(Last Updated On: )
میری پرجوش آواز کے ابھرتے ہی چائے خانے میں سناٹا چھا گیا۔ چاروں جانب سے کھڑکیوں سے عاری دیواروں میں گھرے چائے خانے میں میری صدا کچھ دیر بھٹکنے کے بعد دم توڑنے سے قبل مجھے سب کی توجہ کا مرکز بنا چکی تھی۔ نیم تاریک کمرے میں کاؤنٹر پر کھڑا ادھیڑ عمر مالک پتیلی سے ابل کر گرتی چائے سے بے نیاز مجھے گھور رہا تھا۔ سب سے زیادہ تحیر ان چند چہروں پر تھا جو دروازے کے قریب نسبتا کھلی فضا میں بیٹھے سگار پی رہے تھے۔
ایک شخص نے بغور میرے میز پڑی کتاب کو دیکھا اور کانپتی آواز میں ساتھ کھڑے شخص کے کان میں بولا
“اس کی کتاب کی سلائی اکھڑی ہوئی ہے۔”
سننے والے کے چہرے پر زلزلے کے آثار پیدا ہوئے اور وہ منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑا کر رہ گیا۔ میں نے کتاب اٹھائی اور تیز قدموں سے دروازے کی جانب چل دیا۔ میرا تعاقب کرتی سرگوشیاں مجھے بتا رہی تھیں کہ وہاں موجود ہر شخص جان چکا تھا کہ میری کتاب کی سلائی ادھڑی ہوئی تھی۔
میں تیزی سے گھر کی جانب روانہ ہو گیا۔
گھر پہنچ کر میں ابھی بیٹھا ہی تھا کہ میری ننھی پوتی مجھے پکارتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی لیکن میں نے اسے کمرے سے نکال دیا اور کتاب الماری میں چھپا دی۔
شام تک مجھے احساس ہو گیا کہ سارا شہر تشموگول سے آگاہ ہو چکا ہے تو کیوں نہ آپ کو بھی اس کی کہانی سنا ہی دی جائے۔
یہ کہانی بہت عجیب ہے۔
سب سے پہلی بات میں نہیں جانتا کہ تشموگول کیا ہے بلکہ شاید ہم میں سے کوئی بھی نہیں جانتا۔
شہر کے ہر باشندے کے پاس ایک کتاب ہے جو صرف کتاب نہیں بلکہ ہماری زندگیوں پر محیط ہے۔ اس کتاب کی جلد اور سلائی بہت قیمتی اور مضبوط ہے۔
سلائی اتنی سختی سے کی گئی ہے کہ ہر قطار کے آخری چند لفظ دیوار جیسے مضبوط صفحوں کے درمیان گھٹ کر رہ گئے ہیں۔
ان کی کمزور آواز اسی تاریک کھائی کی گہرائیوں میں کہیں دب کر رہ جاتی ہے۔
لیکن کتاب پڑھنے والوں کو اس سے فرق نہیں پڑتا کہ قطار کے آخری لفظ پر کیا بیت رہی ہے۔ کوئی ماننے کو تیار نہیں کہ کہانی میں ان کا بھی کوئی کردار ہے۔
کتاب پڑھی جاتی ہے۔ کہانی سنائی جاتی ہے اور جہاں ایسے گمشدہ الفاظ آ جائیں وہاں کہانی گھڑ لی جاتی ہے۔
بے شمار الفاظ جنہیں کبھی کسی نظر نے چھوا ہی نہیں پیچھے آنے والی سطر کو دیکھتے ہوئے اسی تناظر میں بنا سوچے سمجھے بیان کر دیے جاتے ہیں۔
میرے پاس بھی ایسی ہی ایک کتاب ہے۔ لیکن مجھے اس سے کوئی خاص لگاؤ نہیں۔ اس لیے یہ کتاب کافی عرصہ ایک دیمک زدہ الماری میں پڑی رہی ہے۔
آج بے خیالی میں اسے نکالا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ دیمک دھاگے سے ساری چمک اور اکڑ چوس چکی تھی اور کتاب کی سلائی اکھڑ گئی تھی۔
میں کتاب لیے چائے خانے میں اپنی پسندیدہ الگ تھلگ میز پر جا بیٹھا اور سلائی کے بیچ میں چھپا ایک لفظ پڑھنے کی کوشش کرنے لگا۔
بہت مشکل کے بعد اس کے ہجے کرنے میں کامیابی ملی تو میری آواز جوش میں کچھ زیادہ ہی اونچی ہو گئی۔ اور یوں تشموگول کا جنم ہو گیا۔
تشموگول کے بارے میں سب بات کر رہے تھے لیکن کوئی اس کے معنی سے واقف نہ تھا۔
اور ہوتا بھی کیسے۔
کئی سال قبل شہر کے بڑوں نے فیصلہ کیا کہ شہر میں دیواروں کا ہونا نہایت ضروری ہے۔ دیواریں بناتے وقت اینٹیں کم پڑ گئیں تو نظر انتخاب ان پلوں پر پڑی جو شہر کو دریا کے دوسری جانب معنویت کی سرزمین سے ملاتے تھے۔
ان پلوں کو یہ کہہ کر بے فائدہ قرار دے دیا گیا کہ شہر معنویت سے جو کچھ لینا ضروری تھا سو لیا جا چکا۔
اور ان پلوں کو بنانے والی سوچ نما اینٹوں کو ایک ایک کر کے دیواروں میں چن دیا گیا۔
لہٰذا اب کون کس سے تشموگول کے معنی پوچھے؟
اچانک میری پوتی کمرے میں داخل ہوئی اور بولی
“دادا! پڑوس والے پھر سے ہمارے دروازے کے باہر لگے پودے پر کوڑا پھینک گئے ہیں۔”
میں کراہ اٹھا۔ پڑوسیوں کی مجھ سے چپقلش بہت پرانی تھی اور یہ حرکت اکثر ہوتی رہتی تھی۔
لیکن یہ کوئی بات ہے بھلا کہ دشمنی مجھ سے اور قہر اس چھوٹے سے پودے پر برسایا جائے۔
میں اکثر سوچتا تھا کہ یہ معصوم پودا صرف میرے گھر کے سامنے ہونے کی سزا بھگت رہا تھا۔
دروازے پر پھر سے دستک ہوئی۔ میرے بڑے بیٹا مجھے بلانے آیا تو اس کا روکھا لہجہ مجھے چونکا گیا۔
وہ مجھے کسی کی آمد کی اطلاع دے رہا تھا۔
میں ڈرائینگ روم میں گیا تو مہنگے سوٹ اور ٹائی میں ملبوس چند اشخاص صوفے میں دھنسے سگار پھونک رہے تھے۔
رسمی علیک سلیک کے بعد ایک پتھریلے چہرے والا شخص گویا ہوا
“تشموگول؟”
میں نے سر جھکا دیا
“ہاں”
میری بات سنتے ہی وہ سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔
“آپ جانتے ہیں کہ یہ کتاب ہمارے لیے سب کچھ ہے۔ اسے کہاں سے پڑھنا ہے کہاں سے نہیں یہ بہت ریاضت سے طے کیا گیا ہے۔ اسے ادھیڑنا اس کی سلائی اکھیڑنا اس کی پرتیں کھولنا کتنا بڑا جرم ہے؟”
“جرم؟ کیسا جرم۔۔۔۔؟ مم۔۔۔ میں تو بس تشموگول۔۔۔”
“شٹ اپ!” وہ چلایا۔
“نفرت ہو رہی ہے مجھے اس لفظ سے۔”
صوفے پر بیٹھے لوگوں کے چہرے نفرت کی تاریکی سے سیاہ پڑ چکے تھے۔
“ہمارا شہر ایک مضبوط بنیاد پر اس لیے کھڑا ہے کہ ہم نے اسے ایک مضبوط نظام دیا ہے۔ ہر چیز وہاں ہے جہاں اسے ہونا چاہئیے۔ آج ایک تشموگول کے بارے میں گفتگو ہو رہی ہے کل کو کوئی اور اپنے وجود کی معنویت پر مقصدیت پر سوال اٹھا دے گا۔ کیا آپ نہیں سمجھ سکتے کہ یہ منہ زور دھارے بے یقینی اور افراتفری کے کس طوفان کا پیش خیمہ ہو سکتے ہیں؟ یہ شہر جس بیانیے پر کھڑا ہے اسے کتنا بڑا خطرہ لاحق ہو گیا ہے آپ کی اس چھوٹی سی حرکت سے؟”
اس کے سخت لہجے پر ایک سرد لہر میری ریڑھ کی ہڈی میں دوڑ گئی۔
“میں۔۔۔۔۔ میں معافی چاہتا ہوں۔”
“ہونہہ! معافی! بات معافی سے بہت آگے نکل چکی ہے۔” سگار والے کا لہجہ سرد ہو گیا۔
“کیا مطلب ہے آپ کا؟”
“آپ کے اس جرم کو معاف نہیں کیا جا سکتا ورنہ کل کو کوئی بھی ایسا کر کے معافی مانگ لیا کرے گا۔”
“یعنی۔۔۔۔۔ یعنی کہ۔۔۔۔” لفظ میرے حلق میں اٹک گئے۔
“ہمیں مثال قائم کرنی ہے۔ آپ کو ہمارے ساتھ چلنا ہو گا۔” وہ فیصلہ کن لہجے میں بولا۔
میں نے بوکھلائے ہوئے انداز میں گھر کا جائزہ لیا تو میرے دونوں بیٹے اپنے بیوی بچوں کو اپنے پروں تلے لیے کمروں میں دبکے ہوئے تھے۔
مجھے روکنے والا کوئی نہ تھا۔
میں نے ایک آہ بھری اور کوئی راہِ فرار نہ پا کر ان کے ساتھ چل پڑا۔
گھر سے نکلتے ہی مجھے ایک جھٹکا لگا. کسی نے میرا دامن کھینچا تھا۔
میں مڑا تو دروازے کے ساتھ لگے جھاڑی نما پودے کا ایک کانٹا ملتجی نگاہوں سے مجھے دیکھ رہا تھا۔
“کانٹے!!!” میں حیرت سے بڑبڑایا. پہلے تو اس پودے پر کانٹے نہیں تھے. لیکن میرے مزید کچھ سوچنے سے پہلے مجھے ایک دھکا لگا اور میں اپنا دامن چھڑا کر قید خانے کی جانب چل دیا۔
قصہ مختصر چند دن مقدمے کی سماعت ہوئی جہاں ایک جج کاغذوں میں سر گھسائے بے جان پتلے کی مانند بیٹھا رہا جیسے فیصلہ کہے جانے والے کسی لفظ کا محتاج نہ تھا۔ بیچ بیچ میں وہ کن اکھیوں سے ملتجیانہ انداز میں مجھے دیکھتا رہتا۔ شاید اسے ڈر تھا کہ کہیں میں اس سے تشموگول کا معنی نہ پوچھ بیٹھوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فیصلہ سنایا جا چکا ہے اور اب میں اس پر عملدرآمد کے انتظار میں قتل گاہ کے ایک نیم تاریک کمرے میں بیٹھا ہوں۔
کمرے سے باہر برآمدے میں جلاد بیٹھا اپنے کلہاڑے کی دھار تیز کر رہا ہے۔
کلہاڑے کی دھار پہ رگڑ کھاتے پتھر سے نکلتی چیخ میں ایک عجیب سا نوحہ ہے۔
میں اس جلاد کو تب سے جانتا ہوں جب اس کی عمر صرف چند دن تھی۔
چند نسلوں قبل اس کے پردادا اسی شہر کے حاکم تھے۔
تب یہاں دوراندیش لوگ کی اکثریت تھی جن کی نظر ہمیشہ دور کی چیزوں پر مرکوز رہتی تھی۔ حاکم کو ان سے شدید نفرت تھی۔ اسے قریب کی نظر والے پسند تھے۔ اس نے بہت جتن کیے مگر دوراندیش بڑھتے چلےگئے۔ اس نے ایک دن سب دور اندیش لوگوں کو شہر کے بڑے چوک میں جمع کیا اور ان کا سر قلم کر دیا۔ صرف وہ لوگ بچے جو اپنے آپ تک ہی دیکھ سکتے تھے۔
کئی دہائیوں تک اس حاکم کی نسل کی حکومت کرتی رہی۔
لیکن پھر سے شہر میں کچھ دور اندیش لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے لوگوں کو ان کے حقوق یاد دلائے اور حاکم کے خلاف کھڑے ہونے کا حوصلہ دیا۔
لوگ اٹھ کھڑے ہوئے. ایک خونیں انقلاب آیا۔
اس حاکم کے خاندان کے ہر فرد کو چن چن کر مار ڈالا گیا۔
اس جلاد کے ماں باپ صرف اس لیے بچ نکلنے میں کامیاب رہے کہ باغی رہنما سے ان کی رشتہ داری تھی۔
لیکن ماضی کا یہ حوالہ ہمیشہ ان کے ساتھ رہا۔
مجھے یاد ہے کہ یہ جلاد جب بچہ تھا تو خون کی چھوٹی سی بوند دیکھ کر بے ہوش ہو جایا کرتا تھا۔
یہ بڑا ہوا تو اسے کہیں کام نہ مل سکا۔
لوگ اس سے شدید نفرت کرتے تھے۔
صرف جلاد کے منصب کے لیے اسے مناسب خیال کیا گیا۔
اس نے بہت کوشش کی کہ کچھ اور کر سکے لیکن مسلسل فاقوں نے اسے سمجھا دیا کہ پیٹ سے بڑا جلاد کوئی نہیں۔
اب یہ اس قتل گاہ میں روز کئی لوگوں کی گردنیں اڑاتا ہے اور ایک پل کے لیے بھی بے ہوش نہیں ہوتا۔
کہیں یہ بھی تو کسی دوسرے کے لیے بوئی گئی بے معنی نفرت کی فصل تو نہیں کاٹ رہا؟
کیا یہ بھی۔۔۔۔۔؟
ہاں یہ بھی تو وہی ہے۔
جلاد کی درشت آواز نے میری سوچوں کو منتشر کر دیا۔
“چلو!”
میں نے اس کے ستے ہوئے بنجر چہرے کو بغور دیکھا اور ارمانوں کی اس لاش کو گلے لگاتے ہوئے بولا
“تم بھی تشموگول ہو۔”
اور اسے ششدر کھڑا چھوڑ کر مقتل کی جانب چل دیا۔
****
صبیح الحسن ۔ پھالیہ ، پاکستان
صبیح الحسن ۔ پھالیہ ، پاکستان