آدمیوں سے بھرے میدان میں ایسا گمبھیر سکوت کہ سوئی بھی گرے تو دھماکہ۔ وسط میدان میں لکڑی کی ایک سبز پوش میز اور اس پر قرینے سے دھرے قلم دان۔ اس میز کے ساتھ ہی ایستادہ دو سادی سی لکڑی کی کرسیاں اور سامنے سفید کھمبے پر شان سے لہراتا ہوا پرچم۔
میدان میں آدمیوں کا ٹھاٹھے مارتا ہوا سمندر دم سادھےاپنے سامنے کروٹ بدلتی تاریخ کا چشم دید گواہ۔ عظیم الشان داخلی دروازے سے ایک جیپ رینگتی ہوئی اندر داخل ہوئی اور اس میں سے دو وردی پوش برآمد ۔ فاتح کی تنی ہوئی چھاتی اور غرور سے اٹھا سر جبکہ مفتوح کا سکڑا ہوا شانہ اور شکستگی سےجھکا ہوا سر ، فتح و شکست کی واشگاف داستان بیان کرتے ہوئے دو کردار۔ دونوں نے کرسیوں پر بیٹھ کر سامنے رکھی دستاویز پر دستخط کیے اور ہاتھ ملایا۔ مفتوح نے اپنا ریوالور فاتح کے حوالے کیا اور اس حوالگی کے ساتھ ہی اس جھکے ہوئے شانے اور چھاتی کو اعزازات سے محروم کر دیا گیا اور یوں سر بازار وطن کی عزت تار تار ہوئی۔
شکست خوردہ جھنڈا اتارا گیا اور فتح کی خوشی سے سرشار پھریرا پوری آن بان کے ساتھ آزاد فضا میں لہرانے لگا۔ انبساط سے ہوش کھوتے مجمع کے فلک شگاف نعروں سے فضا گونج اٹھی اور زمین ان کے والہانہ رقص کی دھمک سے لرزاں تھی۔ گارڈ آف آنر کی پیشی کے دوران ایک اڑتی ہوئی ہوائی چپل چٹاخ سے شکست خوردہ کے دائیں گال پہ آ لگی، جہاں وہ خفت سے سرخ ہوا وہیں انبوہ شادمانی و ہیجان سے شاداں و فرحاں۔
اس تقریب ِرسوائی کے اختتام پزیر ہونے کے باوجود مجمع ابھی تک اپنے قدموں پر جما کھڑا ہے کہ ابھی اس پُر مسرت ساعت کا سب سے دلچسپ ایکٹ باقی تھا۔ سب اس آخری تماشے کے لیے بےتاب ایک دوسرے کو خاموش رہنے کی تلقین کرتے ہوئے کہ فضا انتظار و انبساط سے بوجھل تھی۔
یکایک سپاہیوں کی جلو میں، مشکیں کسے، تین کم عمر یوسف ثانی میدان میں گھسیٹتے ہوئے لائے گئے ۔ وہ صاف ستھرے لباس میں ملبوس تھے اور چہرے مہرے ان کے اچھے گھرانوں سے تعلق کے غماز بھی مگر وہ قسمت کے پھیر میں آئے ہوئے معتوب و اسیر۔ انہیں دیکھتے ہی تماش بین کی آنکھوں کی چمک میں اضافہ اور مغلظات کی بوچھاڑ میں تیزی آ گئی۔ تینوں بد نصیب نوجوان بش شرٹ اور پینٹ میں ملبوس تھے۔ دو کے پیروں میں چمک دار سیاہ جوتے اور ایک کے پیروں میں ہوائی چپل تھی۔ وہ تینوں آنے والے وقت کی اذیت ناکی سے زرد اور لرزیدہ تھے۔ ان کے لیے زمین سخت اور آسمان بہت دور تھا کہ اس لاکھوں کے مجمع میں صرف بے درد و بے حس تماش بین تھے کہ وہاں انسان نہیں محض انبوہ تھا۔
اچانک تین سپاہیوں نے بیک وقت ان دہشت زدہ نوجوانوں کے عین ناف کے نیچے پوری قوت سے سنگین پرو کر انہیں پیوند خاک کر دیا۔ جوان گرم خون کا ابلتا ہوا فوارہ اچھلا اور شدت کرب سے ان کی ٹانگیں افقی ہو گئیں اور مجمع عالم وجد میں جنونی تالیاں پیٹنے لگا۔
ہجوم کا بے کراں سمندر اس پُر لطف کھیل سے محظوظ ہوتے ہوئے” جئے بنگلہ” کا پُر شور نعرہ لگاتا ہوا دھیرے دھیرے منتشر ہوگیا۔
ڈوبتی شام میں کرب سے ابلی ہوئی آنکھیں ماند پڑیں اور جوان جسم ٹھنڈی زمین پر ٹھنڈا پڑتا چلا گیا یوں شادھینتی ( آزادی) کی رسم پوری ہوئی۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...