عالمی ادب کے اردو تراجم (انتخاب افسانہ)
تحریر: آسکر وائلڈ (آئرلینڈ)
ترجمہ: عظیم احمد
”اس نے کہا ہے کہ اگر میں اس کے لئے سرخ گلاب لے آﺅں تو وہ میرے ساتھ رقص کرے گی۔“ نوجوان طالب علم چلایا۔ ”لیکن میرے سارے باغ میں کوئی سرخ گلاب نہیں ہے۔”
شاہ بلوط کے درخت میں اپنے گھونسلے میں بیٹھی بلبل نے اس کی آواز سنی اور حیران ہو کر پتوں سے باہر جھانکنے لگی۔
”پورے باغ میں کوئی سرخ گلاب نہیں۔“ وہ پھر چلایا اور اس کی خوبصورت آنکھیں نم ہونے لگیں۔ ”آہ، خوشی کتنی چھوٹی چھوٹی چیزوں پر منحصر ہوتی ہے۔ میں نے عاقلوں کے قلم سے نکلنے والا ایک ایک لفظ پڑھا ہے اور فلسفے کے تمام رموز سے واقف ہوں، لیکن ایک سرخ گلاب کی کمی نے میری زندگی تہ و بالا کر دی ہے۔“
”بالآخر ایک سچا عاشق دکھائی دیا۔“ بلبل نے کہا۔ ”ہر رات میں نے اس کے گیت گائے ہیں لیکن کبھی اسے دیکھا نہیں۔ ہر رات میں نے ستاروں کو اس کی کہانی سنائی ہے اور اب میں اسے دیکھ رہی ہوں۔ اس کے بال سنبل کے شگوفے کی مانند سیاہ ہیں اور اس کے ہونٹ اس کی طلب کے گلاب کی طرح سرخ ہیں، لیکن جذبات نے اس کے چہرے کو زرد ہاتھی دانت کی سی پیلاہٹ دے دی ہے اور غم نے اس کی پیشانی پر اپنی مہر لگا دی ہے۔“
”کل رات شہزادے کی طرف سے دعوتِ رقص کا اہتمام ہوگا۔“ نوجوان طالب علم بڑبڑایا۔ ”اور میری محبوب بھی وہاں جائے گی۔ اگر میں اس کے لئے ایک سرخ گلاب لے گیا تو میں اسے اپنی باہوں میں لوں گا اور وہ میرے کندھے پر اپنا سر رکھے گی اور اس کا ہاتھ میرے ہاتھ میں ہوگا، لیکن میرے باغ میں کوئی سرخ گلاب نہیں ہے، اس لئے میں تنہا بیٹھا رہوں گا اور وہ میرے پاس سے گزر جائے گی۔ وہ مجھ پر مطلق التفات نہ کرے گی اور میرا دل ٹوٹ جائے گا۔“
”یقینا یہ ایک سچا عاشق ہے۔“ بلبل نے کہا۔ ”جس جذبے کے میں گیت گاتی ہوں، یہ اس کا شکار ہے۔ جو میرے لئے طرب ہے، اس کے لئے کرب ہے۔ یقینا محبت ایک نرالی چیز ہے۔ یہ زمردوں سے زیادہ مہنگی اور ہیروں سے زیادہ قیمتی ہے۔ موتیوں اور اناروں سے اسے خریدا جا سکتا ہے نہ ہی یہ کسی بازار میں بکتی ہے۔ اسے سوداگروں سے مول لیا جا سکتا ہے نہ ہی زرگروں کے ترازو میں تولا جا سکتا ہے۔“
”موسیقار اپنی غلام گردش میں بیٹھیں گے۔“ طالب علم نے کہا۔ ”اور اپنے تاردار ساز بجائیں گے۔ میری محبوب چنگ و رباب کی لے پر رقص کرے گی۔ اس کا رقص اتنا سبک ہوگا کہ اس کے پاﺅں زمین کو نہ چھوئیں گے اور زرتار عباﺅں میں ملبوس دربار کے امراءاس کے گرد پّرے باندھ دیں گے…. لیکن وہ میرے ساتھ رقص نہیں کرے گی کیونکہ میرے پاس اسے دینے کو ایک بھی سرخ گلاب نہیں۔“ وہ گھاس پر جا گرا اور ہاتھوں سے اپنا چہرہ چھپا کے رونے لگا۔
”یہ کیوں رو رہا ہے؟“ ایک ننھے سبز کرلے نے دم ہوا میں اٹھائے بھاگ کر اس کے پاس سے گزرتے ہوئے پوچھا۔
”ہاں ہاں، کیوں؟“ ایک تتلی نے سورج کی کرن کے گرد پھڑپھڑاتے ہوئے کہا۔
”واقعی، کیوں؟“ ایک پھول نے ہولے سے اپنے پڑوسی سے سرگوشی کی۔
”یہ ایک سرخ گلاب کے لئے رو رہا ہے۔“ بلبل نے کہا۔
”ایک سرخ گلاب کے لئے؟“ وہ سب چلائے۔ “کیسی احمقانہ بات ہے! ” اور ننھا سبز کرلا جو کچھ زیادہ شوخ واقع ہوا تھا، کھلکھلا کر ہنس پڑا۔
لیکن بلبل طالب علم کے غم کی حقیقت سے واقف تھی۔ وہ خاموشی سے اپنے گھونسلے میں بیٹھی رہی اور محبت کے اسرار پر غور و فکر کرتی رہی۔
اچانک اس نے اپنے پر پھیلائے اور پرواز کر گئی۔ وہ ایک سائے کی مانند درختوں کے جھنڈ سے گزری اور سائے کی مانند تیرتی ہوئی باغ کے دوسرے سرے پر جا پہنچی۔
ایک گھاس کے قطعے کے وسط میں، گلاب کا ایک خوبصورت پودا کھڑا تھا۔ جب بلبل نے اسے دیکھا تو اس کے اوپر جا پہنچی اور ایک ہری بھری ٹہنی پر بیٹھ گئی۔
”مجھے ایک سرخ گلاب دے دو۔” بلبل نے کہا۔ “میں تمہیں اپنا سب سے میٹھا نغمہ سناﺅں گی۔“
لیکن پودے نے نفی میں سر ہلا دیا۔
”میرے گلاب سفید ہیں۔” اس نے کہا۔ “سمندر کی جھاگ جیسے سفید اور پہاڑوں پر پھیلی ہوئی دھوپ سے زیادہ سفید۔ تم میرے بھائی کے پاس جاﺅ جو پرانی دھوپ گھڑی کے پاس کھڑا ہے۔ شاید وہ تمہاری طلب پوری کر سکے۔“
چنانچہ بلبل اڑ کر گلاب کے اس پودے کے پاس جا پہنچی جو پرانی دھوپ گھڑی کے پاس کھڑا تھا۔
”مجھے ایک سرخ گلاب دے دو۔” بلبل نے کہا۔ “میں تمہیں اپنا سب سے میٹھا نغمہ سناﺅں گی۔“
لیکن پودے نے نفی میں سر ہلا دیا۔
”میرے گلاب زرد ہیں۔” اس نے کہا۔ “گہرے زرد تخت پر بیٹھنے والی کنواری جل پری کے بالوں کی طرح زرد اور سبزہ زار میں کھلنے والے نرگس کے پھولوں سے زیادہ زرد جو گل چیں کے آنے تک لہلہاتے رہتے ہیں۔ تم میرے بھائی کے پاس جاﺅ جو طالب علم کے کمرے کی کھڑکی کے نیچے کھڑا ہے۔ شاید وہ تمہاری طلب پوری کر سکے۔“
چنانچہ بلبل اڑی اور گلاب کے اس پودے تک جا پہنچی جو طالب علم کے کمرے کی کھڑکی کے نیچے کھڑا تھا۔
”مجھے ایک سرخ گلاب دے دو۔” بلبل نے کہا۔ “میں تمہیں اپنا سب سے میٹھا نغمہ سناﺅں گی۔“
لیکن پودے نے نفی میں سر ہلا دیا۔
”میرے گلاب سرخ ہیں۔” اس نے کہا۔ “فاختہ کے پیروں کی طرح سرخ اور سمندر کی غاروں میں لہراتے رہنے والے مونگے کے بڑے بڑے پنکھوں سے زیادہ سرخ…. لیکن ٹھنڈ نے میری رگوں کو سرد کر دیا ہے اور کہرے نے میری کلیوں کو کاٹ کھایا ہے اور طوفان نے میری ٹہنیاں توڑ ڈالی ہیں۔ اس سال مجھ پر کوئی گلاب نہ آئے گا۔“
”میری طلب صرف ایک سرخ گلاب کی ہے۔” بلبل نے کہا۔ “صرف ایک سرخ گلاب کی۔ کیا اسے حاصل کرنے کا کوئی راستہ نہیں؟“
”ایک راستہ ہے۔” پودے نے جواب دیا۔ “لیکن وہ اتنا خوفناک ہے کہ میں تمہیں بتانے کی ہمت نہیں رکھتا۔“
”بتاﺅ مجھے۔” بلبل نے کہا۔ “میں خوفزدہ نہیں۔“
”اگر تمہیں سرخ گلاب چاہئے۔” پودے نے کہا۔ “تو تمہیں اسے چاند کی روشنی میں موسیقی سے تخلیق کرنا ہوگا اور اس میں رنگ بھرنے کے لئے اپنے دل کا لہو دینا ہوگا۔ تم کانٹے پر اپنا سینہ رکھ کر مجھے گیت سناﺅ گی۔ تمام رات تمہیں مجھے گیت سنانا ہوگا اور کانٹا تمہارے دل میں اترنا چاہئے۔ تمہارا حیات آفریں لہو میری رگوں میں دوڑے گا اور میرا بن جائے گا۔“
” زندگی کے بدلے ایک سرخ گلاب کا سودا بہت مہنگا ہے۔” بلبل چلائی۔ “اور زندگی سب کو بہت عزیز ہوتی ہے۔ سرسبز درختوں کے بیچ بیٹھ کر سورج کو اپنے سونے کے رتھ اور چاند کو اپنی موتی کی بگھی میں سفر کرتے دیکھنا اچھا لگتا ہے، چمن میں کھلے پھولوں کی خوشبو میٹھی ہے اور وادی میں چھپے پھولوں کی خوشبو میٹھی ہے اور پہاڑ پر لہلہانے والے پھولوں کی خوشبو میٹھی ہے…. پر محبت زندگی سے بہتر ہے اور ایک انسان کے دل کے مقابلے میں ایک پرندے کے دل کی کیا وقعت ہے؟“
اس نے پر پھیلائے اور ہوا میں بلند ہو گئی۔ ایک سائے کی مانند تیرتی ہوئی وہ باغ پر سے گزری اور ایک سائے کی مانند درختوں کے جھنڈ میں سے گزر گئی۔
نوجوان طالب علم ابھی تک اسی جگہ پڑا تھا جہاں وہ اسے چھوڑ کر گئی تھی اور اس کی حسین آنکھوں کے آنسو ابھی تک خشک نہ ہوئے تھے۔
”خوش ہو جاﺅ۔” بلبل نے پکار کر کہا۔ “خوش ہو جاﺅ۔ تمہیں سرخ گلاب مل جائے گا۔ میں اسے چاند کی روشنی میں بیٹھ کر موسیقی سے تخلیق کروں گی اور اپنے دل کے لہو سے اس میں رنگ بھروں گی۔ اس کے بدلے میں تم سے صرف اتنا چاہتی ہوں کہ اپنی محبت میں سچے رہنا کیونکہ محبت فلسفے سے زیادہ پُرحکمت ہے اگرچہ فلسفہ بھی پُرحکمت ہے اور محبت طاقت سے زیادہ طاقتور ہے اگرچہ طاقت بھی طاقتور ہے۔ اس کے پر شعلہ رنگ ہیں اور اس کے جسم میں شراروں کی جھلک ہے۔ اس کے ہونٹوں میں شہد کی حلاوت ہے اور اس کے سانسوں میں عطر کی مہک ہے۔“
طالب علم نے چہرہ اٹھا کر اوپر کی طرف دیکھا اور سنتا رہا لیکن سمجھ نہ پایا کہ بلبل اس سے کیا کہہ رہی ہے کیونکہ وہ انہی چیزوں کو سمجھتا تھا جو کتابوں میں لکھی ہوئی تھیں۔
لیکن شاہ بلوط کا درخت سب سمجھ رہا تھا اور وہ اداس تھا کیونکہ اسے اس ننھی سی بلبل سے انس ہو گیا تھا جس نے اس کی شاخوں میں اپنا آشیانہ بنایا تھا۔
”مجھے ایک آخری گیت سنا دو۔” اس نے سرگوشی کی۔ “تمہارے جانے کے بعد میں خود کو بہت تنہا محسوس کروں گا۔“
چنانچہ بلبل نے اسے گیت سنایا۔ اس کی آواز یوں ابلی جیسے چاندی کے مرتبان سے پانی بلبلے بناتا باہر ابل رہا ہو۔
جب اس کا گیت ختم ہوا تو طالب علم اٹھا اور اپنی جیب سے ایک سادہ بیاض اور پنسل نکال لی۔
”اس کے پاس انداز ہے، اس سے انکار نہیں۔” اس نے جھنڈ سے گزر کر پرے جاتے ہوئے کہا۔ “لیکن کیا اس کے پاس احساس بھی ہے؟ افسوس کہ نہیں ہے۔ درحقیقت یہ بھی زیادہ تر فنکاروں کے جیسی ہے۔ اس کے پاس ناز و انداز تو ہے لیکن خلوص نہیں۔ یہ دوسروں کے لئے خود کو قربان نہیں کرے گی۔ یہ صرف موسیقی کے بارے میں سوچتی ہے اور سب جانتے ہیں کہ فنکار خودغرض ہوتے ہیں۔ پھر بھی، یہ اعتراف کیا جانا چاہئے کہ اس کی آواز میں چند مدھر سُر ہیں۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ یہ سُر معنی رکھتے ہیں نہ عملی بہتری کا کوئی کام کرتے ہیں۔“
وہ اپنے کمرے میں داخل ہوا اور بستر پر لیٹ کر اپنی محبوبہ کے بارے میں سوچنے لگا۔ کچھ دیر بعد اس کی آنکھ لگ گئی۔
اور جب آسمانوں میں چاند چمکنے لگا تو بلبل گلاب کے پودے کے پاس پہنچی۔ اس نے اپنا سینہ کانٹے پر رکھ دیا۔ تمام رات، کانٹے پر سینہ جمائے، وہ گاتی رہی۔ سرد بلوری چاند نیچے جھک آیا اور گیت سنتا رہا۔ تمام رات وہ گاتی رہی اور کانٹا آہستہ آہستہ اس کے سینے میں دھنستا رہا اور اس کا لہو رستا رہا۔
اس نے پہلے ایک لڑکے اور لڑکی کے دل میں محبت کے جنم کے گیت گائے اور پودے کی سب سے اوپر والی ٹہنی پر ایک خوبصورت پھول کھلنے لگا۔ ایک کے بعد ایک گیت پھوٹتا گیا اور ایک کے بعد ایک پتی کھلتی گئی۔ پہلے اس کا رنگ زرد تھا۔ دریا کے اوپر منڈلانے والی دھند کی طرح زرد اور آنے والی صبح کے قدموں کی طرح زرد…. اور نقرئی تھا۔ صبح کی پہلی کرن کے پروں کی طرح نقرئی۔ چاندی کے آئینے میں نظر آنے والے گلاب کے عکس کی طرح، حوض کے پانی میں پڑنے والے گلاب کے عکس کی طرح، پودے کی شاخ پر کھلنے والا پھول بھی عکس کی طرح ہی تھا۔
پودے نے چلا کر بلبل سے قریب آنے کو کہا۔ اور قریب آﺅ ننھی بلبل۔” اس نے کہا۔ “ورنہ گلاب کے مکمل ہونے سے پہلے دن طلوع ہو جائے گا۔“
چنانچہ بلبل اور نزدیک ہو گئی۔ کانٹا اس کے سینے میں اور گہرا اتر گیا۔ اس کا نغمہ بلند سے بلند تر ہوتا گیا، اس لئے کہ وہ ایک نوجوان اور ایک دوشیزہ کی روح میں پھوٹنے والے نرم جذبوں کے گیت گا رہی تھی۔
گلاب کی پتیوں میں ہلکی ہلکی سرخی اترنے لگی۔ دولہا کے چہرے پر اس وقت آنے والی حیا کی سرخی جیسی سرخی، جب وہ اپنی دلہن کے ہونٹوں پر پہلا بوسہ دیتا ہے…. لیکن کانٹا ابھی تک بلبل کے دل تک نہ پہنچا تھا چنانچہ گلاب کا دل اب بھی سفید تھا کیونکہ صرف بلبل کے دل کا لہو ہی ایک گلاب کے دل کو سرخ کر سکتا ہے۔
پودے نے ایک دفعہ پھر چلا کر بلبل سے اور نزدیک آنے کو کہا۔ “اور قریب آﺅ ننھی بلبل، ورنہ گلاب کے مکمل ہونے سے پہلے دن طلوع ہو جائے گا۔“
چنانچہ بلبل اور نزدیک ہو گئی اور کانٹے نے اس کے دل کو چھو لیا۔ درد کی ایک تند لہر اس کے پورے جسم سے گزر گئی۔ اس کا درد تلخ سے تلخ تر ہوتا گیا اور اس کا گیت وحشت در وحشت انگیز ہوتا گیا کیونکہ وہ اس محبت کا گیت گا رہی تھی جس کی تکمیل موت سے ہوتی ہے، اس محبت کا گیت جو قبر میں بھی مرتی نہیں۔
وہ انوکھا پھول سرخ ہو گیا، مشرقی افق پر کھلنے والے پھول کی طرح سرخ۔ پتیوں کا ہالہ سرخ تھا اور ان کے بیچ گلاب کا دل یاقوت کی مانند دمک رہا تھا۔
بلبل کی آواز مدہم پڑتی گئی۔ اس کے ننھے ننھے پر پھڑکنے لگے اور اس کی آنکھوں پر ایک دھند سی چھا گئی۔ اس کا گیت مدہم ہوتا گیا…. اور مدہم…. اور یوں لگنے لگا جیسے کوئی چیز اس کا گلا گھونٹ رہی ہو۔
پھر اس کے حلق سے موسیقی کا آخری ریلا پھوٹا۔ سفید چاند نے اسے سنا اور صبح کی آمد کو بھول کر آسمان میں تھم گیا۔ سرخ گلاب نے اسے سنا اور فرطِ طرب میں سرتاپا تھرتھراتے ہوئے صبح کی سرد ہوا میں اپنی پتیاں کھول دیں۔ بازگشت اسے اپنے کندھوں پر اٹھا کر پہاڑیوں میں لے گئی اور چرواہوں کو نیند سے بیدار کر آئی۔ یہ دریا کی لمبی لمبی گھاس میں سے تیرتا ہوا گزرا اور وہ اس کا پیغام سمندر تک لے گئی۔
”دیکھو دیکھو۔“ پودے نے چیخ کر کہا۔ “گلاب مکمل ہو گیا۔“
پر بلبل نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ گھاس کے فرش پر مردہ پڑی تھی اور کانٹا اس کے دل میں اترا ہوا تھا۔
دوپہر کو طالب علم نے اپنے کمرے کی کھڑکی کھولی اور باہر جھانکا۔
”قسمت کی کیسی کرم فرمائی ہے۔” وہ چلا اٹھا۔ یہ رہا سرخ گلاب کا پھول۔ “میں نے ساری زندگی میں ایسا پھول نہیں دیکھا۔ کتنا خوبصورت ہے یہ۔ مجھے یقین ہے کہ لاطینی میں اس کے لئے کوئی لمبا سا نام ضرور ہوگا۔” وہ نیچے کو جھکا اور اس نے پھول توڑ لیا۔
تب اس نے سر پر ہیٹ جمایا اور گلاب کا پھول ہاتھ میں لئے پروفیسر کے گھر کی طرف بھاگا۔
پروفیسر کی بیٹی گھر کے دروازے میں بیٹھی نلکی پر نیلا ریشم لپیٹ رہی تھی اور اس کا چھوٹا سا کتا اس کے قدموں پر سر رکھے لیٹا تھا۔
”تم نے کہا تھا کہ اگر میں تمہارے لئے سرخ گلاب لے آیا تو تم میرے ساتھ رقص کرو گی۔” طالب علم نے پکار کر کہا۔ “یہ رہا دنیا کا سب سے سرخ گلاب۔ تم آج رات اسے اپنے دل کے پاس آویزاں کرو گی اور جب ہم رقص کریں گے تو یہ تمہیں بتائے گا کہ میں تم سے کتنی محبت کرتا ہوں۔“
لڑکی کی پیشانی شکن آلود ہو گئی۔
”افسوس کہ میرے لباس کے ساتھ یہ بالکل بے جوڑ معلوم ہوگا۔” اس نے کہا۔ “ویسے بھی چیمبرلین کے بھتیجے نے مجھے چند اصلی ہیرے بھجوائے ہیں اور سبھی جانتے ہیں کہ ہیرے پھولوں سے کہیں زیادہ قیمت رکھتے ہیں۔“
”میں حلفاً کہتا ہوں کہ تم بے حد ناشکرگزار ہو۔” طالب علم نے بپھر کر کہا اور پھول کو گلی میں پھینک دیا۔ پھول بدرو میں جا گرا اور ایک چھکڑا کھڑکھڑاتا ہوا اس کے اوپر سے گزر گیا۔
”ناشکرگزار!“ لڑکی نے کہا۔ “تم بے حد بدتمیز ہو۔ اور ویسے بھی تم ہو کیا؟ محض ایک طالب علم۔ میرے خیال میں تمہارے جوتوں پر چیمبرلین کے بھتیجے کے جوتوں کی مانند چاندی کے بکل بھی نہ ہوں گے۔” وہ کرسی سے اٹھ کھڑی ہوئی اور گھر کے اندر چلی گئی۔
”محبت بھی کیسی احمقانہ چیز ہے! ” نوجوان نے چلتے ہوئے کہا۔ “افادیت میں یہ منطق کا عشر عشیر بھی نہیں، کیونکہ یہ کچھ ثابت نہیں کرتی اور یہ ہمیں ہر وقت ایسی باتیں بتاتی رہتی ہے جنہیں کبھی ظہور میں نہیں آنا ہوتا اور ایسی چیزوں پر یقین کرنے پر مجبور کرتی ہے جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ درحقیقت یہ بالکل غیرعملی سی چیز ہے اور آج کے دور میں عملی ہونا سب سے اہم ہے۔ میں فلسفے کی طرف پلٹ جاﺅں گا اور مابعد الطبیعات کا مطالعہ کروں گا۔“
چنانچہ وہ اپنے کمرے میں واپس پہنچا اور الماری سے ایک موٹی سی پرانی کتاب نکال کر مطالعے میں منہمک ہو گیا۔
Oscar Wilde: 16 October 1854-30 November 1900