(Last Updated On: )
رات ایک بجے کا عمل تھا ۔ راجیش نے اپنے گھر میں موجود لیبارٹری میں کام ختم کر نے کا ارادہ کیا ۔ پچھلی تین راتوں سے مسلسل جاگ جاگ کر وہ اپنے پروجیکٹ کومکمل کرنے میں لگے ہوئے تھے۔ راجیش ہندوستانی خلائی تحقیقاتی تنظیم اِسرو کے مریخ پر روانہ کئے جا رہے اپنے پہلے خلائی مشن ’منگل یان‘ کے پروجیکٹ ڈائریکٹر تھے ۔اس مشن کا اصل مقصد مریخ کے مدار میں پہنچ کر اس کے گرد چکر لگاتے ہوئے اس سرخ سیارے کی سطح پر پائی جانے والی معدنیات سے متعلق معلومات جمع کرنا تھا۔
بحرالکاہل پر اچانک موسم کی خرابی کی وجہ سے ’منگل یان ‘ کے لانچ میں ایک ہفتہ کی تاخیر ہوئی تھی جس کی وجہ سے راجیش کافی فکر مند ہو رہے تھے۔انہیں پتہ تھا کہ ہندوستان اپنی اس مریخ مہم پر بحر الکاہل سے نظر رکھنا چاہتا ہے جس کے لئے جہاز کو بحرالکاہل میں موجود رہنا تھا مگر موسم کی خرابی کی وجہ سے جہاز کے بحر الکاہل میں پہنچنے میں تاخیر ہوئی تھی۔
ہندوستان سرخ سیارے پر کامیابی سے خلائی مشن روانہ کرنے والا پہلا ایشیائی ملک بننا چاہتا تھا اور اپنے روایتی حریف چین کو اس مقابلے میں پچھاڑنا چاہتا تھا اس لئے اس مشن کی ٹیم کے تمام ارکان پر اس مشن کو کامیاب بنانے کا بے حد دباؤ تھا۔ راجیش نے بھی پوری محنت اور جانفشانی سے اپنے آپ کو اس مشن کے لئے وقف کر دیا تھا اور بڑی تگ و دو سے اس مشن کو مکمل کرنے میں لگے ہوئے تھے ۔اُس رات بھی انہوں نے اپنی لیبارٹری میں کام ختم کر کے کمپیوٹر کو شٹ ڈاؤن کیا اور اپنی تمام فا ئلس کوسمیٹ کرلیبارٹری سے باہر آئے اور اپنی خواب گاہ میں داخل ہو رہے تھے کہ اندر کسی اجنبی کو دیکھ کر ٹھٹک گئے۔
آن کی آن میں چوکنّا ہوتے ہوئے انہوں نے اپنی فائلس زمین پر پھینک دیں اوراپنی پشت سے نائن ایم ایم گَن نکال کرمقابل پر تان دی، اجنبی بنا کسی جنبش کے کھڑا رہا۔ اپنی دفاع کے لئے کچھ حرکت بھی نہیں کی۔
’’ کون ہو تم ؟‘‘
’’N TTK2120I‘‘
’’ یہ کیسا مذاق ہے ؟‘‘ گَن پرراجیش کی گرفت ہنوز مضبوط تھی۔
’’ ہمارے یہاں ایسے ہی نام ہوتے ہیں۔‘‘ جذبات سے عاری لہجے میں اجنبی نے کہا۔
’’ کہاں ؟ پاتال میں ؟‘‘ راجیش کا پارہ چڑھنے لگا ۔
’’ نہیں ، تاروںکے پار۔‘‘
’’ کیا چاہتے ہو؟‘‘
’’تمہیں خبردار کرنا چاہتا ہوں ۔‘‘
’’ اس سے پہلے کہ تم مجھ سے کچھ کہو ،میں تمہیں خبر دار کرنا چاہتا ہوں کہ میرے ایک اشارے پر باہر کھڑے سیکیورٹی گارڈس یہاں پہنچ سکتے ہیں،اس کے بعد تمہارا حشر کیا ہوگا تم جانتے ہو۔‘‘ راجیش نے اپنی گَن ٹارگیٹ سے ہٹاتے ہوئے کہا۔
’’ہاں ۔لیکن میں جو جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔‘‘ رعونت بھرے انداز میں اجنبی نے کہا۔
’’ پہیلیاں مت بجھاؤ،سیدھے کام کی بات کرو ۔میرے پاس اتنا وقت نہیں ہے ۔‘‘راجیش نے سپاٹ لہجے میں کہا۔
’’ جانتا ہوں،منگل یان کوئی آسان مشن نہیں ہے۔ ‘‘
’’ تم کیا جانتے ہو اس مشن کے بارے میں ؟‘‘راجیش کا ماتھا ٹھنکا۔
’’ کیا جاننا چاہتے ہو ؟‘‘اجنبی نے بھنویں اچکائیں۔
’’ فی الحال صرف یہ کہ تم کون ہو اور یہاں تشریف لانے کی زحمت کیوں ؟‘‘
’’ بتا تو دیا ،رہی بات منگل یان مشن کی، تو میری رائے میں یہ مشن صرف وقت اور پیسے کا زیاں ہے۔‘‘اجنبی نے لیبارٹری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
’’ اچھا!‘‘ راجیش نے پھیکی ہنسی ہنستے ہوئے کہا ۔’’ تم مجھے بے وقوف سمجھتے ہو جو تمہارے کہنے پر ہم یہ پروجیکٹ بند کر دیں گے۔‘‘
’’ اپنی سماعتیں درست کر لو،میں نے مشن بند کرنے کی بات کبھی نہیں کی۔‘‘
’’ تم ہندوستانی ہو؟‘‘
’’ نہیں ،میں تمہاری زمین سے1000 نوری سال دور سیارہ کیپلر- 452b سے آیا ہوں۔‘‘
’’ توپھر تم غلط جگہ آگئے ہو ،یہاں کامیڈی شوز کی شوٹنگ نہیں ہوتی۔‘‘ راجیش سیکیوریٹی الرٹ کے بٹن کی طرف بڑھ ہی رہے تھے کہ وہ اجنبی اچانک کمرے سے غائب ہو گیا ،مگر دوسرے ہی لمحے وہ پھر وہیں موجود تھا ۔راجیش کا دم الٹنے لگااور وہ دم بخود رہ گئے۔
’’ سیکیوریٹی عملے کو یہاں پہنچنے میں تمہاری گھڑی سے کم از کم پندرہ سکنڈ لگیں گے اور میں نینو سکنڈ سے بھی کم وقت میں یہاں سے نکل سکتا ہوں۔‘‘
’’ وہ کیسے ؟‘‘ راجیش کے لہجے میں پہلی مرتبہ گھبراہٹ تھی۔ماتھے پر پسینے کی ہلکی بوندیں ڈیرا ڈالنے لگی تھیں۔
’’ میں اپنے مادی جسم کو توانائی میں تبدیل کر کے روشنی کی رفتار سے سفر کر سکتا ہوں ۔‘‘
’’یہاں کیوںاور کیسے آئے ہو؟ اور یہ نظر بندی کے کرتب کیوں ؟‘‘راجیش نے متحیر لہجے میں کہا۔
’’ میں دو مختلف تعددات کی شعاعوں کے تراکب سے یہاں آ یا ہوں ،اشارہ تو تم لوگوں کو مل گیا تھا،موسم میں اچانک تبدیلی۔‘‘
اچانک راجیش کو بحرالکاہل پر موجود جہاز کی یاد آگئی۔
’’ تو یہاں کیوں آئے ہو؟‘‘راجیش نے اپنا سوال دہرایا۔
’’یہ بتانے کہ دوسرے سیارے پر بس کر انسان کا کائنات میں امر ہونے کا خواب کبھی پورا نہیں ہوگا۔انسان نے زمین میں اتنا بارود اور اسلحہ بنا لیاہے کہ لمحوں میں اس کا وجود مٹ سکتا ہے ۔بس ایک چنگاری کی ضرورت ہے۔ ‘‘
’’اور وہ چنگاری تمہاری سرزمین کے لوگ لگائیں گے؟ہے نا!‘‘راجیش نے اجنبی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔
’’ہو سکتا ہے ۔ اگر تم لوگ ہمارے کاموں میںدخل اندازی کرو گے تو شاید یہ ممکن ہے۔‘‘اجنبی نے پر اعتماد لہجے میں جواب دیا ۔
’’ہنہ ۔اس طرح کے کسی بھی ممکنہ ٹکراؤ سے نپٹنے کی ٹکنالوجی ہمارے پاس ہے۔‘‘اس بار راجیش کے لہجے میں رعونت اتر آئی تھی۔
’’خلائی مخلوق کی طاقت تمہاری سمجھ سے بہت پرے ہے۔ہم انسان سے زیادہ ذہین اور جدید ٹکنالوجی سے مزین ہیں ۔ایک نظارہ تم ابھی دیکھ چکے ہو۔‘‘
’’ہوا میں رہتے ہو اسی لئے ہوائی باتیں کرتے ہو ۔کبھی زمین پر مقابلہ ہو تو پتہ چلے گا کہ کس ۔۔۔ ‘‘راجیش استہزائیہ لہجے میں کہہ رہے تھے مگر اس سے پہلے کہ وہ اپنی بات مکمل کرتے ،اجنبی نے ان کی بات کاٹ دی۔
’’ہم زمین پر آجائیں توتمہارے ساتھ وہی ہوگا جو کولمبس کے امریکہ دریافت کرنے کے بعد وہاں کے مقامی امریکنس کے ساتھ ہواتھا، اپنی ہی زمین پرتم لوگ غلام بن جاؤگے۔‘‘اجنبی نے دھمکی بھرے لہجے میں کہا۔
’’پھر دیر کس بات کی؟‘‘راجیش نے لاپرواہی سے پوچھا۔
’’ہمیں بس حکم کے ایک اشارے کی دیر ہے ۔ہم زمین پر انسانی وجود کے لئے قہربن کر ٹوٹ پڑیں گے کیوں کہ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی زیادہ جدید ٹکنالوجی رکھنے والی تہذیب ،کم ترقی یافتہ تہذیب سے ٹکرائی ہے تو کم ترقی یافتہ تہذیب نے ہی شکست کھائی ہے۔‘‘ اجنبی کے پاس راجیش کے ہر سوال کا جواب موجود تھا۔
’’خلائی مخلوق کے پاس بڑی طاقت ہوگی۔مگر جب زمینی مخلوق اٹھتی ہے تو خلائی مخلوق کو بھاگنا پڑ سکتاہے۔ ‘‘ راجیش نے انتباہ کے انداز میں کہا۔
’’خود اعتمادی اچھی چیز ہے مگر تم آج تک ہمارے وجود کے ہونے یانہ ہونے کی پہیلیوں میںہی الجھے ہوئے ہو،دوسرے سیاروں پر صرف پانی اور میتھین کی تلاش میں سرگرداں ہو اورہم تمہاری نسل کی سو سال بعد ہونے والی درگت کو جانتے ہیں ۔‘‘اجنبی نسلِ انسانی پر اپنی برتری ثابت کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہا تھا۔
’’کیسے ؟اور کیا درگت؟‘‘چونک کر راجیش نے پوچھا۔
’’ہم نے روشنی کی رفتار سے سفرکرنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے جس کی وجہ سے ٹائم ٹراویل ممکن ہواہے اور درگت یہ کہ تمہاری تقدیر میں صرف تباہی ہے۔ انسانی نسل اپنے ملکوں کا جغرافیہ تبدیل کرتے کرتے تباہی کے دہانے پر پہنچ جائے گی۔‘‘
’’پھر زمین پر تمہاری حکومت ہوگی ۔ہے نا۔‘‘ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ طنزآمیز لہجے میں راجیش نے کہا۔
’’ہو سکتا ہے کہ ہم ہی زمین کا مستقبل ہوں۔‘‘اجنبی راجیش کو گویا خبردار کرنے لگا۔
’’اچھا! یا یہ بھی ممکن ہے کہ مستقبل میں ہمیں ہی اپنی بقا کے لئے کچھ جینیاتی تبدیلیاں لانی پڑ جائیں تاکہ تم لوگوں کا مقابلہ کر سکیں ۔ ‘‘راجیش نے ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے کہا۔
’’انسان ٹکنالوجی کے پنکھ لگا کر چاہے جتنی اونچی اڑان بھر لے ۔اِس زمین سے نکل کر چاہے کسی بھی زمین پر بس جائے،تباہی اور موت کی کھائی اس کا مقدر ہے۔‘‘اس بار اجنبی کے لہجے میں ترحم تھا۔
’’شاید تمہیں پتہ ہو کہ بھگوان کی بنائی ساری چیزوں میں انسان سب سے افضل ہے؟‘‘
’’جس مخلوق کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں زمینی حقائق کا ادراک نہ رکھ سکیں ،جس کے شر سے زمین کا کوئی کونا محفوظ نہیں رہا،وہ اپنے محترم ہونے کا قصیدہ گو بنے،یہ احمقانہ بات ہوگی۔‘‘تلخ لہجے میں اجنبی نے کہا
’’سیاروں تک رسائی کی انسانی کوششوں سے تم بوکھلا گئے ہو،مگر یاد رکھو،جو انسان کائنات کی وسعتوں کو چیر دینے کا عزم رکھتا ہے ایک دن ممکن ہے کہ وہ موت کو بھی مات دے دے۔‘‘جذبات میں راجیش کا اعتماد حدوں کو تجاوز کرنے لگا۔
’’یہی وہ مقام ہے جہاں انسان کا زوال شروع ہو جاتا ہے ۔ابھی تمہاری کوانٹم فزکس جسم اور روح کا تعلق ہی ثابت نہیں کر پائی ہے، موت کا علاج تو دور کی بات ہے۔ ‘‘
’’تم سو سال آگے کا سفر طے کر کے آئے ہومگرہو سکتا ہے اگلے دو سو سال بعد یہ ممکن ہو پائے۔‘‘راجیش بھی ہار ماننے والے نہیں تھے۔
’’ انسانی عقل کبھی موت کا بھید نہیں پا سکے گی۔موت زندگی کی سب سے بہترین ایجاد ہے کیوں کہ یہ زندگی میں تبدیلی کی وجہ بنتی ہے۔زمین پر منڈلاتے ہوئے خطرات اور نسلِ انسانی کی بڑھتی ہوئی آپسی چپقلش دیکھ کر تو یہ نہیں لگتا کہ انسان اپنے اس عزم میں کبھی کامیاب ہو پائے گا۔‘‘اجنبی کی باتیں سن کر راجیش تھوڑا سانروس ہو گئے مگر پھر فوراً ہی سنبھل گئے۔
’’تمہاری باتوں پر یقین کرنے کا کوئی جواز میرے پاس نہیں ہے۔‘‘
’’تم اتنے بڑے مشن کے پروجیکٹ ڈائریکٹر ہو۔علم ِ امکانیات سے بخوبی واقف ہو۔مجھے تمہیں زیادہ سمجھانے کی ضرورت نہیں۔ ‘‘اسی اثنا میں اجنبی کی کلائی پر بندھے ہوئے آلہ سے سرخ روشنی پھوٹنے لگی۔
’’تم کہو یا نہ کہو۔نسلِ انسانی کی بقا کے ہمارے تمام مشن ہمیشہ جاری رہیں گے ۔‘‘راجیش نے حتمی لہجے میں کہا۔
’’انجام تم جانتے ہو۔خدا بننے کی یہی کوشش انسان کو لے ڈوبے گی ۔مجھے جانا ہے اس لئے ایک آخری بات ۔اولاً تو ایساکبھی ہوگا نہیں ۔ باالفرض کبھی ایسا ہو گیا کہ انسانی عقل موت کو مات دینے میں کامیاب ہو گئی توپھر بھی ایک بہت بڑا سوال باقی رہتا ہے ۔‘‘
’’وہ کیا؟‘‘راجیش نے تجسس کے ساتھ پوچھا۔
’’وہ یہ کہ کیا انسان بنا موت کے اس زمین پر رہنے کو تیار ہے ؟‘‘
اجنبی کی یہ بات سن کرراجیش جیسے لاجواب ہو گئے۔اجنبی کے چہرے پر پہلی بار خفیف سی مسکراہٹ ابھر آئی ۔وہ بار بار اپنی کلائی کی طرف دیکھ رہا تھا۔اس سے پہلے کہ راجیش اجنبی کے اس پیچیدہ سوال کا کوئی جواب دیتے، وہ اچانک ہوا میں تحلیل ہو گیا اور جاتے جاتے ایک ایسا سوال چھوڑگیا جس کا جواب شاید راجیش کے پاس نہیں تھا۔
راجیش نے ماتھے پر موجودپسینے کی بوندیں صاف کیں ۔اس ماورائی صورتِ حال سے ان کا ذہن پراگندہ ہو گیا تھا۔پانی کا گلاس اٹھا کرانہوں نے دو گھونٹ حلق کے نیچے اتارے، فرش پر بکھری فائلس کو سمیٹ کر الماری میں رکھااوراپنی خواب گاہ کی لائٹ بند کر کے خود کو بستر پر گرا دیا،مگر نیند راجیش کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی ۔شاید1000نوری سال دور۔
٭٭٭