مٹیالے پانی کا غراتا ہوا ریلا سڑک پر چھوٹی سی گاڑی کوکھدیڑتا بپھری ندی کے کنارے تک لے گیا ۔ پانی تو ندی سے بانہیں پھیلا کر مل گیا لیکن گاڑی
کنارے پر ڈگمگاتی رہی۔ گاڑی چلانے والے نے اپنا دروازہ کھول دیا تھا اور چیخ چیخ کر اپنے مسافر سے بھی یہی کرنے کو کہہ رہا تھا۔ اس نے کھلے دروازے سے باہر چھلانگ لگائی ہی تھی کہ گاڑی ٹھٹک ٹھٹک کر کئی مرحلوں کے بعد ندی میں گر گئی۔
انوار نے گاڑی الٹنے سے پہلے باہر چھلانگ لگادی تھی کہ گاڑی اس کے
اوپر نہ آ پڑے یا وہ اس کے اندر نہ پھنس جائے۔ گاڑی اس کے اوپر تو نہیں گری تھی لیکن انوار اس کے گرنے سے بننے والی پانی کی اچھال کے لیے تیار نہیں تھا مٹیالے پانی نے اس کی آنکھوں کو دھندلا دیا تھا ۔ پانی اس کی ناک اور منہہ میں
بھرا ہوا تھا اور وہ اسے پھیپھڑوں میں جانے سے روک رہا تھا۔ اس کے منہہ سے کوئی آواز نہیں نکل رہی تھی لیکن دل چیخ چیخ کر ماں کو پکار رہا تھا ۔
ندی کنرے گاؤں میں پلنے والے لڑکوں کی طرح اسے بھی جان بچانے بھر تیرنا آتا تھا لیکن یہ دھارا بہت تیز تھا ،اکھڑے ہوئے پودے اور درختوں کی ٹوٹی
ہوئی شاخوں کے علاوہ بستی والوں کی املاک کو بھی بہائے جارہا تھا۔ ایک تیز نیلے رنگ کی چادر اس مٹیالے پانی میں اسے نظر آئی تھی یا شاید واہمہ تھا ۔
وہ گردن گھما گھما کر ماں کا سر یا اٹھا ہوا بازو ڈھونڈتا رہا لیکن نہ پلٹ کر
جانا ممکن تھا نہ تیر کر کنارے پر جا نا۔ وہ اپنی پوری کوشش سے سر سطحِ آب
پر رکھنے میں کامیاب ہو رہا تھا ۔ اسے لگا کہ پانی کی رفتار بڑھ گئی ہے۔ اسے
پشت پر پانی کے دباؤ کے بڑھنے کا احساس ہو رہا تھا۔ آگے پانی ایک پل کے
نیچے گزر رہا تھا۔ پل کے سنگی قدموں نے پانی کو پھیلنے سے روکا تو اس
کے بہاؤ میں اور تیزی آگئی تھی۔ انوار کو پل کے اوپر لوگوں کے سر نظر آئے۔ کسی نے اس کے لیے رسی پھینکی لیکن رسی کا سرا اس کے ہاتھ کی پہنچ سے اوپر ہی رہ گیا اور پھر پانی کی تیز رو اسے تیزی سے آگے بہا لے گئی تھی۔
اسے اندازہ نہیں رہا تھا کہ کتنا وقت ، کتنا فاصلہ گزر چکا ہے۔ پہلے اس کی بانہیں تھکیں پھر ٹانگیں بھاری ہوتی چلی گئیں ۔ ڈوبنے کی دہشت سے بے نیاز اس نے جسم ڈھیلا چھوڑ دیا ۔ اس کا پانی میں ڈوبتا ہوا جسم تہہ سے ٹکرایا اور زندگی کی ناقبلِ تسخیر خواہش نے اس کے ماندہ جسم کو کھڑا کر دیا ۔ اس کے
پاوٗں تہہ پر تھے اور سر پانی سے باہر تھا ۔
پانی کی رو اسے بہت دور لے گئی تھی اور اب گویا انوار کی طرح تھک کر آہستگی سے ساحل کے دونوں طرف پھیلے کھیتوں کی مٹی پر پھیل گئی تھی ۔ انوار پانی میں بدقت چلتا، کیچڑ میں پھسلتا گرتا اٹھتا ندی سے دور چلا جارہا تھا۔اسے بھوک پیاس کا کوئی احساس نہیں تھا لیکن گیلے کپڑوں میں اسے سردی لگ رہی تھی۔ تیرنے کی کوشش میں اس نے اپنی جیکٹ اتار دی تھی۔ وہ گیلی جیکٹ اسے گرم تو نہ رکھتی لیکن اس کی جیب میں گیلی سہی کچھ رقم ہوتی۔ پیسے نہ ہونے کا خیال پہلی مرتبہ اس کے ذہن میں دور، نیم تاریکی میں عمارتوں کے ہیولوں کو دیکھ کر اٹھا ۔انسانوں کی بستی میں سارا کھیل انھیں کا تو ہے۔
اس کے کانوں میں جیسے بہت دور سے لوگوں کے بولنے کی آوازیں آرہی تھیں ،
اس سے پہلے کہ وہ لڑکھڑا کر گر جاتا اس کے بازوؤں کو تھام کر اسے ایسی جگہہ پہنچا دیا گیا جہاں زمین پر پانی تو کھڑا تھا لیکن چارپائی پر بیٹھا جاسکتا تھا، لیٹا جاسکتا تھا۔
وہ بےسدھ چارپائی پر گرپڑا ۔ یہ کون لوگ ہیں؟ شاید اسے بچانے کا معاوضہ مانگیں؟ ہوسکتا ہے یہ ڈاکو ہوں؟ اس کو قید کر کے تاوان مانگیں۔ اس کا ذہن کوئی اچھی بات سوچنے پر آمادہ نہیں تھا۔
اس کے لیے کوئی تاوان نہیں دے گا ۔ اسے اپنے جوان بیٹے کی بدتمیزی یاد آئی، اس کی طرفداری میں بیوی کا بولنا یاد آیا ۔ پھر اس کی اور بیوی کی جھڑپ اور
ماں کی حمایت میں بیٹی کا یہ کہنا کہ آپ کو تو ہر وقت غصہ آتا ہے۔
اب بیٹی بھی زبان چلانے لگی ہے ۔ ماں نے انھیں نو مہینے خون اور سال بھر دودھ پر پالا تھا تو اس نے بھی تو ایک چوتھائی صدی ان کے لیے محنت کی تھی، ان کے لیے کمایا تھا ۔ ان کی صحت، تعلیم ۔آرام کے لیے اپنی خوشیوں کو، اپنی انا کو قربان کیا تھا۔
اسے تو اب تک بس میں دھکے کھاتے کام پر جانا یاد تھا، رکشاؤں کے پیچھے بھاگنا یاد تھا۔ افسروں کی جھڑکیاں برداشت کرنے سے اب وہ وقت آگیا تھا کہ اس کے پاس بھی کار تھی۔ اسی کو مانگنے اور اس کے انکار کرنے پر بیٹے سے تو تو میں میں ہوئی تھی ۔ بدتمیز۔ باپ کی عزت اور لحاظ کہاں اڑ گیا ۔
صرف اس کی ماں تھی اس سے محبت کرنے والی، گاؤں میں رہنے والی، چونکہ اس کے بیٹے کے گھر میں کوئی اس کے گنوارو انداز برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ اس کی آنکھوں میں وہ نیلی چادر گھوم گئی جس میں شاید اس کی ماں تھی، جسے وہ بچا نہیں پایا تھا۔ اس کے سارے آنسو شاید پانی کے ریلے میں بہہ چکے تھے
اور اب وہ اس اندوہناک صدمے کے باوجود رو نہیں پا رہا تھا ۔
کسی نے اسے کھیس دیا کہ اسے لپیٹ لے پھر کسی نے گرم چائے کا پیالہ اسے تھمادیا۔ اسے اندازہ ہوا کہ وہ ایک مسجد کے صحن میں بنے امدادی کیمپ میں ہے۔
کھانا کھانے کے بعد نام پتہ لکھوانے کا مرحلہ آیا۔ انوار کے دماغ نے بغاوت
کردی۔ وہ سنتا رہا اور اس کی زبان اس کا نام بشیر احمد اور اس کے پتے میں قریب کے ایک گاؤں کا نام لکھواتی رہی ۔ اس نے اپنی کار یا ماں کا کوئی ذکر
نہیں کیا۔
اسے لگ رہا تھا کہ یہ سب درست ہو رہا ہے۔ وہ کیوں ایسی جگہہ واپس جائے جہاں اس کی عزت نہیں ہے جہاں اس کی کوئی قدر نہیں ہے۔ صرف ماں تھی جسے اس کی قدر تھی جو اس سے محبت کرتی تھی۔ وہ جو تھوڑے سے روپے گاؤں
بھیجتا تھا ان کے ملتے ہی وہ پہلے اس کا صدقہ نکالتی تھی اور دعائیں تو گویا ہر سانس کے ساتھ دیتی تھی اور اب وہ نہیں تھی۔
انوار کو کام کرنے کی عادت تھی ۔ دھوپ ہوئی تو اس نے کھیس لپیٹ کر اپنے کیچڑ بھرے کپڑے دھوئے اور دھوپ میں سکھا کر پہن لیے۔ اسے کہیں جانے کی جلدی نہیں تھی وہ اسی کیمپ میں ایک والینٹیئر کی طرح کام کرنے لگا۔
اگلی دفعہ شہر سے روٹیاں اخبار کے جس کاغذ میں لپٹی آئیں اس کی تصویر میں ایک ٹرک اس کی گاڑی کو ندی میں سے کھینچ کر نکال رہا تھا۔ نیچے خبر تھی کہ گاڑی کا مالک ندی میں بہہ گیا اور ایک بوڑھی عورت کی لاش اس کار میں پائی گئی۔
اس بہتی ہوئی نیلی چادر میں ماں نہیں تھی۔ اس کی لاش مل گئی ہے ۔ گاڑی کے کاغذات سے لوگ اس کے گھر پہنچ کر اس کی موت کی خبر دے چکے ہوں گے ۔ اس کی بیوی نے ماں کی تدفین کرا دی ہو گی۔ شکر ہے وہ لا وارث لاش کے طور پر نہیں دفنائی گئی ہو گی۔ انوار کو خیال آیا کہ سب عزیز ماں کی قران خوانی میں آئے ہوں گے اور اس کے بیوی بچوں کو تسلیاں دے رہے ہوں گے کہ مایوس نہ ہو اللہ بڑا کارساز ہے انوار ضرور بچ گیا ہوگا وہ تو سیلاب کا سنتے ہی ماں کو گاؤں سے لانے چلا گیا تھا ایسے نیک بندے کو اللہ محفوظ رکھے گا۔ وہ ضرور واپس آرہا ہوگا پھر آپس میں دبی زبان میں کہتے ہوں گے لیکن کہیں سے فون تو کرلیتا اگر زندہ ہوتا ، ہا۔ کیا پتہ زخمی ہو، بے ہوش ہو۔
انھیں کیا علم کہ اس کے نہ ہونے کا اس کے بیوی بچوں کو کوئی غم نہیں ہے۔ بس یہ پریشانی ہے کہ جب تک اس کی موت ثابت نہیں ہوجاتی وہ بینک میں سے پیسے نہیں نکال سکتے، بیمے کی رقم نہیں حاصل کر سکتے۔ پنشن انھیں نہیں مل سکتی۔
انوار نے یہ باتیں تلخی سے نہیں سوچیں۔ اب جب وہ اپنے لیے ایک نئی زندگی کی بنا ڈال رہا تھا وہ غصے اور نفرت سے اپنا خون نہیں جلانا چاہتا تھا۔
ملگجے شلوار قمیض پر کھیس لپیٹے بڑھے ہوئے شیو کے ساتھ ٹرک سے سامان اتارتے اور پانی کی نکاسی کے لیے کھدائی کرتے مزدور کی شکل میں وہاں
اسے کوئی پہچاننے والا نہیں تھا۔
دن گزرنے کے ساتھ پانی اتر رہا تھا۔ دھوپ میں گلیوں میں کھڑے پانی سے بھاپ سی اٹھتی دکھائی دیتی تھی۔ فصلیں تباہ ہو چکی تھیں لیکن لوگ گاؤں واپس آرہے تھے اور منہدم مکانوں کی دیواروں کو پھر سے اٹھا رہے تھے۔ شہر سے اب بھی امداد آرہی تھی اور اب انوار ہی اس کی تقسیم کرتا تھا ۔ مسجد کے امام اور دوسروں کی نگاہوں میں اس کی عزت اس بات سے بڑھ گئی تھی کہ اس نے ایک جوڑا کپڑوں اور پیٹ بھر کھانے کے علاوہ کبھی کوئی چیز اپنے لیے نہیں رکھی تھی۔ لیکن وہ یاد رکھتا کہ کس آنے والے خاندان میں چھوٹے بچے ہیں اور ان کے لیے دودھ بچا کررکھتا تھا۔
وہ کم بولتا، نہ دوسروں کے معاملات کی کھوج کرتا نہ اپنے بارے میں بتاتا ۔ دریا کے کنارے جاتا اور کبھی کیچڑ میں پڑی کوئی پتیلی، تغاری مل جاتی تو دھو کر مسجد کے صحن میں رکھ دیتا کہ جس کو ضرورت ہو لے جائے۔ ایک دن اسی طرح ایک لاش کیچڑ میں دبی اسے نظر آئی۔ تدفین سے پہلے وہ اس کے سوجے چہرے کو دیکھتا رہا، وہ چہرہ بار بار اس پہچانے چہرے میں تبدیل ہوتا رہا جو کسی آئینے کی غیر موجودگی میں اس نے کئی ہفتوں سے نہیں دیکھا تھا۔ اس نے پانی میں اپنا عکس دیکھ کر خود کو یقین دلانا چاہا کہ یہ لاش اس کی نہیں ہے لیکن
لہروں میں ایک باریش مرد کی بنتی بگڑتی صورت پہچاننا اسے مشکل لگا۔ اس
کے بعد اس نے دریا کنارے جانا اور کیچڑ میں کھوئی چیزوں کی تلاش چھوڑ دی۔
ایک دن وہ امدادی سامان کے ٹرک کے ساتھ واپس شہر چلا گیا، لیکن اپنے
شہرنہیں۔
دریا سمندر میں گرتا ہے اور ملک کی آبادی اس شہر میں جو پانی کی کمی، بجلی اور گیس کی کمی کے با وجود سال بسال اپنے کناروں سے باہر پھیلتا چلا جاتا ہے۔ انوار کو بھی اس وسیع القلب بستی نے سمو لیا۔ جب تک اس کے پاس اتنے پیسے جمع نہیں ہوگئے کہ وہ استری اور کلف شدہ جوڑا پہن کر کام پر نہیں گیا اسے برتن دھونے سے بہترکوئی نوکری نہیں ملی۔ لیکن کلف لگے جوڑے کو کئی مناسب کام ملے ان چھوٹے موٹے کاموں کو اپنی تعلیم اور تجربے کی بنیاد پر خوش اسلوبی سے نبھانے کے بعد اب وہ ایک مصروف ریسٹورنٹ میں کام کر رہا تھا ۔ وہ دیکھتا کہ خاندان کے خاندان آکر ہزاروں کا کھانا کھاتے اور ان کے بچوں کو سنبھالنے والی نو عمر لڑکیاں شرمندگی سے اپنی حریص نگاہیں دائیں بائیں کرتی رہتیں۔ وہ بچا ہوا کھانا بندھواکر لے جاتے اور فقیروں کو بمشکل دھتکارتے
ہوئے کار میں بیٹھتے۔ انوار اپنے ماضی کو کریدتا اور ان سے مماثل شبیہوں پر شرمسار ہوتا۔ اسے لگتا تھا کہ ریسٹورنٹ کے دروازے کے نزدیک سجے شیشے کے ایکویریم میں رنگ برنگی مچھلیاں جس طرح اپنے اطراف کے پانی کو محسوس کیے بغیر زندہ تھیں ویسے ہی وہ خود اپنے ماحول سے بے نیاز زندہ رہا تھا۔ ریسٹورنٹ کے دور کے کونے میں ایک نوجوان جوڑا راز و نیاز میں مصروف تھا۔ لڑکی بار بار گھبرا ئی نگاہ اطراف میں ڈالتی تھی ۔ انوار کو اپنی بیٹی یاد آئی ،
نہیں، ایسا نہیں ہوگا، اس کی ماں اس کا خیال رکھے گی۔
اس کے لکھنے پڑھنے اور حساب درست رکھنے کی وجہ سے جب مالک باہر جاتا تو یا کسی ملنے والے سے باتیں کرنے لگتا تو اسے اپنی جگہہ بٹھا دیتا تھا۔
مالک کی اپنے دوستوں سے گفتگو کی اڑتی دھجیاں اس کے کانوں تک پہنچتیں اور اس کا ذہن انھیں جوڑ جوڑ کر جو منظرنامہ بناتا اس میں کبھی ان کے بیٹے کوکین استعمال کرتے نظر آتے کبھی وہ یہ شکر ادا کرتے ہوئے سنائی دیتے کہ
بیٹا صرف حشیش استعمال کرتا ہے۔ جوان لڑکے باپوں کی خریدی گاڑیوں میں آوارہ
عورتوں کو لیے گھوم رہے ہیں اور ان کے نمازی والدین دعا کے علاوہ کچھ نہیں کر پا رہے۔ بیٹے کی یاد اس کے دل کو چھیلتی چلی گئی۔ اسے وہ چھوٹا سا صحن
میں اپنی پیڈل والی گاڑی چلاتا نظر آیا۔
لاکھوں کا زیور پہنے عورتیں ریسٹورنٹ سے نکل کے اپنی گاڑیوں میں بیٹھتے ہوئے اطراف میں مکھیوں کی طرح بھنبھناتی فقیرنیوں پر پانچ روپے کا نوٹ پھینک
کر دروازہ بند کر لیتیں۔ وہ دیر سے کام سے فارغ ہوکر رین بسیرے کے لیے پانچ زینے چڑھ کر ایک کابک نما فلیٹ میں جاتا اور جس کے ساتھ ساجھے میں یہ کرائے پر لیا تھا برابر کے کمرے سے آتی اس کے خراٹوں کی آوازسنتا ہوا کسی وقت سو جاتا ۔ اکثر خواب کے گملوں میں پانی دیتے ہوئے وہ ایک عورت سے باتیں کرتا جو اس کی بیوی نہیں تھی، وہ لڑکی تھی جس سے وہ شادی کرنی چاہتا تھا لیکن دونوں خاندان تیار نہیں ہوئے تھے ۔ وہ کہاں تھی؟ اس کی یادوں کے علاوہ
اب وہ کہاں تھی ،انوار کو اس کا کوئی علم نہیں تھا۔
بشیر احمد کے قالب میں انوار انسانوں کے سمندر کی موجوں کے رحم و کرم پر تھا۔ وہی کبھی اسے دھکیلتی مفت بٹتے ہوئے کھانے سے پیٹ بھرنے کو لے جاتی تھیں وہی اسے ایک دن اصلی ٹھاٹھیں مارتے سمندر کے کنارے لے گئیں۔ وہ گیلی ریت پر بنے اپنے قدموں کے نشان مڑمڑ کر دیکھتا چلا گیا۔ دل کے کسی کونے، دماغ کے کسی حصے سے ایک ہوک سی اپنی گزاری ہوئی زندگی کے لیے اٹھ رہی تھی۔ گھر، کام، بیٹا ، بیٹی ، بیوی، دوست، محلے والے سب ایک ٹوٹے
ہوئے آئینے کی کرچیوں میں اسے نظر آرہے تھے ۔ اسے خیال آیا کہ پسِ پشت ڈالے ہوئے زندگی کے سفر میں بھی اس کے قدموں کے نشاں باقی ہوں گے۔ ۔ ۔
سمندر کی ایک شوریدہ سر لہر نے بڑھ کر ریت پر اس کے قدموں کے نشان مٹادیئے ۔