(Last Updated On: )
جب بیٹھے بیٹھے بہت دیر ہوگئی تو ایک ادھیڑ عمر کا شخص زمین پر ہاتھ رکھ کراٹھ کھڑا ہوا۔
”چلا جائے اب۔“ اس نے دونوں ہتھیلیوں سے دھول جھاڑتے ہوئے کہا۔ دو لوگ جو ابھی تک بیٹھے ہوئے سستا رہے تھے انہوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور سر پر انگوچھا ڈالے، اپنا سامان اٹھائے،اٹھ کھڑے ہوئے۔
”اسی راستے پر سیدھا جانا ہے نا؟“ آنکھوں پہ ہاتھ کا سایہ بنا کر دور تک دیکھتے ہوئے ایک شخص نے، جو نسبتاً جوان تھا، پوچھا۔
”بالکل ہی سیدھا۔“ ادھیڑ عمر کا شخص بولا۔ ”تین گاؤں پار کرنے کے بعد چوتھا گاؤں آئے گا۔ وہاں سے ہمیں راستہ پتہ کرنا ہوگا۔ لیکن خیر۔دیکھا جائے گا۔“
”ہاں فی الحال وہاں تک پہنچا جائے۔ اس کے بعد دیکھیں گے۔ اب تو دن چڑھنا شروع ہو گیاہے۔“ تیسرا شخص، جس کا بایاں ہاتھ ذرا مڑا ہواتھا، بولا۔
اور وہ تینوں سبک رفتاری سے چلنے لگا۔ راستہ کچا تھا اور رات کی بارش نے رہی سہی کسر پوری کردی تھی۔ گیلی مٹی میں ان کے پاؤں ایڑ یوں تک دھنس دھنس جاتے اور وہ منھ ہی منھ میں بدبداتے، کسمساتے آگے چلے جارہے تھے۔ اس کے سوا وہ اور کر بھی کیا سکتے تھے۔ اب بس چلنا ہی ان کی زندگی تھی۔
تھوڑی دور آگے چل کر جوان شخص کو خیال آیا کہ اس نے پچھلی رات اپنی پتلون کی جیب میں چنے کی کئی پڑیا رکھ چھوڑی تھی۔ اس نے مسکراتے ہوئے جیب میں ہاتھ ڈالا اور اندر سے چنے کی دو پڑیا برا ٓمد ہوئی۔ اس نے ایک پڑیا ان دونوں کی طرف بڑھایا۔
”تم ہی کھاؤ۔“ ادھیڑ عمر والا بولا۔”مجھے راستہ میں جھاڑی کے کنارے نہیں بیٹھنا۔ ویسے بھی میرا ہاضمہ ٹھیک نہیں ہے۔ میں اگلے گاؤں آنے تک رکنا نہیں چاہتا۔“
جوان شخص نے دوسرے کی طرف دیکھا۔ اس نے فوراً ہی دانت نکوستے ہوئے وہ پڑیا لے لی اور اس کے کان میں بولا۔
”بڑے میاں راستے میں ہگنے سے ڈرتے ہیں۔“ اور دونوں ٹھٹھا ما ر کر ہنسنے لگے۔ ادھیڑ عمر والے نے خشمگیں نگاہوں سے ان دونو ں کو دیکھا مگر چپ رہا۔ اس نے دنیا دیکھی ہوئی تھی۔ آپ جوانوں کو زیادہ دیر تک قابو میں نہیں رکھ سکتے تھے۔ بہتر ہے کہ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔
پڑیا میں رکھا ہوا چنا ابھی باقی ہی تھا کہ یکایک آسمان ابر آلود ہو گیا۔
”یہ سالے بادل۔“ جوان کھسیاتے ہوئے بولا۔ ”جانے کہاں کہاں سے منھ اٹھا کر چلے آتے ہیں۔“
”ہم کو تو لگتا ہے کہ کوئی ہمارا راستہ جان بوجھ کر روکنے کی کوشش کررہا ہے۔“ مڑے ہوئے ہاتھ والا بولا۔
”تم بھی کیا بکواس کرتے ہوئے۔“ بوڑھا غصہ ہوگیا۔ ”ہر جگہ اپنا دماغ مت چلا یا کرو، سمجھے۔ دیکھو آس پاس کہیں سر چھپانے کی جگہ ہے کہ نہیں۔“
سپاٹ چہرے والا شخص جس کا بایاں ہاتھ مڑا ہوا تھا، اس نے نظر بھر کر بوڑھے کو یوں دیکھا گویا وہ ابھی اس کی داڑھی نوچ کر بھاگ جائے گا، لیکن اس نے خود پر قابو رکھتے ہوئے اپنا چہرہ گھما لیا اور آس پاس کسی مکان کی تلاش میں نگاہیں دوڑانے لگا۔ کچھ دور پر اسے ایک جھونپڑی نما مکان نظر آیا۔
”اس طرف۔“ اس نے اشارہ کیا۔ ”وہاں ایک مکان نظر آرہا ہے۔ اس طرف چلا جائے بارش سے بچنے کے لئے۔“
اور بنا کچھ کہے سنے تینوں اس جانب چل پڑے۔
جھونپڑے تک پہنچتے پہنچتے بارش کی بوندیں ٹپاٹپ گرنے لگیں۔ اور اس سے قبل وہ اپنا پہلا قدم اندر رکھتے، ان کے کپڑے آدھے بھیگ گئے تھے۔
”اس عمر میں بھیگنا میرے لئے ٹھیک نہیں۔“ بڑے میاں نے اپنے آپ سے کہا۔ اور جھونپڑے کے اندر جھانک کر دیکھا۔ یہ ایک دیسی شراب خانہ جیسا تھا جس میں توقع کے برخلاف گاہکوں کی کوئی بھیڑ نہیں تھی۔ کچھ لوگ اندر خاموش بیٹھے، لیٹے ہوئے تھے۔ شرا ب خانہ عجب اداسی کا منظر پیش کررہا تھا۔
وہ تینوں جھونپڑے کے چھجے کے نیچے دیوار سے ٹیک لگائے کھڑے ہوئے تھے۔ انہیں اندر جانے میں جھجک ہو رہی تھی۔ بارش جھما جھم ہو نے لگی اور ایک کہرے نے فضا کو اپنے حصار میں لے لیا۔ٹین کے چھجے کے کنارے سے پانی ٹپکنے لگا۔
جوان شخص اوک سے بارش کے پانی کو پینے لگا۔ پانی کا ذائقہ ہلکا میٹھا تھا۔ اس نے داد طلب نگاہوں سے دونوں ساتھیوں کو دیکھا۔ وہ ساکت نگاہوں سے دور خلامیں دیکھ رہے تھے۔ ایک ہی موسم ہر کسی کے لئے ایک جیسا نہیں ہوتا۔
”تو بڑے میاں۔“ اپنی پیاس بجھاتے ہوئے جوان شخص نے، جس کی طبیعت بہت مسرور ہو رہی تھی، بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا۔
”تمہارے گھر میں کو ن کون ہے؟“
بڑے میاں پہلے تو بہت بھنبھنائے کہ وہ اتنے بوڑھے بھی نہیں تھے جتنا انہیں سمجھا جا رہا تھا پھر کھسیا کر بولے۔
”ذرا اپنی زبان کو لگا م دو۔ میرا نام شمشاد ہے اور میں اتنا بھی بوڑھا نہیں ہو ں جتنا تم سمجھ رہے ہو۔“
اس پر جوان شخص کھی کھی کرکے ہنسنے لگا۔ ”اچھا شمشاد بھائی۔ گھر میں اور کون کون ہے؟“اس نے اپنے منھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
”میری بیوی اور تین بچے۔“
”اوہ۔ اور تم۔ تمہارا نام بھائی۔“ اس نے دوسر ے شخص کی طرف تاکتے ہوئے کہا جو ابھی تک آسمان میں بادلوں سے پانی ٹپکتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔
”کشور۔بس ایک ماں ہے۔“اس نے جلدی سے جواب دے کر اپنا پیچھا چھڑایا۔ جوان شخص نے پانی لینے کے لئے اپنی دائیں ہتھیلی پھر باہر نکالی۔ اس بار اس نے گیلی ہتھیلی سے اپنا چہرہ کئی کئی بار صاف کیا جبکہ فی الوقت اس کے چہرے پہ کسی قسم کی کوئی تھکان تھی اور نہ ہی کوئی گرد۔ لیکن کچھ کام انسان بے وجہ بھی تو کرتا ہے۔
جھونپڑے کے اندر سے ایک شخص باہر نکلا اور زور کی انگڑائی لینے کے بعد سوالیہ نظروں سے ان تینوں کو دیکھا۔
”چاہئے کیا؟“ اس نے ہاتھ سے پینے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ”اندر سب ملے گا۔ آؤ۔“
اس پر شمشاد اور کشور سر جھا کر نیچے زمین کو دیکھنے لگے۔ جوان شخص نے اپنی جیب ٹٹولتے ہوئے کہا۔ ”اچھا چلو۔“ اور وہ اندر چلا گیا۔
کوئی آدھ گھنٹہ بعد وہ جھومتے جھامتے دروازہ سے باہر نکلا۔ اس کے منھ سے شراب کی تیز بو آرہی تھی۔
”ایک دم گھٹیا مال۔ کوئی کتا بھی نہ پئے۔“ کشور منھ ہی منھ میں بدبدایا۔ ”مگر سالے سے برداشت نہیں ہوا۔“
شمشاد لاچاری سے آسمان کی طرف دیکھنے لگا جہاں بارش اب تھمی جارہی تھی۔چند ساعتوں میں مطلع صاف ہوگیا اور آسمان یوں خشک ہو گیا گویا صدیوں سے اس نے بارش برسائی ہی نہ ہو۔ ”اب ہمیں چلنا چاہئے۔“ اس نے کشور سے کہا۔ وہ دونوں فوراً چھجے سے باہر آگئے۔شرابی دیوار سے ٹیک لگائے اکڑوں بیٹھا ہوا تھا۔
”مرنے دیتے ہیں اسے یہیں پر۔“ کشور نے دانت پیستے ہوئے کہا۔ ”سالے کو دن دہاڑے پینے کی کیا ضرورت تھی۔“
”ہاں اور کیا۔“ شمشاد نے اپنی دائیں ہتھیلی کھجلاتے ہوئے کہا۔ ”چلو۔“ اور وہ دونوں اپنا سامان اٹھا کر باہر نکل آئے۔
لیکن ابھی وہ چند قدم ہی چلے تھے کہ ا ن کے پیر رک گئے۔ انہیں اس جوان شخص کا خیال آگیا جسے ان دونوں نے اپنی کنسٹرکشن سائیٹ، جہاں وہ کام کرتے تھے، کے آس پاس ہی کسی فٹ پاتھ پردوسرے مزدوروں کے ساتھ رات میں گپ لڑاتے ہوئے، سوتے ہوئے دیکھا تھا۔ گذشتہ روز جب وہ دونوں اپنے گھروں کی جانب نکلے تو راستہ میں ہائی وے کے پاس یہ شخص بھی دھیمے دھیمے قدموں سے چلتا ہوا انہیں نظر آیا۔ دو سے بھلے تین۔سو ان لوگوں نے اسے بھی اپنے ساتھ شامل کرلیا اور اب وہ ان کے ساتھ ہی اپنے گاؤں کو جارہا تھا جہاں موجودہ رفتار سے پہنچنے میں ابھی بھی اسے چار دن لگنے تھے۔چلتے چلتے اس نے دونوں کو اطلاع دی کہ پچھلے ہفتے اس کی بیوی نے تیسری بیٹی کو جنم دیا تھا جس سے ملنے وہ خالی ہاتھ جانے پہ مجبور تھا۔ اگر حالات یوں نہ بدلتے توشاید اس طرح وہ گھر واپس نہ جاتا لیکن اب اس کی جیب میں بمشکل چند روپے تھے جسے بچا کر وہ اپنے ساتھ لے جارہا تھا۔
”پتہ نہیں اس نے کتنی کی پی ہو گی۔“ کشور نے جھونپڑے کی طرف واپس بڑھتے ہوئے کہا۔ ”سالے نے کہیں سارے پیسے اڑا نہ دئے ہوں۔“
”اس کے منھ کی سڑاندھ سے نہیں لگتا کہ اس نے کچھ بھی خرچ کیا ہو گا۔“ شمشاد بولا۔ ”اتنی گندی مہک۔ چھی۔ اس سے بہتر تو بکری کا پیشاب ہے۔“
”تم نے کبھی پیا ہے؟“
”کیا؟“
”بکری کا پیشاب!“ کشور ہنستے ہوئے بولا۔
”میں نے گائے کا پیشاب بھی پیا ہے۔ بتاؤں کیسا لگتا ہے؟“ شمشاد نے جل کر کہا۔ کشور کی ہنسی رک گئی۔
”اوئے۔ اٹھ۔“ کشور نے اس کے گا ل کو تھپتھپاتے ہوئے کہا۔ ”چل چل، اٹھ۔“
شرابی نے سر اٹھا کر کچھ دیر تک دونوں کو پہچاننے کی کوشش کی اور پھر یکلخت مسکرا اٹھا۔
”اوئے میرے پاس اب پیسے نہیں رہے۔“ اس نے ہچکی لے کر ہنستے ہوئے کہا۔
”آجائیں گے۔ سب آجائیں گے۔“ شمشاد اس کے پاس بیٹھتے ہوئے بولا۔ ”چل چل۔ اٹھ۔“
دونوں نے اسے اٹھنے میں مدد کی۔ کچھ دیر تک تو وہ دیوار سے ٹیک لگائے کھڑا رہا پھر اس نے اپنا سر جھٹکا اور آنکھیں ملتے ہوئے ادھر ادھر دیکھا۔
”کہاں ہیں ہم لوگ؟“
”تمہاری اماں کے سسرا ل میں۔“ کشور بھڑک اٹھا۔ ”پانی مار منھ پہ۔ سالا آدھا دن یہیں نکل گیا۔“
کوئی دس منٹ کے بعد جھونپڑے سے تین سایے باہر نکلے۔ شرابی کا نشہ پوری طرح اترا تو نہیں تھا لیکن وہ راستہ پہچان رہا تھا۔ سہ پہر ختم ہونے تک، جب تک سورج نے ایک جمائی لے کر نیند سے بوجھل اپنی پلکیں جھپکانی شروع نہ کیں، وہ تینوں مکمل خاموش رہے۔ جیسے انہوں نے بھی اپنی آوازیں کھو دی ہوں۔
ابھی وہ تینوں ایک ساتھ اپنے پیروں میں تھکان محسوس کرنے ہی لگے تھے کہ انہیں سامنے ایک ریلوے لائن نظر آئی جس کی دوسری طرف کھیتوں کا ایک سلسلہ چلا گیا تھا جہاں ہل چلائی جا چکی تھی۔ کھیتوں کے پار چند جھونپڑیاں تھیں جن سے ہلکا ہلکا دھواں اٹھتا نظر آرہا تھا۔فضا میں بکریوں کے منمنانے کی باریک سی آواز تیر رہی تھی۔
”تمہارے پاس کچھ کھانے کو ہے؟“شمشاد نے زمین پر بیٹھتے ہوئے پوچھا۔ کشور اپنا بستہ ٹٹولنے لگا۔اسے چند سوکھی روٹیاں اور ایک کاغذ میں لپٹا ہوا سوکھا حلوہ ملا۔
”بس یہی کچھ ہے۔“ اس نے چیزوں کو باہر نکالتے ہوئے کہا۔ ”کھا کر آگے چلتے ہیں۔ اب تو کوئی نہ کوئی گاؤں مل ہی جائے گا۔ اتنی دور تک تو آگئے۔“
”اتنی دور۔“ شمشاد ہنستے ہوئے بولا۔ ”کتنی دور۔اگر ہم گاڑی سے آتے تو اتنا فاصلہ ایک گھنٹے میں طے کرلیتے۔ پیدل چلتے وقت ایسا ہی لگتا ہے کہ انسان بہت دور تک آگیا ہے لیکن ایسا ہو تا کہا ں ہے۔“
شرابی، جس کا نشہ اب کسی حد تک اتر گیا تھا، ان دونوں کی باتیں سنتے ہوئے بولا۔
”مجھے کچھ کھانے کو دو۔ مجھے بھوک لگی ہے۔“اس پر دونوں نے اسے تعجب سے دیکھا۔ اسے بھی کھانا چاہئے۔
ایک روٹی میں تھوڑا سا حلوہ لگا کر کشور نے پہلے شمشاد کو بڑھایا، اس کے بعد دوسری روٹی میں حلوہ رکھ کر شرابی کو دیا۔ ایک روٹی خود کے لئے رکھنے کے بعد بھی مزید دو روٹیاں بچی ہوئی تھیں جو اس نے تھیلے میں ر کھ دی کہ رات کی بھوک مٹانے میں کام آئے گی۔
”دیکھیں بوتل میں پانی کتنا ہے۔“ کشوراپنا دوسرا بستہ ٹٹولنے لگا۔ پانی کی دو بوتلیں ابھی باقی تھیں۔ اس نے ایک بوتل نکالی۔ شمشاد نے نوالہ توڑتے ہوئے کہا۔
”پانی کی فکر مت کرو۔ میرے بستہ میں بھی ایک دو بوتل پانی ہو گا۔کل صبح تک کام چل جائے گا۔“
کشور کا ہاتھ رک گیا۔کچھ دیر تک نوالے چبانے کی آوازیں آتی رہیں۔
”پانی کم کم پینا۔“ کشور نے چپڑ چپڑ کی آواز نکالتے ہوئے شمشاد سے کہا جو تیزی سے غٹ غٹ پانی پئے جارہا تھا۔پیاس نے اس کی حالت خراب کردی تھی۔ شرابی نے فوراً اس کے ہاتھ سے بوتل چھین کر اپنے منھ سے لگالی۔ شمشاد نے آستین سے اپنا منھ پونچھا اور زبردستی ڈکار لینے کی کوشش کی۔
حلوہ روٹی کھا کر انہوں نے وہیں زمین صاف کی اور بیٹھ رہے۔ سورج شفق پہ اپنی یادگار چھوڑ گیا تھا۔ ہوائیں اب ذرا کھل کر چلنے لگی تھیں۔ پرندے آسمان میں آزادانہ اڑ رہے گو یا صدیوں بعد انہیں رہائی ملی ہو۔ فضا میں ایک ان چاہا سناٹا تھا۔ بیٹھے بیٹھے اچانک کشور کو کچھ یاد آیا اور اس نے اپنے بستہ میں سے ٹٹول کر بیڑی کا ایک بنڈل نکالا۔ اسے دیکھتے ہی شرابی کی بانچھیں کھل اٹھیں۔
”واہ، واہ۔ خوب۔ لاؤ بھائی لاؤ۔جلدی بڑھاؤ۔“ اس نے فوراً ہی تڑپ کر اپناہاتھ بڑھا یا۔ کشور پہلے تو ذرا جھجکا کہ یہ بیڑی کا آخری بنڈل تھا اور ابھی پوری رات اور اگلے دن اور پھر نہ جانے کتنے دنوں کا سفر باقی تھالیکن شرابی کی آنکھوں میں چمک دیکھ کر اس سے رکا نہ گیا اور اس نے قدرے توقف کے بعد ایک بیڑی اس کی جانب بڑھادی۔ ”جلا کر دو۔“ شرابی نے ہاتھ پیچھے کرتے ہوئے کہا۔ کشور نے اپنی بیڑی سے دوسری بیڑی جلاکر اسے تھما دیا۔ وہ لمبے لمبے کش لینے لگا۔
شمشاد نے بھی ملتجیانہ نظروں سے کشور کو دیکھا۔ اس نے ایک اور بیڑی جلا کر اس کی طرف بڑھا دی اور خاموشی نے ایک طویل چادر ان کے سروں پر تان دی۔
بیٹھے بیٹھے تینوں کی کب آنکھ لگ گئی پتہ بھی نہیں چلا۔ اچانک شرابی نے، جو اکڑوں بیٹھے بیٹھے سو گیا تھا، ایک جانب کو لڑھک گیا۔ وہ ہڑ بڑا کر اٹھا۔ چاروں طرف گھپ اندھیرا دیکھ کر ایک پل کو تو وہ ششدر رہ گیا لیکن پھر آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ایک سمت دیکھنے کی وجہ سے چند ساعتوں میں ہی اندھیرااس کے لئے اجالا بن گیا۔ اسے زوروں کی پیشاب محسوس ہوئی۔ وہ اٹھ کر ذرا آگے جھاڑیوں کے نزدیک چلا گیا۔
گھاس پہ پیشاب کی تیز دھار گرنے سے پیدا ہونے والی آواز سن کر کشور نے اپنی آنکھیں کھولیں۔ سر پر چمکتے چاند اور چاروں طر ف اندھیرے کی تنی ہوئی چادر کو دیکھ کر وہ بھی کچھ دیر کو بوکھلا گیا۔ لیکن فوراً ہی اسے سارے معاملات سمجھ میں آگئے۔ اس نے ایک نظر شرابی کو دیکھا جو کھڑے کھڑے پیشاب کررہا تھا اور پھر شمشاد کا کندھا پکڑ کر جھنجھوڑا۔ ”اٹھ۔ ابے اٹھ۔“ شمشاد نے کسمساتے ہوئے اپنی آنکھیں کھولیں اورایک لمبی سی جمائی لی۔
”مجھے بہت نیند آرہی ہے۔“ اس نے اپنی کمر کھجاتے ہوئے کہا جہاں ابھی ابھی ایک مچھر اسے کٹ کر بھاگا تھا۔ ”مجھے سونا ہے۔“
”ہم یہاں نہیں سو سکتے۔ یہاں کی زمین گیلی ہے اور ہمارے پاس بچھانے کے لئے بھی کچھ خاص نہیں ہے۔صبح تک تو ہم لوگ کیچڑ میں لت پت ہوجائیں گے“کشور بولا۔
”اور گندگی بھی بہت ہے۔“ شرابی اپنی پتلون میں ہاتھ صاف کرتے ہوئے بولا۔
”تو پھر کہاں سوئیں۔ مجھے بہت زیادہ نیند۔۔“ شمشا د نے جمائی لینے کے لئے منھ پھاڑتے ہوئے کہا۔
”وہاں چلیں۔“ شرابی نے ریلوے ٹریک کی طرف اشارہ کیا۔ ”کھی۔ کھی۔۔ سب سے بہتر یہی جگہ ہے۔“
کوئی اور وقت ہوتا تو دو جھانپڑ ما ر کر شرابی کا سارا نشہ کافور کردیا جاتا۔ لیکن سب کی طرح وہ بھی جانتے تھے کہ ٹرین کی سروس ان دنوں معطل تھی۔ یوں بھی یہ ایک غیر آباداور سنسان ٹریک معلوم ہوتا تھا جہاں سے عام دنوں میں شاذ و نادر ہی کوئی ٹرین گذرتی ہو۔ شمشاد نے اپنے کندھے اچکائے اور اٹھ کھڑا ہوا۔ کشور ابھی بھی سوچ رہا تھا۔
کسی نے کسی سے نہ کچھ کہا اور نہ کچھ سنا۔ ا ن کی زندگی یوں بھی کسی موت کی آس میں اپنے سر پہ دونوں ہاتھ دھرے بیٹھی ہوئی تھی۔ وہ اتنے مجبور تھے کہ اپنی مرضی سے مر بھی نہیں سکتے تھے۔ سو انہوں نے خاموشی سے اپنے بستے اٹھائے، اپنی قسمت کو سلام کیا اور اپنے بستے کو تکیہ بنا کر،پیر پھیلا کر اطمینان سے ٹریک پر لیٹ گئے۔ شمشاد اور کشور کو لیٹتے ہی نیند آگئی البتہ شرابی، جس کا نشہ گھنٹوں ہوئے اتر چکا تھا لیکن جسے ہماری اس کہانی میں شرابی ہی کہلایا جانا پسند تھا، وہ اپنے دائیں ہاتھ پہ سر رکھے چاند کو تاکتا رہا جو کسی وجہ سے ٹھیک اس کے سر پہ چمک رہا تھا۔
”بہت بڑا چاند ہے۔“ اس نے خود سے کہا۔”ایک دم گول۔ تندوری روٹی کی طرح۔“
”بس وہی مرغے کی ایک ٹانگ۔“ چاند جھلا گیا۔ ”تم لوگوں کو روٹی کے علاوہ اور کچھ سوجھتا ہی نہیں۔ایں۔ ہر جگہ روٹی۔“
”تم ہی بتادو اگر اتنی جانکاری ہے تمہیں تو۔“
”میں تمہیں دودھ کا بھرا ہوا پیالہ نظر نہیں آتا۔“
”اگر پیالے میں دودھ ہوتا تو اب تک آسمان سے گر چکا ہوتا۔ ہی ہی ہی۔“
چاند چپ ہو گیا۔ خاموشی کی آہٹ پا کر جگنو ؤں کی ایک ڈارآس پاس فضا میں تیرنے لگے۔ شرابی کی آنکھیں بوجھل ہونے لگیں۔ اس نے بیس سال کی اپنی کم سن بیوی کو یاد کیا جس نے چار سال میں خاموشی سے تین لڑکیوں کو جنم دیا تھا۔ اس کی بیوی، جسے وہ کبھی کوئی خاص خوشی نہ دے سکا لیکن جس نے اس سے کبھی شکایت بھی نہیں کی۔وہ واپس جاتے وقت اس کے لئے ایک چنری سوٹ لے جانا چاہتا تھا جو اس نے شہر کی سب سے بارونق گلی میں واقع ایک چمچماتی ہوئی دکان میں دیکھا تھا۔ لیکن اس کی قیمت۔ اس کی قیمت وہ بھول گیا اور پھر اس کے پاس پیسے بھی تو نہیں تھے۔
وہ خود میں ہنسا۔ پھر اسے اپنی دونوں بیٹیاں یاد آئیں جو اس کی گود میں کبھی زیادہ دیر تک نہیں رہتی تھیں بالخصوص اس کی دوسری بیٹی تو اکثر اس کے کپڑے خراب کردیا کرتی تھیں۔ اور اس کی تیسری بیٹی جس کا اس نے ابھی چہرہ دیکھا نہیں تھا، جانے اس کی شکل کس سے ملتی ہوگی۔ اس بار وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کی تیسری بیٹی بھی اپنی ماں کی شباہت پہ جائے۔خیر یہ نہ بھی ہوا تو کوئی ایسی بات نہیں مگربہرحال اس کا نام اس کی دونوں بہنوں سے بالکل ہی الگ رکھا جائے گا۔ایک ایسا نام جو۔۔جو۔۔
کئی باراس کی پلکیں بندہوئیں لیکن ہر بار اس نے خود کو جگائے رکھنا چاہا۔اسے محسوس ہوا کہ آج اسے بہت ساری باتیں یاد آنے والی ہیں۔ لیکن۔
اس کا سر ایک طرف کو ڈھلک گیا اور وہ لمبے لمبے خراٹے لینے لگا۔ دو چار جگنو اس کے چہرے کے اوپر کچھ دیر تک منڈلایا کئے اور پھر آگے بڑھ گئے۔
رات کے پچھلے پہرگاؤں کا ایک شخص پیشاب کرنے اپنی جھونپڑی سے باہر نکلا اور سامنے جھاڑیوں میں بیٹھ گیا۔ ابھی اس نے ختم نہیں کیا تھا کہ اسے فضا میں سیٹی کی تیز آواز سنائی دی۔ وہ جلدی جلدی فارغ ہو کر اٹھا اور آواز کی سمت دیکھنے لگا۔
ایک ٹرین تیز رفتاری سے پٹریوں پر دوڑی جارہی تھی۔
————————————————
دائم محمد انصاری، کلکتہ ۔ انڈیا