(Last Updated On: )
جوں ہی دیوار پر آویزاں گھڑی نے نصف شب کا گجر بجایا ،وہ کتاب بند کر کے اسٹڈی ٹیبل سے اٹھا،تھکن سے چور اس کے جسم نے انگڑائی لی۔ وہ پچھلے تین گھنٹوں سے یو پی ایس سی گائیڈکا مطالعہ کر رہا تھا۔کمرے کی لائٹ بند کرکے زیرو پاور کا بلب جلا کروہ بستر پر لیٹ گیا اور موبائل فون پر مصروف ہو گیا۔وہ مختلف سوشل میڈیا کو استعمال کرنے میں ماہر تھامگر اس کا زیادہ تر وقت فیس بک پر صرف ہوتا تھا۔
کچھ دیر وہ فیس بک پر موجود نوٹیفیکیشنز اور پوسٹس دیکھتا رہا۔پھرجان محمد نامی اپنے اکاؤنٹ کی وال میں جا کر ٹائپ کرنے لگا ۔
’آپ کی رائے میںحضرت ابوبکرؓ اور حضرت علیؓ میں کون افضل ہیں ؟ ‘
کچھ دیر میںاس کی پوسٹ فیس بک کے ہزاروں لاکھوں لوگوں تک پہنچ چکی تھی۔پوسٹ کرنے کے بعد اس نے موبائل فون بند کر کے بسترکی سائیڈ ٹیبل پررکھا تو اس کی نظر ٹیبل پر موجودایک فریم شدہ تصویر پر پڑی ۔کچھ لمحے وہ اس تصویر کو عقیدت کی نظروں سے دیکھتا رہا ، پھر آنکھیں موندکر سو گیا۔
صبح یونیورسٹی کے لئے نکلنے سے قبل ناشتے کے دوران جب اس نے اپنا فیس بک اوپن کیا تو نوٹیفیکیشنز کی بھرمار تھی۔اس کی کل رات والی پوسٹ پرکئی نوجوان کمنٹ باکس میں ایک دوسرے سے بھڑ گئے تھے۔گالی گلوچ کی نوبت بھی آگئی تھی۔ عبدالرحیم نامی نوجوان نے تو قتل کی دھمکی تک دے ڈالی۔جبار نامی ایک نوجوان نے ماں بہن کی ساری گالیاں لکھ ڈالیں۔ ہر ایک فریق اپنی بات کوصحیح ثابت کرنے کے لئے دلائل پیش کر رہا تھا۔کافی دیر تک نوجوانوں میں بحث چلتی رہی اور مسلکی اختلافات کی آگ سلگتی رہی۔
اس کاناشتہ ختم ہوا مگر اس پوسٹ پر مسلسل کمنٹس آرہے تھے۔ اس نے چند ایک کمنٹس پڑھے مگر کسی کمنٹ پر اپنا ردعمل ظاہر نہیں کیا۔شاید وہ مزید اختلاف نہیںپیدا کرنا چاہتا تھااس لئے موبائل فون بند کر کے یونیورسٹی کے لئے نکل گیا۔
سارا دن وہ اپنی تعلیمی مصروفیات میں مگن رہا۔یونیورسٹی کا وقت ختم ہونے کے بعد وہ پرائیویٹ کوچنگ کلاسز لے رہا تھا۔گریجویشن مکمل ہونے کے بعدسے ہی وہ سول سرویس امتحان کی تیاری میں مصروف تھالہذٰا اس کا شیڈول بہت بزی تھامگر اتنی مصروفیات کے باوجودوہ سوشل میڈیا کے لئے بھی کچھ وقت نکال ہی لیتا تھا۔
وہ اپنے مذہبی افکار سے سختی سے جڑا ہوا تھا اور اپنے عقائد پر مضبوطی سے قائم تھااس لئے تعلیمی مصروفیات کے باوجودوہ اکثر سوشل میڈیا پر مذہبی معاملات پر پیغامات پوسٹ کرتا رہتاتھا ،اپنے خیالات کا اظہار کرتا رہتا تھا۔مگر جب بھی وہ کچھ پوسٹ کرتا ، فیس بک صارفین کے درمیان جنگ سی چھڑ جاتی۔
پچھلے ہفتے بھی اس نے اپنی فیس بک وال پر پوسٹ کیا تھا کہ’ تین طلاق کا طریقہ ،کتنا صحیح اور کتنا غلط‘۔تب بھی بہت زوردار بحث چھڑ گئی تھی۔اس وقت بھی اس نے چند ایک کمنٹس پڑھے تھے اور پھر اپنے کا م میںمشغول ہوگیا تھا کیوں کہ طلاق کے مسٔلے پر بحث کرتے کرتے مسلم عورتوں کے کردار پر کیچڑ اچھالا جانے لگا تھا۔کسی نے حلالہ کے نام پر مولویوں کو گالیوں سے نوازا تو کسی نے مسلم عورتوں کی حق تلفی کا رونا رویا۔
یہ سب مہینوں چلتا رہتا۔وہ کبھی کسی کے کمنٹ پر ردو قبول کی مہر ثبت نہیں کرتا تھا،دوسروں کے کمنٹ کا کبھی جواب نہیں دیتا تھا کیوں کہ مسٔلہ یہ تھا کہ دینی معاملات پر بحث کرتے کرتے نوجوان ایک دوسرے پر رکیک حملے کرنے لگتے، ایک دوسرے کوفحش کلمات سے نوازتے ،جس سے وہ ہمیشہ بچنے کی کوشش کرتا۔
ایک بار تو معاملہ پولیس اسٹیشن تک جا پہنچا تھا ۔اس وقت وہ بہت خوف زدہ ہو گیا تھا۔حالانکہ ہمیشہ کی طرح اس نے بحث میں حصہ لیا تھا نہ کسی کے خلاف کچھ کہا تھا۔پھر بھی ایک گھبراہٹ کی کیفیت اس پر ہمیشہ طاری رہتی تھی۔بات دراصل یہ تھی کہ کچھ ماہ قبل جب اس نے پوسٹ کیا تھا کہ مسجد میں عورتوں کو داخلے کی اجازت ہونی چاہئے یا نہیں ؟تواس پر بھی کئی ہفتے بحث چلی تھی ۔ دینی فکر و جذبہ رکھنے والے سینکڑوں نوجوانوں نے ہزاروں میسیج کر ڈالے ،سینکڑوں دلائل پیش کر ڈالے، مگر کوئی بھی ایک دوسرے کو مطمئن نہیں کر پایااور بحث کا نتیجہ صفر رہا۔
پھر وہی ہوا جو ہمیشہ ہوتا تھا۔اس پوسٹ پر مسلسل کمنٹس آتے رہے اور بات بڑھتے بڑھتے اوچھی سطح تک پہنچ گئی۔ گالیوں کی بوچھار ، عورتوں کی کردار کشی کی کوشش۔ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش۔ایک دوسرے کے عقائد کا مضحکہ اڑانا ۔ ایک دن بحث اتنی بڑھ گئی کہ ساجد نامی نوجوان نے عمر فاروق نام کے ایک عالمِ دین پر کیس درج کروایا ۔کیس درج ہونے کے بعد وہ خاصا ڈر گیا تھا کیوں کہ اسی کی فیس بک وال پر یہ سب ہو رہا تھا اور تفتیش کے دوران پولیس اس سے بھی ضرور پوچھ تاچھ کرتی ۔بعد ازاںطرفین کے ذمہ داران کے بیچ بچاؤ سے معاملہ رفع دفع ہو گیا تو اس نے راحت کی سانس لی۔
کچھ لوگوں نے اسے بھی جان سے مارنے کی دھمکی دی کہ وہ ہمیشہ آگ لگا کر غائب ہو جاتا ہے اور کبھی اپنا موقف پیش نہیں کرتا ۔ بعض لوگوں نے اسے پرسنلی میسیج کر کے بھی پوچھا کہ دینی معاملات پر پوسٹ کرنے کے بعد وہ کیوں بحث سے اجتناب برتتا ہے۔ مگر وہ کسی کے میسیج کا جواب نہیں دیتا تھا کیوں کہ وہ دن رات اسٹڈی میں مصروف رہتاتھا۔ان سب بکھیڑوں میں پڑ کر وہ اپنا وقت ضائع نہیں کرتا تھا۔کبھی کبھار کسی میسیج کا جواب دیتا توبس اتنا لکھتا کہ پوسٹ کرنے کا اس کا مقصد محض سچائی کی تلاش کرنا اور ایک عام رائے بنانا ہوتا ہے ۔ بحث و مباحثہ کرنا نہیں۔
ایک شام جب وہ اپنی کوچنگ کلاسز اٹینڈ کر کے گھر لوٹا تو اس کی ماں نے اس کے ہاتھ میں ایک لفافہ تھما دیا۔لفافے پر ایک غائرانہ نظر ڈالتے ہی ایک موہوم سی تمنا اس کے اندر انگڑائیاں لینے لگی،امیدوں کے چراغ اس کے اندر روشن ہونے لگے۔جلدی جلدی فریش ہو کر وہ اپنے کمرے میں آیا ۔تب تک اس کے کمرے میں گرماگرم چائے آچکی تھی۔دھڑکتے دل کے ساتھ اس نے لفافہ کھولا اور چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے خط پڑھنے لگا جس کانفسِ مضمون یہ تھا۔
’ہماری قوم پرست تنظیم کے لئے رضاکارانہ طور پر شاندار اور منصوبہ بند طریقے سے کام کرنے پر آپ کو ہماری تنظیم کی صوبائی شاخ کا صدر منتخب کیا گیا ہے ۔اتنی کم عمری میں آپ نے خود کو ہماری تنظیم کے لئے وقف کیا ہے یہ یقینا قابلِ ستائش ہے۔امید ہے کہ ہمارے ملک کو دنیا کے لئے رول ماڈل بنانے اور اس کے افتخار کو قائم کرنے کے لئے آپ ہمیشہ اس تنظیم سے جڑے رہیں گے اور اپنا بھرپور تعاون پیش کرتے رہیںگے۔ تنظیم کے یومِ تاسیس کے موقع پر آپ کو صدق دل سے مدعو کیا جاتا ہے۔ممکن ہے کہ یومِ تاسیس کی تقریب کے دوران ہمارا شہر ترش سنتروں سے آپ کی ضیافت کرے، مگرہم امید کرتے ہیں کہ پروگرام میںآپ کی شرکت سے آپ کے دل میں ہمارے لئے مٹھاس اوربڑھ جائے گی۔شکریہ‘
خط پڑھ وہ خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا۔فرطِ مسرت سے اس کا چہرہ تمتما رہا تھا۔ایسا لگ رہا تھا جیسے اس کی کسی دیرینہ خواہش کی تکمیل ہوئی ہے۔گرم جوشی کے ساتھ من ہی من اس نے اپنے عزائم کا اعادہ کیااورخط کو بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا۔ سائیڈ ٹیبل کے کنارے پر گول فریم کا چشمہ اورسر پر سیاہ ٹوپی پہنے شخص کی تصویر رکھی ہوئی تھی ۔اس نے تصویر کو ہاتھ میں لے کر عقیدت سے چومااور احتیاط سے واپس ٹیبل پر رکھ دیا۔ پھر ماں کو کھانا لانے کے لئے آواز دی اور بستر پر دراز ہو کر موبائل فون میں فیس بک کی نوٹیفیکیشنز چیک کرنے لگا، کمنٹس پڑھنے لگا۔ آج کمنٹس پڑھنے کے دوران اس کے چہرے پر خفیف سی مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔پھر یکایک اس کی انگلیاں کی پیڈ پر تھرکنے لگیں ۔
’رفع یدین سنت ہے یا واجب؟‘
اپنی فیس بک وال پر یہ لکھنے کے دوران دھیرے دھیرے اس کے چہرے پر نیرنگی کے آثار نمایاں ہورہے تھے۔ اتنا لکھ کر اس نے ’پوسٹ‘ پر انگلی سے پریس کیا تو منٹوں میں کمنٹس آنے شروع ہوئے،دلائل کے انبار لگنے لگے، پھر دھیرے دھیرے بحث میں اختلاف اور تکرار کے رنگ اترنے لگے۔اس کے بعد کیا ہونے والا تھاوہ بخوبی جانتا تھا اس لئے اس نے موبائل فون کو بستر پر اچھال دیا اورڈنر کا انتظار کرنے لگا۔
٭٭٭