جب کسی عورت کی کوکھ میں حمل ٹھہرتا ہے تو کسی کو، اُس عورت سمیت، یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ اس حمل کے نتیجے میں کس طرح کا بچہ پیدا ہو گا۔۔ سبھی مائیں اور سبھی باپ، جو زمان و مکان کی قید کے اسیر ہوتے ہیں، بمع اپنی خواہشوں، نظریوں اور سماجی اقدار کے، اپنی اولاد کے لیے معیارات کے آہنی سانچے بناتے ہیں۔
معلوم نہیں کہ سویرا کی پیدائش کے بعد اس کا نام کس نے تجویز کیا تھا لیکن چونکہ اس کا مطلب بہت اچھا تھا اور یہ کہ خاندان میں اس سے پہلے کسی لڑکی کا یہ نام بھی نہیں تھا تو سبھی متعلقہ بڑوں نے متفقہ طور پر اس نام کو سویرا کے لیے منتخب کر لیا۔
سویرا اپنے نام کی طرح صبح جیسی اجلی تھی لیکن جلد ہی سب یہ محسوس کرنے لگے کہ وہ سخت گرمیوں کی ایسی صبح تھی جو طلوع ہوتے ہیں چبھنے لگتی ہے۔ سویرا دیکھتے ہی دیکھتے وسط گرما کے سورج کی طرح اپنے بزرگوں کے معیارات کے آہنی سانچے پگھلانے لگی۔ ایک دن اس کی ماں نے بےبس ہو کر کہا:
"جب حرکتیں لڑکوں جیسی ہیں تو کیا ہی اچھا ہوتا کہ اس کی جگہ بیٹا پیدا ہو جاتا۔"
دراصل سویرا کی حرکتیں انسانی بچوں جیسی تھیں، مثلا" کون سا بچہ ہے جو کھیلنا پسند نہیں کرتا، یا کون سا بچہ ہے جو فطری طور پر اپنے ہم جولیوں کی جنس کو مدِ نظر رکھ کر ان کا انتخاب کرتا ہے، یہ تو ہم ہیں جو لڑکے لڑکیوں کو بہت بچپن ہی میں ایک دوسرے سے دوری کا ضابطہ سمجھاتے ہیں۔ تو سویرا خوب کھلیتی تھی اور لڑکے لڑکیوں دونوں کے ساتھ دونوں طرح کے کھیل کھیلتی تھی۔ آخر بچہ تھی۔
لیکن وہ تو بڑی ہو کر بھی ۔۔۔ حد ہے ۔۔۔ یعنی درختوں پر چڑھنا اور غلیل سے نشانے باندھنا اور دوپٹے کو اکثر ادھر ادھر پھینک کر بھول جانا۔ "تجھے کب عقل آئے گی؟" ایسی ڈانٹ ڈپٹ کے تیروں کا نشانہ اکثر چوک جاتا کہ سویرا کی رفتار زیادہ تیز اور ذہن چوکنا تھا۔ رفتہ رفتہ اس پر کی جانے والی تنقید دم توڑنے لگی۔ اس کا تروتازہ، آزاد ذہن جلد ہی تعلیمی میدان میں جوہر دکھانے لگا۔
اس نے زندگی میں دوسروں کو ہکا بکا کر دینے کی روش قائم رکھی۔ یہ نہیں کہ ایسا وہ جان بوجھ کر کرتی تھی۔ اس کی منفرد سوچ اور شخصیت اس کا سچ تھی اور یہی سچ اس کی طاقت بھی تھا۔ اس نے ڈگریوں کے ساتھ ساتھ علم اور شعور بھی حاصل کیا تھا اور شعور کی ایک ادا یہ بھی ہے کہ طرزِ کہن کو مسمار کرنا نہیں بھولتا۔
"شادی کروں گی تو اس سے جو مجھے پسند آئے گا۔ آپ مجھ پر اپنی پسند مسلط نہیں کر سکتے۔" یہ بات اس نے اپنے والدین سے بار بار کہی، یوں کہ انھیں یاد ہوگئی بلکہ سمجھ آ گئی۔ اب یہ بات ایسی غلط بھی نہیں تھی۔ گھر والوں کو ہتھیار ڈالنے پڑے۔ اس نے بڑی ثابت قدمی اور ہمت سے سبھی کو یہ تسلیم کروایا تھا کہ اس پر کسی اور کی مرضی مسلط نہیں کی جا سکتی۔
"مگر وہ شادی کب کرے گی" ایک دن ماں نے اس کے بالوں میں چاندی کے کچھ تار دیکھے تو کلیجہ تھام کر رہ گئی۔
پھر ایک دن اس نے لڑکا پسند کرنے کا علان کیا۔ وہ اس کا کولیگ تھا اور شاید ہم خیال و ہم ذوق بھی۔ اب زمانہ ایسا بھی پسماندہ نہیں تھا کہ سب ہی یہ سن کر اپنی انگلیاں دانتوں میں داب لیتے۔ لیکن کچھ نے ایسا ضرور کیا۔
شادی کے تیس برس بعد جب وہ اپنی اکلوتی بیٹی کی شادی کرکے فارغ ہو گئی تو اس نے اپنے شوہر سے علیحدگی اور پھر طلاق کا اعلان کرکے کچھ اپنوں اور غیروں کو اتنا حیران کیا کہ شاید کچھ نے اپنی انگلیاں اپنے ہی دانتوں سے زخمی کر لیں۔
لیکن اس روز تو حد ہو گئی۔ اس نے خاندان کی کسی شادی کی تقریب میں کسی کو کہتے سنا تھا کہ سویرا کے میاں نے اسے طلاق دے دی۔ کہنے والے کی بات اور لہجے میں وہ ٹھوکر تھی جو عورت صدیوں سے طلاق کے نام پر کھاتی آ رہی ہے۔ سویرا نے یہ سنا تو ایک وقار سے اٹھ کر کھڑی ہوئی، آس پاس بیٹھے سبھی لوگوں کو مخاطب کیا، ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اور وہ بات کہی جو اس کے نام کی طرح اجلی تھی۔ اس نے کہا:
"آئیندہ آپ میں سے کوئی یہ نہ کہے کہ میرے میاں نے مجھے طلاق دی۔ نہیں، میں نے اسے طلاق دی۔ یہ فیصلہ میرا تھا۔ عورت بھی طلاق دے سکتی ہے۔"