوہ ، اتنی برف باری ….؟“
”کیا ہو گیا ، خیریت ؟“ میں نے تشویش سے پوچھاتو اس نے پلٹ کر میری جانب دیکھا، پھر لرزیدہ لہجے میں بولی
”لگتا ہے باہر کافی زیادہ برف باری ہو رہی ہے ۔ “
” کوئی بات نہیں ، موسم ہی ایسا ہے ۔“میں نے پرسکون لہجے میں کہا
” میرے لئے مسئلہ ہو جائے گا ۔“ اس نے گھبرائے ہوئے انداز میں کہا
” گھبراﺅ نہیں ، میں تمہارا مسئلہ حل کر دیتا ہوں ، آ ﺅ میرے ساتھ ۔“ میں نے کہا اور باہر جانے والے راستے پر چل دیا ۔
وہ میرے ساتھ چلنے لگی ۔خارجی دروازے پر رنبیر سنگھ کار لئے کھڑا تھا ۔وہ میری جانب دیکھ رہا تھا ۔ باہر بر فباری کافی زیادہ ہو رہی تھی۔ میں نے شیڈ کے نیچے کھڑی کار کا پچھلا دروازہ کھولا اور اس لڑکی کو پیچھے بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔ اس نے پہلے ایک بار مجھے غور سے دیکھا پھر وہ جھجکتے ہوئے بیٹھ گئی ۔ میں اگلی نشست پر بیٹھا تو رنبیر سنگھ نے کار بڑھا لی ۔ سڑک برف سے سفید ہو چکی تھی ۔جس طرح برف پڑ رہی تھی ، اس سے لگتا تھا ،یہ سلسلہ جلد رکنے والا نہیں۔تھوڑا آ گے جا کر رنبیر نے یوٹرن لیا ، پھر واپس آ کر بائیں جانب مڑ گیا ۔
” آپ کو کیسے پتہ کہ میں نے ادھر جانا ہے ؟“ اس نے اشتیاق سے پنجابی میں پوچھا۔ بلاشبہ وہ رنبیر سنگھ کو دیکھ کر سمجھ گئی تھی ۔
”مجھے پتہ ہے کہ تم روزانہ ادھر ہی جاتی ہو ،آگے تم بتا دینا کہ جانا کدھر ہے اور….۔“ میں نے پنجابی ہی میں بتانا چاہاتو اس نے میری بات کاٹتے ہوئے تجسس سے پوچھا
” پتہ ہے ، مطلب ….؟“
” مطلب یہ ہے کہ جب تم روزانہ ٹرین سے اتر کر پیدل اسی راستے پر جا رہی ہوتی ہو تب میں کار میں یہاں سے گزرتے ہوئے تمہیں دیکھتا ہوں ۔ میرا خیال ہے تمہارا گھر آ گے کہیں ہے ؟“ میں نے وضاحت کرتے ہوئے پوچھا
” ہاں ، یہاں سے پیدل آ دھا گھنٹہ لگ جاتا ہے ۔“ اس نے بے چارگی سے کہا
” میرا گھر راستے ہی میں پڑتا ہے ۔ رنبیر مجھے ڈراپ کرکے تمہیں چھوڑ دے گا ۔“ میں نے کہا تو اگلے ہی لمحے مجھے خیال آ یا تو میں نرم لہجے میں بولا،” دیکھو ،اسے تکلف مت سمجھنا ،تم اگر چاہو تو میں تمہیں چائے کی آ فر کرتا ہوں ۔“
” نہیں چائے نہیں ، اس وقت مجھے بہت بھوک لگی ہوئی ہے ، میں کھانا ہی کھاﺅں گی ۔“ اس نے سادگی میں یا تکلف سے کہا
” کھانا کھا کے چائے پی لینا، کھانا تیار ہے اس وقت ۔“ میں نے کہا تو وہ خوشی سے بولی
” ہاں یہ آ فر قبول کی جا سکتی ہے ۔“
” میرا نام ظفر قبال ہے اور ….“
” میں ہرنیت کور ۔“اس نے اعتماد سے بتایا
ساری گلی برف سے سفید ہو چکی تھی ۔ رنبیر سنگھ نے گھر کے دروازے پر کار روک دی ۔میرے اترتے ہی وہ لڑکی بھی کار سے باہر آ گئی۔ گھر اندر سے گرم تھا ۔ باہر کے ٹھٹھرتے ہوئے موسم سے ایک دم پر سکون ماحول میں آ گیا تھا ۔ اس نے دروازے کے ساتھ کھونٹی پر اپنا کوٹ لٹکا دیا ، وہیں جوتے اور موزے اتار دئیے جہاں میں نے اتارے تھے ۔ جب تک میں گرم لاﺅنج میں پڑے صوفے پر آ کر بیٹھا، وہ بھی آ کر سامنے والے صوفے پر بیٹھ گئی ۔ اس کے پاﺅں ، اس کے چہرے سے زیادہ سفید تھے ۔اس نے جین کے اوپر چیک دار شرٹ پہن رکھی تھی ، جس میں سے اس کا بدن گتھا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔جیسے ایک ایک انگ خود کو ظاہر کرنے کے لئے بے تاب ہو ۔ سب سے اہم بات جو مجھے دکھائی دی وہ اس کے دائیں ہاتھ میں کڑا تھا۔شاید میری نگاہوں کی تاب نہ لاتے ہوئے اس نے پوچھا
” آپ پنجابی ہو ؟ “
” ہاں پاکستانی پنجابی شیخوپورہ کے علاقے سے ، لگتا ہے تم بھارتی پنجابی ہو ؟“ میں نے تجسس سے پوچھا
” ہاں ، میں لدھیانہ سے ہوں ،آپ اکیلے رہتے ہیں ؟“ اس نے تجسس سے ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے پوچھا
” نہیں، میرے ساتھ رنبیر سنگھ رہتا ہے، ایک دوست کیتھرین ہے،جو آج کل گھانا گئی ہوئی ہے، ہم سب مل کر رہتے ہیں۔“ میں نے بتایا، پھر ایک خیال کے تحت وضاحت کرتے ہوئے بتایا، ” میں نے ابھی شادی نہیں کی ۔“
” اوہ ، تو پھرکھانا رنبیر بناتا ہوگا یا…. ؟“ اس نے پوچھا
” نہیں ،ہمارے گھر کے سامنے ہی ایک ہندو ادھیڑ عمر بیوہ خاتون کھانا بناتی تھی ۔ میرے جیسے کئی لوگ ہیں یہاں ، سو ہمیں کھانا مل جاتا ہے اور اس کا روزگار بن گیا ہے ۔“ میں نے بتایا ۔ اسی دوران رنبیر سنگھ ایک بڑے سارے ٹفن میں کھانا لے آیا ۔اس نے آ تے ہی میز سجا دیا ۔
” ارے واہ ، دال ، پالک پنیر ، گوبھی آ لو ، چٹنی، توے کی روٹیاں ….“ کھانا دیکھ کر گویا وہ مچل ہی گئی ۔
” اچھا لگا نا ، دیسی کھانا؟“ میں نے پوچھا
” بہت اچھا، مجھے تو لدھیانہ میں اپناگھر یاد آ گیا ۔“ اس نے بھرائے لہجے میں کہا۔
اتنے میں رنبیر سنگھ نے اپنی جیب سے ایک چھوٹی سی شراب کی بوتل نکالی ، اپنے سامنے پڑے گلاس میں ایک پیگ بنایا اور پی گیا۔ ہرنیت کور اسے للچائی ہوئی نگاہ سے دیکھنے لگی تھی ۔ تبھی رنبیر نے اس سے پوچھا
” لو گی…. ؟“
”ہاں۔“اس نے مسکراتے ہوئے کہا تو رنبیر سنگھ نے ایک پیگ اسے بنا دیا ۔
دو پیگ کے بعد وہ کھانے کی طرف متوجہ ہو گئے ۔ میں پہلے ہی کھا رہا تھا ۔ کھانے کے بعد ہرنیت کور بولی
” مزا آ گیا ۔ میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ مجھے ایسا کھانا ملے گا ۔ “
”ہاں وہ ہندو ادھیڑ عمر خاتون بہت اچھا کھانا بناتی ہے ۔“ رنبیر سنگھ نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا
” میں اتنے اچھے کھانے سے محروم ہو جاتی اگر میں آپ کی آفر قبول نہ کرتی ۔“ ہرنیت کور نے کہا اور انگلی سے چٹنی لگا کر زبان پر رکھ لی ۔
” بس جی یہ واہگرو کی مہر ہے کہ ہمیں یہاں سہولت دے دی ہے ورنہ بہت مشکل ہو جاتی ۔“رنبیر سنگھ نے کہا
میں تھکا ہوا تھا ۔ویسے بھی پورا ہفتہ کام کر کرکے مت ماری جاتی تھی ۔ نیند سے میری آ نکھیں بند ہو رہی تھیں۔ میں نے معذرت خواہانہ لہجے میں کہا
” دیکھوہرنیت ، میں تو لگا ہوں سونے ، مجھے نیند آ رہی ہے ۔ تم اگر جاناچاہو تو رنبیر تمہیں چھوڑ دیتا ہے ۔“
” اتنا اچھا کھانا کھانے کے بعد تو میرا دل بھی سونے ہی کو چاہ رہا ہے ۔“ اس نے کسلمندی سے کہا اور کرسی سے ٹیک لگا لی
” اگر تمہیں کوئی مسئلہ نہیں ہے تو صبح چلی جانا۔“ رنبیر نے کہا
” مسئلہ تو کوئی نہیں ہے۔“ اس نے کاندھے اچکاتے ہوئے کہا
” بس ٹھیک ہے ،وہ سامنے میری دوست کیتھرین کاکمرہ ہے ۔ وہاں جا کر سو جاﺅ ، کسی بھی شے کی ضرورت ہو تو بلا جھجک لے لینا ، وہاں زنانہ استعمال کی ہر شے موجود ہے۔“میں نے سکون سے کہا اور اٹھ گیا
٭….٭….٭
صبح میری آ نکھ کھلی تومیں فریش تھا۔ میں کچن میں گیا ۔ اپنے لئے چائے بنائی اور واپس کمرے میں آگیا۔ چند منٹ بعد ہرنیت کور بھی کمرے میں آ گئی ۔ شاید اسے میرے جاگنے کا احساس ہو گیاتھا ۔اس نے نائیٹی پہنی ہوئی تھی۔اس کے بال کھلے تھے، وہ دروازے کے فریم میں آ کر کھڑی ہو گئی ۔ میں اسے دیکھتا ہی رہ گیا ۔وہ جو کپڑوں میں لپٹی رہتی تھی ، ایک نائٹی میں سامنے آ ئی تو اس کے جسم کے خطوط میرے ارد گرد منڈلانے لگے ۔وہ ایک بھر پور بدن والی الہڑ لڑکی تھی ۔
” واﺅ ، تم تو بہت خوبصورت ہو ۔“ بے ساختہ میں نے کہا
” وہ تو میں ہوں ۔“ اس نے اٹھلاتے ہوئے کہا جیسے جیت جانے کی خوشی ہو ۔
” آ ﺅ بیٹھو۔“ میں نے اسے بیڈ پر بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔
وہ بیڈ کے کنارے پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئی ۔میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے خوشگوار لہجے میں پوچھا
” لگتا ہے خوب نیند آ ئی ہے تمہیں ؟کافی فریش لگ رہی ہو ۔“
”بہت اچھی اور گہری نیند آ ئی ، میں کافی دیر سے جاگ رہی ہو ں، میں نے تو ناشتہ بھی کرلیا ۔ “ اس نے مسکراتے ہوئے کہا
”بہت اچھا کیا ۔“ میں نے چائے کا سپ لیتے ہوئے کہا ۔حالانکہ میں اس کے چکنے بدن کی تعریف کرنا چاہتا تھا ۔
” بہت اچھا گھر ہے آپ کا ،بہترین کمرے ، بہترین واش روم ۔“اس نے کہا
” ہاں یہ گھر اچھا ہے ۔ ہر طرح کی سہولت ہے ۔“ میں نے خواب آ لود لہجے میں کہا اور کمبل اٹھا کر اپنے اوپر لے لیا ۔ اس کے ساتھ ہی ایک سر اس کی جانب اچھال دیا۔ اس نے وہ سرا پکڑا اور کمبل میں گھس گئی ۔
” گرم پانی دیکھا تو میرا جی ہی مچل گیا۔بہت دنوں بعد میں خوب نہائی ہوں، کیتھرین کی بہت ساری چیزیں میں نے استعمال کر لیں، وہ کہیں ….“وہ کہتے ہوئے کمبل میں میرے مزید قریب ہو گئی تھی ۔
” نہیں ، کچھ نہیں کہتی ۔“ میں نے ہنستے ہوئے کہا پھر اس کی کھلی زلفوں کو سونگھتے ہوئے بولا،” یہ جو تم نے شیمپو لگایا ہے ، یہ اس کا بہت فیورٹ ہے ۔“
” ویسے آپ پرفیوم بھی بہت اچھا لگاتے ہیں ۔“ اس نے میرے سینے پر سر رکھ کر خمار آ لود لہجے میں کہا
مجھے لگا کمبل کچھ زیادہ ہی گرم ہو گیا ہے ۔ اس کی سانسیں تیز اور گرم تھیں ۔میں نے گرم چائے کا کپ ایک طرف رکھا اور اسے اپنی بانہوں میں بھر لیا۔وہ جھجکتے ہوئے میرے ساتھ لپٹ گئی ۔اس کا خوشگوار بدن ، مہکتی زلفیں اور سرسراتے ہوئے جذبات نے مجھے مدہوش ہو کردیا ۔ ہمارے درمیان خاموشی چھا گئی اور بدن بولنے لگے ۔
٭….٭….٭
تھکن کے احساس کے ساتھ ہم بیڈ پر پڑے تھے ۔ ایسے میں رنبیر سنگھ نے دستک دی۔ ہرنیت کور کمبل میں مزید دبک گئی ۔میں نے جواب دیاتووہ کمرے میں آ گیا ۔اس نے ہمیں بیڈ پر دیکھا تو پلٹتے ہوئے بولا
” ہرنیت ، میں باہر جا رہا تھا ، اگر میرے ساتھ چلنا ہے تو ….“
” ابھی تھوڑی دیر تک نہیں رنبیر ….“ اس نے مچلتے ہوئے کہا
” چل ٹھیک ہے ، میں پھر دو تین گھنٹے بعد آتا ہوں۔“ اس نے کہا اور باہر کی طرف جانے لگا ۔ تبھی ہرنیت کور نے پوچھا
” رنبیر،تھوڑی پینے کو مل جائے گی ؟“
” یہ لو ۔“ اس نے جیب سے آدھی بھری بوتل نکال کر سائیڈ ٹیبل پر رکھ دی اور تیزی سے پلٹ گیا ۔
اس کے جاتے ہی کمبل میں پڑی ہرنیت کور نے بوتل کھولی اور اس میں سے چند گھونٹ لے لئے ۔وہ کچھ دیر بیٹھی پیتی رہی پھر اٹھی اور واش روم چلی گئی ۔ اس کے بدن پر ایک دھجی بھی نہیں تھی ۔ وہ سرور میں تھی ۔ تنہائی پاتے ہی مجھے سگریٹ کی طلب ہو نے لگی۔ میں نے سائیڈ ٹیبل کے دراز سے سگریٹ کا پیکٹ اٹھایا ، اس میں سے ایک سگریٹ نکال کر لائیٹر سے سلگا لیا ۔
اس وقت میں نے تیسرا کش لیا تھا ، جب ہرنیت کور واش روم سے باہر آ گئی ۔ اس نے فضا میں تمباکو کے دھویں کو محسوس کیا ، پھر ناک چڑھاتے ہوئے حیرت سے میری طرف دیکھا، میرے ہاتھ میں سلگتی ہوئی سگریٹ دیکھ کر غصے میں چلا اٹھی ،” یہ کیا کر رہے ہو ؟“
” سگریٹ پی رہا ہوں ۔“میں نے سکون سے کہا
” تمہیں پتہ ہے ، یہ میرے لئے حرام ہے ۔“ غصے میں لرزتے ہوئے اس نے کہا، پھر میری طرف دیکھے بغیر تیزی سے نائیٹی اٹھائی اور بھاگتے ہوئے کمرے سے باہر چلی گئی ۔
٭….٭….٭
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...