(Last Updated On: )
گھڑی میں پانچ بجے تو مَیں نے ایک طویل سانس لی۔ مَیں اُسے نہیں دیکھ رہاتھا مگر مجھے یقین تھا کہ اُس نے بھی اپنے سینہ پھلایا ہو گا۔ مَیں اپنے مکان کے دالان میں بیٹھا ہوا تھا۔ ہوا میں خنکی بڑھ رہی تھی مگر ابھی برداشت کے باہرنہیں تھی ۔ مَیں نے نظریں اُٹھا کر اردگرد کھڑے پیڑوں کی طرف دیکھا ۔ نہ کوئی پرندہ تھا نہ ہی گلہری۔یہاںتک کہ تتلی اور بھنورے بھی نہیں تھے، جنھیں دیکھ کر مَیں کچھ دیر کے لیے ہی سہی اُسے بھول جاتا۔وہ جو میرےساتھ تھا۔ میرا سایہ ۔ نجانے کیوں مجھ سے ناراض تھا۔ مَیں دیکھ رہاتھاوہ مجھے پریشان کرنے کے لیے مسلسل میری نقل کر رہا تھا۔ صبح جب آنکھ کھلی تو مَیں نے دیکھا کہ وہ بھی اُٹھ بیٹھاہے۔ مَیں مسواک کرنے لگاتو چڑانے کے اندازمیں اُس نے بھی اپنا ہاتھ منہ میں ٹھونس لیااور جھٹکے دینے لگا۔مَیں کُلّی کرنے لگاتو بدمعاش نے حلق سے ایسی خوفناک آوازیں نکالیں کہ میرا دل تھرّا اُٹھا۔ کمبخت نے پاخانہ اور غسل خانہ میں بھی میرا پیچھا نہیں چھوڑا۔ وہ ایسا تو نہیں تھا!مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ دوستوں نے فلم دیکھنے کامنصوبہ بنایا۔ جیب خرچ نےاجازت نہ دی تھی اس لیے مَیں اُن کے ساتھ نہ جاسکاتھا۔ اس روز اس نے پہلی بار مجھے پریشان کیاتھا۔ مَیں تین گھنٹے تک کڑی دھوپ میں بیوقوفوں کی طرح اپنے قدموں پرنظریں جمائے بیٹھا رہاتھا مگر وہ غائب رہا۔ اس کے بعد اس نے کئی مرتبہ ایساکیا اور پھر مَیں آہستہ آہستہ اس کے عجیب برتاؤ کاعادی ہوتا گیا اورپھر وہ وقت بھی آیا کہ مَیں نے اس کی بے تکی حرکتوں کو اہمیت دینا ہی چھوڑ دیاتھا۔ مگرآج تو اُس نے حدہی کردی تھی۔ مَیں ناشتے کی میز پر بیٹھاتو وہ بھی سامنے آ بیٹھا۔ مَیں نےجوں ہی سینڈوچ کی طرف ہاتھ بڑھایا، کمبخت نے میزہی اُلٹ دی تھی۔ مَیں سرسے پیر تک کانپ کررہ گیاتھا۔آخر کیا بات تھی!؟ مَیں سوچنے لگا۔ اور تو اور آفس جانے کے لیے جب مَیں نےکوٹ پہنا اور ٹائی لگائی تو وہ میرا منہ چڑانے لگا۔ مَیں نے اس کی طرف سے نظریں پھیرلیں تو اس نے میری ٹائی ایسےکھینچی کہ میرا دَم ہی گھٹنے لگا۔اس کے اسی وتیرے کی وجہ سے مَیں نے آفس جانے کا ارادہ ترک کردیاتھا۔ اچھّا ہی ہوا کہ مَیں آفس نہ گیا ورنہ ساتھ کام کرنے والے تومجھے پاگل ہی سمجھتے۔
مَیں نے کن انکھیوں سے اُس کی طرف دیکھا۔ وہ بھی سراُٹھائے درختوں پر کسی کو تلاش کرنے کا ڈرامہ کررہاتھا۔ غصّے کی وجہ سے میرے جبڑے بھنچ گئے۔ دل ہی دل میں مَیں نے اس پر لعنت بھیجی اور داہنی طرف کی دیوار پر چڑھی ہوئی بیلوں کو تکنے لگا۔بیلوں میں چھوٹے چھوٹے پیلے پھول کتنے خوبصورت نظرآرہےتھے۔ یہ پیلے پھول ’شمع‘ کے جوڑے میں اور بھی خوبصورت نظرآتے تھے۔ ہاں وہی صراحی دار گردن والی’شمع‘۔ وہی نازک بدن جس پرشعیب مرتاتھا، جسے دیکھ کر عرفان ٹھنڈی آہیں بھراکرتاتھا اور جسے چھُو کر ’یاسر‘ نے طمانچہ کھایاتھا ۔ ہاں وہی ’شمع‘جس کی طرف یہ کمینہ بھی لپکتا رہتاتھا۔ مَیں نے دیکھا تھا کہ موقع ملتے ہی یہ شمع کے سایے میں ایسے گُم ہوجاتا جیسے کبھی اس کا وجود ہی نہ رہا ہو ۔مَیں مسکرانے لگا۔ایک مرتبہ شمع نے کہا تھا کہ دھوپ اس کی سفید جلد میں سوزش پیداکردیتی ہے۔اس لیے جب تک ہم ساتھ رہتےیہ اس پراپناسایہ کیے رہتاتھا۔ سایہ ! ہاں پھر وہی کمبخت سایہ!!مجھے احساس تھا کہ وہ بھی گردن پھیرے پیلےپھولوں کو تک رہاہوگا۔نجانے کب اس سے میرا پیچھا چھوٹے گا!!
سورج غروب ہونے لگاتو مَیں نےقہقہہ لگاتے ہوئے اُسے دیکھا۔ اب اُس کا قد مجھ سے کہیں زیادہ بڑھ گیا تھا مگر مَیں جانتا تھا کہ چند لمحوں میں سورج کی شعاعیں، فرشتوں کی صورت اس شیطان کو گھسیٹتے ہوئے لے جائیں گی اورکل صبح تک کے لیےاس سے میرا پیچھا چھوٹ جائے گا ۔ اپنے آپ کو مجبور پاکر اورمیرے قہقہے سن کر وہ تلملااُٹھا۔ وہ تڑپ رہا تھامگر اب اس کے اختیار میں کچھ بھی نہیں تھا۔ آہستہ آہستہ وہ غائب ہوتاگیا۔ یہ ایک اذیّت بھرا دن تھا۔ جس کے گزرتے ہی مَیں نے سکون اور آزادی کی سانس لی ۔ایسا محسوس ہورہاتھا جیسے حبس بےجامیں ایک طویل عمر کاٹنے کے بعد مجھے اچانک رہائی ملی گئی ہو۔ میرے پیروں سے سایے کی زنجیر کاٹ کر پھینک دی گئی تھی۔ہاں !اب میرے پیر سایے کے بوجھ سے آزاد تھے۔
مَیں نے اپنےپیروں کو اُٹھا کر دیکھا۔وہ بہت ہلکے محسوس ہورہے تھے۔ مَیں اس خیال سے خوش ہوگیا کہ اب مَیں آسانی سے اپنے پیروں پر کھڑا ہوسکتا ہوں۔ شام ہوتےہی نجانے کہاں سے خوش گلو پرندے پیڑوں پر آکر چہکنے لگے۔ ہرطرف جشن کا ساسماں برپاہوگیا۔ایسا معلوم ہوتاتھا جیسے کہ وہ میرےآزاد ہونے پر خوش ہوں اور مجھے مبارکبادیاں دے رہے ہوں۔ ٹھنڈک بڑھ رہی تھی اس لیے مَیں نے مسکراتے ہوئے پرندوں پر الوداعی نظرڈالی اور اُچھلتا ہوا باورچی خانے میں پہنچا۔صبح سے ایک نوالہ نصیب نہ ہواتھا۔آزادی ملتے ہی بھوک چمک اُٹھی تھی۔ مَیں نے گنگناتے ہوئے آملیٹ تیارکیا اور بریڈلے کر کھانے کی میز پر آبیٹھا۔ کل ہی کی تو بات ہے ۔ یہی میز تھی ۔ شعیب ، یاسر،عرفان، شمع اورمَیںہم یہیں تو تھے۔ہم کتنے خوش تھے۔ مَیں یہیں اسی کرسی پربیٹھاہوا تھا اورشمع میرے سامنے۔چاندنی میں وہ مصرکی خوبصورت شہزادی معلوم ہورہی تھی۔ مجھے یاد آیا۔ اُس نے بتایاتھا کہ اُس کی شادی طے ہوگئی ہےمگر مَیں نے توجہ ہی نہیں دی۔ مَیں توحیرانی سے زمین پر اُس کمبخت کو دیکھ رہاتھا جو شمع کے سایے سے لپٹا ہوا تھا۔ مَیں سوچ رہاتھا کہ یہ اپنی محبّت میں کتنا بے شرم ہورہاہے۔ اگر کسی نے دیکھ لیا تو میری کیا عزّت رہ جائے گی۔ عرفان ،شعیب اور یاسر کیا کہیں گے؟بدنامی سےبچنے کےلیے مَیں اُٹھ کر کچن میں چلا گیا تھا اور جب لَوٹا تو وہ جاچکی تھی۔ اُف اب یاد آیا۔ اچھّاتومَیں نے اُسے شمع کے سایے سے دُور کردیاتھا، اس لیے وہ مجھ سے ناراض تھا ۔تو وہ آج دن بھر ’شمع‘کے لیے مجھ سے لڑتارہاتھا۔مَیں ہنس پڑا۔ کمبخت ! خود کو جیتا جاگتاسمجھتا ہے ۔میرے ساتھ ایسے لڑرہا تھا جیسے کوئی !! مجھے معلوم ہےکہ وہ صرف ایک سایہ ہے،فقط سایہ۔ وہ میرا کیا بگاڑلے گا۔ مَیں نے قہقہہ لگایا۔ اچانک قہقہہ میری حلق میں گھٹ گیا۔ مجھے محسوس ہوا کہ وہ میرےپاس ہی میز کے قریب کھڑا ہے اور مجھے گھور رہاہے۔مَیں نے گھبرا کر ادھر ادھر دیکھا۔غروبِ آفتاب کو بہت وقت گزر چکا تھا اور چاروں طرف اندھیراگہرارہاتھا۔ اس کے موجود ہونے کے احساس ہی سے میرا گلا خشک ہونے لگا ۔ مَیں نے سوکھے ہونٹوں پر زبان پھیری اور آہستہ سے گلاس میں پانی اُنڈیلا۔ پھر اس سے پہلے کہ وہ میز اُلٹ دیتا مَیں نے جھپٹ کر گلاس اُٹھالیا اور ایک ہی سانس میں خالی کرگیا۔مَیں اس اندیشے سے کانپنےلگا کہ ابھی کسی جانب سے وہ مجھے آدبوچے گا۔ اس سے پہلے کہ وہ ایسا کرتامَیں نے کرسی سے چھلانگ لگائی اور سونے کے کمرے کی طرف بھاگا۔
دروازہ مضبوطی سے بند کرکے مَیں بستر پر پہنچااور اپنے گردمضبوطی سےچادر لپیٹ لی۔ میری نظریں بنددروازے کو تک رہی تھیں۔ دل چیخ چیخ کر کہہ رہاتھا کہ وہ دروازے کے پیچھے ہے۔ مَیں سوکھے پتّے کی مانند لرزنےلگا۔ کچھ دیر بعدیادآیاکہ وہ اندر نہیں آسکتاتو مَیں نے سکون کا سانس لی اورگردن گھمائی۔ خوف کے مارے میرے گھگھی بندھ گئی۔نائٹ لیمپ کی روشنی میں میراسایہ دیوار پر پھیل رہا تھا۔ اچانک ایک خیال بجلی کی طرح کوندا اور مَیں آہستہ آہستہ لیمپ کی طرف کھسکنے لگا۔ مَیں جوں جوں لیمپ کی طرف کھسکتا مجھے آدبوچنے کے لیے وہ بھی دیوار پر بڑھتا جاتا۔جب مَیں لیمپ کے قریب پہنچا۔وہ اپنا حجم بڑھاتا ہوا چھت تک پہنچ چکاتھا۔گھبراہٹ میں ادھرمیراسانس سینے میں نہیں سمارہاتھا اور اُدھرغصّے کی زیادتی سے اس کاسینہ دھوکنی کی طرح پھول پچک رہاتھا۔ یہ ناقابلِ یقین منظر دیکھ کر میری آنکھیں پھٹ پڑیں۔یقیناً وہ مجھے قتل کرناچاہتاتھا۔مَیں نے سراہنے رکھا ہوا نائٹ لیمپ بجھا دیا۔ چاروں طرف اندھیرا چھا گیا۔ مَیں نے اطمینان کی سانس لی۔ مگر اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں بھی مجھے اُس کے قریب ہونے احساس ہورہاتھا۔مَیں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اُسے تلاش کرنے لگا۔ پھر ایک خیال نے بے چین کردیاکہ چاروں طرف پھیلا ہوا یہ اندھیرا کہیں وہی ظالم تونہیں!؟ہاں، یہی بات ہے۔ میرے کانوں میں اس کا قہقہہ گونجا۔دل نے کہاکہ اس نے مجھے چاروں طرف سے گھیرلیا ہےاور اب میرا بچنا محال ہے۔ اس خیال کے ساتھ ہی میرا بدن پسینے سے تَر ہوگیا ۔اچانک گردن پر کسی کی انگلیاں محسوس ہوئیں اور میرےحلق سے چیخ نکل گئی۔
****
ڈاکٹر ابو اسامہ انصاری (ابن آدم) ، مالیگاؤں ۔ انڈیا
ڈاکٹر ابو اسامہ انصاری (ابن آدم) ، مالیگاؤں ۔ انڈیا