(Last Updated On: )
میرے گھر کے اس چھوٹے سے کمرے میں ایک کلینڈر آویزاں ہے۔ تاریخ دیکھنے کی خاطر جب کبھی میں اس کلینڈر کی طرف دیکھتا ہوں تو میری نظریں سب سے پہلے اُس پر چھپی ہوئی اُس حسینہ کی تصویر پر پڑتی ہے جس کے چہرے پر مسکراہٹ بکھری ہوئی ہے اور آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک ہے۔ جانے کیوں، اُس پر نظر پڑتے ہی میں خود بھی مسکرا اُٹھتا ہوں اور جب مجھے یہ احساس ہوتا ہے کہ میں خواہ مخواہ مسکرا رہا ہوں تو مجھے ایسا لگتا ہے کے میری اس حماقت پر وہ تصویر کھلکھلا کر ہنس پڑی ہے۔ ایک لمحے کے لیے مجھے غصہ آتا ہے لیکن میں یہ غصہ اس طرح پی جاتا ہوں جس طرح کوئی دودھ میں گِری مکھی کو نکال کر اُس دودھ کو پی جاتا ہے ۔
اِس تصویر سے جان چھڑاکر جب میں آفیس جانے کی لیے مکلتا ہوں تو بس اسٹاپ پر کھڑی سدھا نظر آتی ہے۔ ویسے سدھا اوراُس تصویر میں زیادہ فرق نہیں ہے۔ تصویر کی طرح سدھا بھی خاموش رہتی ہے البتہ اُس کی آنکھیں اکثر بولتی رہتی ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ اُس کی آنکھوں کا جواب زبان سے دینے کی مجھ میں کبھی جسارت نہیں ہوئی۔ وہ اور میں ہمیشہ ایک ہی بس میں سفر کرتے ہیں لیکن اجنبیوں کی طرح۔ وہ اکثر مجھے دیکھتے ہی گردن پھیر لیتی ہے۔ یا پھر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگتی ہے ۔ جیسے باہر بکھرے ہوئے منظر میں کچھ تلاش کر رہی ہو لیکن جب بھی اُسے ناکامی ہوتی ہے۔ وہ ایک بار میری طرف ضرور دیکھتی ہے اور پھر گردن جھکا کر اپنے پیروں کو تکنے لگتی ہے اُس وقت عموماً میرے ذہن میں اُس روائتی مور کا تصور اُبھرنے لگتا ہے جو ناچتے ناچتے بے خود ہو کر اپنے پیروں کو دیکھنے لگتا ہے اور پھر اُس کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگتے ہیں ۔ سدھا بھی اُس وقت نروس دکھائی دیتی ہے اور یوں محسوس ہونے لگتا ہے جیسے اُس کے چہرے پر ساری دنیا کا کرب اُمڈ آیا ہو۔ ہوسکتا ہے کہ یہ صرف میرا وہم ہو کیونکہ ممکن ہے سدھا ایسے وقت میں کچھ اور ہی سوچنے لگتی ہو ؟ لیکن میں پورے سفر میں بس اُسی کو دیکھتا رہتا ہوں ۔ کئی بار لوگوں نے میری اس حرکت کو محسوس بھی کیا ، مجھ پر فقرے بھی کسے ، لیکن میں نے اِن باتوں کی کبھی پرواہ نہیں کی اور سدھا نے میرے اس طرح گھورنے پر کبھی اعتراض نہیں کیا ۔ اُس کے اس روئیے سے کبھی کبھی مجھے یہ شک ہونے لگتا ہے کہ وہ سدھا نہیں بلکہ وہی کلینڈر والی حسینہ ہے جو غلطی سے باہر آگئی ہے ۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سدھا سے میری کبھی گفتگو نہیں ہوئی ۔ اس سلسلے میں نہ میں نے کبھی پہل کی نہ اُس نے کبھی موقع دیا ۔ وہ ٹھیک بس کے وقت پر آتی اور میں اکثر دوڑتا ہوا بس پکڑتا ہوں ، مصروف زندگی سے فرصت کا ایک لمحہ چرانا کتنا مشکل ہوتا ہے ۔ وہ تو ایک روز اتفاق سے سدھا کی کوئی سہیلی اُس کے ساتھ تھی اور اُس نے بس میںاُسے اسی نام سے نخاطب کیا تھا ۔ اس طرح مجھے اُس کا نام معلوم ہوگیا تھا ، کئی بار میں نے اپنے دل کو ٹٹولا ،’’ کیا مجھے اُس سے بات چیت کرنا چاہیے ؟ ‘‘ اور میرا دل مجھے جواب دیتا ، ’’ کیوں ؟ ‘‘ اور کبھی کبھی خود جب میرا دل کہتا کہ سدھا سے کچھ گفتگو کی جائے تو میرا ذہن مجھ سے سوال کرتا ، ’’ آخر تم سدھا سے کیوں بات کرنا چاہتے ہو ؟ وہ کون ہوتی تمہاری ؟ محبوبہ ؟ منگیتر ؟ بیوی؟ بہن ؟ رشتہ دار ؟ آخر کون ہوتی ہے ؟ بات چیت کے لیے رشتے ناطوں کا ہونا تو ضروری ہوتا ہے نا ؟ ‘‘ تو کیا جن سے ہم ملتے ہیں گفتگو کرتے ہیں وہ سب ہی رشتے ناطے والے ہوتے ہیں ؟ کیا اُن کی بات چیت میں سچے خلوص اور سچے پیار کی گہرائی ہوتی ہے ؟ اگر میں اس سلسلے میں تھوڑا سا بھی جائزہ لوں تو یہ بات یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اس طرح ایک دن میں بالکل تمہا ہوکر رہ جاؤں گا بالکل اس طرح جس طرح میرے کمرے میں لٹکا ہوا وہ کلینڈر تنہا ہے اور اُس کے چاروں طرف صرف خاموشی ہے۔ مہیب خاموشی۔
خاموشی کبھی کبھی کس قدر سکون بخش محسوس ہوتی ہے لیکن مسلسل خاموشی تو قبر کا عذاب بن جاتی ہے۔ اسی لیے تو لوگ خاموشی کی دہلیز کو پھلانگ کر ہنگاموں میں سانس لینا پسند کرتے ہیں۔
دن بھر کے ہنگاموں سے تھک کر جب میں واپس گھر آتا ہوں اور اپنے آپ کو بستر پر بکھیر دیتا ہوںتوایسا لگتا ہے جیسے کوئی مجھے بسوں کے شور اور کارخانوں کے ملگجے دھویں سے سمیٹ کر ایک جگہ کر رہا ہے۔ ہوا کے کسی تازا جھونکے کے ساتھ جب مجھے ہوش آتا ہے تو میرے سامنے ایک چہرہ بنتا ہے۔ وہی عجیب سی مسکراہٹ ، وہی انداز ، وہی خاموشی اور پھر ذہن کے کسی گوشے سے بس کی آواز گونجتی ہے اور وہ چہرا فضاء میں کہیں تحلیل ہوکر رہ جاتا ہے۔ میں اُٹھ بیٹھتا ہوں اور آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر چاروں طرف دیکھنے لگتا ہوں ، میری نظریں پھر اُسی کلینڈر پرٹھہر جاتی ہیں اور تصویر کے چہرے کی مسکراہٹ دیکھ کر مجھے ندامت سی ہوتی ہے۔ میں گردن نیچی کر لیتا ہوں، ’’بزدل‘‘ کہیں سے کوئی سرگوشی سنائی دیتی ہے۔ میں بستر پر ڈھیر ہوجاتا ہوں اور وہی سرگوشی باز گشت بن کر میرا پیچھا کرنے لگتی ہے۔ پھر مجھے کچھ یاد نہیں رہتا کہ میں کب تک جاگتا رہا ؟ یا کب سویا ؟ یا سویا بھی کہ نہیں ۔۔۔ البتہ جب میں بستر سے اُٹھتا ہوں تو نئی تاریخ دیکھ کر کچھ توانائی سی ضرور محسوس کرنے لگتا ہوں۔
ایسی ہی ایک صبح کو جب میں حسب معمول بس اسٹاپ پر پہنچا تو مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ میں اپنے معمول سے پندرہ منٹ پہلے کیسے پہنچ گیا۔ جس زندگی سے فرصت کے ایک ایک لمحے کی چوری کئی نوری سال سے بڑھ کر معلوم ہوتی ہو میں نے یہ پندرہ منٹ کہاں سے چرالیے ؟ گھڑی کی ان سوئیوں کو صحیح وقت پر لانے کی خاطر میں ایک قریبی اسٹال پر پہنچا تاکہ سگریٹ خرید سکوں لیکن جیسے ہی میری نظراُس اسٹال پر لگے اُسی کلینڈر پر پڑ ی میں ٹھٹھک کر رہ گیا ۔ جانے کیوں اب مجھے اُس تصویر کی مسکراہٹ میں طنز کے نشتر محسوس ہونے لگے۔ میں ایسا خوف زدہ ہوگیا جیسے میری کوئی چوری پکڑی گئی ہو ۔ میں وہاں سے تیزی سے پلٹا اور اب جو دیکھتا ہوں تو بس اسٹاپ پر تنہا سدھا کھڑی تھی تو گویا آج سدھا نے بھی وقت کے خزانے سے چوری کی ہے ۔ میں نے سوچا اور اُس کی طرف بڑھا کہ آج اُسے سب کچھ بتا دوں اور پوچھوں کہ آخر وہ میرے چہرے میں کیا تلاش کرتی ہے ؟ کھڑکی سے باہر بکھرے ہوئے منظر میں کیا اُس نے سات رنگوں کا راز اور تاحد ِ نظر پھیلے ہوئے اُفق کے اُس پار جانے کا راستہ ڈھونڈھ لیا ہے ؟
میں سدھا کیقریب پہنچا اور بولا، ’’سدھا جی آپ؟‘‘
’’ ہاں میں۔۔۔‘‘ سدھا نے میری طرف ب مہری سے دیکھا اور پھر بولی، ’’دور ہو جائیے میری نظروں سے۔۔۔ میں آج آپ کو صاف صاف بتا دینا چاہتی ہوں کہ اب میں کبھی آپ کے چہرے کی طرف نہیں دیکھونگی، کبھی اس بس میں سفر نہیں کروں گی ، کیا سمجھتے ہیں آپ اپنے آپ کو۔۔۔ آپ میں اور میرے گھر میں لٹکے ہوئے اجنتا کہ اُس کلینڈر میں کیا فرق ہے؟ نہ کوئی احتجاج نہ آرزو نہ کوئی اُمنگ۔ بس تعا قب میں بچھی گھورتی آنکھیں ۔ آپ کون ہوتے ہیں جو میری رات کی تنہائیوں میں آکر مجھے سمیٹ کر روشنی کا ایک چھوٹا سا دیا جلا کر غائب ہوجاتے ہیں۔ چلے جائیے یہاں سے اور اب کبھی میری نظروں کی حدود میں داخل ہونے کی کوشش نہ کیجیے ، کیونکہ آج ہی میں اُس کلینڈر کو پھاڑ آئی ہوں۔‘‘ اور پھر وہ روتی ہوئی تیز تیز قدموں سے چلتی ہوئی میری نظروں سے غائب ہو گئی۔ میری نظریں اُس کا تعاقب بہت دور تک کرتی رہیں۔ میرے ذہن میں جانے کیوں پھر ایک بار اُسی کلینڈر کی مسکراتی ہوئی حسینہ کا چہرہ اُبھرا، لیکن اس مرتبہ میں نے اُس سے آنکھیں نہیں چرائیں بلکہ دل ہی دل میں آہستہ سے اُسے چوم لیا۔
٭٭٭