ہما نے دور جاتے ایک وجود کو الوداعی نظروں سے دیکھا اور قمیض سرکا کر ، کندھے کی گولائی پر پڑا نیل کا نشان دیکھ کر مسکرائی۔ پسینے سے تر بدن پر لباس چپک رہا تھا۔ دھول اور مٹی میں محنت و مشقت کے باعث سانسیں بے قابو ہو رہی تھیں۔ اس کی گوری گردن پر کالی لکیر واضح نظر آ رہی تھی۔ اگلے ہی لمحے درد کی ٹیس ، چہرے پر پھیلی مسکراہٹ ، کرب میں بدل گئی تھی۔ جلدی سے پیراہن درست کیا اور گھر کی جانب خراماں خراماں چلنے لگی۔
اگلی صبح نئے عزائم لئے ایک بار پھر اسی میدان میں موجود تھی۔ ایک جگہ ٹھٹھک کر رک گئی۔
“تم زنگ آلود ہو۔ کیا ایک ہی جگہ پڑے رہتے ہو ؟”
ہما نے زمین پر پڑے وجود کا بغور جائزہ لے کر سوال کیا۔
“میری جلد بازی نے مجھے زنگ لگا دیا ہے”۔
روہانسی بڑبڑاہٹ میں جواب ملا۔
“تمہیں جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہیے تھا۔ خیر آؤ میرے ساتھ”۔
ہما نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور سہارا دے کر اسے میدان سے باہر لے آئی۔
“تم کیا کر سکتی ہو ؟”
وہ پر امید نظر آ رہا تھا۔
“میں صرف کوشش کر سکتی ہوں”۔
پر وقار لہجہ اس کی شخصیت کا آئینہ دار تھا۔
وہ اگلے کئی روز گرد اور مٹی میں ، دھوپ چھاؤں کی پرواہ کئے بغیر اپنے مقصد کے حصول کی خاطر محنت و مشقت کرتی رہی۔
“میرا زنگ اتر گیا ہے۔ میں دوبارہ جینے کی کوشش کر سکتا ہوں۔ میں نکھر گیا ہوں”۔
وہ بے یقینی کی کیفیت میں چلا کر بولا۔
“رکو ! ابھی نہیں۔ تم ایک ہی جگہ پڑے رہنے کے باعث چاک و چوبند نہیں رہے”۔
چند روز مزید بیت گئے۔ اس کی گوری گردن پر بنی کالی لکیر پھر واضح نظر آ رہی تھی۔
“اب میں چاک و چوبند ہوں۔ یہ دیکھو”۔
وہ ہما کی پنڈلی پر ٹھوکر رسید کر کے ہنسا۔
“ہاں ، اب تم مکمل ہو”۔
ہما نے درد ضبط کر کے ، ہنسی کا جواب مسکراہٹ سے دیا۔
“اب مجھے تمہاری ضرورت نہیں ہے”۔
پنڈلی پر ٹھیک اسی جگہ ایک اور ٹھوکر رسید کی ، قہقہہ لگایا اور سمت کا تعین کئے بغیر جلدی جلدی چلتا بنا۔
ہما نے دور جاتے وجود کو الوداعی نظروں سے دیکھا اور پنڈلی سے کپڑا سرکا کر ، پنڈلی پر زخم کا نشان دیکھ کر مسکرائی۔
اگلے روز وہ پھر اسی میدان میں موجود تھی۔
“تم کچی مٹی سے بنی لگتی ہو ! کیسے ٹوٹی ؟ کیا تم گر گئی تھی ؟”
ہما نے ملبے کے درمیان پڑی مٹی کی ڈھیری سے پوچھا۔
“ہاں تم ٹھیک کہتی ہو۔ میں ٹوٹ چکی ہوں”۔
جواب ملا۔
“آؤ میرے ساتھ”۔
ہما نے ہاتھ آگے بڑھایا۔ جیسے ہی ہاتھ تھاما ، کچی مٹی کا ہاتھ ٹوٹ کر ہاتھ میں آ گیا۔
“سنو ، مجھے سمیٹ لو اور لے چلو۔ دائیں جانب میرا دل زمین پر دھرا ہے۔ راہ چلتے لوگوں نے اسے بھی روند ڈالا ہے۔ اسے اٹھا لینا”۔
“دل ہی تو ہے۔ جو تمہیں دوبارہ بنائے گا”۔
ہما نے کچی مٹی احتیاط سے سمیٹی اور اٹھا کر میدان سے باہر لے آئی۔ شب و روز ایک کر کے روندے ہوئے دل کو نیا بنانے میں کامیاب ہو گئی۔
“دیکھو میں زندہ ہوں۔ مجھے جینے جانا ہے”۔
وہ خوشی سے لرزتی آواز میں بولی۔
“جینے جانا ہے ؟ کہاں جانے کی جلدی ہے ؟ نہیں ابھی نہیں۔ تمہیں ابھی مضبوط بنانا ہے۔ ایک دو روز اور لگ جائیں گے”۔
دو روز بیت گئے۔ گوری گردن پر کالی لکیر پھر واضح نظر آنے لگی تھی۔
“میرا دل بالکل نیا ہے اور اب میں مضبوط بھی ہوں”۔
مٹی کے وجود نے اپنا پاؤں ہما کے پاؤں پر رکھا اور پورا وزن ڈال کر مسل دیا۔ پاؤں مسل کر بائیں سمت دیکھا اور چلنا شروع کر دیا۔
ہما نے دور جاتے وجود کو الوداعی نظروں سے دیکھا اور پاؤں پر لگا گھاؤ دیکھ کر مسکرائی۔ آج وہ گھر جانے کے بجائے ملبے سے بھرے میدان کی جانب پلٹ رہی تھی۔ چلتے چلتے حسب عادت ملبے پر نگاہیں ڈالتی جا رہی تھی۔ ایک جگہ پہنچ کر رک گئی۔ اس کی حیرانی دیدنی تھی۔
“تم یہاں کیا کر رہے ہو ؟”
اس نے اپنی حیرت چھپانے کی کوشش کرتے ہوئے سوال کیا۔
“اگر یہی سوال میں تم سے پوچھوں ؟ تم یہاں کیا کر رہی ہو ؟ لگتا ہے گھر سے نہیں آئی ہو !
“توانائی بحال کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ اس لئے گھر نہیں گئی۔ پلٹ آئی ہوں۔ مگر تمہیں کیسے پتا میں آج گھر سے نہیں آئی ہوں ؟”
“میں تمہیں عرصہ دراز سے دیکھ رہا ہوں۔ جب گھر سے آتی ہو تب خوشبو طراز سی معطر گلدستے کی طرح مہک رہی ہوتی ہو۔ تمہیں یاد ہے کہ تم کون ہو ؟”
“میں ؟ ہاں مجھے یاد ہے۔ میں ہما ہوں۔ آؤ میرے ساتھ۔ تم سونا ہو۔ بہت قیمتی ہو۔ تمہارا کچھ نہیں بگڑا”۔
ہما نے ہاتھ آگے بڑھایا۔
“اچھا ! تو تم نے مجھے پہچان لیا ؟ ہاں بس تھوڑی بہت مٹی لگی ہے۔ میرا کچھ نہیں بگڑا”۔
“چلو میں تمہیں چمکا دوں”۔
“اس کی ضرورت نہیں ہے۔ مجھے پہچان لینا ہی کافی ہے۔ میں اسی کا منتظر تھا۔ تمہارے پاؤں پر کیا ہوا ہے ؟”
“یہ ایک کہانی ہے۔ تم نے مجھے یہاں آتے جاتے دیکھا ہے۔ مگر یہاں سے دور کی کہانیاں تم نہیں جانتے”۔
“یہ کہانی مجھے سناؤ گی ؟”
“ہاں سنا دوں گی ، میرے پاس اور بھی کہانیاں ہیں”۔
ہما نے اپنے کندھے ، پنڈلی اور کمر پر ثبت نشانات دکھا کر کہا۔
“اماوس کی راتیں تو شہنشاہوں کی زندگیوں میں بھی آتی ہیں۔ تم ہما نہیں ہو۔ یاد کرو تم سویرا ہو۔ تمہارا نام سویرا ہے۔ میں ایک ہی جگہ پڑے پڑے اکتا گیا ہوں۔ رخت سفر ، جو تم پر گزری ہے ، تم مجھے سنانا۔ تمہارے بنا جو میں نے جھیلی ہیں ، میں تمہیں سناؤں گا”۔
“بالآخر تم مل ہی گئے۔ کہاں تھے تم ؟ سفر سے انکار نا ممکن ہے۔ چلو چلتے ہیں…”۔
وہ نہال ہو کر کھلکھلا دی۔
_______
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...