“! بے شرمی حد سے بڑھ گئی ہے تمہاری ۔۔۔کتنی زبان چلاتی ہو ”
میں اپنی بیوی پر چِلاّ رہا تھا ۔
“بےشرمی والی میں نے کیا بات کہہ دی ؟”
زارا بھی اپنی جگہ قائم تھی ۔
“شوہر کی نا فرمانی بے شرمی ہے ، تمھیں اتنا بھی نہیں سکھایا تمہارے بڑوں نے ؟؟”
میرے سیکھے ہوے سبق میری زندگی کا حاصل تھے ، میں مرد تھا یہ کیسے بھول جاتا۔
ابھی بات باقی تھی کہ میری بیٹی پاس آکر شکایت کرنے لگی،
“ماما بھائی میری کاپی نہیں دے رہا “۔
زارا سمجھانے لگی،
“بھائی ہے نا ، اسکو کھیلنے دو، آپ کوئی اور کاپی لے لو “۔
میری نظریں اپنی بیٹی کے تعاقب میں کمرے کے کونے سے جا لگیں ۔ زارا نے فیصلہ سنانے کے لئے آواز دوبارہ اٹھائی ،
“شجاع اپنے بیٹے کے لئے دیکھے تمام خواب مجھے پورے کرنے ہیں، چاہے کوئی بھی قربانی دینی پڑے !”
میرا سینہ جیسے لاوا اگلنے لگا
” تم گھر اور بچوں پر دھیان دو ۔۔۔ سمجھی !”
میں سلگتا ہوا کمرے سے باہر نکلا تو اماں وہیں کھڑی تھیں ،
انہیں نظر انداز کرتے ہوۓ گھر کے دروازے کو پار کر گیا ۔۔۔۔
. . .. . . . *-* -* -* -* -* -* -* . . . . . . . .
تنہا جانے کس موڑ پر کھڑا مَیں گہری سوچ میں غرق تھا ، سگریٹ کے کش پہ کش لگا رہا تھا ۔
میری زندگی معمول پر گزرتی ایک دلدل بن چکی تھی ،
مہینے کا سودا۔۔۔
بچوں کی فیس۔۔۔۔
بجلی کا بل۔۔۔
گھر کا کرایہ ۔۔۔
ماں کی دوا ،
اور پھر زوال پر زوال ۔۔۔۔
واردات قلب تھی کہ گھر کا رستہ دانستہ بھول جاؤں جب زارا کی آواز کانوں میں گونجی ،
” مجھے نجی اسکول میں پڑھانا ہے ،اکلوتا بیٹا مان ہے میرا !”
زارا کی آواز میں میرے والدین کی آواز شامل ہو گئی
“بیٹا تُو ہی ہمارا سہارا ہے”
جانے کیوں سگریٹ کا دھواں فضا میں غائب ہونے کے بجائے جیسے میری گردن کے گرد
لپٹنے لگا تھا ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے والد ایک سرکاری ملازم تھے ۔
بیٹا پیدا کرنے کا شوق میری ماں کو زیاده تھا ۔
ابّا بتاتے تھے کہ ہر حمل کے دوران میری ماں کتنے جتن کرتیں ،
عامل یا حکیم ،جو بھی بیٹے کی نوید سنانے کی چارہ جوئی کرتا ، اسکا بتایا ہر عمل خود پر فرض کر لیتیں ۔
دو حمل ضائع
ہوئے، پھر دوسری بیٹی کے
بعد مولا نے نرینہ اولاد سے نوازا ،
اور ایک ماں کا خاندان مکمل ہوا ۔
والد کی تنخواه کے مطابق بیٹیوں کو سرکاری اسکول میں داخل کیا ، مگر مجھے اپنی چادر سے پاؤں باہر نکال کر نجی اسکول سے تعلیم دلوانے کا فیصلہ کیا ۔
میری ابتدائی یادداشت میں یہ واضح تھا کہ میری ہر بات کی وقعت تھی ۔
میں جو چاہتا منوا سکتا تھا ۔
حالات تنگ تھے ، جب گھر میں گوشت پکتا تو
میری پلیٹ بھری ہوتی ،
بہنوں کو ایک پارۂِ گوشت ملتا ، میں بسیار خوری کے باعث اور مانگ لیتا ، تو اماں ان کی پلیٹ کھنگال کر وضاحت کے ساتھ مجھے نواز دیتی کہ ،
” بڑا ہوکر بھائی
طاقت ور بنے گا، تبھی تو تم دونوں کی ڈھال بنے گا”۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج میں اپنی پوری طاقت لگانے کے باوجود سانس اپنے پھیپڑوں میں نہیں بھر پا رہا تھا ، سگریٹ میرے ہاتھ سے چھوٹ گیا !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے یاد تھا ایک بار میں نے بہن کی گڑیا توڑ دی اور اس نے مجھے تھپڑ مار دیا ،
اماں بھپر گئیں،
” بدتمیز ! بھائی پہ ہاتھ اٹھاے گی ؟ایسی بےشرمی دوباره کی تو زنده گاڑ دوں گی !”
اور میں دل ہی دل میں خود کو با توقیر مان کر بہت خوش ہوا تھا
مگر وقت گزرنے کے ساتھ ، جن مراعات پر میں نہال ہوجاتا ، آہستہ آہستہ وہ میرے لیے
جوکھ بننے لگیں تھیں ۔
مستقبل میں والدین کا بڑھاپا اور بہنوں کی شادیاں مجھے انجان
عارضہ میں مبتلا کرنے لگیں ۔
میں جوان ہوا تو کچھ کر دکھانے کی دوڑ میں لگ گیا ، مگر کامیابی نا ملی۔
میں ذہین تھا مگر بمشکل پاس ہوتا ،
بہت کوشش کے بعد بی اے کر پایا ۔
اور میری ناکامیوں کے ساتھ ساتھ اماں ابّا کے پیار اور غرور بھرے جملے طعنوں میں تبدیل ہونے لگے ۔
” فلاں کا بیٹا دیکھو ، ہمیشہ اول آتا ہے”
” فلاں کا بیٹا تو سرکاری اسکول میں پڑھا ، اور دیکھو محنت کر کے کہاں سے کہاں پہنچ گیا !!”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،
مجھے بمشکل سانس آیا ہی تھا ، کہ میں نے جھٹ سے گرا ہوا سگریٹ اٹھا کر دوباره
ہونٹوں سے لگا لیا ۔
میں اپنے جینے کی ہر وجہ دھویں میں اڑانے لگا !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” بیٹا مرد بن مرد!
تُو چاہے تو سب کچھ کر سکتا ہے
مگر کوشش نہیں کرتا !”
عیب جوئی ہونے لگی تو تلخی بڑھنے لگی ۔
“تجھ سے تو بہتر تھا خدا ایک بیٹی ہی اور دے دیتا ! ”
ابّا کے یہ الفاظ مجھے قبر میں دھکیلنے کے لئے کافی تھے۔
“تیری تربیت میں آخر کیا کمی چھوڑی ہم نے ۔۔۔۔اچھا کھلایا اچھا پلایا۔۔۔ اپنا پیٹ کاٹ کر
تجھے مہنگے اسکول میں پڑھایا ،
تُو یہ صلہ دے گا ہماری قربانیوں کا !؟ ” ۔
اماں نے نا امیدی کی راکھ مجھ پہ ڈال دی ۔
میں سانس لینا چاہتا تھا ،مگر
میرے گرد اندیشوں کا اندھیرا چھا گیا ،
جو رفتہ رفتہ میرے سینے میں گھر کرگیا ۔
ابّا کے انتقال کے بعد مجھے چند ہنر سیکھنے پر ایک نجی ادارے میں نوکری مل
گئی تو اماں نے کمیٹی لاد دی۔
پھر کچھ عرصے میں بیٹیاں بیاه دیں اور زارا کو گھر لے آئیں ۔
میری اور زارا کی روز کھٹ پٹ ہوتی۔
ایک دن اماں ہاتھ پکڑ مجھے اپنے کمرے میں لے گئیں ۔
“دیکھ شجاع ۔۔۔اتنی ضد نا کر ۔۔۔خدا نے
تجھے بیٹا دیا ہے ۔۔۔اسکو اچھے اسکول میں پڑھائے گا تو آخر بڑھاپے میں خدا کے بعد
تیرا ہی سہارا بنے گا ”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ جملہ یاد آیا اور نہ جانے کیسے میں نے کوئی معمہ سلجھا لیا ۔
زمین پر بیٹا یا شوہر کیا خدا کا متبادل ہوتا ہے ؟
ہم اپنی توقعات کے بوجھ تلے اپنے بچوں کی قبر کیوں کھودتے ہیں ؟
یک دم جیسے سالوں پرانی کوئی گہری دھند چھٹ گئی ،
اب مجھے گھر جانا تھا ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔.
مجھے اپنے وجود میں ثبات پہلی بار محسوس ہوا تھا،
اپنے کمرے میں جا کر زارا کے پاس بیٹھ گیا اور بچوں کو کھیلتے دیکھنے لگا ،
آج انکا اودھم مچانا مجھے زحمت نہیں دے رہا تھا ۔۔
“زارا ” میں نے نرمی سے مخاطب کیا ۔۔۔
“میں دیکھتا ہوں تو میرے پاؤں میں قدیم زنجیر پڑی ہے، جس نے مجھے اپنی منزل تعمیر نہیں کرنے دی ۔۔ اگر میں پاؤں پاؤں اپنی آرزو سے چلتا رہتا ، شاید جینا بھی سیکھ جاتا ۔۔۔۔”
زارا میری طرف دیکھنے لگی ،
میں نے اسکی آنکھوں میں جھانکتے ہوے کہا ،
“میں چاہتا ہوں دونوں بچوں کو اپنے اپنے خوابوں کے پیچھے اڑان بھرتا دیکھوں ،
ہمیں انکے لئے بس ضربِ دست بننا ہے ”
زارا خاموش تھی اور میں ، بیداد کی بیڑی سے اپنی نسل کو آزاد کر کے
زندگی میں پہلی بار اوج پر تھا !
——-** —–** —–**——-
افسانہ نگار: فاطمہ عثمان
راولپنڈی ۔ پاکستان
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...