وقت ،بوڑھااورلاغر ہوا تاریک لمحوں کی قید میں دُبکا بیٹھا تھا۔۔۔رنگینی و شادابی کو گہن لگ چکا تھا۔۔کیا راہو نے سورج کو اس قدر زور سے دبوچ لیاکہ گہن ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا؟
تروتازگی اور طراوت قصہ پارینہ بن کر صفحات کی دبیز تہوں میں دفن ہو گئی۔۔۔ سرسبز پہاڑ، گنگناتے جھرنے اور شور مچاتی آبشاریں، بھولے بسرے دنوں کی اوٹ میں سر چھپائے بیٹھیں تھیں۔۔فطرت کی گود میں پلنے والے ننھے پھول،وقت کے سینے پر ایڑیاں رگڑتے کہ شاید کوئی چشمہ پھوٹ پڑے مگرچمکیلی دھوپ میں جب بونوں کے عکس دکھائی دیتے تو وہ بھی چھوئی موئی کی مانندسہم جاتے ۔۔
وقت کی وحشت زدہ آنکھیں،بل کھاتی لال ندی سے خائف تھیں جس کا چڑھتا پانی اس کی شہہ رگ تک پہنچ کر آخری ہچکی کا سوال کر رہا تھا۔۔محبتوں کو اوج بخشنے والی جھیل کٹورے کی طرح سکڑتی چلی جارہی تھی۔۔کبھی یوں بھی لگتا کہ وقت،جھیل میں ڈوب کر مر گیا اور اس کی موت پر بین کرتی سنہری جھیل کا شور کانوں کے پردوں کو چیر رہا ہو۔۔
غورکرنے پر معلوم ہوتا کہ نہیں سانسیں ابھی تھمی نہیں ہیں بلکہ اس کی ہتھیلیوں پر لکیروں کو مٹا کر صلیب بنا دی گئی ہے ۔۔۔موت کی صلیب۔۔
سرخ آندھی روز چلتی اور دم توڑتی آوازیں سوال بن کر بوڑھی آنکھوں کی پُتلیوں پر گردش کرنے لگتیں ۔۔۔
“ستر اوپر دو یا ؟”
وقت نے پوپلے منہ سے ٹوٹے پھوٹے الفاظ ادا کیے تو یوں محسوس ہوا جیسے چری کترنے والی مشین کی زد میں آکر سارے حروف کُترے گئے ہوں ۔۔۔وہ ڈرا سہما سا،آسمان کی وسعتوں پر اُس دھرتی کا نصیب ڈھونڈ رہا تھا جہاں رِستے خون کی لاتعداد لکیریں نا قابل فراموش داستانوں کے انمٹ نقوش چھوڑ گئیں تھیں۔۔۔کہیں تازہ کلیوں کو پاؤں تلے روند کرپژمردگی کا لبارہ اوڑھانے والوں کے غلیظ ھاتھ تو کہیں چنار کے لمبے تڑنگے درختوں کی چھال پر بنے سفید زخم اسے آرے کی مانند چیر رہے تھے ۔۔۔وہی لمبے تنے جن پر محبت کی داستانوں نے تاریخ رقم کی تھی مگر بدقسمتی سے اب وہ خاردار تاروں کی جکڑن میں تھے۔۔
بے چینی کے عالم میں وہ اپنے جھری زدہ پیٹ میں انگلیوں کی پوروں سے تیز تیز چاقو چلانے لگا تو بوڑھی سانسوں کی کھنکھناہٹ زور پکڑ گئی۔۔۔آنکھیں تھیں کہ لال انگارے جو کسی روپہلی صبح کی منتظر دکھائی دیتیں۔
لا تعداد پیروں کی بھاگتی دوڑتی اور دل دہلا دینے والی چاپ،رگ و پے میں یوں سرایت کرتی جیسے بجلی کوند گئی ہو ۔۔۔تب سانسیں بے ترتیب ہونے لگتیں اور خوف کا پہرا بوڑھے کو لرزا ڈالتا ۔۔ تب ماضی اور حال آپس میں خلط ملط ہو جاتے اور وہ بڑ بڑانے لگتا ۔۔۔
” اس تباہی کا ذمہ دار کون ہے؟
وہ ۔۔۔۔ جو چور دروازوں سے داخل ہوکر میرے سینے پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر چلنے لگے یا پھرمیرے ہی بدن کے ناسور جو چور دروازوں سے داخل ہونے والوں کی لمبی گردنوں کے نگران بن گئے یا پھر وہ جن کے لیے میں شہہ رگ تھا؟ ”
الفاظ مسلسل کترے جانے کی اذیت میں مبتلا تھے ۔۔۔
” میں اکیلا کب ہوں ؟ میرے کچھ اور ساتھی بھی تو ہیں جو جلتی کوکھ پر نوحہ کناں ہیں ۔۔۔ آہ ! میرا ایک عزیز دوست جسے تپتے مادہ سے جھلسا کر سفاکیت کے سیاہ پنوں میں لپٹی تاریخ،نسل نو کے حوالے کر دی گئی۔۔جس سے ننھے پھولوں کی کونپلیں یک لخت سڑ گئیں اور جانے کتنے شجر بچے جننے سے محروم کر دیے گئے ۔۔
یہ سوچتے ہوئے اس کی آنکھیں سیال مادے کی طرح ہی تپ اٹھیں تھیں !
” اور اپنے اُس دوست کو کیسے بھول جاؤں جس کے اپنوں ہی نے اس کی آنکھ کو پھوڑ ڈالا۔۔۔تاریخ سے ہمکلام ہوتی عمارتوں کو کھنڈر بنا ڈالا۔۔جس کے بازو میں پلنے والے آستین کے سانپ نے تفرقہ کی زہر آلود بیلوں کی بنیاد ڈالی اور پھر۔۔ وہ ۔۔دور ۔۔۔۔بہت ت ت۔۔دور لیکن دل کے بہت قریب میری مقدس سرزمین جس کی جڑوں کو دیمک نے سخت شکنجے میں لے لیا اور جونک اس کے خون کی حصہ دار بن بیٹھی ۔۔۔آہ !کس کس کو یاد کروں ؟”
جب یاد رفتگاں ،دل کے نہاں خانوں میں چھپے زخموں کو کریدتے کریدتے تھک گئی تو بوڑھا وقت اپنی ذات کے سفر تک لوٹ آیا ۔۔۔
“ستر اوپر دو یا تین یا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟”
کانپتے ھاتھوں سے دوبارہ گننا شروع کیا تو پوروں سے خون رِسنے لگا۔۔اس کے چوڑے کشادہ سینے پر پھیلی سنہری جھیل کا پیٹ پھولنے لگا،نیم مردہ عکس پھیلے اور اس کے سامنے آن کھڑے ہوئے ۔۔۔
” میں گاؤں کی سیدھی سادھی سی لڑکی تھی جسے” اُس پار” بسنے والے ایک گورے چٹےگبھرو جوان سے عشق ہوگیا تھا ۔۔میری خاطر ہی پہاڑوں کو پھاندتا ہوا مجھ تک آن پہنچا تھا ۔۔۔وہ کھیتوں میں ہل چلاتا اور پہاڑوں کی اوٹ سے میں اسے دیکھا کرتی ۔۔۔ چنار کے طویل القامت درختوں کی چھال پر پیغام لکھتی۔۔۔وہ مجھے دیکھتا تو میرے لب چاہت کے سرور میں گیت گانے لگتے اور ہوائیں مستی میں جھوم اٹھتیں ۔۔۔ پھر وہ محبت بھری کہانیاں لکھنے لگا۔نفرتوں کے بیج بونے والوں کو ارادت کے معنی سمجھانے لگا ۔۔ اس کا قصوربس اتنا ہی تھا ”
یہ کہتے ہی نیم مردہ عکس کے لب کانپنے لگے۔۔۔اس کی آنکھوں سے وحشت ٹپکنے لگی ۔۔
” پھر اسے بیچ چوراہے میں ننگاکر کے گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا ۔۔۔کیوں ں ں ں ں ؟ ”
اتنا کہتے ہی اس نے کانوں پر ھاتھ رکھا اور سنہری جھیل میں چھلانگ لگا دی ۔۔۔جھیل کا پانی شڑاپ کی آواز کے ساتھ ہی خامشی کی بُکل اوڑھے سو گیا ۔۔۔ بالکل ویسے ہی جیسے کسی میت کے لواحقین مردے کو سپرد لحد کرنے کے بعد گہرے سکوت میں چلے جاتے ہیں ۔۔۔ بوڑھے کے دل میں ٹیس اٹھی اور انگاروں کی سی آنکھیں مزید دہکنے لگییں۔۔۔۔آدم خوروں کی سی خصلت والے گھات لگائے بیٹھے تھے اور کچھ دوڑتے پھر رہے تھے جو بونے ہونے کے باوجود طاقتور تھے۔۔۔وجود سے بڑے لباس اور بانہوں سے لمبی بندوقیں پہنے وہ وقت کے سینے پر ناچتے پھر رہے تھے ۔وہ سہم گیا ۔بہت سہم گیا ۔
“ستر اوپر دو یا تین یا ۔۔۔۔۔۔؟ خوف کے مارےلفظوں نے خود کو پوپلے منہ میں قید کر لیا تھا ۔۔۔جب بونوں کی بھگدڑ تھم گئی تو جھیل میں دوبارہ سنسناہٹ ہوئی۔۔۔
“میں اور میرا دوست وادی کی رنگین فضاؤں میں جھومتے ہوئے بھاگتے چلے جارہے تھے ۔۔۔گلی کا موڑ مڑنے والے تھے کہ دوڑتے پیروں نے دل دہلا دینے والی دستک دی ۔۔۔ایک ڈنڈا میری کمر پر اتنا زور سے برسایا گیا کہ چیخ نکل گئی ۔۔۔دوست سے غلطی یہ ہوئی کہ اس نے ڈنڈا پکڑ لیا اور بونوں کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہو گیا۔۔ بونے اپنے قد سے بڑا قد برداشت کیسےکرتے؟
کالے دل والوں کے کالی آنکھیں لہو سے بھر گئیں اور پھربندوقوں سے نکلنے والے چھروں نے اس کی بغاوت کرنے والی آنکھوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھین لیا ۔میں گرتا گراتا گلی کی نکڑ مڑ گیا۔۔۔میری ماں بند دروزے کے پیچھے دُبکی بیٹھی میرا انتظار کر رہی تھی۔۔۔میں تو زندہ رہا مگرکوئی ماں تو تھی جس کےدر پر جوان موت کی دستک ہوئی تھی۔۔۔پھر جانے کتنی ہی دستکیں گھروں کی چوکھٹ پر جا کر دم توڑنے لگیں ۔۔۔درزوں سے خوف ٹپکنے لگا اور گھروں کے صحن سفید چادروں میں لپٹی لاشوں سے بھرنے لگے۔۔۔کیا میں زندہ ہوں ؟نہیں میں تو بس سانسیں لے رہا ہوں ۔۔ میں تو اسی دن مر گیا تھا جس دن میرا دوست مرا تھا۔۔ ”
اس کی کہانی ابھی ختم بھی نہ ہوئی تھی کہ بے شماروجود جھیل سے نکل کر وقت کی چھاتی پر دوڑنے لگے۔۔۔
” تیری کوکھ بھرتی کیوں نہیں ۔۔۔اور کتنوں کا خون پیے گا۔۔۔؟”
لمبی قطار تھی جو سراپا سوال تھی۔۔۔اس کا تو کوئی قصور بھی نہ تھا۔اسے تو سب ہی کو اپنے بطن میں پناہ دینی تھی کہ اُس کا نصیب یہ ہی تھا۔۔۔ مگر وہ سہم گیا ۔۔ بہت سہم گیا ۔اس کی لاغرکلائیاں تھر تھر کانپنے لگیں اور ھاتھوں سے کھرچی مٹی پھسلتی چلی گئی ۔۔۔
ستر اوپر دو کا ورد جاری تھا ۔ وہ گنتا چلا جا رہا تھا اور الفاظ کترے جانے کی اذیت سے دوچار مسلسل ٹوٹ پھوٹ کاشکار تھے۔۔اس کی سوچ کے دائرے آنکھوں کی پتلیوں سے ہوتے ہوئے جھیل کے نمکین پانی پر تیرنے لگے۔۔ جُھری زدہ پیٹ کُھل گیا۔۔۔ مردے دوڑنے لگے۔۔۔ نیم مردہ عکس اپنی اپنی کہانی لیے کھڑے تھے کہ کسی نے اس کے ناتواں کندھے پر سر رکھ کر بلبلانا شروع کردیا۔۔
پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ بہادر لڑکی جس نے پہاڑوں کے وسیع دامن کو اپنی گود میں بھر لیا تھا،بیٹھی اپنے برہنہ وجودکو چھپانے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔۔۔اس کی مخمور نگاہوں سے خواب چھین لیے گئے اور اس کے بدن کو نوچ نوچ کر گدھ،وقار اونچا کرنے والے اعلی عہدوں پر فائزہو چکے تھے۔۔
اسے دیکھ کر جھیل کا پانی ابلنا شروع ہو گیا اورسب کی نگاہیں مارے شرم کے جھک گئیں۔۔۔قطار میں لگے سبھی وجود ا پنے ھاتھوں میں پکڑی داستانیں پھینکے، الٹے قدموں جھیل میں کود گئے۔۔۔اب کی بار شڑاپ کی آواز چیخوں میں بدل چکی تھی ۔۔۔لاتعداد صفحات ہوا میں ڈولتے ہوئے کسی دوسری دھرتی کی جانب سفر کرنے لگے۔۔۔ آندھی زور پکڑ گئی ۔ندی کا پانی گہرے لال خون میں منتقل ہو گیا ۔ عکس در عکس ابھرنے والے نقوش وقت کے سینے کو پھاڑتے چلے گئے۔۔۔سنہری جھیل سکڑ گئی اور لمبی لمبی بندوقوں والے چھوٹے چھوٹے بونے تعداد میں بڑھتے چلے گئے ۔۔۔
ستر اوپر دو یا تین یا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کتنے ؟
یہ کہتے ہی وقت کا پوپلا منہ بند ہو گیا اور آنکھیں سفید جھرنوں سے لبریز ہو گئیں ۔۔
****
اسما حسن ، اسلام آباد ۔ پاکستان
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...