ہمیشہ تین د کی مثلث میرے مدِ مقابل ہی رہی میں تمام عمر اپنی زندگی کو اس مثلث میں مقید کرنے کی سعی کرتی رہی۔مگر اس مثلث میں سما نہ سکی۔
بچپن کی کچھ تلخ یادوں کی کرچیاں میری روح میں پیوست ہو کر رہ گئیں ہیں یہ یادیں جب بھی اپنا سر اُٹھاتیں تو سارے پرانے زخم ہرے ہو کررسنے لگتے،غلط کہا جاتا ہے کہ پیچھے مڑ کر دیکھنے سے انسان پتھر ہو جاتا ہے کاش میں پتھر ہی ہو جاتی کیونکہ میں تو جب بھی پیچھے مڑ کر دیکھتی ہوں تو اور بھی زیادہ لہو لہان ہو جاتی ہوں۔
میرے ماں باپ میں اکثر لڑائی رہتی۔ابو غصے میں بہت بے دردی سے ماں کوپیٹتے ماں کے جسم پر چوٹیں پڑتیں اور ان چوٹوں کے رد عمل میں ماں کی چیخیں جب سفر کرتی ہوئیں میرے کانوں سے ٹکراتیں تو نہ صرف میری نیند اُڑ جاتی بلکہ ایسے لگتا میرا دل کسی نے مٹھی میں دبوچ لیا ہے میں بھاگ کر ماں سے لیپٹ جانا چاہتی مگر اُن کے بیڈروم کے دروازے پر جا کر رُک جاتی کیونکہ دروازہ اندر سے بند ہوتا میں چاہ کر بھی اندر نہ جا سکتی اور ابو کا خوف میرے ہاتھوں سے دستک کی طاقت بھی چھین لیتا مگر اندر سے مسلسل چیخنے اور رونے کی آوازیں باہر آتی رہتیں،اُف وہ کرب میں ڈوبی چیخیں،آہیں اور سسکیاں آج بھی ان کی بازگشت کے نوحے میری روح میں پیوست ہے جنھیں میں چاہ کر بھی نہیں بھول پاتی،میں ڈرتی رہتی اور اسی دروازے کے ساتھ چپک کر بیٹھ جاتی،اندر ماں روتی رہتی اور باہر میں،پھر نہ جانے کب ماں کی سسکیاں اور آہیں نیند کی آغوش میں گم ہو جاتیں اور میں بھی وہیں بیٹھے بیٹھے سو جاتی۔
دوسرے دن کی صبح بہت عجیب ہوتی گھر کے تمام لوگ چپ چاپ اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہوتے کسی روبوٹ کی طرح بے تاثر بے آواز،اور ماں سوجھی سوجھی آنکھوں سے ان نیلے اور کالے دھبوں کو کبھی برف اور کبھی سکائی سے مٹانے کی کوشش کرتی رہتی۔میں چھپ چھپ کر ماں کو دیکھتی رہتی۔
پھر ایک دن صبح صبح ماں کی چیخوں سے آنکھ کھلی حالانکہ اُس رات تو سب کچھ معمول کے مطابق تھا مگر اُس رات کی صبح غیر معمولی تھی ماں کا یوں بلک بلک کر رونا اور بین کرنا سب کچھ غیر معمولی تھا۔میں ماں سے لیپٹ جانا چاہتی تھی اورمیں لیپٹ گئی ماں نے مجھے زور سے بھینچ لیا تھا۔پھر روتے روتے بولی آج تو یتیم ہو گئی،تیرے ابو ہمیں اکیلا چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے چلے گئے اب وہ کبھی واپس نہیں آئیں گے۔
ایک سکون اور خوشی کا احساس مجھے اپنے اندر اُترتا ہو ا محسوس ہوالیکن ابو تو وہیں بستر پر سو رہے تھے مجھے کچھ بھی سمجھ نہ آیا تو میں نے بھائی کی طرف دیکھا،بھائی بھی رو رہا تھا اُسی نے مجھے بتایا کہ ابو مر گئے ہیں۔ مجھے بھائی کا رونا برا لگنے لگا اور ابو کا مرنا اچھا۔ پھر ہمارے گھر بہت ساری خواتیں جمع ہو گئیں سب ماں کو دلاسہ دے رہی تھیں کی اب تم ہی ان بچوں کی ماں بھی ہو اور باپ بھی،اب تم ان کا اور یہ تمہارا سہارا ہیں۔
جب بھی کوئی ماں سے کہتا کہ اب تم اکیلی رہ گئی ہوتو نجانے کیوں ایک سکون سا میرے اندر بھر جاتامیں بار بارابوکو دیکھتی کہ کہیں یہ جاگ نہ جائے پھر سب ابو کو ایسے ہی بستر پر لیٹا لیٹا لے گئے تو میرے سارے ڈر میرے سارے خوف آہستہ آہستہ خود بخود ختم ہونے لگے۔میں وہیں ماں کی ٹانگوں پر سر رکھے چاندنی پر ہی لیٹ گئی اور ایک پرسکون نیند سو گئی۔آج میں خوش تھی۔
اُس دن کے بعد میں نے کبھی ماں کی چیخیں نہیں سنی مگر میرے خوابوں میں وہ چیخیں کبھی کبھی سنائی دیتیں تو میں ڈر کر اُٹھ جاتی ایسے میں ماں مجھے اپنے سے لپٹا لیتں اور میں پُرسکون ہو جاتی۔
اب میری زندگی پُرسکون ہو گئی تھی ماں نے عددت کے بعد ایک اسکول میں ملازمت کر لی اور ہمارے بڑے گھر کو پورشن میں تقسیم کر کے بڑا حصہ کرائے پر دے دیا،شام میں کچھ بچے ٹیوشن پڑھنے بھی آنے لگے،ہم ماں کے ساتھ ہی اسکول جاتے اور شام میں دوسرے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر ماں سے پڑھتے۔
بھائی مجھ سے بڑا تھا ماں ہم دونوں سے بہت پیار کرتیں تھیں مگر مجھے اب بھائی سے ڈر لگتا تھا کہ وہ اکثر میرے بال کھنچ لیتا یا کبھی مجھے تنگ کرتا تو مجھے اُس میں ابو نظر آنے لگتے،میں آنکھیں بند کر کے ماں میں پناہ ڈھونڈ لیتی۔
وقت اپنی چال چلتا رہا اور ہم بڑے ہو گئے میں ازل کی ڈر پوک اور بھائی لمبا چوڑا بالکل ابو کا ہم شکل۔میری بھائی سے کبھی بھی دوستی نہ ہو سکی کیو کیونکہ بھائی کے کھیل بھی مجھے ڈراتے تھے۔وہ جب پینچنگ پیلو کو پینچ کرتا تو میرے اندر کوئی ان دیکھا خوف پلنے لگتا ماں اکثر کہتیں کہ بھائی کے ساتھ وقت گزارا کرو مگر نجانے کیوں میری بھائی سے بن ہی نہ سکی۔
پھربھائی پڑھنے باہر چلا گیا وہ بہت خوش تھا ماں بھی خوش تھیں مگر وہ اُداس بھی تھیں اور فکرمند بھی مگر میں بہت خوش تھی اب ماں صرف میری تھی، مگر یہ کیا اب ماں نے پھر سے دروازوں کو تالے لگانے شروع کر دیے تھے کہ ہم اکیلے ہیں،نجانے کیوں مجھے تالے بہت برے لگتے میرا جی چاہتا کہ کسی بھی دروازے پر کبھی کوئی تالا نہ ہو۔
میری تنہائی نے میری دوستی کتابوں سے کروا دی،کتابوں کی یہ دوستی مجھے میڈیکل میں لے آئی اور پھر جس دن مجھے ڈاکٹر کی ڈگری ملی تو میں نے ماں کو بہت خوش دیکھا۔خوش تو میں بھی تھی مگر رات پھر وہی خواب آیا اور مجھے اُداس کر گیا۔
میں نے گائنی کو اپنا مستقبل چن لیا۔درد میں ڈوبی عورتیں آتیں،کراہوں اور درد کی انتہاوں پر پہنچ کر بچہ جنتی عورت سے مجھے خواہمخواہ ہمدردی ہو جاتی،ڈلیوری کرواتے میں اُسے پیار کرتی تو میرا اپنا اسٹاف مجھے حیرت سے دیکھنے لگتا،مگر بہت سی باتیں میرے اختیار سے باہر تھیں۔
میں خوش تھی کہ میری زندگی میں سکون آگیا ہے مگر ماں میرے لیے بہت فکر مند تھیں پھر جب اُنھوں نے اس کا اظہار مجھ سے کیا تو جیسے میرے سارے ڈر واپس آ گئے۔میں نے ماں سے کہا بھی کہ مجھے شادی نہیں کرنی۔ مگر ماں اسے میری ایک پیار کرنے والی بیٹی کی فرمابرداری اور روائتی شرم سمجھیں۔ایک دن ماں نے مجھے کچھ تصاویر دیکھائیں اور بتایا کہ یہ رشتے کے خواشمند ہیں میں دیکھ کر ماں کو اپنی پسند سے آگاہ کردوں۔
اُس رات مجھے پھر وہی پرانا خواب آیاماں کے جسم پر چوٹوں کے نیلے کالے دھبے گڈمڈ ہوکر اور بھی بھیانک نظرآرہے تھے اُس رات پھر نیند میں میرے کانوں میں ماں کی چیخیں سنائی دینے لگیں میں ہڑبڑا کے اُٹھ بیٹھی دوڑ کر ماں کے کمرے میں گئی شکر ہے ہے دروازہ لاک نہیں تھا میں ماں سے لیپٹ گئی اُسی چھوٹی خوفزدہ بچی کی طرح جو مجھ میں آکر ٹھہر گئی تھی،ماں بھی حیران پریشان تھیں مگر مجھے پیار کرتیں رہیں۔
چند دن کے بعد مجھے ماں نے ایک سیکاٹرسٹ کے پاس چلنے کو کہا مجھے زارا ندیم جو خود ایک گائنا کالوجسٹ تھی اُسے۔
اُس دن مجھے ایک بار پھر زندگی میں بے سکونی کا احساس ہوا میں نے ماں سے کچھ وقت مانگا اور وعدہ کیا کہ میں خود آپ کو بتا دوں گی کہ مجھے کس سے شادی کرنی ہے۔
پھرمیں نے اپنا تجزیہ کرنا شروع کیا انٹرنیٹ پر کچھ سیکاٹرسٹ سے رابطے کیے کچھ اپنے بھروسہ مند کولیگ سے مشورے کیے تو اس نتیجہ پر پہنچی کہ مجھے بند دروازے اور طاقت سے خوف آتا ہے اور یہ خوف میرے شعور میں ڈیرا ڈال کر ایسا بیٹھا ہے کہ میرا پورا وجود اسکے تابع ہو چکا ہے۔اب مسئلہ یہ تھا کہ میں ماں کو کیسے مطمین کروں کہ ماں کا اطمینان اور خوشی ہی میری زندگی کا حاصل تھا۔
اُس دن بھی مجھے ہسپتال میں دیر ہو گئی تھی میں شام میں دیر سے گھر پہنچی ابھی میں داخل ہی ہوئی تھی کہ گاڈرن میں پھولوں کو پانی دیتے انکل جبار پر نظر پڑی۔انکل جبار ہمارے کرائے دار تھے انکے دو بچے ہیں دونوں ہی باہر جا کر سیٹ ہو چکے ہیں بیوی کا انتقال ہو چکاتھا انکل پودوں کو پانی دے رہے تھے جونہی میں گیٹ سے اندر داخل ہوئی انکل جبار کو دیکھ کر ہائے کہا اور انھوں نے بھی خوش دلی سے ہیلو ڈاکٹر کہا!
پھر اشارے سے مجھے اپنے پاس بلایا میں بہت تھکی ہوئی تھی باد لِ ناخواستہ اُ ن کے پاس پہنچ کر رُک گئی انھوں نے پانی کا پائپ ایک طرف رکھا سامنے جیب میں اڑسا ہوا رومال کھینچا،ہاتھ صاف کرتے ہوئے گارڈن میں رکھی کرسیوں کی طرف اشارہ کر کے ان کی طرف بڑھے میں بھی ان کی سنگت میں چل کر ایک کرسی پر بیٹھ گئی مگر وہ دوسری کرسی پر بیٹھنے کے لیے میز سے دور کرنے لگے مگر شاید کرسی بھاری تھی جیسے وہ ہٹا نہ پا رہے تھے میں بے خیالی میں اُٹھی اور کرسی کو کسکا دیا۔
انکل جبار کرسی پر ڈھہ سے گئے۔وہ اپنی کسی رپورٹ کا تذکرہ کر رہے تھے جو اُنہوں نے حالیہ وقت میں کروائی تھی مگر میں تو کہیں اور تھی مجھے انکل جبار اچھے لگنے لگے کمزور سے لاغر سے میں نے ان کے ہاتھ سے رپورٹ لی اور اُنھیں تفصیل بتانے لگی وہ بہت غور سے مجھے سن رہے تھے اُن کی رپورٹ کچھ خاص اچھی نہیں تھی جس کی وجہ سے وہ کچھ فکرمند نظر آنے لگے تومجھے اور بھی اچھے لگنے لگے میں نے اچانک ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور تسلی دینے لگی وہ بھی ممنون نظروں سے مجھے دیکھنے لگے اور بس۔ان کے کمزور ہاتھ میری خواہش بننے لگے۔
پھر میری اکثر شامیں جب میری ہسپتال سے کاکال نہ ہوتی تو میں انکل جبار کے ساتھ گزارتی۔انکل جبار سے جبارصاحب تک کا سفر طہ ہونے کے بعد میں نے ماں کو آگاہ کر دیا کہ میں جبار صاحب سے شادی کروں گی۔ماں حیرانگی سے مجھے دیکھ رہیں تھیں ان کے چہرے پر تاسف و فکرمندی عیاں تھی ’تم اپنی اور اُن کی عمر کے فرق کو شاید بھول چکی ہو ستائیس اور ساٹھ میں آدھے سے بھی زیادہ کا فرق ہے‘ ماں کے لہجہ میں تلخی در آئی تھی۔
’مگر یہ میری خوشی ہے اور ویسے بھی میرے نزدیک ذہنی ہم آہنگی اہمیت رکھتی ہے عمریں نہیں‘
میں چاہ کر بھی ماں سے یہ نہ کہہ سکی کہ میں نے چھپ چھپ کر آپ کو اکیلے ابو کی طرف سے ملنے والی چوٹوں پر برف رکھتے ہوئے دیکھا ہے ٹھنڈی یخ برف رکھتے ہوئے جو سسکاری سنی ہے وہ آج بھی میرے اندر بکل مارے بیٹھی ہے۔اپنے ہم عمر سے شادی کر کے میں اس کی دہشت سے نہیں مرنا چاہتی۔
تھوڑی مشکل تو ہوئی مگر ماں مان گئیں یوں میں زارا ندیم سے زارا جبار بن کر اپنے ہی گھر کے ایک پورشن سے دوسرے پورشن میں آگئی میری زندگی میں کچھ بھی نہ بدلا،وہی شب وروزاتنا ضرور تھا کہ اب میں جبار صاحب کی صحت کا خیال رکھنے لگی جبار صاحب بھی مطمین تھے مگر ماں کی نظریں مجھے کھوجتی ہوئی محسوس ہوتیں انھیں جب بھی موقع ملتا وہ مجھے سمجھانے لگتیں۔
میری زندگی میں ابھی وہ سکون اور ٹھہراؤ نہیں آیا تھا جس کی میں متمنی تھی،بظاہر سب ٹھیک تھا۔مگر ماں کی بے چینی بڑھتی جا رہی تھی،آخر ایک دن انہیں موقع مل گیا اور انھوں نے مجھے صاف صاف کہہ دیا کہ مجھے اپنی ازدوجی زندگی کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنے خاندان کو آگے بڑھانا چاہیے۔ جبکہ جبار صاحب نے مجھے شادی سے پہلے ہی بہت دیانتداری سے آگاہ کر دیا تھا کہ وہ میری اس طرح کی کسی خواہش کو عملی جامہ نہیں پہنا سکیں گے اور نہ ہی مجھے ایسی کوئی خواہش تھی۔میں اپنی زندگی میں خوش بھی تھی اور مطمین بھی مگر ماں کو کون سمجھائے۔
ماں کے تقاضے بڑھنے لگے تھے۔پھر وہی حربہ کہ مجھے اپنا چیک اپ کروانا چاہیے۔’مما آپ کیوں بھول جاتیں ہیں کہ آپ کی بیٹی ایک گائناکالوجسٹ ہے‘۔
’پھر تم مجھے بتاتی کیوں نہیں کہ کمی کہاں ہے،مسئلہ کیا ہے؟میں کچھ نہیں جانتی بس مرنے سے پہلے میری یہ خواہش پوری کر دو‘
ماں کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔اور میرا دل زور زور سے دھڑکنے لگا کیونکہ ماں کی آنکھ کے یہ آنسو میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے بچپن کی اُس ویران حویلی میں لے جاتے جہاں کالے،نیلے دھبے اور سسکاریاں ہوتیں۔۔۔
جبار صاحب بھی اس پوری سیچویشن کو جانچ رہے تھے مگر وہ بھی خاموش تھے اور میں بھی۔ایک دن میرے کلینک میں ایک شادی شدہ جوڑا آیا جو اپنی فیملی کو آگے بڑھاناچاہتا تھا مگر
کچھ طبی وجوہات کی بنا پر یہ ممکن نہ تھا۔انھیں کسی نے ٹیسٹ ٹیوب بے بی کا مشورہ دیا۔۔۔
اُن کا علاج کرتے کرتے میرے ذہن میں بھی یہ خیال جڑ پکڑ گیا،جبار صاحب کو اس بابت جب اپنا ہم خیال بنانا چاہا تو وہ حیرت سے مجھے تکنے لگے گویا پوچھ رہے ہوں کیا یہ ممکن ہے؟
’بالکل ممکن ہے گو کہ ابھی ہماراملک اتنا ترقی یافتہ نہیں ہوا کہ اسپرم اور اووا بینک بنا سکیں مگر کچھ ترقی یافتہ ہسپتالوں میں ٹیسٹ ٹیوب بے بی ممکن ہے۔‘ہمیشہ کی طرح جبار صاحب میری خوشی میں خوش ہو گئے اور نہ صرف مجھے اجازت دے دی بلکہ ہر ہر لمحہ ہر ہر ساعت اُن کا کمزور لرزتا ہاتھ میرے ہاتھ میں رہا جو میری تقویت کا باعث بنتا۔ پھرایک تکلیف دے عمل سے گزر کر میں ماں بن گئی۔
اس تمام دورانیہ میں میری بس ایک ہی دعا تھی کہ میں بیٹی کی ماں بنوں،بیٹے کی نہیں۔
بیٹے کے خیال ہی سے ابو یاد آ جاتے اُن کے ہاتھ،وہ ہاتھ جو ماں کو چوٹیں دیتے تھے اور ماں کی درد میں ڈوبی چیخوں کی بازگشت گونج بن جاتی اور میری روح کے زخموں کے بخیے ایک ایک کر کے اُڈھڑنے لگتے میرے سارے زخم پھر سے ہرے ہو جاتے۔
نرس نے جب میری بیٹی کو میری گود میں دیا اور میں نے پہلی بار اُسے دیکھا تو مجھے اُس پر بہت پیار آیا وہ بہت خوبصورت تھی۔میں تو ماں تھی مگر جو بھی دیکھتا وہ یہی کہتا یہ تو کسی پرستان کی پری ہے بس پھر ماں نے اس کا نام پری ہی رکھ دیا۔پری کو پا کر ماں کے چہرے پر اطمینان چھا گیا اور وہ خوش ہو گئیں۔
ماہ وسال گزر ے میں مطمین ہو گئی کہ اب زندگی میں ٹھہراو آگیا ہے سب ٹھیک ہو گیا ہے کہ اچانک زندگی نے کروٹ بدلی!
جبار صاحب ایک رات ایسے سوئے کی صبح نہ جاگ سکے اُس دن ماں کے ساتھ ساتھ پری بھی بہت روئی اور زندگی پھر سے بے سکون ہو گئی۔ ایسے میں ماں کا سہارابہت بڑا تھا،جنھوں نے پری کو سنبھلا مگر وہ اب پہلے سے زیادہ فکر مند نظر آنے لگیں۔
زندگی عجیب سی ہو گئی ماں نے پھر سے رات کو دروازوں پر تالے کنڈیاں چیک کرنا شروع کر دیں۔۔۔
ابھی میری عدت پوری ہوئی ہی تھی اور میں نے زندگی کے معمولات کے پنوں کو ترتیب دینا ہی شروع کیا ہی تھا کہ ماں نے میری دوسری شادی کا تذکرہ چھیڑ دیا۔وہ تو بھائی کا فون آ گیا تو یہ تذکرہ ٹل گیا ورنہ نجانے یہ بحث کہاں جاتی۔
بھائی مسلسل ماں کو اپنے پاس بلانا چاہ رہا تھا بلکہ جبار صاحب کے گزر جانے کے بعد تو وہ یہ چاہ رہا تھا کہ ہم سب اس کے پاس ہی شفٹ ہو جائیں ماں ٹکڑوں میں بٹی بٹی دیکھائی دیتیں بھائی سے ملنے اور اُسے دیکھنے کی تڑپ ماں کی آنکھوں میں صاف دیکھائی دیتی تھی مگر میرا اور پری کا اکیلا پن اُن کے انتظار کی راہ میں حائل ہو کر اُسے طویل کر رہا تھا لیکن اب جبکہ بھائی نے ماں کے تمام کاغذات تیار کروا کے ٹکٹ کے ساتھ بھیج دیے تو ماں چاہ کر بھی انکار نہ کرسکیں اور جلد واپس آنے کا کہہ کر بھائی سے ملنے چلی گئیں۔
ماں کے جانے سے جہاں میں اُداس تھی،وہئیں یہ سوچ کر مطمین بھی تھی کہ ماں کو بھی کچھ دن نئے ماحول میں بیٹے کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کو ملے گا جو یقیناً ان کی صحت پر اچھا اثر ڈالے گا جبکہ واپس آنے کے بعد پھر سے ہمارے لیے پریشان ہونا شروع کر دیں گی۔پری ماں کے جانے سے بہت اُداس تھی اس بات کی مجھے بہت فکر تھی اسی لیے میں اس کا خاص خیال رکھ رہی تھی۔
شہر کے حالات آئے دن خراب رہتے،اسٹریٹ کرائم بہت بڑھ گئے تھے جس کی وجہ سے تمام ہی لوگ کسی نہ کسی اُلجھن کاشکار رہتے میڈیا بھی ان خبروں کو مزید مرچ مسالحہ لگا کر اپنی ریٹنگ بڑھانے میں مصروف تھا یہ خبریں ماں تک بھی پہنچ رہی تھیں اُن کا فون جب بھی آتا تو وہ بہت فکر مندی اور پریشانی کا اظہار کرتیں اور مجھے دوسری شادی کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے
کا کہتیں،میرے ساتھ ساتھ پری کے لیے بھی فکر مند تھیں کہ دس سالہ بچی کو کوئی ایسا شخص باپ کی صورت میں ملے جو میرے ساتھ ساتھ اس کی حفاظت اور خوشیوں کا بھی ضامن رہے۔
اُس روز مجھے ٹی وی پر ایک ٹاک شو میں گائناکالوجسٹ ڈاکٹر کی حیثیت سے ایک خصوصی گفتگو کے لیے بلایا گیا۔کیمرے کے سامنے جانے سے پہلے مجھے میک اپ کروانا تھا جوکہ کیمرے کی ضرورت کے تحت ضروری تھا۔چنانچہ میں بھی میک اپ کروانے لگی۔لیکن اس دوران میں نے محسوس کیا کہ میرا میک اپ کرنے والی خاتون بہت زیادہ سگریٹ نوشی کر رہیں تھیں اور ان کی باڈی لینگوئج ان کی پریشانی کا ثبوت دے رہی تھی مگر وہ اپنے فرائض منصبی انجام دینے پر مجبور تھیں اور پریشانی سے بھی پیچھا نہ چھوڑا پا رہی رئیں تھیں،خیر میرا میک اپ ہو گیا اور میں پروگرام کے لیے اسٹوڈیو چلی گئیں۔
پروگرام ریکارڈ بھی ہو گیا اب مجھے واپس جانا تھا مگر میں نے مناسب سمجھا کہ پہلے اس میک اپ کو صاف کروایا جائے چنانچہ میں ایک بار پھر میک اپ روم میں تھی اپناچہرہ صاف کراتے ہوئے بھی میری نظر جب ان خاتون پر پڑی تو بھی وہ مجھے پریشان دیکھائی دئیں۔میں نے ازرائے ہمدردی ان خاتون سے پوچھ لیا کہ’آپ بہت پریشان لگ رہی ہیں کیا میں آپ کی کوئی
مدد کر سکتی ہوں‘۔
اُن خاتون نے ایک گہرا سانس لیا ا و ر میرا شکریہ ادا کیا پھر کہا ’میری مدد کوئی نہیں کر سکتا
یہ پریشانی میری خود ساختہ ہے‘۔ اب میرے پاس خاموشی کے سوا کچھ نہ تھا،مگر شاید وہ کوئی ہمدرد پاکر اپنا دل کھول بیٹھی ’میری پریشانی میرا دوسرا شوہرہے‘ میں ابھی حیران ہی تھی کہ وہ بولی میں نے اپنے شوہر کی وفات کے بعد اپنے بزرگوں کے اصرار پر دوسری شادی تو کر لی مگر اب ذہنی اذیت میں ہوں کہ پہلے شوہر سے میری ایک بیٹی ہے جس کی عمر بیس سال ہے اور وہ اس وقت گھر میں اپنے سوتیلے باپ کے ساتھ اکیلی ہے حالانکہ میرا دوسرا شوہر ایک اچھا آدمی ہے،مگر انجانے وسوسے اور خیال مجھے پریشان رکھتے ہیں۔میں دن بہ دن ڈپریشن کا شکار ہوتی جا رہی ہوں۔اگر وہ میری بیٹی کو بحیثیت باپ پیار کرنا بھی چاہے تو مجھے اچھا نہیں لگتا اور اگر نہ کرے تو بھی عجیب لگتا ہے، ہم زندگی میں رشتہ تو جلد بنا لیتے ہیں مگر انہیں تسلیم کرنے میں بہت وقت لگاتے ہیں اور کبھی کبھی تو تمام عمر ہی گزار دیتے ہیں رشتوں کو ان کے صحیح مقام نہیں دے پاتے‘
میں مسکر اکر آئندہ کے لیے اچھی تمناؤں کا کہہ کروہاں سی چلی آئی مگر میری سوچ کو ایک نیا راستہ مل گیا اُس خاتوں اورمیرے حالات کچھ کچھ ملتے جلتے تھے تو کیا اگر میں شادی کرلوں گی تو پری کے بارے میں ایسے ہی تحفظات کا شکار رہوں گی۔
اس سوچ نے اپنے آہنی پنجے میرے ذہن میں گاڑھ دیے اس سے بچنے کاایک ہی طریقہ ہے کہ میں دوسری شادی ہی نہ کروں اور ماں کر کسی بھی طرح سمجھا کر راضی کر لوں۔
کیا یہ آسان ہو گا۔کیا ماں مان جائیں گئیں اور اگر نہیں مانی تو پھر مجھے کیا کرنا ہوگا۔ایک عجیب سی صورتحال میرے سامنے آنے والی تھی جو دن بہ دن میرے قریب تر ہو رہی تھی۔خیر جب وقت آئے گا دیکھا جائے گا میں پہلے ہی سے سوچ سوچ کر اپنی توانائی کیوں ضائع کروں میں اپنے مالک حقیقی سے سچے دل سے دعا گو ہو گئی کہ مجھے کوئی راہ سوجھا دے۔ماں جب بھی دیارِغیر
سے فون کرتیں میری اور پری کی خیریت معلوم کرتیں ڈھیروں نصحیتں کرتیں اور دعائیں دیتیں۔
مجھے ایک سمینارمیں شرکت کے لیے دوسرے شہر جانا تھا دوسرے شہر کا فاصلہ زیادہ نہ تھا
اور سمینار سرشام ہی اختتام پذیر بھی ہو جانا تھا اور میں اُسی دن اپنے شہر واپس آسکتی تھی گوکہ دیر ہونے کا اندیشہ ضرور تھا۔خیر میں نے اپنی شرکت کو یقینی بنایا اور اب میں واپسی کے لیے اپنے شہر کے ہائی وے پر تھی۔
سردیوں کی شام یوں بھی جلدی رات میں تبدیل ہو جاتی ہے مجھے اپنے گھر پہچنے کی جلدی نے مستعدی سے گاڑی چلانے پر مجبور کیا ہوا تھا۔ ہائی وے اس وقت تقریباً سنسان تھی کہ
اچانک میری نظر اپنے سے آگے ایک ڈبل کیبن پر پڑی جو تیزی سے مجھے اورٹیک کرتی ہوئی آگے
نکلی اور آگے جا کر وہ تھوڑا سا سڑک سے ہٹ کر دائیں جانب چلتی رہی اور اچانک ایک گٹھری کو سڑک پر پھینک کر تیزی سے چل پڑی یہ سب اتنا اچانک ہوا کہ میں بے دھانی میں اس کا نمبر بھی نہ نوٹ کر سکی۔میری توجہ چونکہ مکمل طور پر اپنی ڈرائیونگ پر تھی اسی لیے جونہی میں اس گٹھری کے قریب پہنچی میں نے اپنی گاڑی سنبھال لی میں نے دیکھا وہ کوئی عورت تھی جیسے چلتی گاڑی سے نیچے پھینکا گیا تھا۔میرے ڈاکٹر ہونے نے مجھے روکنے پر مجبور کر دیا اور میں اس سے کچھ فاصلے پر رک گئی گاڑی سے اُتر کر دیکھا وہ عورت بے ہوش تھی۔وہ بہت بھاری جسامت کی عورت تھی جیسے میں نے بمشکل گھسٹ کر اپنی گاڑی میں ڈالا خدا کا شکر ہے وہ صرف بے ہوش تھی میں نے اسے پچھلی سیٹ پر لیٹا دیا اور فرسٹ ایڈ دی اور دوبارہ گاڑی چلانا شروع کر دی۔
اب میرے سامنے دو سوال تھے کہ اسے کسی ہسپتال لے جاوں یا اپنے ہی گھر، میں کسی قسم کے جھنجھٹ میں نہیں پڑنا چاہتی تھی،پھر یوں بھی وہ ایک عورت ہونے کے ناطے میرے لیے قابل رحم ہو گئی تھی چنانچہ میں اُسے لے کر اپنے گھر آ گئی وہ عورت اب کراہ رہی تھی اور اس کے جسم کی طرح اُس کی آواز بھی بہت بھاری تھی۔گھر پہنچ کر میں اُسے سہارا دے کر گھر میں گارڈن سےمنسلک کمرے میں لے آئی یہ ایک طرح کا گیسٹ روم تھا جیسے جبار صاحب نے مہمانوں کے لیے خاص طور پر باغ میں بنوایا تھا کہ ہمارے مہمانوں کو ایک اچھا احساس ہو۔
مگر یہ کیا جب میں نے کمرے کی لائیٹ روشن کی تو مجھے حیرانگی کا جھٹکا لگا کہ جیسے میں عورت سمجھ رہی تھی وہ کوئی عورت نہ تھی بلکہ وہ ایک مخنس شخص تھا جو عورت کے لباس میں ملبوس تھا۔اب کیا ہو سکتا تھا،ابھی اُسے صرف علاج کی ضرورت تھی میں نے ایک ڈاکٹر ہونے کے ناطے پہلے بہت اچھے سے اُس کا معائنہ کیا اوراُسے دوائی کھلائی،جب وہ پر سکون ہوکر سو گیا تو میں اپنے کمرے میں واپس آ گئی۔ پری کو ملازمہ نے کھانا کھلا کر سلا دیا تھا اور خود بھی اُسی کے کمرے میں بیٹھی میرا انتظار کر رہی تھی۔میرے پرانے ملازمین ایسے وقت میں مجھے کسی رحمت کی طرح محسوس ہوتے۔
دوسرے دن میں نے ہسپتال سے چھٹی لے لی تھی کہ رات جس مہمان کو میں سڑک سے اُٹھا کر لائی تھی اس کی موجودگی میں میں کیسے گھر سے باہر جا سکتی تھی۔چند دن کی دیکھ بھال سے مہمان بالکل صحت یاب ہو گیا اب میں منتظر تھی کہ وہ مجھے اپنے بارے میں کچھ بتائے۔
پھر اُس نے مجھے بتایا کہ وہ ایک نامکمل وجود لے کر اس بے رحم دنیا میں آیا تو اس کے اپنوں نے اسے اپنانے سے انکار کر دیا۔زندگی نے اُس کے ساتھ وہی سلوک کیا جو شاخ سے بچھڑے پتے کے ساتھ ہوائیں کرتیں ہیں،وقت کے تھپڑے سہتے سہتے ناجانے کہاں کہاں سے گزر کر وہ یہاں تک پہنچا۔وہ اپنی زندگی سے اس حد تک بے زار ہوگیا تھا کہ اس نے کئی بار بھاگ کر موت سے گلے لگنے کی کوشش کی مگر وہ اس میں بھی ناکام ہی رہا اور موت اسے زندگی کی گود میں ڈال کر دور کھڑی ہو جاتی۔اس رات کے واقع نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کی اس کی سانسوں کی ڈور بہت مضبوط ہے ایک جھٹکے سے نہیں ٹوٹے گی بلکہ ایک ایک سانس لے لے کر اپنے اختتام کو پہنچے گی۔وہ میرا شکر گذار بھی تھا کہ میں نے ایسے میں اُس کی مدد کی،مگر آئندہ زندگی کا اُس کےپاس کوئی بھی منصوبہ نہ تھا۔لیکن میرے ذہن نے کام کرنا شروع کر دیا تھا۔
مجھے اس کے اس حلیے میں چھپا ایک ہنڈسم مرد نظر آرہا تھا۔ہنڈسم مگر نامکمل کمزور اور بے بس۔ بالکل میری پسند کا مرد۔
پھر میں ایک سنگ تراش کی طرح اسے تراشنے لگی آہستہ آہستہ اُس کی ذ ہن سازی کا عمل بھی شروع کر دیا اوراپنا صنم بنانے میں کامیاب ہوگئی۔
اُسے میں نے بہت کچھ سیکھایا مگر دنیا کے خوف کا پرندہ اس کے دل کے پنجرے میں قید ہی رہنے دیا۔اپنی پناہ کو اُس کی بقاء بنا کر ایسا پروگرام اس کے ذہن کی ڈسک پر فیڈ کیا کہ ریحانہ سے ریحان بن کر بھی وہ میری کمانڈ کی زد میں رہا۔
جب ماں آئیں میں دنیا اور اُن کی نظر میں زارہ ریحان بن چکی تھی۔ریحان چونکہ میرا ہی ہم عمر تھا تو اکثر لوگ اس اچانک شادی کو میری پرانی گمشدہ محبت سے تعبیر کرنے لگے کبھی کبھی قیاس آرائیاں بھی مسکراہٹوں کو جنم دیتیں ہیں سو میں بھی مسکرا دیتی تو لوگوں کا شک پختہ ہونے لگتا۔
جب ماں نے ایک دن مجھ سے پوچھا کہ ریحان کے بارے میں میں نے ان سے پہلے کبھی کوئی تذکرہ کیوں نہ کیا تو میرے پاس سوائے سر جھکانے کے کوئی دوسرا جواب نہ تھا،میری خاموشی سے ماں کیا سمجھی یہ میرے لیے اہم نہ تھا میرے لیے تو اپنی ماں کے چہرے کا وہ اطمینان اہم تھا جو مجھے ماں کے پیاری آنکھوں سے آمڈتا ہو ا نظر آرہا تھااور لبوں پر پیاری سی مسکراہٹ تھی۔
ریحان پری سے بھی بہت محبت کرتے ہیں،پری بھی ان سے مانوس ہوگئی ہے۔ ان دونوں کی پکی دوستی دیکھ کر بھی میرے خوف و وسوسے سر نہیں اُٹھاتے۔ میں بھی خوش ہوں۔
مگر میں آج بھی دنیا کی بنائی ہوئی تین د کی مثلث سے باہر ہی ہوں۔۔
تین ’ د ‘ یعنی
دین، دنیا اور دل۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...