گورکّن ہونا باعثِ افتخار نا سہی اور گورکن نچلے طبقے میں ہی شُمار سہی، اُسے اس بات کی پرواہ نہیں تھی ۔ وہ ایک گورکّن تھا ۔ نام سرتاب علی بیگ ، عُمر لگ بھگ پچاس برس کی ، توانا ، لحیم شحیم ، محنت کش اور صاحبِ صلواۃ ۔ بڑا نیک تھا اور پیشے سے ظاہر ہے، ایک گورکّن ہی تھا ۔ پیشہ باپ دادا سے وراثت میں ملا تھا ۔ ثواب کا کام تھا۔ سو آگے بھی اپنایا ۔ پھرحلال کی کمائی تھی، بڑی برکت تھی اور اسی پیشے سے گھر کا چولہ چوکھا بھی چلتا تھا ۔ شہر کے سب سے بڑے قبرستان کا ایک نامور گورکّن تھا ۔ سو کافی جان پہچان بھی تھی۔ صُبح شام ، گرمی سردی ، جھاڑا یا برسات، وہ اپنا پسینہ بہاتا رہتا تھا اور اپنے معاونین کے ساتھ ہمہ وقت کام میں جُٹا رہتا تھا ۔
جاڑوں کا موسم اور خُنک ہواوں کا راج تھا۔ ٹھنڈ بڑھ گئی تھی ۔ قبرستان کے گردونواح میں ایستادہ پیڑ پودے اور مختلف اقسام کی جھاڑ جھاڑیاں جیسے ٹھنڈ سے نبرد آزما تھیں ۔ مطلع ابر آلود تھا اور آسمان پر کالے رنگ کے گھنیرے بادلوں کی ایک موٹی سی چادر تنی ہوئی تھی۔ بارش کے آثار تھے مگر ہواوں کے ہلکے پُھلکے جھکڑ اس امر میں مانع اور حایل تھے ۔ سرتاب علی اپنے معاونین کے ساتھ ایک قبر کھودنے کے عمل میں مصروف تھا ۔ سردی ضرور تھی مگر برداشت کی حدود سے باہر بھی نہیں تھی، پھر وہ اس قسم کی موسمی شرارت سے نپٹنے کا عادی بھی تھا ۔ ہر موسم میں اپنا کام کرتا تھا ، کیونکہ کام کی نوعیت ہی ایسی تھی کہ ہر موسم میں یہ کام جاری رہتا تھا اور آج تک یہی روایت قائم تھی ۔ آج صُبح سے ہی وہ اپنے معاونین کے ساتھ کام میں جُٹ گیا تھا اور اس وقت سرِ شام یہ چوتھی قبر تیار ہورہی تھی ۔ محراب گنج علاقے کے کوئی نواب محتاج مرزا صاحب بھہتر سال کی عُمر میں انتقال کر گئے تھے اور اب ان کی قبر کھودی جارہی تھی ۔ قبر اب تقریبا" تیار تھی کہ اچانک سرتاب علی بیگ چونک پڑا۔ قبر کی تہہ میں اُسے اچانک پھولوں کی ایک سیج سی نظر آنے لگی ۔ وہ یہ دیکھ کر ششدر سا رہ گیا ۔ اُس کے سارے بدن میں جیسے سنسنی سی دوڑ گئی ۔ وہ حیران سا قبر کی تہہ میں پھولوں کی اس سیج کی نمود کو دیکھتا رہا ۔ پوری قبر میں خوشبو پھیل گئی تھی۔ ایسا لگا جیسے تھوڑی دیر قبل قبر میں گُلباری کی گئی ہو۔ مگر ایسا نہیں تھا ، قبر تو خود اُس کی دیکھ ریکھ میں تیار ہو رہی تھی ۔ وہ حیران تھا، مگر پریشان نہیں۔ ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ ایسا چمتکار ہوا تھا ۔ وہ سوچ رہا تھا اور قبر کے اندر آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر یہ سب دیکھ رہا تھا ۔ اُس نے پل بھر کےلئے اپنے دیگر دو معاونین کی طرف دیکھا جو قبر کے اوپر کچھ کام کر رہے تھے ، وہ دونوں خا موش تھے اور حسبِ معمول اپنا کام کر رہے تھے۔ سرتاب علی بیگ تھوڑی دیر تک کچھ سوچتا رہا اور پھر اپنے لبوں پر مُسکراہٹ بکھیرتا ہوا اپنے کام میں مگن ہوگیا۔
پُورے ہفتہ وہ دن رات اس واقعہ کی بھول بھُلیوں میں اُلجھا رہا، بلکہ قبر میں پیش آئے ہوئے اس واقعہ پر مُسلسل سوچتا بھی رہا ۔ نواب محتاج مرزا ضرور کوئی اہم اور نیک شخص تھا ۔ضرور اس نےثواب کے کچھ بڑے بڑے کام کئے ہوں گے ۔ وہ ضرور پتہ لگانے کی کوشش کرے گا ۔ وہ آج پھر دیر رات تک اسی واقعہ کے بارے میں سوچتا رہا ، پھر شاید آنکھ لگ بھی گئی ۔ کتنی دیر سویا اندازہ نہیں ، کہ کسی نے بیرونی برآمدے کے دروازے پر دستک دی ۔ " زرا دیکھو تو ۔ کون ہے ۔؟ پاس سورہی بیوی خدیجہ نے اُسے ہلکے سے جھنجھوڑا۔ تو وہ چونکتے ہوئے بیدار ہوگیا ۔ ایک انگڑائی لیتے ہوئے وہ کھڑا ہوگیا ۔ اُس نے کمرے کی بتی روشن کی اور خراماں خراماں برآمدے کی طرف پیش قدمی کرنے لگا۔ دروازے کےقریب پہنچتے ہی دروازہ کھولا اور اندھیرے میں ادھر اُدھر دیکھنے لگا ۔ باہر گُھپ اندھیرا تھا ۔ چند روز قبل برآمدے کا بلب فیوز ہوگیا تھا ، اس لئے کچھ صاف صاف دکھائی نہیں دے رہا تھا بلکہ ٹھنڈی ٹھنڈی ہواوں کے جھکڑ چل رہے تھے اور ہاتھ کو ہاتھ سُجائی نہیں دے رہا تھا۔
" ارے کون ہے بھائی ۔؟" سرتاب بیگ نے آواز لگائی۔
" دیکھئے، یہ میں ہوں ۔ اسلام وعلیکم " کسی نے قریب آتے ہوئے جواب دیا ۔ سرتاب نے دیکھا کوئی شخص سر سے پیر تک ایک کالے کمبل میں لپٹا ہوا تھا۔"
" وعلیکم السلام ، ہا ں فرمایئے ۔۔۔۔۔۔ ۔" سرتاب گھُپ اندھیرے میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اس شخص کو پہچاننے کی کوشش کرنے لگا ۔
" دیکھئیے۔ آپ کو میری مدد کرنی ہوگی اور میں جانتا ہوں کہ آپ نا نہیں کریں گے ۔" وہ اجنبی شخص دردمندانہ لہجے میں پھر سے گویا ہوا ۔ " مگر آپ اندر تو آئیے ۔ دیکھئے کتنا اندھیرا ہے ، پھر سردی بھی تو دیکھئے ۔" سرتاب نے اجنبی کو اندر آنے کی دعوت دی ۔
" نہیں ، وقت بہت کم ہے ۔ زرا سی دیر ہوئی تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔" اجنبی نے ایک گہری سانس لیتے ہوئے اپنا جُملہ ادھورا چھوڑ دیا ۔ "
" مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔؟ سرتاب علی کہتے ہوئے کُچھ سوچنے لگا۔ " " آپ بس میرے ساتھ چلئیے۔"وہ عجز وانکساری سے پھر بولا۔
" کہاں چلنا ہے ، مطلب کتنی دُور جانا ہے ۔؟"
" بس تھوڑی دُور جانا ہے مگر پیدل ہی جانا ہوگا ۔؟
" اچھا آپ ٹھرئیے ، میں اندر سے ٹارچ ، چھتری وغیرہ لے کر آتا ہوں ۔ شاید بارش ہوجائے" سرتاب کچھ حیران و پریشان دکھنے لگا ۔ وہ اندر گیا اور کچھ دیر بعد تیار ہوکر واپس بھی آگیا ۔
پھر جلدی ہی وہ دونوں وہاں سے روانہ ہوئے ۔ سرتاب اجنبی شخص کا چہرہ دیکھ نہیں سکا ، کیونکہ اُس کا چہرہ کمبل سے ڈھکا ہوا تھا ۔ پھر گہرا اندھیرا بھی تھا اور کُچھ سُجائی بھی نہیں دے رہا تھا۔ اجنبی آگے آگے چل رہا تھا اور سرتاب بیگ خاموشی سے اُس کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا ۔ بارش ہونے کے آثارضرور تھے مگر بارش ابھی تک ہوئی نہیں تھی ۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا البتہ چل رہی تھی اور سردی بھی قدرے بڑھ گئی تھی ۔ وہ خاموشی سے چلتے رہے اور تقریبا" ایک گھنٹے کی مسافت طے کرنے کے بعد ایک پبلک پارک کے احاطے کے نزدیک پہنچ گئے ۔ اچانک وہ دونوں رُک گئے کیونکہ اجنبی نے رکنے کا اشارہ کیا تھا ، جبھی اجنبی شخص نے پارک کے نزدیک ایستادہ ایک ڈسٹ بِن کی طرف اشارہ کرکے سرتاب علی کو اس میں جھانکنے کےلئے کہا ۔ سرتاب علی نے تعمیل کرتے ہوئے ٹارچ کی روشنی کا دائرہ ڈسٹ بن کے اندر کرتے ہوئے اس میں جھانک کر دیکھا جبھی اُس کا منہ حیرت سے کھُل گیا۔
ڈسٹ بن میں ایک نوزائیدہ بچہ ایک چھوٹے سے کمبل میں لپٹا ہوا اپنے ہاتھ پیر ہلا رہا تھا ۔ " باپ رے باپ ۔۔۔۔ لا حول ولا قوۃ ۔" سرتاب محو حیرت رہا اور بچے کو بغور دیکھنے لگا ۔ " بچی ہے ماشاءاللہ۔" جبھی وہ بڑبڑایا ۔ وہ بچے کی جنس سے پہچان گیا تھا ۔" ہاں ، ایسا کرو ۔ اس بچی کو میرے گھر " گُلاب کوٹھی " پہنچادو ۔ گلاب کوٹھی ، محراب گنج علاقے میں واقع ہے ۔ مہربانی ہوگی۔ ثواب کا کام ہے ۔" اجنبی نے پیچھے سے دھیرے سے آواز لگائی ۔
" مگر یہ کام تو آپ خود بھی کرسکتے تھے اجنبی دوست ۔ مجھے یہاں بلانے کی کیا ضرورت تھی ؟" سرتاب نے کہتے ہوئے مُڑ کر پیچھے کی طرف دیکھا ، جبھی اُس کے اوسان خطا ہوگئے ۔ اجنبی شخص وہاں نہیں تھا ۔ اُس نے جلدی جلدی ٹارچ کی روشنی ادھر اُدھر گُھمائی مگر بے سود ۔ اجنبی شخص کا دُور دُور تک کوئی نام و نشان نہیں تھا ۔
" کہاں گئے میرے دوست ۔؟ اُس نے آواز لگائی۔ مگر کوئی جواب نہیں ۔ پھر آواز لگائی ، پھر جواب ندارد۔ " یا اللہ ۔" وہ بڑبڑایا اور ادھر اُدھر متلاشی نگاہوں سے دیکھنے لگا جھبی قریب کی کسی مسجد سے فجر کی اذان بُلند ہوئی تو وہ اذان کی طرف متوجہ ہوا ۔ پھر بتدریج دیگر مساجد سے بھی اذان ہونے کا سلسلہ شروع ہوا ۔ اسی کے ساتھ بوندا باندی بھی شروع ہوئی تو سرتاب علی بیگ چونک پڑا ۔ اُس نے پھر ڈسٹ بن کی طرف دیکھا ، معصوم بچی اپنی چھوٹی چھوٹی آنکھوں سے ادھر اُدھر دیکھ رہی تھی اور اپنے ہاتھ پیر ہلا رہی تھی ۔ سرتاب نے ایک جھُرجھری سی لی " یا اللہ رحم ۔" اُس کے منہ سے نکل گیا۔ وہ تھوڑی دیر اجنبی کو پھر تلاش کرتا رہا مگر بے سود ۔ اجنبی کا دُور دُور تک کوئی اتہ پتہ نہیں تھا۔
" یہ کیا ہو رہا ہے ۔؟ وہ بڑبڑایا ، جبھی بوندا باندی میں مزید اضافہ ہونے لگا۔ وہ تھوڑی دیر کچھ سوچتا رہا ۔ پھر اُس نے بڑی تیزی کے ساتھ ڈسٹ بن میں ہاتھ ڈال کر ننھی سی بچی کو ڈسٹ بن سے نکال دیا اور اپنی چھاتی سے لگا یا ۔ جلدی اُس نے ایک ہاتھ سے چھتری کا بٹن دبا کر چھتری کھول دی اور پھر کوئی لمحہ ضائع کئے بغیر سڑک پر لمبے لمبے ڈگ بھرنے لگا۔
ہلکی بوندا باندی جاری تھی اور وہ آگے کی جانب بڑھ رہا تھا ۔ظاہر ہے کہ منزل محراب گنج کی" گُلاب کوٹھی " ہی تھی جو کسی بھی صورت میں یہاں سے تین کلو میٹر کے فاصلے سے کم دُور نہیں تھی ۔ راستے میں وہ اجنبی شخص کے بارے میں بھی متواتر سوچے جا رہا تھا ۔ کون تھا وہ ؟ اُسے زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا ۔ کہیں وہ بھوت تو نہیں تھا ۔ مگر اُس نے اپنے گھر کا پتہ تو بتا دیا تھا۔ " جائے گا کہاں ۔ گھر ہی جائے گا ۔ وہیں ملاقات ہوگی ۔" وہ بڑبڑاتا ہوئے آگے بڑھتا رہا ۔
تقریبا" ایک گھنٹے بعد وہ محراب گنج پہنچا تو بوندا باندی رُک چُکی تھی ، تھوڑا اُجالا بھی ہوچکا تھا ، گاڑیوں کی تھوڑی بہت آمدو رفت بھی شروع ہوچکی تھی اور سڑکوں پر زندگی کے آثار بھی نمودار ہونے لگے تھے ۔ اُس نے سڑک کے کنارے کھڑے ایک آٹو رکھشا والے سے جو اپنے آٹو میں بیٹھا بیڑی پی رہا تھا بات چیت شروع کی اور " گُلاب کوٹھی " کے بارے میں استفسار کیا تو وہ کھانستا ہوا جوابی ہوا۔
" ارے بھیا ۔ آہہہ ۔۔۔۔ آہہہ ۔۔۔۔ وہ آگے سڑک سے داہنے کی طرف گُھوم جاو ۔۔ اہہہ ۔۔۔ اہہہ ۔۔۔۔۔ بس پہنچ ہی گئے سمجھو۔"
" شُکریہ ۔ ۔۔۔۔۔۔ شُکریہ بھائی صاحب ۔" سرتاب علی نے جلدی جلدی سے شُکریہ ادا کیا اور آگے بڑھنے لگا۔
پھر تھوڑی ہی دیر بعد وہ گلاب کوٹھی کے سامنے کھڑا تھا اور کوٹھی کو بڑی دلچسپی سے دیکھ رہا تھا ۔ قدیم طرز کی ایک بڑی کوٹھی تھی اور پوری کوٹھی پر گلابی رنگ چڑھا ہوا تھا ۔ وضع قطع قدیم ہی سہی ، مگر کوٹھی بڑی شاندار تھی۔ وہ کوٹھی کے مرکزی گیٹ پر کھڑا کچھ سوچ ہی رہا تھا کہ کسی نے پیچھے سے اُس کے کندھے کو تھپتھپایا۔ اُس نے پیچھے گُھوم کر دیکھا تو اُس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں ۔ پیچھے وہی کمبل پوش کھڑا تھا جو پارک کے ڈسٹ بن کے پاس غائب ہوا تھا ۔ وہ اس وقت بھی سر سے پیر تک کمبل میں لپٹا ہوا تھا اور چہرہ بھی پوری طرح سے ڈھکا ہوا تھا۔
" ارے ۔۔۔۔۔ آپ ۔۔۔۔ آپ کہاں چلے گئے تھے ۔" سرتاب اُسے حیرت سے دیکھنے لگا ۔ " آپ تو پہلے ہی یہاں پر حاظر ہیں۔"
" جی جی ۔۔۔۔۔۔۔ چلئیے اندر چلئیے ۔ " اجنبی نے مرکزی گیٹ میں پیوست ایک چھوٹے سے دروازے کی طرف اشارہ کیا ۔ " دروازہ اندر سےکُھلا ہے ۔ بیدھڑک اندر چلے جایئے۔"
" جی جی ۔ ۔۔۔۔۔۔ ۔" سرتاب بیگ اپنا سر اثبات میں ہلاتا ہوا اندر داخل ہوا ۔ اُس کے پیچھے پیچھے اجنبی بھی گیٹ کے اندر چلا آیا ۔ اب وہ ادھر اُدھر دیکھ ہی رہا تھا کہ اجنبی نے ایک جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔
" اب اس بچی کو اُدھر جاکر سیدھے اُس پالنے میں ڈال دو ۔" اجنبی نے کوٹھی کے قریب باغ میں ایستادہ ایک پالنے کی طرف اشارہ کیا ، جہاں کم روشنی میں بھی پالنا صاف نظر آرہا تھا ، کیونکہ کوٹھی کے باہری بلب روشن تھے۔ کوٹھی کا پیش گاہ خاصا خوبصورت تھا اور ہر طرف پھول ہی پھول نظر آرہے تھے۔ سرتاب کچھ پس و پیش میں پڑگیا تو اجنبی پھر بولا " گھبراو نہیں ۔ یہ میرا ہی گھر ہے ۔ جاو جاو ۔ گھبراو نہیں۔ "
سرتاب حیران و پریشان آگے بڑھتے ہوئے پالنے تک پہنچ گیا اور اب نوزائیدہ بچی کو پالنے میں ڈالنے ہی والا تھا کہ قریب ہی کسی کے کھانسنے کی آواز نے اُسے چونکا دیا ۔ وہ آواز کی طرف متوجہ ہوا۔ کوئی کوٹھی کے قریب ہی کے بنے ہوئے سرونٹس کوارٹر سے باہر آتے ہوئے اب اُسی کی طرف آرہا تھا ۔ سرتاب بیگ رُک گیا اور اس شخص کی طرف دیکھتا رہا ، جو تھوڑی دیر بعد اب قریب آ چکا تھا ۔ " اسلام وعلیکم۔" سرتاب نے سلام کیا ۔ " دراصل یہ بچی ۔۔۔۔۔ ۔"
" وعلیکم السلام ۔ لائیے لائیے ، یہ بچی مجھے دیجئیے ۔ یہاں سردی ہے ۔ میں اسے اندر لے جاوں گا ۔ " نو وارد بڑی متانت سے بولا ۔ " کہاں سے ملی تھی یہ بچی ؟ اور کن حالات میں ملی تھی ، اس کا اندراج کرنا پڑے گا میں دراصل یہاں کا چوکیدار ہوں ۔" وہ پھر بولا ۔ " جی جی ۔" سرتاب نے اپنا سر اثبات میں ہلاتے ہوئے اُسے بچی تھمادی اور اپنی بپتا سُنانے لگا ۔ اس دوراں اُس نے اُس اجنبی شخص کے بارے میں بھی بتایا دیا جو اُس کے ہمراہ تھا اور اپنے آپ کو اس گھر کا مالک بھی بتا رہا تھا ۔ وہ پیچھے مُڑ کر اجنبی کو دیکھنے کی کوشش بھی کرنے لگا مگر وہ وہاں ہوتا تو دیکھتا ۔ وہ ندارد تھا ۔
" اس گھر کا مالک ۔۔۔۔ ۔؟ چوکیدار نے حیران ہوتے ہوے پوچھا ۔
" کیا نام بتایا تھا ۔۔۔۔ ؟ وہ حیران نگاہوں سے سرتاب کو دیکھنے لگا ۔ " جی نام تو نہیں بتایا تھا ، مگر اپنے آپکو اس گھر کا مالک ضرور بتایا تھا ۔ ابھی ادھر ہی تھا، نہ جانے کہاں چلا گیا ۔" سرتاب پھر متلاشی نگاہوں سے ادھر اُدھر دیکھنے لگا ۔
" مگر اس گھر کے مالک تو ایک ہفتہ قبل گُزر چُکے ہیں ۔ گُمنام اور لاوارث بچوں کے وارث ۔ مرحوم نواب محتاج مرزا صاحب ۔ اللہ جنت نصیب فرمائے " چوکیدار نے کہا اور بچی کو اپنے ساتھ لیتا ہوا اور مرحوم محتاج مرزا کو دُعائیں دیتا ہوا کوٹھی کے اندر جانے لگا ۔ جبھی سرتاب علی بیگ سناٹے میں آگیا ۔ وہ سر سے پیر تک ہِل گیا اور محوِ حیرت چوکیدار کو جاتے ہوئے دیکھتا رہا ۔ مرحوم نواب صاحب کی قبر تو وہ خود کھود چکا تھا ۔ " یا اللہ ۔" اُس کے منہ سے بےساختہ نکل گیا ۔ کسی نے قریب سے سرگوشی کی تو وہ چونک پڑا ۔ اُس نے دیکھا اجنبی شخص پھر سے حاظر ہوا تھا ۔ " شُکریہ دوست ، آپ کا بہت ممنون ہوں ۔ اب میں چلتا ہوں ۔" اجنبی شخص دھیرے سے بولا ۔
" آپ کہاں غائب ہوتے ہیں اور کون ہیں آپ ۔۔۔۔۔۔؟ سرتاب جھنجھلاتے ہوئے تیز لہجے میں بولا ۔
" شش۔۔۔۔ دھیرے سے ۔ ۔۔۔۔ میں ہی اس گھر کا مالک ہوں ۔ یعنی نواب محتاج مرزا ۔۔۔۔۔۔ آپ نے میری مدد کی ۔ شُکریہ ۔ اب میں چلا ۔ اللہ حافظ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ " کہتے ہوئے وہ شخص لمبے اور تیز تیز قدم اُٹھاتا ہوا مرکزی گیٹ کی طرف جانے لگا اور پھر اچانک غائب ہوگیا ۔ اُسے جیسے زمین نگل گئی ، یا آسمان کھا گیا ۔ " یا اللہ ۔۔۔۔۔۔۔ تیرے کھیل نرالے ۔۔۔۔" سرتاب علی بیگ کے منہ سے اچانک نکل گیا ۔ اب وہ حیران سا خلاء میں گھُور رہا تھا اور اپنے آپ بڑبڑا بھی رہا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...