(Last Updated On: )
نجانے کیوں کسی بھی ریلوےاسٹیشن کا پلیٹ فارم اسامہ کے اندر ایک عجیب طرح کا اضطراب پیدا کر دیتا ۔
اسے جب اپنے ہی ارادوں اور خواہشوں کے ٹوٹنے سے وحشت ہونے لگتی اور دل بے چین ہوکر جسم کی قید سے آزاد ہونے کے لیئے بے قرار ہوجاتا تو ریلوے پلیٹ فارم کے بینچ پر جا کر بیٹھ جاتا۔
مسافروں کے چہروں پر مسافتوں کے اتار چڑھاؤ سے منعکس ہوتے احساسات کو دیکھتا رہتا اسے لگتا آرزؤں خواہشوں اور دعاؤں کی موہوم سی امیدیں ٹوٹتی ہیں تو کیا ہوتا ہے جڑتی ہیں تو کیا ہوتا ہے ۔
کبھی کبھی تو اسے لگتا مٹی کے بنے انسان اپنے اندر کیا کیا چھپا کے بیٹھے ہیں تن اجلا من کا پور پور زخمی۔ ۔۔
ناک نقشہ سجی سنوری زلفیں نینوں میں پھیلا کاجل اچھی تراش خراش کے ملبوسات کبھی بھی آپ کے دامن تار تار کا پتہ نہیں دے سکتے۔۔
مگر اسامہ کوٹرین سے اترنے والے مسافروں کے چہروں پر تھکن کے باوجود وہ مسکراہٹ اور اطمینان بھی بہت اچھا لگتا جو منزل کو چھو لینے سے ان کی آنکھوں سے بچھلکنے لگتا۔اور منزل کی طرف گامزن مسافروں کے چہروں پر تلاش منزل کی پرچھائیاں بھی اسے اتناہی لطف دیتیں۔اس سے اس کے اندر کی وحشت تو کم نہ ہوتی مگر اسے ایک گو نہ اطمینان ضرور مل جاتا ۔اس کا ذہن کچھ دیر کے لیئے مصروف ضرور ہو جاتا ۔اسے پلیٹ فارم پر دوڑتے بھاگتے لال اور ہری جھنڈی لہراتے باوردی ملازم بھی بہت اچھے لگتے۔یہ ملازم وقفے وقفے سے ٹرین کی وسل پر ان کا استقبال کرتے ہوئے یوں چونک چونک جاتے جیسے پہلی دفعہ پہلی گاڑی کا استقبال کر رہے ہوں۔اسامہ کو یہاں بیٹھے رہنا کبھی برا نہیں لگتا تھا کیونکہ اس پلیٹ فارم پر بیٹھنےکے لیئے وہ ہمیشہ بیس روپے کا ٹکٹ خرید کر آتا اور پھر دیر تک بیٹھ کر اپنے دل و دماغ کو بہلاتا رہتا۔۔یہاں کبھی اسے جان پہچان کا کوئ شخص نہیں ملا تھا لہٰزا وہ یہاں بیٹھے بیٹھے خواب و خیال کی کڑیاں بھی ملاتا رہتا۔۔کراچی سے آنے والی ٹرین پلیٹ فارم پر رکی تو اس میں سے ایک کومل سی لڑکی جس نے یقیناً ٹرین میں بیٹھ کر اپنی زلفیں سنواری ہونگی ہونٹوں پر پھیلی لپ اسٹک میں بھی تازگی تھی ۔جس کی وجہ سے اس کا چہرہ نکھرا نکھرا سا لگ رہا تھا وہ مسکراتی ہوئ ٹرین سے اتری ۔۔ایک بہت پیارے سے لڑکے نے اسی جوابی مسکراہٹ اور بے تابی سے اس کا استقبال کیا ۔ریلوے اسٹیشن کا پلیٹ فارم نہ ہوتا تو یقیناً وہ اسے اپنے ساتھ چمٹا کر بھینچ لیتا۔۔
اسامہ اسے دیکھ کرسوچنے لگا انسان راحت اور تکلیف کے درمیان کیسے توازن رکھ لیتاہے ۔کیا یہ نعمت خدا وندی ہے یا پھر اس کی اپنی کاوش کا نتیجہ۔وہ جب اپنے گھر بار رشتے داروں اور عزیزوں کو چھوڑ کر اس ٹرین پر بیٹھی ہو گی تو غم سے اس کی آنکھیں اشکبار تو ہوئ ہونگی۔۔اور اب وہ کس میٹھی مسکراہٹ سے اپنے نئے رشتے استوار کرنے میں جڑ گئ ہے۔انسان کے اندر یہ انقلاب کیسے برپا ہوتا ہے وہ توازن کے اس سلسلے کو کیسے قائم رکھتے ہوئے زندگی گزار لیتا ہے۔۔اسی توازن کے سلسلے کے ٹوٹنے پر ہی تو وہ پلیٹ فارم کا رخ کرتا ۔کہ شاید کہیں سے اسےیہ نسخہ کیمیا مل جائے۔
اسامہ کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ خواب اور خوابوں کے نتیجے میں ابھرنے والی خواہشیں آرزوئیں اورپھر ان سب کے حصول کے لیئے دعاؤں کا لا متناہی سلسلہ کیا ہے؟
اگر یہ سب کاروبار زندگی غیر ضروری ہے تو خواب خواہشیں آرزوئیں اور امیدیں جنم کیوں لیتی ہیں؟ اور پھر کرونا وائرس کی طرح جسم کی پناہ گاہ میں چھپ کر توانا کیوں ہوجاتی ہیں اور تو اور جوانی کے سمندر میں غوطہ زن ہو کر اٹھکیلیاں کرتے ہوئے حصول منزل کے لیئے بے چین بھی رہتی ہیں ۔
اگر زندگی گزارنے کے لیئے یہ سب اتنی ہی اہم ہیں ۔۔۔۔تو آسودگی کا سکھ کیوں نہیں پا لیتیں۔۔
کبھی وہ غمزدہ چہروں پر لکھی کہانیاں پڑھتا تو اسے یہ خیال بے چین کرنے لگتا کہ ان کے دکھ کا مداوا کیونکر ممکن ہے۔۔
کئ گھنٹے پلیٹ فارم پر گزارنے کے بعد جب شام کے گھنے سائے پھیلنے لگےاور پلیٹ فارم پر برگد کے صدیوں پرانے درختوں کے پتے ہواؤں کی چھیڑ چھاڑ سے گدگداتے ہوئےگلے ملنے لگے تو اسے اچانک خیال آیا آج تو اسکے بھی گھر آنگن میں تھوڑی دیر کے لیئے خوشیوں کی پریاں اترنے والی تھیں۔اس کی بیٹی داماد اور نواسے نواسیاں آنے والے تھے ۔بیٹی اور اس کی فیملی نے کچھ دیر کے لیئے ان کے گھر رکنا تھا اور پھر رات کے کھانے کے بعداپنے سسرال عید کرنے کے لیئے چلے جانا تھا۔
اس خوش کن خیال سے مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر خود بخود ہی رقصاں ہو گئ۔اور وہ سوچنے لگا اس کی بیگم آمنہ بھی کتنی اچھی ہے بیٹی کے استقبال کے لیئے کس اہتمام سے کھانا بنا رہی ہوگی ۔۔اسے میرے دیر سے پہنچنے پر کوئ شکوہ نہیں ہو گا ۔ کہ اس کا شوہر پلیٹ فارم پر فارغ بیٹھا اپنے دل و دماغ کی وحشتوں سے کھیل رہا ہے ان اندھیروں کو دور کرنے کی کوشش کر رہا ہے جو بادلوں کی طرح امڈ امڈ کر دل کے آنگن کو بے نور کر دیتے ہیں ۔اسے تو خبر بھی نہیں ہو گی کہ اس کا اسامہ اس وقت کہاں ہے۔۔اسامہ کی عادت تھی کہ وہ جب بھی پلیٹ فارم پر آتا فون کی گھنٹی بند کر دیا کرتا تھا۔اور جب کبھی آمنہ رابطہ نہ ہونے کا شکوہ کرتی وہ ہمیشہ یہ کہہ کر ٹال دیتا تم تو جانتی ہی ہو میٹنگ کے لیئے فون کی گھنٹی بند کر دی تھی۔آمنہ سعادتمندی اور بھولپن سے یقین بھی کر لیتی۔
اسامہ اپنے خیالات کے تانے بانے بنتا گھر کے قریب پہنچا تو گھر کےباہر کچھ گاڑیاں کھڑی دیکھ کر سوچنے لگا بیٹی داماد اور بچے پہنچ گئے ہونگے ۔
مگر۔۔۔۔
وہاں تو کوئ اور ہی منظر اس کا منتظر تھا ۔
نہ دعائیں نہ آرزوئیں نہ انتظار نہ خواہشیں نہ خواب
گھر میں ہر طرف من پسند کھانوں کی مہک کے ساتھ جہاز کریش ہونے کی خبر میں توازن کا عنصرکہیں نہیں تھا ۔
*****
نعیم فاطمہ علوی
نعیم فاطمہ علوی