کسی ملک میں ایک بادشاہ رہتا تھا۔۔اسکی ایک ہی بیٹی تھی۔بہت حسین نازک بےحد ھنس مکھ۔
ایک دن وہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ کھیل رہ تھی۔تبھی ایک فقیر صدا لگاتا ہوا محل کے دروازے سے داخل ہوا۔
شہزادی جسمین کھلکھلا کر ھنس رہی تھی۔فقیر نے غور سے اسے دیکھا اسے لگا کے شہزادی اسکا مزاق اڑارہ ہے۔اس نے طیش میں اکر بدعا دی۔۔۔۔جا آج سے تیرا ہنسنا بند اور جب تو کسی سے بات کرے گی تیرے منھ سے بچھو گرینگے۔۔۔
شہزادی جسمین نے کہا بابا میں نے کیاکیا۔۔۔اتنا کہتے ہی شہزادی کےمنھ سے بچھو گرے۔وہ رو پڑی شہزادی کی حالت کا جب بادشاہ کو علم ہوا۔اس نے چاہا فقیر کو قتل کردے جس نے لاڈلی شہزادی کو بدعا دینے کی گستاخی کی۔۔ مگر وزیر نے مشورہ دیا کے اسے صرف قید کرلیا جاے۔
شہزادی خاموش رہتی نہ بولتی نہ ہنستی۔اسکی سہیلیاں بھی چپ رہنے لگیں۔
ایک دن ایک فقیر محل میں صدا لگاتا ایا شہزادی نے اسے خیرات دی۔فقیر نے ہاتھ اٹھا کر دعا دی مگر شہزادی خاموش رہی۔فقیر نے سہیلیوں سے پوچھا کے یہ کچھ بولتی کیوں نہیں۔تب ایک سہیلی نے کہا با با کیا بتاوں ہم لوگ ایک روز زور زور سے ھنس رہے تھے تبھی ایک فقیر ایا اس نے شہزادی کو ہنستا دیکھ کر بدعا دے دی۔آج سے تیرا ہنسنا بند اور جب تو بات کرے گی تو تیرے منھ سے بچھو گرینگے۔۔۔
با با نے کہا بیٹا اللہ بہت بڑا ہے۔ سب ٹھیک ہوگا۔شہزادی جسمین آج سے اد قیدی کو کھانا تم لے جاکردینا۔اور اسدن سے شہزادی جسمین پورے اہتمام سے کھانا لے کر جاتی مگر وہ اپنا چہرہ چھپا کر جاتی کے کوی اسے پہچان نہ سکے۔فقیر اتناعمدہ لذیذ کھا دیکھ کر حیران رہ جاتا۔اور روز اسے دعا دیتا۔
اس طرح ایک ماہ گذر گۓ۔
ایکدن شہزادی کھانا لے کر گٸتو فقیر بہت خوش ہوا اور کھانے سے پہلے بولا
بیٹی جا تو ہمیشہ خوش رہے گی میں جانتا ہوں تم کون ہو۔جا آج کے بعد تو کسی سے بات کرےگی تو تیرے منھ سے پھول اور موتی جھڑینگے۔۔
شہزادی نے کہا شکریہ بابا اتنا کہتے ہی اسکے منھ سے پھول اور موتی جھڑنے لگے۔۔۔شہزادی جسمین کھل اٹھی۔باوشاہ نے فقیر سے معافی مانگی اور اسے رہا کردیا۔۔۔۔فقیر نے کہا معافی تو مجھے مانگنی چاھیے۔۔۔کیونکہ میں نے بدعا دی۔۔اللہ مجھے معاف کرے۔۔۔۔فقیر نے شہزادی کی خدمت سے بہت خوش ہوا تھا اس نے دل کھول کر شہزادی کو دعا دی تو خوش رہے مسکراتی رہے۔مسرور رہے۔