آسمان پر صبح کے آثار نمودار ہو چلے تھے۔ یوراگوئے کے اس سرحدی گائوں میں مقیم فریڈریکوکچی سڑک کے پار سورج مکھی کے پھولوں کے کھیت کو گھور رہا تھا۔ اس کے قیمتی جوتوں پر مٹی تھی یا ریت ، اسے اندازہ نہ تھا۔ ہاں البتہ اس کی بیوی لوئیسا فوراَ بتادیتی ۔ لوئیسا کو فطرت سے پیار تھا،اسے سورج مکھی کے پھولوں سے پیار تھا۔ فریڈریکو دارالحکومت میں پلا بڑھا تھا ، اسے گائوں کی زندگی میں کوئی دل چسپی نہ تھی، اس کے برعکس لوئیسا اپنا زیادہ وقت پھول، پودوں اور جانوروں کے ساتھ بسر کرتی۔ جس دن فریڈریکو نے گائوں سے نقل مکانی کا اعلان کیاتو لوئیسا نے بس ایک درخواست کی کہ کیا وہ علی الصبح کچھ وقت سورج مکھی کے پھولوں کے درمیان گزار سکتی ہے؟ اس نے ہاں کر دی ۔
لوئیسا اس سے چند قدم دور کھڑی تھی، اس کے جوتے اس کے ہاتھ میں تھےاور وہ اپنے پیروں سے گویا زمین کو محسوس کر رہی تھی۔ وہ دیر تک سورج مکھی کے پھولوں کو دیکھتی رہی ، پھر دھیرے سے فریڈریکو کی طرف مڑ کر بولی
سائو پائولو میں سورج مکھی کے پھول نہیں اگتے۔
فریڈریکو نے سنی ان سنی کر دی۔ اب کے لوئیسا ذرا تیز آواز میں بولی
سائو پائولو میں سورج مکھی کے پھول نہیں اگتے۔
وہ اس کی طرف دیکھے بغیر بولا
ہم ہر روز سورج مکھی کے پھول خریدیں گے۔ میں نے تمھیں بتایا تو تھا کہ سائوپائولو میں ہمارے فلیٹ کے پاس ایک بڑی مارکیٹ ہے جہاں پھولوں کی ایک بہت بڑی دکان ہے۔
وہاں کھیت بھی نہیں ہوں گے۔
وہ اپنی بیوی کے پاس گیا اور بولا
وہ شہر تمھاری صحت کے لیے اچھا ہے ، وہاں قابل ڈاکٹرز موجود ہیں جو تمھارا علاج بہتر طریقے سے کر سکتے ہیں۔
مگر اچھے ڈاکٹرز تو مونٹی ویڈو اور بیونس آئرس میں بھی ہیں جو سائوپائو لو سے نسبتاََ پُر سکون شہر ہیں۔
مگر مجھے سائوپائولو میں بہت عمدہ ملازمت مل رہی ہے جس سے اتنی آمدنی ہو گی کہ ہم تمھارا۔۔۔
وہ کہتے کہتے رک گیا۔ لوئیسا کی آنکھیں پُرنم ہو گئیں اور اس کے ہونٹ کانپنے لگے۔ فریڈریکو نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور بولا
تم فکر نہ کرو۔ ہمار ا جانا بہتر ثابت ہوگا۔
سورج نکل رہا تھا۔فریڈریکو نے لوئیسا کو کہا
اب چلنا چاہیے۔
تم چلو، میں کچھ دیر مزید ان پھولوں کو دیکھنا چاہتی ہوں!
فریڈریکو آہستگی سے گاڑی کی طرف بڑھا۔ گاڑی ایک بڑی درخت کے نیچے کھڑی تھی ۔ اس کی پچھلی سیٹ پر بہت سے کارٹن پڑے تھے۔ اس نے انھیں ترتیب دی کہ وہ گاڑی کے اندر لگے شیشے سے عقب پر نگاہ دوڑا سکے۔ کام مکمل ہونے کے بعد اسے بھوک کا احساس ہوا۔ وہ ڈرائیونگ سیٹ پر آن براجا۔ ونڈ سکرین کے باہر کا منظر بڑا دل کش تھا۔ کھیتوں سے پرے افق تک پیلاہٹ پھیلی ہوئی تھی جو کہیں کہیں سنہری نظر آرہی تھی مگر اسے اس منظر سے کوئی دل چسپی نہ تھی وہ بس وہاں سے جانا چاہ رہا تھا۔ اسے لوئیسا کا وہاں کھڑے رہنے سے کوفت ہو رہی تھی مگر وہ اس کے پاس جانے سے کترا رہا تھا۔ اسے علم تھا کہ اس وقت تک لوئیسا سب کچھ بھول چکی ہوگی اور اس عالم میں اس کی گفتگو اس کے لیے اذیت ناک ہوتی۔ آخر اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا اور اس نے ہارن بجایا۔ لوئیسا جیسے سوتے سے جاگ پڑی اور خاموشی سے گاڑی میں آکر بیٹھ گئی۔
لوئیسا برازیل کی سرحد آنے تک سوتی رہی۔ سرحد پر واقع ایک چھوٹے سے ہوٹل سے انھوں نے دوپہر کا کھانا کھایا۔ فریڈریکو کی آنکھیں نیند سے بوجھل ہو رہی تھیں مگر اس نے اپنا سفر دوبارہ شروع کیا۔ لوئیسا کے چہرے پر کچھ عجیب سے تاثرات تھے۔ فریڈریکو نے اسے اس کی دوائی اور پانی کی بوتل پکڑائی۔ لوئیسا اس کی طرف دیکھے بغیر بولی
تمھیں میری وجہ سے بہت پریشانی اٹھانا پڑتی ہے۔
ہاں مگر اس میں تمھارا کوئی قصور نہیں۔ ہم اس موضوع پر بات کر چکےہیں۔
اگر تمھیں میری وجہ سے کوئی پریشانی نہیں اٹھانا پڑتی تو ہم برازیل کیوں جارہے ہیں؟
ہم اس لیے جا رہے ہیں کہ تمھارا علاج ہو سکے۔ وہاں کوئی تمھیں اس قصبے کے لوگوں کی طرح پاگل نہیں سمجھے گا۔یہاں کے ڈاکٹر تمھارے دماغی خلل کو سمجھ نہیں پارہے۔
فریڈریکو نے یہ کہہ تو دیا مگر پھر وہ پچھتانے لگا۔
تم مجھ سے تنگ آ چکے ہو؟
وہ تنک کر بولا
لوئیسا میری بات غور سے سنو!
وہ رندھی ہوئی آوازمیں بولی
مجھ پر چیخو مت!
فریڈریکو نے اس کا ہاتھ تھاما اور اسے پچکارتا ہوا بولا
دیکھو لوئیسا! میں تم پر چیخ نہیں رہا مگر میں چاہتا ہوں کہ تم میری بات سنو۔
لوئیسا کچھ نہ بولی۔ اس نے ڈیش بورڈ سے ایک کاپی پنسل نکالی اور کچھ بنا نا شروع کردیا۔
تم کیا بنارہی ہو؟
سورج مکھی کے پھول!
ہم اسے فریم کروائیں گے۔ وین فوگ نے بھی سورج مکھی کے پھولوں کی تصویریں بنائی ہیں۔
اچھا! پھر تو میری اسے اچھی نبھے گی۔ وہ میری بات آسانی سے سمجھ لے گا۔
ہاں ! تم دونوں دوست بن جائو گے۔
شام ڈھلے وہ کروز آلٹا پہنچے ۔یہاں ایک ڈیپارٹمنٹل سٹور تھاجو شاید پچاس برس پہلے تو اچھی حالت میں ہو مگر اس وقت اس کی حالت بڑی خستہ تھی۔ ان کے پاس صرف بوتلیں اور چپس تھے۔ پورے سٹور میں جابجا بالٹیاں پڑی تھیںتا کہ بارش کی صورت میں چھت سے ٹپکنے والے پانی کو جمع کیا جاسکے۔ عقبی کھڑکی کا شیشہ ٹوٹا ہوا تھا۔ لوئیسا سٹور کے واش روم میں چلی گئی۔ فریڈریکو باہر نکل آیا۔ اس کے دل میں اچانک خیال آیا کہ یہ جگہ لوئیسا کے لیے بہترین ہے، اس کا دل چاہا کہ وہ اسے یہیں چھوڑ کر روانہ ہو جائے مگر پھر اسے اپنے اس خیال پر شرمندگی ہونے لگی۔ تھوڑی دیر بعد لوئیسا بھی آ گئی۔اس کی آنکھیں ادھ کھُلی تھیں۔ وہ خاموشی سے گاڑی میں بیٹھے اور شمال کی جانب روانہ ہو گئے۔
کچھ کلومیٹر چلنے کے بعد ان کی گاڑی کے دائیں جانب ایک مال گاڑی نمودار ہوئی جو ان کی مخالف سمت رواں دواں تھی۔ مال گاڑی گزر گئی تو دور اُفق پرسورج غروب ہورہا تھا۔ اس وقت اس کا رنگ شعلے کی طرح سُرخ ہو رہا تھا۔ لوئیسا کے ہاتھ میں اس کی بنائی ڈرائنگ دبی ہوئی تھی اور وہ گہری نیند میں تھی۔اس سمے فریڈریکو کو نہ جانے کیوں یہ احساس ہوا کہ سب کچھ ٹھیک ہونے جارہا ہے۔
لیلیٰ ڈی سوزا تشے را
LEILA DE SOUZA TEIXEIRA
لیلیٰ ڈی سوزا تشے را ، برازیل کے شہر پاسو فنڈو میں پیداہوئیں۔ انھوں نے وکالت کی ڈگری کے ساتھ ساتھ فنِ تحریر میں ڈپلومہ حاصل کیا ۔ اب تک وہ اس میدان میں بیسیوں ورک شاپ منعقد کر چکی ہیں۔ ان کےاب تک تین افسانوی مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ ان کا تیسرا افسانوی مجموعہ That Which Coincidently Relapses اپنی نوع کی واحد تخلیق ہے جس میں ایک کہانی دوسری کہانی کو جنم دیتی ہے مگر ہر کہانی دوسری سے مختلف ہے۔ ان کی تحریر یں روزمرہ زندگی کے سادہ مگر پُر اثر واقعات کا احاطہ کرتی ہیں جو انسانی رویوں، رشتوںاور سماج پر گہرا اثر ڈالتے ہیں۔ وہ بلا شبہ برازیل کے عصری ادبی منظر نامے کی توانا آواز ہیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...