منی کو کھلونے بہت پسند تھے ۔ خاص طور پر کپڑے اور کپاس سے بنے نرم و ملائم سوفٹ ٹوائے تو اسے بے حد پسند تھے اس لیے اُس کے کھولونوںمیں سوفٹ ٹوائے کی تعداد بھی خاصی تھی جنمیں ہاتھی ، بھالو ، بندر ، خرگوش کے علاوہ نرم و ملائم گڑیوں کا تو مانو اس کے پاس خزانہ تھا ۔ یہ سبھی کھلونے اُس کے آس پاس ہمیشہ پھیلے رہتے ۔اُس کا دِل جب جس کھلونے سے کھیلنے کو چاہتا اس اٹھا لیتی اور پہروں کھیلتی رہتی ۔ دن تو دن رات میں بھی یہ کھلونے اُس کے ساتھ ہی ہوتے ، کبھی وہ انھیں اپنے آغوش میں لیتی تو کبھی خود ان کے آغوش میں پہنچ کر میٹھی نیند سو جاتی ۔
منی کے ابا ہر مہینے اس کے لیے کوئی نہ کوئی سوفٹ ٹوائے ضرور لاتے ، وہ یہ جانتے تھے کہ ان کی بیٹی اِن کھلونوں کی کیسی دیوانی ہے ۔ منی اپنے نرم و ملائم کھلونوں کو بڑے پیار سے اپنی بانہوں میں بھر لیتی اور ان کی نرمی کو محسوس کر کے بڑی خوش ہوتی ۔ پیار سے ان کے ملائم فروں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے خوش ہو کر اپنی امی سے کہتی ’’ دیکھو نا ممی ! یہ بھالو کتنا پیارا ہے نا ، کتنا نرم ہے یہ ‘‘ اور کہتے ہوئے آنکھیں بند کر کے اُس بھالو کو اپنی بانہوں میں بھینچ لیتی ۔ ممی اسے دیکھ کر مسکرا دیتی تھیں اور ابا اس کی خوشی دیکھ کر خوش ہوتے ۔ مںی خود بھی کسی سوفٹ ٹوائے سے کم نہ تھی ۔ نرم و ملائم سی ، گوری گوری ، پیاری سی ۔
منی تیسری جماعت میں آگئی تھی ۔ اب کی بار ابا نے اُسے اسکول کا جو بیگ لا کر دیا تھا اُس کی چین کے ساتھ بھی ایک پیارا سا سوفٹ ٹوائے ( جو ایک چھوٹا سا بندر تھا )لٹک رہا تھا ۔ یہ دیکھ کر وہ بہت خوش ہوئی ۔ اسکول تو اسکول وہ گھر لوٹنے کے بعد بھی دِن بھر اُس بیگ کو چمٹائے سارے گھر میں چڑیا کی طرح چہچہاتی پھرتی ۔ منی چوں کہ خود بھی ایک سوفٹ ٹوائے کی طرح دودھ کی طرح سفید، گلابی رخساوں والی ،نرم و ملائم اور پیاری سی تھی اس لیے اسے بھی سب بہت پیار کرتے تھے ۔ ٹیچر ہوں یا کلاس کے دوسرے بچے وہ سب کی چہیتی تھی ۔منی اپنی میٹھی میٹھی آواز میں سبھی بچوں کو نظمیں پڑھ کر سناتی اور پھر سب کے ساتھ مل کر گاتی ۔ اُس کی کلاس کے سارے بچے اس سے مانوس ہو چکے تھے ، وہ خود بھی بہت جلد سب کے ساتھ گھُل مِل گئی تھی ۔
اسکول لانے لے جانے کے لیے منی کے ابا نے ایک رکشا والے کا انتظام کر رکھا تھا ۔ اسکول چھوٹنے کے بعد جب تک وہ نہ آ جاتا منی اپنی ٹیچر کے پا س ہی بیٹھی رہتی ، ان سے باتیں کرتی ۔ باتیں کرتے کرتے وہ اپنی ٹیچرس کے گالوں کو چھو کر پیار کرتی ، ٹیچر کو بھی منی کا اس طرح پیار کرنا بڑا اچھا لگتا تھا ۔ منی نے اپنی ٹیچر کو بتایا تھا کہ اُس کے پاس ڈھیر سارے سوفٹ ٹوائز ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا تھا وہ بھی ان ہی سوفٹ ٹوائے جیسی نرم و ملائم اور پیاری سی ہیں ۔ اس طرح باتوں میں وقت گزر جاتا یہاں تک کہ رکشا والے انکل آ جاتے اور اسے اپنے ساتھ لے جاتے ۔
اُس دن کافی بارش ہو رہی تھی ۔ موسلا دھار برسات نے راستوں کو پانی سے بھر دیا تھا ۔ گھر پر منی کی امی فکر مند تھیں کہ منی اب تک اسکول سے گھر نہیں آئی تھی اور بارش تھی کہ رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی ۔ اسی فکر میں وہ رکشا والے مادھو کو کئی بار فون لگا چکی تھیں مگر فون نہیں لگ رہا تھا ۔ اُدھر اسکول کی ٹیچرس بھی پریشان تھیں ، ایک ایک بچے کو ان کے والدین کے ساتھ گھر بھیجا جا رہا تھا ۔جن بچوں کو رکشا لینے کے لیے آتا تھا ان کا انتظار ہو رہا تھا ، راستوں میں پانی بھر جانے کی وجہ سے ٹریفک کا جام لگا ہوا تھا اس لیے رکشا والے بھی دیر سے پہنچ رہے تھے ۔
منی ٗ مادھو انکل کا انتظار کر رہی تھی ۔ کافی دیر کے بعد اسے مادھو نر آیا ، وہ اپنی ٹیچر کے ساتھ مادھو کے پاس رکشا تک آئی ٹیچر نے منی سے ’’بائے ‘‘ کہا اور رکشا والے مادھو کو دھیان سے رکشا چلانے کی تلقین کی جسے سن کر مادھو کا موڈ بگڑ گیا اور کہا ’’ ارے میڈم ! پندرہ سال سے رکشا چلاتا ہے اپُن ، ہم کو سب معلوم ہے کدھر گڈھا ہے اور کدھر گڈھے میں پانی ہے ۔ ‘‘
آج صبح ہی سے تیز بارش کی وجہ سے اس کا موڈ خراب تھا ، اس پر اس کی بیوی جھگڑا کر کے میکے چلی گئی تھی ۔ اُس نے منی کو رکشامیں بٹھایا اور رکشا اسٹارٹ کیا ۔ رکشا میں پہلے ہی دو تین بچے بیٹھے ہوئے تھے جنھیں منی سے پہلے گھر چھوڑنا تھا اس لے کہ سب کے آخر میں منی کا گھر آتا تھا ۔ منی رکشا میں بیٹھے بچوں سے باتوں میں لگ گئی ، خراب راستوں اور پانی بھرے گڈھوں میں رکشا اچھلتا کودتا آگے بڑھ رہا تھا ۔ اگر موسم خراب ہوتو رکشا میں بیٹھے لوگوں کی جان لبوں پر آ رہی ہوتی ہے ، یہی حال منی کا بھی تھا ۔ ایک ایک کر کے ان کے بچے ان کے گھر پہنچا دیے گئے تھے ، اب وہ رکشا میں اکیلی تھی ، وہ مادھو سے مانوس نہیں تھی ۔ کیوں کہ وہ بھی بہت کم بات کرتا تھا ، بچوں سے زیادہ کچھ نہیں بولتا تھا ، بس اپنے کام سے کام رکھتا تھا ۔
کہنے کو تو مادھو سامنے دیکھ کر رکشا چلا رہا تھا لیکن ذہن میں بار بار اس کی بیوی کی چیخ و پکار گونج رہی تھی اور وہ منہ ہی منہ میں اُسے گالیاں دیتا رکشا چلا رہا تھا ۔ اچانک اس کی نظر بیک سیٖٹ پر بیٹھی منی پر پڑی جو اپنے سوفٹ ٹوائے والے بیگ کو سینے سے چمٹائے ڈری سہمی سی بیٹھی تھی ۔ مادھو کو اسے اس حال میں دیکھ کر ترس آ گیا ، اُس نے منی کی ہمت بندھاتے ہوئے کہا ’’کیا ہوا منی ، ڈر لگ رہا ہے ؟ ڈرنے کا نئی، مادھو انکل ہے نا ! بس اب تمہارا گھر آنے والا ہی ہے ۔‘‘ منی نے سہمی ہوئی سی نظروں سے آئینے میں دیکھا اور انکار میں سر ہلا دیا ۔ بس یہی وہ پل تھا کہ مادھو پر بجلی گر پڑی ، اس کی رگ رگ میں سنسناہٹ دوڑ گئی اور شیطان جیٖت گیا ۔ وہ ایسا تو نہیں تھا ، کبھی کسی بچی یا کسی جوان لڑکی پر بھی اُس نے گندی نظر نہیں ڈالی تھی ۔ پھر آج یہ اس نے کیا کر دیا ، ایک معصوم کی آبروٗ تار تار کر ی ، اُ س کے معصو بچپن کو آلودہ کر دیا ، ایک سوفٹ ٹوائے کو اُدھیڑ کر تار تار کر دیا ۔ وہ چیختی چلاتی رہی لیکن اس کی شیطانیت پر کوئی اثر نہ ہوا ۔ ۔۔۔۔۔۔
طوفان کے تھم جانے کے بعد اُس نے اپنی رکشا جو کہ ایک سُنسان فلائی اوور کے نیچے روک دی تھی ، نکالی اور زناٹے بھرتا ہوا فرار ہو گیا اور منی کو بے ہوشی کی حالت میں کیچڑ میں لت پت وہیں چھو ڑ دیا ۔ رات کے آٹھ بج رہے تھے ، منی اب تک گھر نہیں پہنچی تھی ۔ اُس کے امی ابا پولیس میں رپورٹ لکھوا آئے تھے ، مادھواور منی کے فوٹوز آس پاس کے تھانوں میں پہنچا دیے گئے تھے ۔اُدھر مادھو کا فون بھی لگاتار سوئچ آف آرہا تھا ۔ منی کے اسکول سے پتہ یہ چلا تھا کہ منی رکشا والے مادھو کے ساتھ ہی اسکول سے گئی تھی ۔ پولیس کا شک ٹھیک نکلا ، رات گیارہ بجے کے لگ بھگ فلائی اوور کے نیچے سے منی بے ہوشی کی حالت میں برآمد کر لی گئی تھی ، اسے فوراً ہسپتال پہنچا دیا گیاتھا ، اس کے امی ابا کا رو رو کر حال برا تھا۔دوسرے دن مادھو کو بھی پولیس نے دھر دبوچا اور ایک معصوم بچی کی آبروٗ ریزی کا اُس پر مقدمہ دائر کیا گیا ۔ مقدمہ چلا ، معمولی سی سزا کاٹنے کے بعد وہ ہوس پرست شیطان پھر آزاد گھومنے لگا ، دھیرے دھیرے دِن اور رات معمول پر آگئے تھے ۔
منی کئی دنوں بعد اسکول سے گھر آئی ، لیکن اب وہ منی کہاں تھی ؟ وہ تو ایک ایسی سوفٹ ٹوائے بن چکی تھی جس کے جسم کے سارے ٹانکے اُدھیڑ دیے گئے تھے ، جگہ جگہ اُ س کی نرم و ملائم کپاس باہر نکلی پڑرہی تھی ، ہاتھ کیں لٹک رہا تھا تو پیر کہیں جھول رہا تھا ۔ آنکھیں نوچ لی گئی تھیں ، ناک بھی ادھر اُدھر جھول رہی تھی ۔
ہر وقت گُم سُم اُداس سی منی ۔۔۔۔۔اب کسی کھیل یا کھلونے میں اس کا دل نہیں لگتا تھا ۔ امی ابا ٗ منی کی ہر طرح دلجوئی کرنے کی کوششیں کرتے جو سب بے سوٗد ثابت ہوتیں۔منی راتوں کو چیخ چیخ کر اُٹھ بیٹھتی اور رو رو کر حال ہو جاتی ۔ امی ابا اسے سنبھالتے ہوئے خود بھی پُھوٹ پھُوٹ کر اس کے ساتھ روتے رہتے ۔
دنیا کہتی ہے وقت کیسا بھی ہو گزر جاتا ہے ۔ مگر وہ وقت جس پر حالات نے اپنی سیاہی پوت دی ہو وہ وقت گزرتا نہیں بلکہ اپنی سیاہی سمیت آگے بڑھتا رہتا ہے ۔ منی کے ساتھ ہوئے اس حادثے کو بیس سال گزر چکے تھے ، بظاہر کو تو سب ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا ۔ دیکھنے میں منی مطمئن نظر آتی تھی اس لیے اس کے امی ابا بھی مطمئن تھے ۔
اچانک دروازہ کھلنے اور بند ہونے کی آواز آئی ۔ قدموں کی چاپ کو دھیرے دھیرے اپنے قریب بڑھتا محسوس کر رہی تھی ۔ کمرہ مسحور کن خوشبوؤں سے پہلے ہی بھرا ہوا تھا ، اب اس میں ایک اور نئی خوشبو کا اضافہ ہو گیا تھا ۔ وہ دھیرے دھیرے منی کے قریب آ کر پلنگ پر بیٹھ گیا ۔ وہ ا س کے حنائی ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں تھامے کچھ کہہ رہا تھا ، جانے کیا ؟ مگر منی کچھ سن نہیں پا رہی تھی ۔ منی کے کانوں میں سیٹیاں بج رہی تھیں کہ اچانک اس نے منی کا گھونگھٹ پلٹ دیا اور بہت ہی پیار و آہستگی سے وہ منی کے گالوں اور ہونٹوں کا بوسہ لے رہا تھا ۔ اس کے جسم پر محبت بھرا ہاتھ پھیر رہا تھااور پھر اسی محبت کا اظہار کرنے کے لیے اس نے منی کو اپنی بانہوں میں بھینچ لیااورپیار سے بولا ’’ میں نے سنا ہے بچپن ہی سے تمھیں سوفٹ ٹوائے بہت پسند ہیں ‘‘منی کی حالت پہلے ہی خراب ہو چکی تھی اس جملے سے گویا سارے جسم میں سوئیاں سے چبھنے لگی تھیں ۔ کمرے کی تمام خوشبو مادھو کی بساند اور گندی بدبو میںتبدیل ہو گئی تھی ۔ دولہے کا نرم و ملائم ہاتھ اسے مادھو کے کھردرے اور سخت ہاتھ سے محسوس ہونے لگے اور وہ اچانک ایک چیخ کے ساتھ دولہے کی بانہوں میں بے ہوش ہو گئی ۔ دولہا اپنی بانہوں میں اس ادھڑے بکھرے سوفٹ ٹوائے کو دیکھ کر حیران رہ گیا ۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...