کبھی کبھی کوئی یاد بجلی کی طرح کوندتی ہے۔ ایسے ہی آج بیٹھے بٹھائے ” سیٹو ” یاد آگئی۔ جاپانیوں کی اصلی عمر جاننا بھی کار دشوار ہے کہ یہ نہایت عمر چور ہوتے ہیں۔ ایسی ہی فنکار سیٹو بھی تھی۔ درمیانی قد و قامت، چھریری، چمپئ رنگت۔ بھونرے جیسی کالی آنکھوں اور کالے ریشم جیسے بالوں والی سیٹو۔ گربہ چال چلتی اور سلیقہ طریقہ، ادب و آداب جیسے گھٹی میں پڑا ہو۔ وقت کی قدر دان و خاموش طبع۔ وہ سب کی دوست تھی مگر حد ادب کے اندر، کسی کی ذاتیات میں دخیل نہیں اور اپنے معاملات میں بھی حد درجہ محتاط۔ میں اسے پھرتی اور سبک رفتاری سے ڈائنگ ہال میں کام نپٹاتے دیکھا کرتی اور اس کی لچک و نفاست پر عش عش کرتی۔
ہمیں دس دن ہوئے تھے بنگلہ دیش سے اس جگر مگر کرتی ہوئی اجنبی سر زمین پر اترے ہوئے۔ میں سحر آفریں بنگال سے بہار کا استقبال کر کے چلی تھی مگر یہاں بہار ابھی تک خوابیدہ تھی سو دھوپ کی تمازت جسم کو بڑی بھلی لگتی۔ رحمان، میرے میاں نے ڈھاکہ میں بیٹھے بیٹھے یہاں اپارٹمنٹ کرائے پر لے لیا تھا مگر نوکری کی تلاش ہنوز جاری تھی۔ وہ آئی ٹی کی فلیڈ کے ماہر تھے اس لیے امید واثق تھی کہ جلدی ہی نوکری کا بندوست بھی ہو جائے گا۔ جس بلڈنگ کی چودھویں منزل میں ہم لوگوں کی رہائش تھی، ٹھیک ویسی ہی عمارت پڑوس میں بھی تھی۔
ایک شام میں رجا اور روحا کے ساتھ نیچے باغ میں تھی کہ وہاں دو پیاری سی لڑکیوں سے ملاقات ہوئی۔ وہ فلپائن سے تھیں اور دونوں تنکوں کی ٹوپیاں پہنے ہنستی مسکراتی بس سے اتری تھیں۔ تنکوں کی ٹوپی نے مجھے ناسٹلجیا میں مبتلا کر دیا اور میں بے اختیار ان لڑکیوں کی طرف کھنچتی چلی گئی۔ وہ دونوں بہنیں تھیں اور اسی بلڈنگ میں چھٹی منزل کی رہائشی۔ ان لڑکیوں سے گپ شپ کے دوران پتہ چلا کہ پڑوس میں جو عمارت ہے وہ اولڈ ہوم ہے اور وہ دونوں وہیں ڈائنگ ہال میں ویٹریس ہیں۔ باتوں باتوں میں یہ خبر بھی ملی کہ آج کل وہاں پریپ کک کی آسامی خالی ہے۔ گھر آ کر میں نے رحمان سے اس نوکری کا ذکر کیا۔ پہلے تو وہ حسب معمول ہتھے سے اکھڑ گئے کہ تمہیں نوکری کی کیا سوجھی؟
میں کہا بھئ قسمت آزمانے میں کیا ہرج ہے؟
جب تمہیں نوکری مل جائے گی، میں کام چھوڑ دوں گی، رات کے کھانے تک میں نے رحمان کو انٹرویو کی حد تک راضی کر ہی لیا اور بیچارے کو اوپری دل سے اجازت دیتے ہی بنی۔ دوسرے دن دس بجے میں پڑوس کی بلڈنگ گئی اور وہاں کے مینجر سے ملاقات کی۔ اب جانے ان کی ضرورت شدید تھی یا میری قسمت زور آور کہ چالیس منٹ کے بعد جب میں آفس سے اٹھی تو نوکری کا پروانہ میرے ہاتھوں میں تھا اور منیجر جینیفر نے کچن اور ڈائنگ ہال کے دورے کے لیے مجھے ہیڈ کک کے حوالے کر دیا تھا۔ میرے لیے وہ نا قابل یقین لمحہ تھا اور میں دلی خوشی سے سرشار تھی۔ میرے پاس کوئی پچھلا تجربہ تو تھا نہیں البتہ میری ہوم اکنامکس کی ڈگری ضرور کام آ گئی تھی۔ گھر آ کر خوشی خوشی رحمان کو بتایا پر وہ کچھ نا خوش سے تھے۔
اگلے دن میں کام پر پہنچی۔ بہت ہی بڑا اور شاندار کچن اور لحیم شحیم ڈائنگ ہال۔ یہ چار ستارہ اولڈ ہوم تھا اور یہاں تقریباً اسی پچاسی بوڑھے اور انتہائی بوڑھے رہائش پذیر تھے۔ ان میں ساٹھ فیصد تو جوڑے اور چالیس فیصد چھڑے چھانٹ تھے۔ عورتیں تعداد میں نسبتاً زیادہ تھیں۔ بیشتر لوگ زندگی سے بھرپور، زندہ دل و پر امنگ پر کچھ نہایت کھڑوس اور زود رنج بھی۔ اسٹاف میں چھ ویٹریس، ہیڈ کک اور دو پریپ کک۔ دس بجے دن میں ہلکے اسنیک کے ساتھ چائے سرو ہوتی، بارہ سے ڈیڑھ کھانا۔ تین بجے پھر چائے، کافی اور چار سے ساڑھے پانچ بجے تک رات کا کھانا۔
ہفتے کے اندر اندر میں نے کام خوش اسلوبی سے سنبھال لیا اور مجھے کام میں مزہ آنے لگا۔ ویٹریس میں دو کا تعلق فلپائن ، دو کا ایتھوپیا، ایک کا جاپان اور ایک کا سربیا سے تھا۔ ہیڈ کک لبنانی اور دوسری پریپ کک یہیں کی گوری تھی، باورچی خانہ کیا تھا ایک چھوٹی سے دنیا تھی۔ اس اولڈ ہوم کے بیشتر باشندے کینیڈین اور یورپین تھے، صرف ایک آدمی ہندوستانی تھا اس کا اصلی نام تو خاصا لمبا چوڑا تھا مگر وہ سنی کے نام سے معروف تھا۔ پریپ کک ہونے کی بنا پر میرا ڈائنگ ہال سے براہ راست تعلق نہیں تھا پر رش کی صورت میں یا کسی ویٹریس کی غیر حاضری کے سبب ڈائنگ ہال کا چکر لگتا رہتا۔ اکثر وضع دار مقیمی کھانے کے بعد باورچی خانے کی کھڑکی پہ آ کر کھانے کی تعریف اور شکریہ ادا کر کے جایا کرتے تھے اور ان کی یہ ادائے دل نواز میری حیرانی اور خوشی کا موجب ہوتی کہ ہم برصغیر والے، محنت کی عظمت اور سراہے جانے کے فن سے بھلا کب آشنا ہیں؟ مجھے یہاں کام کرتے ہوئے چار مہینے ہوچکے تھے اور میں نے اپنی عبوری مدت بہترین کارکردگی کے ساتھ پوری کر لی تھی۔
اس عرصے میں رحمان کو بھی بہت اچھی نوکری مل گئی مگر سب کچھ اتنا اچھا چل رہا تھا کہ رحمان نے ایک آدھ دفعہ رسمی طور پر مجھے نوکری چھوڑنے کا کہا اور میں نے بھی ہوں ہاں کر کے ٹال دیا۔
دونوں بچیاں اکٹھی اسکول جاتی اور ان کی اسکول بس انہیں عمارت کے صدر دروازے سے اسکول کے لیے پک کرتی۔ ساڑھے تین بجے وہ اسکول سے واپس آتیں، رجا پانچویں اور روحا تیسری میں تھی۔ رحمان آفس کے لیے بہت سویر نکلتے تھے سو وہ چار اور بہت دیر ہوئی تو ساڑھے چار بجے تک گھر لوٹ آتے۔ راوی چین ہی چین لکھ رہا تھا۔ میں اپنی پوری تنخواہ مستقبل میں خریدے جانے والے گھر کے لیے محفوظ کر رہی تھی۔ اپنا گھر میرا وہ دیرینہ خواب، جس نے لڑکپن ہی سے میری آنکھوں میں بسیرا کیا ہوا تھا۔
ڈائنگ ہال میں کام کرنے والی لڑکیوں کی انگریزی قدرے کمزور تھی۔ ایک دن تین بجے کے قریب کچن میں فون کی گھنی بجی، سیٹو فون کے قریب ہی کھڑی تھی سو اس نے لپک کر فون اٹھایا۔ ہوں ہاں کے بعد ایک گمبھیر خاموشی چھا گئی۔ میں نے سیٹو کو دیکھا تو وہ جھر جھر نیر بہا رہی تھی۔
یا اللہ ! کیا ہوا سیٹو ؟
کس کا فون تھا؟
سیٹو نے بتایا کہ آئرین کا فون تھا اور ہیو مر گیا ہے۔
کیا ؟
میں اور ہیڈ کک بیک وقت چلائے اور بے اختیار لفٹ کی جاجانب دوڑے۔ ہیو اور آئرین ایک آئرش کپل تھا اور بلا مبالغہ ہم سب کا پسندیدہ بھی۔ نہایت ظریف، بدلہ سنج اور مہذب۔ تیزی سے دھڑکنے دل کے ساتھ آٹھویں فلور پر پہنچے، آئرین کے اپارٹمنٹ کا دروازہ چوپٹ کھلا تھا، میرا دل ڈوب گیا۔ لرزتے قدموں سے اندر قدم رکھا تو دیکھا کہ ہیو صوفہ پر نڈھال سا بیٹھا ہے اور آئرین اسے گھونٹ گھونٹ اورنج جوس پلا رہی ہے۔ پتہ چلا کہ ہیو کی شوگر لیول کم ہونے کی وجہ سے وہ چکرا کر گر گیا تھا پر اب بہت بہتر محسوس کر رہا ہے۔ ہیڈ کک نے وہیں سے پیرا میڈیکس کو فون کیا اور میں شکر کا کلمہ پڑھتے ہوئے نیچے کچن میں وآپس آ گئی۔
میں نے سیٹو کو بتایا کہ ہیو ٹھیک ہے۔ پھر اس سے پوچھا کہ آئرین نے فون پر کیا کہا تھا؟
سیٹو معصومیت سے کہنے لگی
Irene told that Hue passed out ، so I thought he is dead۔
میں نے ہنستے ہوئے کہا سیٹو
She said passed out, not passed away.
اور سیٹو حسب عادت منہ پر ہاتھ رکھ کر بے ساختہ ہنسنے لگی۔ اس کی منہ پر ہاتھ رکھ کر، سر پیچھے پھینکتے ہوئے ہنسنے کی ادا اتنی موہنی ہوتی تھی کہ اس لمحے وہ بالکل نو عمر لڑکی لگتی، کوئی مان ہی نہیں سکتا تھا کہ یہ پچپن سال کی عورت ہے۔
سیٹو کی کہانی بھی درد و الم سے بھری تھی اور اس نے انتہائی پر مشقت زندگی گزاری تھی۔ سیٹو نے اپنے خاندان کے ساتھ جاپان کے شہر اوکیناوا Okinawa سے ہجرت کی تھی۔ سیٹو، اس کا میاں اور ایک بیٹی، اس کی دوسری بیٹی یہیں پیدا ہوئی تھی۔ پانچ چھ سال بعد سیٹو کے میاں کا دل کسی گوری پر آ گیا اور وہ سیٹو کو بے یار و مددگار چھوڑ کر اڑنچھو ہوگیا۔ اس کے بعد سیٹو کی زندگی محنت و مشقت سے عبارت ہوئی، اس نے اپنی بیٹیوں کی دیکھ رکھ اور تعلیم کی کوششوں میں اپنی جوانی خاک کر دی۔ ماں کی طرح بیٹیاں بھی محنتی تھیں اور اب اس کی ایک بیٹی نرس اور دوسری سرامکس میں ڈپلومہ حاصل کر کے اچھا کما رہی تھیں۔ سیٹو اپنی بڑی بیٹی جو شادی شدہ تھی، اس کے ساتھ ، اس کے بیسمنٹ میں رہتی تھی اور اپنی زندگی سے مطمئن تھی۔
ہمارے ڈائنگ ہال میں ایک مختصر قد و قامت اور جھلسی رنگت کا حامل عیسائی ہندوستانی بھی رہائشی تھا۔ وہ بنگال کے سحر آفریں شہر یعنی دارجلنگ کا باسی تھا اور عموماً وسیع ڈائنگ ہال کے پچھلی جانب، آتش دان کے قریب بیٹھا کرتا ۔ اچھا مہذب اور رکھ رکھاؤ کا حامل تھا۔ وہ اکثر کچن کی کھڑکی پر آ کر بنگلہ میں مجھ سے حال احوال لیتا اور یوں مختصر مدت کے لیے وہ دارجلنگ اور میں ڈھاکہ سے ہو آتے۔
آج کل اکثر لنچ بریک پر ساتھی لڑکیاں سیٹو سے چھیڑ چھاڑ کرتی مگر میں نے نوٹس نہیں لیا کہ میں ان دنوں اپنے سسر علالت کے باعث ذہنی طور پر منتشر و فکرمند تھی۔ اپنی بھری پری سسرال میں میرے سسر میری پسندیدہ شخصیت کہ وہ بڑے ہی درد مند اور انسان دوست ہیں ۔ ذات برادری، چھوت چھات اور مسلک کی تفریق سے اوپر، درویش صفت انسان۔ ایک دن دو ویٹریس کسی بنا پر غیر حاضر تھیں اور بد قسمتی سے ہمیں ان کی متبادل بھی نہیں مل سکں، لہزا اس دن مستقل میری بھی ڈائنگ ہال کی دوڑ لگتی رہی۔ میں روتھ ( رہائشیوں کی چیٹر باکس) کو سرو کر رہی تھی کہ اس نے کہا کہ پھر تمہاری دوست شادی کب کر رہی ہے؟
میں حیران کون دوست، کس کی شادی؟
میرے حیرت زدہ تاثرات دیکھ کر اس نے پوچھا کیا تمہیں سیٹو اور سنی کے متعلق علم نہیں؟
میرے انکار پر بے ساختہ ہنسی اور کہا کس دنیا میں رہتی ہو تم؟ سب کچھ تو تمہاری ناک کے نیچے ہو رہا ہے اور تمہیں ہی خبر نہیں؟
قصہ مختصر پتہ چلا کہ سنی صاحب ، سیٹو کے عشق میں گوڈے گوڈے دھنسے ہوئے تھے اور دونوں کا زور دار قسم کا رومانس چل رہا تھا۔ ان کا باہر کا ملنا ملانا اور سیر و تفریح بھی تھی اور سنی سیٹو کو پروپوز بھی کر چکا تھا۔
پھر مجھے خیال آیا کہ ارے ہاں!! ادھر کچھ عرصے سے سیٹو نک سک سے تیار اور بہت خوش باش لگ رہی تھی۔ اللہ رے عشق کی نیرنگیاں، مجھے بے ساختہ ہنسی آ گئ اور میں نے روتھ سے کہا اچھا ہے نا ، دو اداس و تنہا انسان بقیہ زندگی خوشی خوشی جی لے گے۔
شام میں جب قدرے فرصت میسر آئی تو میں نے سیٹو کو مبارکباد دی۔ سیٹو نے خوشی خوشی مجھے اپنی ہیرے کی دمکتی سولیٹئر انگوٹھی ( solitaire diamond ring) دیکھائی اور بتایا کہ، آج میں نے سنی کا پروپوزل قبول کر لیا ہے۔ اتنی میں باقی لڑکیاں بھی جمع ہو گئی اور خوب مبارک سلامت کا شور مچا اور ہم سب نے سیب کے جوس پر ٹوسٹ کرتے ہوئے سیٹو کی منگنی کو سیلیبڑیٹ کیا۔
میں اپنے سسر کے انتقال پر بنگلہ دیش چلی گئ اور وہاں تقریباً دو مہینے رہ گئی۔ بچیوں کی پڑھائی کا بہت نقصان ہوا، مجھے نوکری کی بھی فکر تھی کہ میں تو صرف پندرہ دن کی چھٹی لے کر آئی تھی مگر ان کی جدائی میں میری ساس اس قدر نڈھال تھیں کہ انہیں اس حال میں چھوڑنے کو دل ہی نہیں مانا۔ وآپسی پر زندگی پھر وہیں سے شروع ہو گئ، وہی مصروفیت اور بھاگ دوڑ جو باہر کی زندگی کا خاصہ ہے۔ جینیفر کی مہربانی اس نے مجھے دوبارہ کام پر رکھ لیا۔ سنی نے اولڈ ہوم چھوڑ دیا تھا اور سیٹو کے ساتھ رہنے لگا تھا۔ سیٹو اب بھی کام پر آتی تھی مگر بجھی بجھی سی اور پژمردہ۔ اس کی طبیعت خراب رہنے لگی تھی اور اب اس کی واحد خوراک دودھ اور دہی تھی اور وہ کسی کو کچھ بھی بتانے سے انکاری۔ پھر سیٹو نے کام چھوڑ دیا، کچھ دن لینچ بریک پر اس کا ذکر رہا پھر وہ قصہ پارینہ ہو گئی۔
ایک دن اچانک سیٹو کی بیٹی مینجر سے ملنے آئی، وہ بہت غصے میں تھی اور جو کچھ اس نے بتایا وہ ناقابل یقین تھا۔ سیٹو کو حلق کا کینسر تشخیص ہوا تھا اور بقول اس کی بیٹی کہ سنی اس کے گھر سے زیور اور نقدی لے کر فرار ہو گیا ہے۔ سیٹو کی بیٹی کا مینجر سے پر زور اصرار تھا کہ
اسے، سنی کی پرسنل فائل سے اس کا سن کارڈ نمبر دیا جائے۔ ظاہر ہے جینیفر کے لیے یہ ممکن نہیں تھا۔ وہ غصے میں بکتی جھکتی وآپس چلی گئی اور ہم سب دم بخود رہ گئے کہ سنی کے متعلق دل یہ مانے کو تیار ہی نہ تھا۔ ہفتہ بھر تک سیٹو پھر لنچ بریک کا گرما گرم موضوع رہی۔ پھر تیز رفتار وقت کی زد میں سیٹو بھی بھولی بسری کہانی ہوئی۔
گزرتے وقت کے بہاؤ میں میری زندگی نے بھی رخ بدلا اور میں اپنے گوہر مقصود سے فیضیاب ہوئی۔ ہمارے اپنے گھر کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا اور ہم لوگ بغیر سود کہ اپنے گھر کے مکین ہوئے۔ رجا بھی یونیورسٹی میں آ چکی تھی اور ہماری زندگیاں بڑی متوازن اور پرسکون تھیں۔ میں نے رحمان سے حسب وعدہ، اب نوکری چھوڑ دی تھی اور ہفتے میں تین دن مسٹرڈ سیڈ کے کچن میں والنٹیئر کرتی کہ یہ میرا اپنے آپ سے عہد تھا کہ میں کارآمد شہری بنوں گی اور اپنی ذات سے دنیا کو کچھ بہتر لوٹاؤ گی۔
ایک دن اچانک مال میں مجھے سیٹو مل گئ۔ گو اب وہ اپنی پرچھائی بھی نہ رہی تھی مگر میں نے اسے پہچان لیا اور اسے زندہ سلامت دیکھ کر مجھے بے حد خوشی ہوئی۔ ہم دونوں نے فوڈ کورٹ میں فش اینڈ چپس کے ساتھ انصاف کرتے ہوئے ایک دوسرے کا احوال لیا۔
دنیا واقعی حیرت کدہ ہے، سیٹو کی زبانی کیسی عجیب درد انگیز کہانی کھلی۔ یہ محبت ہی کا اعجاز تھا کہ سیٹو نے کینسر جیسے مہلک مرض کو شکست دی اور اب اس کے بد اثرات سے آزاد تھی۔ وہ اور سنی کرائے کے بیسمنٹ میں خوش باش ایک دوسرے کے درد آشنا ساتھی تھے۔ سنی کسی پاکستانی کے پٹرول پمپ میں پارٹ ٹائم کیشئیر کی نوکری کر رہا تھا اور ریٹائرمنٹ سے ملنے والی ماہانہ رقم اور قلیل تنخواہ میں دونوں خوش اسلوبی سے گزارہ کر رہے تھے۔ سیٹو سدا کی ہنر مند، اپنے گھر پر بچوں کو اوریگامی اور ایکبانا کی کلاسز دیتی۔
میں نے منہ سے تو کچھ نہیں پوچھا مگر شاید میری آنکھوں میں تیرتا سنی پہ لگا الزام بہت واضح تھا کہ سیٹو جیسی لیے دیے رہنے والی بھی وضاحت دینے پر مجبور ہو گئی۔ اس نے بتایا کہ اس کی دونوں بیٹیاں اس شادی کے شدید خلاف تھیں اور شادی ہو جانے کے باوجود انہوں نے سنی کو قبول نہیں کیا تھا ۔ سنی بھی اتنا ہی جھکی تھا جتنا کہ بڑھاپے میں آدمی ہو جاتا ہے، سو اس نے بھی میری بیٹیوں سے تعلقات بنانے کی کوشش نہیں کی۔ بیٹیوں اور داماد کی مستقل مداخلت کے سبب ہمارے آپس کے تعلقات بگڑنے لگے۔ کچھ میں اپنی بیماری کے سبب بھی چڑچڑی اور زود رنج تھی۔ سب مل ملا کر یہ ہوا کہ ایک دن سنی ناراض ہو کر گھر چھوڑ گیا۔ جس دن سنی گیا اس کے دو دن بعد میرے داماد نے شور مچا دیا کہ اس کی قیمتی گھڑی اور گھر میں رکھی گئی نقدی نہیں مل رہی، بیٹی نے جب اپنا سامان ٹٹولا تو وہاں بھی وہی صورت حال تھی۔ گھر میں خوب ہنگامہ ہوا اور داماد بھی غصے میں گھر چھوڑ کر چلا گیا۔ میرا دل نہیں مانتا تھا کہ سنی اتنی گھٹیا حرکت کرسکتا ہے مگر میری دونوں بیٹوں نے میرا ناطقہ بند کر دیا۔ میرے لاکھ منع کرنے کے باوجود بیٹی نے سنی کے خلاف پولیس میں پرچا کٹوا دیا۔ ان حالات میں میری طبیعت مزید بگڑتی گئی اور ہسپتال کا چکر بڑھتا گیا۔ بیٹی بھی اپنے میاں کے گھر چھوڑنے کا زمہ دار مجھے ٹھہراتے ہوئے مجھ سے کھنچی کھنچی رہنے لگی۔ میں ہسپتال میں داخل تھی کہ اچانک ایک رات سنی کا فون آ گیا۔ میں نے اسے اپنی طبیعت کا بتایا اور صرف روتی رہی۔ اگلی شام سنی ہسپتال میں میرے سامنے تھا۔ میں اسے دیکھ کر گھبرا گئ کہ اسے تو پولیس چوری کے الزام میں پکڑ لے گی، مگر اب شاید
چیزوں کی درستی کا لمحہ تھا۔ ایک دن پہلے ہی میری بیٹی نے اپنے روٹھے میاں کو اس کی نئی گرل فرینڈ کے ساتھ، اپنی چوری شدہ گولڈ چین اور انگوٹھیوں کے سمیت ریسٹورنٹ میں رنگے ہاتھوں پکڑ لیا۔ بیٹی نے پولیس میں اپنے میاں کے خلاف نیا پرچہ کروایا اور سنی کا نام وآپس لیا۔
سنی نے میری تیمارداری میں نہ دن کو دن سمجھا اور نہ ہی رات کو رات۔ میری دیکھ بھال اور دل داری میں اس نے دنیا تج دی۔ اس کی اسی بے لوث محبت اور خلوص نے مجھ میں دوبارہ جینے کی امنگ پیدا کر دی اور میں نے اپنی جانب سرعت سے بڑھتی ہوئی موت کو شکت فاش دے دی۔ سچ پوچھو تو سنی مجھے موت کے جبڑے سے چھڑا لایا۔ اب ہم دونوں ایک دوسرے کی سنگت میں انتہائی خوش ہیں اور آخری سانس تک ایک دوسرے کے ساتھی و دم ساز بھی۔ شاید
ہمارے پاس اب زیادہ وقت نہ ہو مگر ہم دونوں لمحوں کو جیتے ہیں، ایک ایک سانس اور ساتھ سے محظوظ ہوتے ہیں۔
اچانک سیٹو کے چہرے پہ دھنک سی چمکی اور وہ
بے قراری سے ہاتھ ہلانے لگی۔
میں نے پلٹ کر دیکھا،
اس کا دلنواز و دلبر سنی شتابی سے اس کی جانب بڑھتا چلا آ رہا تھا۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...