(Last Updated On: )
میرا نام عبدل سمیع ہے۔ میری زندگی نہ پوچھیے، گویا تنہائی کی تصویر و تفسیر تھی ،مجھے لوگوں سے بہت گھبراہٹ ہوتی تھی ۔
نہیں نہیں میں آدم بےزار نہیں!
پر جانے کیوں دوسرے لوگوں سے connect نہیں کر پاتا ، آغاز گفتگو کے ہنر سے نا آشنا اور تکلم کے تسلسل کو قائم رکھنے سے بھی بےبہرہ ۔
مجھے لطیفوں پر ہنسی بھی نہیں آتی تھی اور سیاست سے تو مجھے دلی نفرت ہے۔ ادب سے ضرور لگاؤ تھا مگر میں دیر تک کتابیں پڑھنے سے قاصر کہ میری آنکھوں کے آگے تارے ناچنے لگتے تھے اور میں کسی بھی چیز پر دیر تک توجہ مرکوز نہیں رکھ سکتا ۔
میں کراچی یونیورسٹی میں فزیکل کیمسٹری پڑھاتا تھا۔ مجھے دیکھ کر میرے طالب علموں کا آنکھوں آنکھوں میں ایک دوسرے کو اشارے کرنا اور زیر لب مسکرانا مجھے اچھی طرح سے یاد ہے۔ یہ صرف ایک یاد نہیں بلکہ ایک تکلیف دہ یاد ہے۔
مجھے ان کی معنی خیز ہنسی بری تو نہیں لگتی تھی پر ہاں تکلیف ضرور ہوتی تھی، اور میں ہر پل دعا گو رہتا ہوں کہ “جو کچھ میں نے دیکھا اور سہا ہے وہ اب دنیا کا کوئی ذی روح نہ سہے اور ہر انسان اس عذا ب سے محفوظ رہے۔ ”
میری بد حالی ،میرے دو رنگ کے موزے اور میرا گم سم انداز صرف میرے طلبہ ہی کے لیے نہیں بلکہ میرے کولیگز کے لیے بھی باعث تفنن تھا۔
انہیں کیا معلوم جب زندگی سے رنگ نچڑتا ہے تو انسان صرف بدحواس ہی نہیں بلکہ بےحس بھی ہوجاتا ہے۔
1971 کے سقوط مشرقی پاکستان میں، میں نے اپنا پورا خاندان کھو دیا تھا۔ سب کے سب سید پور میں بےدردی سے شہید کر دیے گئے تھے۔
اس سانحے کے بعد میری آنکھوں پر گویا لال چادر تن گئی تھی ۔
میں اس وقت ڈھاکہ یونیورسٹی میں اپنا تھیسس مکمل کر کے جمع کرانے گیا تھا اور میرے پیچھے میرا سارا کنبہ سید پور میں قتل کر دیا گیا۔
امی ابا، سلیم، عفت (میری چھوٹی بہن) اور میری بیوی بلقیس اور میرا ننھا چھ ماہ کا حسنین۔۔۔ سب کے سب ایک پل میں نفرت کی جنون کی زد میں آ کر اس صفحہ ہستی سے مٹا دئیے گئے۔
آرمی کریک ڈاؤن کے وقت میں بھی بختیار بھیا جو کہ میرے چچازاد بھائی تھے اور پاک فوج میں میجر تھے۔ ان کی وجہ سے آرمی والوں کے ساتھ اپنے گھر والوں کی کھوج میں سید پور گیا۔
پورا شہر ویرانہ تھا! سنسان!
کتے بھی لاشیں بھنبھوڑ بھنبھوڑ کر آسودہ اور بدمست ہو کر ادھر اُدھر پڑے ہوئے تھے۔
وہ شہر کب تھا؟
وہ تو ایک لٹا پٹا جلا ہوا تعفن زدہ کھنڈر تھا۔
میں اپنے جلے ہوئے گھر کی دہلیز پر بے ہوش ہو کر گر پڑا تھا۔ بختیار بھیا ہی نے گھر والوں کی باقیات اکٹھی کیں ، اور ان کی تدفین کی۔ عفت اور بلقیس کی لاشیں گھر سے نہیں بلکہ قریبی جنگل سے برہنہ ملیں ۔ میرا چھ ماہ کا حسنین بھی لخت لخت اپنی دادی کی لاش کے نیچے دبا پڑا تھا۔
اس دن کے بعد سے میں شاید کبھی پھر ہوش میں آیا ہی نہیں ۔بختیار بھیا کے ساتھ ہی میں بھیPOWہوا اور سنہ 74 میں شکستہ دل اور لٹا پٹا انڈیا سے کراچی پہنچا۔ مختلف کالجوں سے ہوتے کب کراچی یونیورسٹی سے منسلک ہوا کچھ ٹھیک سے یاد نہیں۔ عجیب میکانکی انداز میں دن بسر ہو رہے تھے۔ سانس لینے کی حد تک تو میں یقیناً زندہ تھا مگر مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ میں اس زندگی کے ساتھ کروں کیا؟
اس کو کیسے برتوں؟
دن تو جیسے تیسے یونیورسٹی میں گزر جاتے تھے پر گھر واپسی کا خیال ہی سوہان روح ہوتا۔ اپنے یوسف پلازہ کے فلیٹ میں واپسی کا سوچ کر مجھے موت پڑتی تھی کیوں کہ ہر رات ستمگر تھی،ہر رات قیامت تھی۔ہرشب کرب و بلا ، ہر رات میرا فلیٹ پرچھائیوں اور آہ و بکا سے بھرا جاتا اور ساری رات میں بھی ان کے ساتھ ماتم کناں رہتا۔
جتنی سانسیں لکھنے والے نے لکھی تھیں سو تو پوری کرنی ہی تھیں کہ اس کا “کُن” لمحہ مقرر سے ایک پل بھی ادھر ادھر نہیں ہو سکتا۔
میری زندگی جمود کا شکار تھی۔
نہ اس میں انتظار تھا اور نہ رنگ۔
میرے عزیزوں رشتہ داروں نے مجھے دوبارہ شادی پر راضی کرنے کی بہت کوشش کی اور تنہائی کے مضمرات سے آگہی بھی دی۔ سچ تو یہ ہے کہ میں نے بھی دوسراہٹ چاہی تو ضرور مگر مجھے لگتا تھا کہ میں آنے والی کے ساتھ انصاف نہیں کر پاؤں گا۔ اس لیے میں یہ قدم اٹھانے سے باز ہی رہا۔ میری تو جیسی تیسی گزر ہی رہی تھی کسی دوسرے کی زندگی کیا برباد کرتا۔
میں رات گئے تک چائے خانے پر بیٹھا رہتا کہ گھر مجھے ڈستا تھا اور مجھے پرچھائیوں کے بین سے خوف آتا تھا۔
پچھلے دنوں شدید سردی تھی۔ کراچی میں خیر سردی کہاں مگر جب جب کوئٹہ کی ہوا چلتی ہے تو رگوں میں لہو جما دیتی ہے۔ اس رات کھانا کھانے کے بعد میں منہ سر لپیٹے ڈھابے سے واپس فلیٹ کی طرف آ رہا تھا کہ اپارٹمنٹ کی سیڑھیوں کے کونے پر مجھے کپکپاتا ہوا ایک بلونگڑا ملا۔ اس نے جیسے ہی مجھے دیکھا میری ٹانگوں سے اپنے آپ کو رگڑنے لگا۔ وہ نہایت نحیف و نزار تھا۔ اس کے بڑے بڑے سفید اور کالے بال اور ہری ہری خوبصورت آنکھیں تھیں ۔ ایک لمحے کو تو میرا دل پسیجا اور چاہا کہ اسے اٹھا لوں۔ پھر دوسرا خیال آیا کہ میں کہاں یہ درد سری پالتا پھروں گا۔ میں اپنے پیروں کو جھٹک کر اس سے جان چھڑا کر سرعت سے سیڑھیاں چڑھتا چلا گیا۔ میرے پیروں کے جھٹکے سے وہ گر گیا اور میاؤں میاؤں کرنے لگا۔ میں نے پلٹ کر دیکھا وہ سیڑھیاں چڑھنے کی کوشش میں لڑھک لڑھک کر نیچےگر رہا تھا۔
میں فلیٹ میں آنے کو آ تو گیا مگر طبیعت عجب سی ہوگئی ،بے کیفی و اضطراری طاری تھی۔ نہ لیٹتے چین تھا اور نہ بیٹھتے اور میں دل سے مجبور و بےاختیار ہو کر آدھ گھنٹے بعد ہی دوبارہ سیڑھیاں اتر رہا تھا۔
مجھے دیکھتے ہی وہ پھر سے میاؤں میاؤں کرتا ہوا بےقراری سے آگے لپکا۔ اس کی آنکھوں کی چمک غماز تھی کہ وہ ابھی بھی انسانیت سے مایوس نہیں ہے، جیسے اس کے معصوم سے دل میں میرے لوٹ آنے کا یقین زندہ ہو۔
میں نے آہستگی سے اس کپکپاتے بلونگڑے کو اٹھا کر اپنے سینے سے لگایا اور تیزی سے سیڑھیاں طے کرتا ہوا اوپر اپنے فلیٹ میں آ گیا۔ جلدی سے ایک جوتے کے ڈبے کو خالی کر کے اس میں پہلے اخبار اور اس کے اوپر پرانا تولیہ بچھایا۔ اس ڈبے میں بلونگڑے کو رکھ کر اس ڈبے کو ہیٹر کے قریب رکھ دیا پھر باورچی خانے جاکر اس کے لیے تھوڑا سا دودھ گرم کیا۔ دودھ غٹا غٹ پی کر بھرے پیٹ اور ہیٹر کی گرمائش سے آسودہ ہو کر اس کی آنکھیں بند ہونے لگی۔ بس مجھے ایک فکر تھی کہ جانے یہ کہاں کہاں گندگی کرتا پھرے گا؟
بہرحال اب جو ہو سو ہو۔ میں پلنگ پر آلتی پالتی مارے رضائی اوڑھے کافی دیر تک اسے تکتا رہا۔ اپنے دونوں پنجوں میں اس نے اپنی گلابی ناک دبوچی ہوئی تھی اور سانس کے زیرو بم سے اس کا ننھا سا جسم دھڑک رہا تھا۔ بہت زمانے بعد میں نے دل سے خوشی محسوس کی تھی۔
جانے کب میری آنکھ لگ گئی؟
شاید میں بیٹھے بیٹھے ہی بستر پر لڑھک گیا تھا۔ فضا فجر کی اذان سے گونج رہی تھی۔ فجر کی نماز سے فارغ ہوتے ہوتے ہی میرا ذہن آج کے دن کا مکمل پلان بنا چکا تھا۔ میری کھٹر پٹر سے بلونگڑے کی آنکھیں بھی کھل گئی۔ اسے اٹھا کر غسل خانے میں نالی کے پاس رکھا اور میری حیرت کی انتہا نہیں رہی جب میں نے اسے تھوڑی ہی دیر میں نالی پر فارغ ہوتے دیکھا۔ فراغت کے بعد معصومیت سے منہ اٹھا مجھے دیکھنے لگا جیسے کہہ رہا ہو
” کیوں جناب ناشتے کا کیا انتظام ہے؟ ”
مجھے ہنسی آ گئی اور میں اپنی ہنسی کی بازگشت پر خود ہی چونک گیا (جانے میں کتنے زمانوں بعد ہنسا تھا)۔ میں نے اپنی دودھ پتی میں سے تھوڑا سا دودھ نکال کر اسے طشتری میں ڈال کر دیا۔ اس نے بڑی رغبت سے پیا۔ پھر میں نے چائے میں بھیگے پاپے کے دو تین ٹکڑے اس کی طشتری میں ڈالے اور وہ انہیں بھی ترنت ہی چٹ کر گیا پھر بڑے آرام سے بیٹھ کر اطمینان کے ساتھ اپنے آپ کو زبان سے چاٹ چاٹ کر صاف کرنے لگا۔ صفائی کے بعد اپنی الماس رنگ آنکھوں سے گویا مجھ سے داد طلب کی اور میرے ذہن میں جیسےجھماکا سا ہوا اور میں نے کہا”سنو میاں! تمہارا نام جیڈ jade ہے”
اس نے بری متانت سے میاؤں کی، گویا اسے میرا دیا ہوا نام قبول ہے۔
ناشتے سے فارغ ہوتے ہی میں نے دس دنوں کی چھٹی کی درخواست لکھی اور یونیورسٹی روانہ ہوا۔ ڈین صاحب میری چھٹی کی درخواست پر ششدر تھے کہ میں نے آج تک ایک بھی چھٹی نہیں کی تھی۔ سوکھا ہو، ساون ہو کہ باڑھ ہو میں ہر حال میں یونیورسٹی میں موجود ہوتا تھا۔ انہوں نے ایک لفظ بھی پوچھے بغیر درخواست پر دستخط کر دیئے اور میں خوشی خوشی الٹے پیروں فلیٹ پر واپس آ گیا۔ واپسی پر بازار سے اس کے لیے پنگ پانگ کی گیند لینا نہیں بھولا تھا ۔
ان دنوں میری صرف ایک ہی مصروفیت تھی۔۔جیڈ(jade) کو کھیلتے دیکھنا، اسے کھلانا، اس کے پیالے میں تازہ پانی بھر کر رکھنا اور اس کے بالوں میں برش کرنا۔ اب جیڈ کی صحت بہت اچھی ہو گئی تھی،اور شرارتیں کئی گنا بڑھ چلی تھیں۔ میں اب رات میں اسے اپنے ساتھ رحمت کے ڈھابے پر بھی لے جاتا تھا۔ وہاں وہ بڑے مزے سے میری گرم چادر میں گول ہو کر بیٹھا رہتا جب اسلم کھانا ٹیبل پر چنتا تو یہ چادر کی بکل سے اچھل کر ٹیبل پر آ جاتا اور میں گوشت اور روٹی مسل مسل کر اسے لقمہ ڈالتا جاتا۔ رحمت کو اس کا نام نہیں سمجھ میں آتا تھا سو وہ اسے جیڈی پکارتا تھا۔ رفتہ رفتہ سارے ہوٹل والے اسے جیڈی کہنے لگے اور جیڈ بھی سب سے ہل مل گیا تھا۔
جیڈ کو میرے پاس اب سال سے اوپر ہو چلا تھا۔ جولائی کے مہینے کی بات ہے یونیورسٹی میں گرمیوں کی تعطیلات تھیں ۔میں اپنے کپڑے استری کر رہا تھا اور جیڈ مسلسل باوجود میرے منع کرنے کے استری کی ہلتی تار سے کھیل رہا تھا۔ میں ایک دم زور سے چیخا
“حسنین مت کرو ایسے”
میں ساکت ہو گیا!
یہ کس نام سے پکارا میں نے جیڈ کو؟
پھر جو میں جیڈ کو گلے لگا کر زارو قطار رویا ہوں کہ مت پوچھیے، جانے کب کب کے رُکے ہوئے آنسو بہا دیے۔ شام تک کہیں جا کر طبیعت بحال ہوئی مگر دل اتنا ہلکا ہو گیا جیسے بارش کے بعد فضا خوشگوار ہو جاتی ہے۔
میں جیڈ سے اپنے گھر والوں کی، اپنے دوستوں کی اور اپنے بچپن کی باتیں کرتا رہتا اور وہ معصومیت سے منہ اٹھا کر سنتا سنتا جانے کب سو جاتا۔
اب مجھ میں جینے کی امنگ جاگ رہی تھی۔
اس بات کا اندازہ مجھے یوں ہوا کہ میں اپنی کپڑوں کی الماری ٹھیک کر رہا تھا تو مجھے اپنے کپڑے اتنے پرانے اور بوسیدہ لگے کہ میں حیران رہ گیا
میں اب تک یہ پہنتا آیا ہوں؟
دوسری شام میں صدر گیا اور اپنے لیے چھ ریڈی میڈ شرٹس اور چار پینٹ کے کپڑے لیے اور واپسی پر واٹر پمپ میں درزی کو پینٹ سینے کے لیے دیتا ہوا آیا۔ واٹر پمپ کے بازار ہی میں سروس کی دکان سے ایک جوڑا جوتے کا اور ایک جوڑا کالی سینڈلوں کا مول لیا۔ چار عدد بیڈشیٹ اور کچھ پلیٹیں اور چائے کے مگ بھی خریدے۔ مجھے اب گھر کی ہر چیز اس قدر آوٹ ڈیٹڈ( out dated) اور بد رنگی لگنے لگی تھی کہ مجھے اپنے آپ پر حیرت ہونے لگی تھی کہ آخر میں کس طرح رہ رہا تھا؟
میں اب اپنے آپ کو محسوس کرنے لگا تھا اور مجھ پر موسم بھی اثر انداز ہونے لگے تھے۔ میں اسٹاف روم میں روز مرہ کی گفتگو میں شریک ہونے لگا تھا مگر سیاست کے موضوع سے اب بھی کوسوں دور بھاگتا تھا۔
میرا بیسٹ فرینڈ اب بھی صرف جیڈ ہی تھا۔
بس جیڈ کی ایک عادت ناپسند تھی وہ یہ کہ بچپن کی طرح وہ اب بھی میری گردن سے لگ کر سوتا تھا۔ اب وہ بلونگڑہ تو تھا نہیں چار سال کا صحت مند بلا تھا اور خاصہ وزنی بھی لاکھ میں اسے ہٹاتا پر تھوڑی دیر کے بعد وہ پھر میری گردن میں گھسا خرخر کر رہا ہوتا۔
اب جیڈ صبح ہی صبح میرے ساتھ نکل جاتا اور محلے میں ادھر ادھر مارے کھکھیڑے پھرنے کے بعد دن میں رحمت کے ہوٹل میں جا کر سو جاتا۔ میں جیسے ہی یونیورسٹی سے واپسی پر بس اسٹاپ پر اترتا وہ بھی گلی کے نکڑ پر آ جاتا اور ہم دونوں اکٹھے گھر واپس آتے۔ ایک بری بات یہ ہوئی کہ باہر رہنے کی وجہ سے جیڈ اب خاصا آوارہ اور لڑاکا ہو چلا تھا۔ آئے دن دوسرے بلوں سے لڑائی کر کے زخمی ہوتا۔ میں نے چاہا بھی کہ بچپن کی طرح اسے فلیٹ میں بند کر کے ہی یونیورسٹی جاؤں مگر اس کی بےچینی اور اداسی آڑے آ جاتی تھی ۔
ہم دونوں کے دن مزے سے گزر رہے تھے اور میں احسان مند تھا جیڈ کا جس نے مجھے دوبارہ زندہ کر دیا تھا۔ اب بھی اکثر راتوں میں گھر میں پرچھائیاں آتی تھیں پر اب وہ بین نہیں کرتی تھیں بلکہ ان سےایسے گپ شپ ہوتی تھی جیسے ہم لوگ سید پور میں شام کے وقت آنگن میں بیٹھ کر کیا کرتے تھے اور اب مجھے وحشت نہیں ہوتی تھی۔
حقیقت تو یہ ہے کہ اب مجھے کچھ کچھ تنہائی بھی ستانے لگی تھی مگر کہتا تو کس سے کہتا؟
سب عزیز رشتے دار شادی کے لیے اسرار کر کر کے ہار گئے تھے اور میری” نہ ” ہاں میں نہ بدلی تھی ۔
اب کہتا تو کیا کہتا اور کس منہ سے کہتا؟
کولیگز سے میری اس قدر بےتکلفی نہیں تھی کہ ان سے اس قدر ذاتی مسئلہ ڈسکس کرتا۔ سوچ بچار کے بعد میں نے اپنی مسجد کے امام صاحب سے بات کرنے کی ٹھانی اور ایک دن عشاء کی نماز کے بعد تنہائی میں ان کے سامنے اپنا سوال رکھ دیا۔
امام صاحب کے بشرے سے حیرانی ظاہر تھی پر انہوں وعدہ کیا کہ وہ ضرور میرے رشتے کے سلسلے میں کوشش کرینگے۔ شرم تو مجھے بھی آ رہی تھی کہ بھلا چھپن سال بھی کوئی عمر ہے شادی کی ؟ مجبوری یہ تھی کہ جیڈ کے باوجود اب تنہائی محسوس ہونے لگے تھی۔ میں بولتے بولتے تھک چکا تھا۔ اب دو طرفہ مکالمے کی شدید آرزو تھی۔
میں نے امام صاحب پر زور دیا کہ کوئی مطالقہ یا بیوہ ہی خاتون ہوں ۔
مہینے گزر گئے امام صاحب کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا۔ میں انہیں یاد دہانی کی ہمت اپنے اندر نہ پاتا تھا۔ شاید اس تنہائی ہی کے سبب میرے مزاج میں رنجیدگی اور چڑچڑا پن بڑھ چلا تھا۔
جیڈ نے یہ تبدیلی نوٹ کر لی تھی اور اپنا پیار مزید بڑھا دیا تھا پر طبیعت کی یاسیت برقرار رہی کہ اب دل کا مطالبہ کچھ اور تھا۔ ایک رات میں اگلے دن کا لیکچر تیار کر کے، کپڑے وغیرہ پریس کر کے بس لیٹنے ہی لگا تھا کہ قریباً گیارہ بجے دروازے کی گھنٹی بجی۔
الہی کون؟
دروازہ کھولا تو امام صاحب کھڑے تھے۔
انہیں دیکھ کر دل خوشی سے دھڑک اٹھا۔ انہیں عزت سے بیٹھک میں بیٹھایا اور چائے کا پوچھا تو انہوں نے انکار کرتے ہوئے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اپنے قریب بیٹھا لیا اور کہنے لگے کہ میاں اپنے طور پر تو میں نے بہت تلاشا، سمجھ دار و ذمہ دار لوگوں سے ذکر بھی کیا پر باتیں نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئیں۔ میں دل ہی دل میں سخت شرمندگی محسوس کر رہا تھا اور ہمت نہ ہوتی تھی کہ آپ کو ٹکا سا جواب دوں۔ میں نے اپنی بیوی سے ذکر کیا تو وہ خوب ہنسی اور کہنے لگیں لو بغل میں بچہ اور شہر بھر میں ڈھونڈرا ۔۔
میں پوچھا “کیا مطلب نیک بخت؟”
کہنے لگیں “امام صاحب اپنی رفعت کی اردو کی استانی ہاجرہ میں کیا برائی ہے؟”
میں تو اچھل ہی پڑا۔
کہا نیک بخت یہ تو بہت ہی معقول جوڑ ہے۔
دونوں ہی اہل زبان ہیں اور ہم پیشہ بھی اور سب سے بڑی بات کہ زخم خوردہ بھی۔
“بی بی تم ہاجرہ کا عندیہ تو لو۔”
تو آج میں عشاء پڑھا کر جو گھر گیا تو زوجہ نے بتایا کہ اس دکھیاری کو بھلا کیا اعتراض۔۔
اس کا جگر پہلے ہی بھابی کے طعنوں تشنوں سے چھلنی ہے۔ اگر جو کہیں آسرا مل جائے تو فبیہا۔
بس میاں میں تو بھاگا بھاگا تمہارے در پہ آ گیا۔
پر کچھ بھی کہنے سے پہلے ہاجرہ کی بپتا سن لو۔
عمر اس کی کوئی انچاس پچاس کے قریب ہو گی۔ اکہرے بدن اور شکل و صورت کی معقول، سبھاؤ میں اعلیٰ۔ میرے گھر اس کا برابر آنا جانا رہتا ہے اور میری زوجہ کی چھوٹی بہنوں جیسی ہے۔ سرکاری اسکول میں استانی ہے۔
ہے مگر کم نصیب۔ شادی کے چوتھے سال ہی طلاق ہو گئی تھی وجہ اس کا بانجھ پن ہے۔ بھائی بھاوج کے ساتھ رہتی ہے، بھاوج آدھی سے زیادہ تنخواہ بھی اینٹھ لیتی ہیں اور جی بھر کے اس بد نصیب کا کلیجہ بھی جلاتی ہیں۔
تم ملنا چاہو تو میرے گھر پر اس کا انتظام ہو سکتا ہے کہ شریعت میں اس کی اجازت ہے۔
میری تو خوشیوں کا ٹھکانہ نہیں تھا۔
میں نے کہا نہیں ملنے کی ضرورت نہیں مجھے رشتہ منظور ہے۔
امام صاحب میری بےتابی پر مسکرا دیئے۔
ٹھیک ہے میاں پھر چاند کی چودھویں کو بعد مغرب نکاح رکھ لیتے ہیں۔ بارہ دن ہیں تمہارے کنے تیاری کر لیجئو ۔ اس بیچ میں ہاجرہ کے بھائی اسلام سے بات کر لیتا ہوں اور اپنے ہی گھر پر تمہاری اور اسلام کی ملاقات کروا دیتا ہوں۔ اسلام کی بیوی کو جتنی دیر سے اس معاملے کی خبر ہو اتنا ہی دونوں پارٹیوں کے لیے بہتر ہے۔
ٹھیک ہے میاں تم تیاری پکڑو۔
امام صاحب جب دروازے سے نکلنے لگے تو میں نے جھجھکتے ہوئے کہا امام صاحب بس ایک بات ان سے ضرور معلوم کر لیجئے گا کہ انہیں بلی پر تو کوئی اعتراض نہیں؟
کہ میں جیڈ کو نہیں چھوڑ سکتا!
اگر وہ ہم دونوں کو قبول کرتی ہیں تو میں دل و جان سے حاضر ہوں۔
امام صاحب خوب ہنسے اور کہنے لگے میاں! بےفکر رہو وہ دکھیا تو جانوروں پر اپنی ممتا لٹاتی پھرتی ہے، تمہارا جیڈی بالکل محفوظ رہے گا۔
“کیوں میاں جیڈی شہ بالا بنو گے اپنے مالک کے؟”
امام صاحب یہ کہتے ہوئے ہنستے ہوئے سیڑھیاں اتر گئے۔
دو دن بعد میری اسلام صاحب سے امام صاحب کے گھر ملاقات ہوئی اور سارے معاملات طے پا گئے۔ یہ طے ہوا کہ ہاجرہ کا نکاح امام صاحب کے گھر پر ہو گا اور وہاں صرف اسلام صاحب اور ہاجرہ ہونگے۔ نکاح کے بعد رخصتی ہو جائے گی اور ولیمہ میری مرضی پر منحصر ہے کہ میں جب اور جہاں چاہےکروں اور چاہے جتنے افراد بلاؤں۔
بس جناب خیر سے نکاح ہو گیا۔
چھوٹے پیمانے پر گلی میں شامیانہ لگا کر ولیمہ بھی کر لیا۔ ہاجرہ کی بھابھی خوب چیخی چلائی پر اب کیا ہو سکتا تھا جب چڑیا چگ گئی کھیت۔
ہاجرہ نہایت سادہ اور بہترین سبھاؤ کی خاتون ہیں۔ مجھے ان کے پہلے میاں کی کم نصیبی پر افسوس ہوتا ہے کہ کیسا ناقدرا شخص تھا۔ کیا ہوتا جو وہ بے اولادی کو مشیت ایزدی سمجھ کر قبول کر لیتا اور ان کی قدر کرتا۔ جانے انسان سارے فیصلے اپنے ہاتھوں میں کیوں رکھنا چاہتا ہے؟
اتنا فرعون کیوں بن جاتا ہے انسان؟
میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ میری زندگی میں اتنے خوشگوار دن بھی آ سکتے ہیں۔ عرصے دراز بعد مجھے گھر کی آسودگی اور سہولت میسر آئی تھی۔ ہاجرہ بہترین شریک حیات ثابت ہو رہی تھیں اور میں اللہ تعالیٰ کا جس قدر بھی شکر بجا لاتا کم تھا۔
یہ جیڈ کا مجھ پر احسان ہے کہ وہ دوبارہ مجھے زندگی کی طرف لے آیا۔ کبھی کبھی مجھے حیرت ہوتی ہے کہ کسی کی زندگی میں بہتری اور بدلاؤ لانے کے لیے بعض اوقات اللہ تعالیٰ جانور کو بھی چن لیتے ہیں۔
واقعی رب کے بھید رب جانے۔
اس ہیپی اسٹوری کا صرف ایک پہلو ذرا دردناک ہے اور وہ یہ کہ اب جیڈ میاں مجھ سے زیادہ ہاجرہ سے پیار کرنے لگے ہیں۔ کیسا طوطا چشم نکلا یہ جیڈ بھی۔
اور ہاجرہ! ہاجرہ کا تو پوچھئے ہی مت جیڈ سے یوں دلار کرتی ہیں کہ کیا کوئی اپنی اولاد سے کرتا ہو گا۔
مگر ہم تینوں بہت خوش ہیں اور یہ مثلث ایک دوسرے کی سنگت سے بہت محظوظ ہوتی ہے۔
میں اب کھل کر ہنستا ہوں اور لوگوں سے بڑی آسانی سے گفتگو میں پہل بھی کر لیتا ہوں ۔
سچ ہےخوشی انسان کا اندرون بیرون سب بدل دیتی ہے۔