(Last Updated On: )
اسپتال کی ڈیوٹی ختم ہوتے ہی میں نے سیدھے اپنے فلیٹ کا رخ کیا۔رات کے دس بج رہے تھے اور میں آرام کرنا چاہتا تھا کیوں کہ صبح نو بجے مجھے راؤنڈ پر جانا تھا۔ اس اجنبی ملک میں کسی کو جانتا بھی نہیں تھا جس کے ساتھ وقت گزار سکوں۔مجھے امریکہ آئے ہوئے چھ مہینے ہو چکے ہیں۔ابّو کا خواب تھا کہ میں ڈاکٹر بنوں اور بیرونِ ملک میں اپنا کیریر بناؤں۔ایک ادنیٰ سرکاری ملازم کے لئے یہ ناممکن سا خواب تھا مگر اللہ نے ایسے اسباب پیدا کر دئے کہ آج میں امریکہ کے بہترین اسپتال میں جونیئر ڈاکٹر کی حیثیت سے کام کر رہا ہوں۔
یہاں آنے کے بعد میں نے سب سے زیادہ اپنے گھر والوں کو مِس کیا۔یہاں آکر ہی مجھے پتہ چلا کہ اپنوں کے ساتھ زندگی کتنی خوشگوار اور سہل ہوتی ہے اور ان سے دوری انسان کے اندر کیسا خلا پیدا کر دیتی ہے۔ابتداء میں تواتر کے ساتھ سب سے فون پر بات ہوتی تھی اور واٹس ایپ پر چیٹنگ ہوتی تھی،مگر آہستہ آہستہ میں اپنے کام میں مصروف ہوتا گیا اور اپنی عدیم الفرصتی کے باعث پچھلے کئی مہینوں سے کسی سے رابطہ نہیں کر پایا تھا ،میرے چھوٹے بھائی عادل کے ای میل تک نہیں پڑھ پایا تھا۔ فلیٹ میں پہنچا تو میرے روم میٹ نے کچھ خطوط میرے حوالے کئے۔یہ سارے خط انڈیا سے آئے تھے۔ ان خطوط سے وطن کی مٹی کی خوشبو اور اپنوں کی بے لوث محبت کی مہک آ رہی تھی۔ میں نے محسوس کیا کہ پردیس میں خوشیوں کا ہر زاویہ بدل جاتا ہے۔میں نے ڈنر کا ارادہ ترک کر دیا ، بستر پر چھلانگ لگائی اور ایک ایک کر کے خطوط کو پڑھنے لگا۔
پہلا خط
تاریخ : 12 ؍ اپریل 2019
پیارے بیٹے ساحل۔۔۔۔ ڈھیر ساری دعائیں
امریکہ جا کر اپنے ابّو کو بھول گئے کیا؟ تمہیں یہاں سے گئے چھ مہینے ہو چکے ہیں مگر ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا جب میں نے تمہیں یاد نہ کیا ہو ۔میں نے بہت محنت کر کے تمہیں اس قابل بنایا ہے ۔میں نے زندگی بھر اپنی خواہشات کا گلا گھونٹا تاکہ تم پڑھ لکھ سکو۔سماج میںبا عزت مقام حاصل کر سکو۔ تمہیں اس مقام تک پہنچانا میرے لئے آسان نہیں تھا مگر اللہ کا شکر ہے کہ میری محنت رنگ لائی۔ اب تم ڈاکٹر بن گئے ہو اور ایک باوقار عہدے پر فائز ہو۔من تو میرا بالکل نہیں تھا کہ تمہیں سات سمندر پار بھیجوں ۔ مگر میرے بوڑھے کندھوں میں اتنی سکت نہیں ہے بیٹا کہ اب اور بوجھ ڈھو سکوں۔اس امید پر تمہیں اتنی دور بھیجا ہے کہ تم میرے کندھوں کو مضبوط کروگے اور گھر کی کفالت میں میرا سہارا بنو گے ۔
اِدھر میراریٹائرمنٹ قریب ہے اور اُدھرحنا کے سسرال والے شادی کے لئے بار بار اصرار کر رہے ہیں ۔میری ساری کمائی تو تمہیں ڈاکٹر بنانے میں صرف ہو گئی ہے۔اب ایسے میں مجھے صرف تم سے امید ہے ۔ امریکہ کے اتنے بڑے اسپتال میں تمہاری نوکری لگی ہے ، تنخواہ بھی زبردست ہوگی۔بس تم جلدی سے روپے بھیج دوتو میں حنا کے سسرال والوں کو مطلع کر دوں۔حنا کی شادی میں پندرہ لاکھ سے زائد کا خرچ آئے گا ۔ ان لوگوں کے بہت سارے ڈیمانڈ سامنے آرہے ہیں ۔ تمہیںامریکہ بھیجنے کے لئے اپنے دوست سے جو دو لا کھ کا قرض لیا تھاوہ بھی تو ادا کرنا ہے ۔میرا دوست بار بار تقاضہ کر رہا ہے ۔میری تنخواہ تو گھر خرچ میں ہی برابر ہو جاتی ہے ۔عادل کی پڑھائی کی ذمہ داری بھی تو میرے ہی کندھوں پر ہے۔ اوپر سے تمہاری ماں کی بیماری، جس کی دواؤں کے خرچ میں ہزاروں روپے اُڑ جاتے ہیں۔
ان سب کے علاوہ بھی بہت سارے اخراجات ہیں بیٹا ،جو میں تمہیں کہنا نہیں چاہتا ۔تم سمجھ دار ہو،میں جانتا ہوں کہ تم بہت جلد وہاں سے روپے بھیجو گے اور اپنے ابّو کا سہارا بنو گے۔ہر باپ کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا بیٹا اس کے کمزور ہوتے ہاتھوں کو مضبوطی سے تھام لے اور اس کا بوجھ اپنے کندھوں پر لے لے۔ تمہارے جانے کے بعدسے باہر کے کام نپٹانے میں بہت دشواری ہو رہی ہے ۔ میری طبیعت بھی برابر نہیں رہتی ۔عادل کوتو تم جانتے ہی ہو ،لا اُبالی انسان ہے ،اسے گھر کے کاموں سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ کالج سے آکر وہ بس اپنے کمرے میں قید ہو جاتا ہے یا دوستوں کے ساتھ باہر چلا جاتا ہے۔اگر تم کچھ زیادہ رقم بھیجو تو سوچتا ہوں کوئی نوکر رکھ لوںگھر کے کاموں کے لئے۔
تم وہاں خوب محنت کرنا بیٹا ،کیوں کہ دولت کمانے کی ایک عمر ہوتی ہے ۔ اللہ نے تمہیں اتنا اچھا موقعہ دیا ہے اس کا بھرپور فائدہ اٹھاؤ۔اگر ممکن ہو تو اوور ٹائم بھی کرو۔ بس ایک بات کا خیال رکھنا کہ رقم تمہیں پابندی سے بھیجنی ہے تاکہ تمہاری بہن کی شادی دھوم دھام سے ہو سکے ۔اس کے علاوہ اگر کوئی شناسا وہاں سے آرہے ہیں تو میرے لئے کچھ تحائف وغیرہ بھیج دینا ۔سنا ہے کہ امریکہ میں رولیکس واچ بہت مشہور ہے ۔ میری بڑی خواہش ہے کہ میں وہ گھڑی پہنوں۔دوستوں نے تو تنگ کرنا بھی شروع کر دیا ہے کہ بیٹے نے اپنے والد کے لئے امریکہ سے کیا بھیجا ہے؟
ایک خاص بات لکھنا تو بھول ہی گیا ۔تمہاری پھوپھی تمہاری کزن عائشہ کے لئے تمہارا رشتہ مانگنے آئی تھیں ۔ میں نے تو جھٹ سے رضامندی کا اظہار کر دیا ۔آخر عائشہ ان کی اکلوتی اولاد ہے ،کروڑوں کی جائداد کی تنہا حقدار۔ تمہارا مستقبل سنور جائے گا بیٹا ۔عائشہ تمہاری بچپن کی دوست بھی تو ہے ۔مجھے امید ہے کہ تم بھی اس رشتہ کے لئے حامی بھروگے اور اپنے ابّو کی بات کا بھرم رکھو گے ۔ تمہاری ماں بھی اس رشتے سے بہت خوش ہے۔
خیر یہ باتیں تو ہوتی رہیں گی ۔ خط بہت لمبا ہو رہا ہے ۔مگر بیٹا خط میں میری لکھی ہوئی تمام باتوں کو دھیان سے پڑھنا اور جلد از جلد جواب دینا ۔
تمہارے جواب کا منتظر
ابّو۔۔۔۔
******
دوسرا خط
تاریخ : 10 ؍ اپریل 2019
میرے پیارے بھیا ۔۔۔۔۔ السلام و علیکم
میں بتا نہیں سکتی کہ میں کتنی خوش ہوں۔ سارے خاندان والوں کے سامنے آپ نے ہماری ناک اونچی کر دی ۔میرے بھیا امریکہ کے مشہور اسپتال میں ڈاکٹر ہیں ،جب میں یہ بات اپنی سہیلیوں کو بتاتی ہوں تو فخر سے میرا سر اونچا ہو جاتا ہے ۔میں نے آپ کی بھیجی ہوئی تصویریں بھی اپنی سہیلیوں کو بتائیں۔ وہ تو آپ کی دیوانی ہو گئیں ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ حنا تم بہت خوش قسمت ہو تمہیں ایسا بھائی ملا ہے ۔گھر میں بھی سب کہہ رہے ہیں کہ اب تو میری شادی اور دھوم دھام سے ہوگی،ابّو تو بے تحاشہ خرچ کا پلان بنا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ میری شادی کو مثالی شادی بنانا چاہتے ہیں ۔وہ اپنی بیٹی کی شادی ایسی کرنا چاہتے ہیں جیسی خاندان میں آج تک کسی نے نہ کی ہو۔پھوپھا ابّو کو بتا رہے تھے کہ میری شادی میں تقریباً دس لاکھ کا خرچ آئے گا۔ سسرال والوں کی طرف سے تو کوئی ڈیمانڈ نہیں ہے ، وہ لوگ تو شادی میں فضول خرچی کے سخت مخالف ہیں ۔مگر ابّو کو کون سمجھائے۔ وہ کہتے ہیں کہ جس بہن کا بھائی امریکہ میں رہتا ہو اس کی شادی کی شان ہی الگ ہونی چاہئے۔
ابّو تو آپ کی شادی کا بھی منصوبہ بنا رہے ہیں ۔ وہ نہیں چاہتے کہ کوئی گوری لڑکی آپ کو اپنے جال میں پھانس لے اور ابّو کے سارے پلان پر پانی پھر جائے ۔وہ عائشہ کو اپنے گھر کی بہو بنانا چاہتے ہیں، اس لئے وہ پھوپھی کے ذریعے پھوپھا پر دباؤ بنا رہے ہیں تاکہ شادی کے بعد پھوپھا کی ساری جائداد ہمار ی ہو جائے۔ابھی پھوپھا نے کوئی حتمی جواب نہیں دیا ہے ،مگر ابّو کو امید ہے کہ وہ آپ کا رشتہ ضرور قبول کریں گے ۔
ابّو بہت خوش ہیں بھیا،وہ تو وقت سے پہلے ہی اپنے ریٹائرمنٹ کا پلان بنا رہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ تمہاری کمائی اتنی ہے کہ اب ہمیں مزید کسی آمدنی کی ضرورت نہیں ہوگی۔ آپ کو امریکہ بھیجنے کے لئے ابّو نے جو قرض لیا تھا وہ بھی انہوں نے ادا کر دیا ہے ۔ابّو کی صحت قابلِ رشک ہو گئی ہے اور وہ پہلے سے زیادہ چا ق و چوبند ہو گئے ہیں ۔آپ کے امریکہ جانے کی خوشی میں امی کی طبیعت بھی پہلے سے بہت بہتر ہوگئی ہے ۔ ڈاکٹر نے ان کی دواؤں میں تخفیف کر دی ہے ۔ مگر کبھی کبھی آپ کو یاد کر کے روتی رہتی ہیں ۔آپ کے جانے کے بعد کئی دنوں تک انہوں نے کھانا بھی نہیں کھایا تھا ۔ہر وقت آپ کے لئے دعائیں کرتی رہتی ہیں۔
بس بھیا آپ بھی اپنا خیال رکھئے اور دل لگا کر کام کیجئے ۔میری شادی میں آنے کی پوری کوشش کرنا ،اگر نہ آسکو تو کم از کم وہاں سے شادی کے لئے کچھ خاص تحائف بھیجنا ۔امریکہ جانے کے وقت آپ نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ وہاں سے میرے لئے جیولری لاؤگے ۔ ہو سکے تو میری شادی تک بھیج دینا مجھے بڑی خوشی ہوگی ، آخر آپ کی اکلوتی بہن ہوں ۔ اور ہاں اپنے اکلوتے بہنوئی کو بھی مت بھولنا ۔وہ بھی بڑے فخر سے اپنے دوستوں کو بتاتے ہیں کہ ان کا سالا امریکہ میں ڈاکٹر ہے ۔ان کے لئے تحفہ میں آپ کی پسند پر چھوڑتی ہوں ۔جو آپ مناسب سمجھیں وہ بھیج دیں مگر ایک بات کا خیال رکھیں کہ تحفہ ایسا ہو کہ ان کی عزت بڑھے۔
ایک اور بات ،پرسوں سہیل کا فون آیا تھا وہ کہہ رہے تھے کہ شادی کے بعد وہ اپنا خود کا کاروبار شروع کرنا چاہتے ہیں جس کے لئے لاکھوں روپے درکار ہوں گے۔میرے پیارے بھیا اگر شادی کے بعد آپ سہیل کی مدد کر دیں تو ہمارا مستقبل سنور سکتا ہے ۔ میں جانتی ہوں کہ آپ انکار نہیں کر یں گے۔ حالانکہ انہوں نے مجھ سے کہہ دیا ہے کہ وہ جلد آپ کی رقم لوٹا دیں گے مگر میں جانتی ہوں کہ آپ کو دولت سے زیادہ اپنی بہن کی خوشی عزیز ہے ۔ اللہ سے دعا گو ہوں کہ ہر بہن کو آپ جیسا بھائی دے ۔ چاند ستاروں کی عمر آپ کو ملے۔
بس بھیا اب میں سونے جا رہی ہوں ۔باقی باتیں پھر کبھی ہوں گی۔
آپکی پیاری بہن ۔۔۔۔۔۔
حنا
******
تیسرا خط
تاریخ : 9 ؍ اپریل 2019
ساحل بھائی کے لئے ڈھیروں آداب
میں اپنے آپ کو دنیا کا سب سے خوش قسمت انسان مانتا ہوں کیوں کہ مجھے آپ جیسا بھائی ملا۔ آپ نے اپنی محنت سے آج وہ مقام حاصل کیا ہے جو بہت کم لوگوں کو حاصل ہوتا ہے۔ آپ واقعی تعریف کے مستحق ہیں ۔ آپ کے امریکہ جانے کے بعد بھی گھر میں مبارکباد دینے والوں کا تانتا لگا رہتا ہے۔ کالج میں سارے دوستوں نے بھی مبارکباد دی ہے ،مگر اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے کچھ فرمائشیں بھی کی ہیں ۔ وہ چاہتے ہیں کہ امریکہ سے آپ ہم سب دوستوں کے لئے اسپورٹس شوز بھیجیں ۔ آپ میرے بھائی ہونے کے ساتھ ساتھ میرے سب سے اچھے دوست بھی ہو۔ بھیا منع مت کیجئے گا ، میری عزت کا سوال ہے ۔
آپ ہمیشہ سے چاہتے تھے کہ میں انجینیئرنگ کے ٹاپ کالج میں ایڈمیشن لوں ۔محنت تو میں بہت کر رہا ہوں مگر میری رینکنگ اچھی نہ آئے تو مجھے امید ہے کہ آپ مجھے پیمنٹ کوٹے سے انجینیئرنگ سیٹ دلوائیں گے ۔میں ان شاء اللہ آپ کا خواب پورا کروں گا اور آپ کی طرح کامیاب بن کر دکھاؤں گا ۔دعا کیجئے کہ میں بھی آپ کی طرح بن سکوں۔
امید ہے کہ اب تک آپ نے وہاں کے ماحول کے مطابق اپنے آپ کو ایڈجسٹ کر لیا ہوگا ۔امی آپ کی بہت فکر کرتی ہیں ، ہر نماز میں آپ کے لئے خصوصی دعائیں کرتی ہیں ۔وقت نکال کر ان سے ضرور بات کرنا، بہت خوش ہوں گی۔ میں جانتا ہوں کہ آپ بھی ہم سب کی بہت فکر کرتے ہیں تبھی تو آپ سات سمندر پار گئے ہیں ہم سب کی خاطر ۔ابّو نے تو آپ کو مثالی بیٹے کا خطاب دے رکھا ہے ۔ ہر کسی کی سامنے آپ کی تعریفوں کے پل باندھتے رہتے ہیں ۔ کل ہی وہ حنا کے سسر سے فون پر کہہ رہے تھے کہ آپ کی خواہش ہے کہ جہیز کا سارا سامان امپورٹیڈ ہو ۔حالانکہ حنا کے سسر اس نمود و نمائش کے سخت خلاف ہیں ۔امی بھی ابّو کو سمجھارہی ہیں کہ شادی سے پہلے اس طرح کا دکھاوا ٹھیک نہیں ہے،بعد میں دقتیں ہو سکتی ہیں ۔ مگر ابّو کسی کی کہاں سنتے ہیں ۔ آپ سے ایک درخواست ہے بھیا کہ ان تمام خرچوں میں اس غریب بھائی کا بھی خیال رکھیں ۔ مجھے کچھ نہیں بس ایک اچھا سا اور مہنگا موبائل فون اور کچھ پرفیومس بھیج دیجئے تاکہ میں اپنے دوستوں پر رعب جھاڑ سکوں ۔ آخر امریکی ڈاکٹر کا بھائی ہوں ،اتنا حق تو بنتا ہے میرا۔ کپڑے وغیرہ جب آپ آئیں گے تب ساتھ لائیے گا ۔
آپ کے دوست سلمان بھائی ہر دوسرے دن مجھے فون کرتے ہیں۔اکثر گھر بھی آیا کرتے ہیں اور آپ کے متعلق تفصیلاً پوچھتے رہتے ہیں۔مگرمجھے لگتا ہے کہ وہ آپ کی فکر کم اور تفتیش زیادہ کرتے ہیں۔دودن پہلے بھی وہ ابو سے ملنے آئے تھے اور ابو کو بتا رہے تھے کہ ان کا کوئی کزن برادر بھی امریکہ میں ہی رہتا ہے،اس کووہاں گئے ہوئے دس سال ہو چکے ہیں مگر اس نے آج تک کبھی مڑ کر اپنے ماں باپ کی سدھ نہیں لی۔ ان کی یہ بات سن کر ابو کافی فکر مند ہو گئے تھے ۔خیر آپ ان باتوں کو دل پر نہ لیں۔ہم جانتے ہیں کہ آپ ہم سب کو کتنا چاہتے ہیں۔
آپ چونکہ بہت مصروف رہتے ہو اس لئے میں نے فون پر ڈسٹرب کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ اس لئے اپنے لیاپ ٹاپ سے میل کر رہا ہوں۔میرا لیاپ ٹاپ بھی کافی پرانا ہو چکا ہے ۔اگر ممکن ہو تو ایک لیاپ ٹاپ بھی بھیج دیں ۔چلیں اب رات بہت ہو چکی ہے ،صبح کالج جانا ہے ۔ امید ہے کہ آپ میری خواہشات کا خیال رکھیں گے اور اپنے لاڈلے بھائی کو مایوس نہیں کریں گے ۔
اللہ حافظ
آپ کا چھوٹا بھائی ۔۔۔۔
عادل
******
چوتھا خط
تاریخ : 8 ؍ اپریل 2019
عزیز دوست۔۔۔۔۔۔ ساحل
جب سے تم ڈاکٹر بنے ہو، امریکہ سدھارے ہو ،اپنے دوستوں کو بھول ہی گئے ہو۔ ایسا اکثر ہوتا ہے کہ انسان کامیابی ملنے کے بعد اپنوں سے دور ہو جاتا ہے،کیا اپنوں سے کٹ کر ہی انسان کامیاب ہو سکتا ہے جیسے پتھر اپنوں سے کٹ کر خدا بن جاتا ہے ،مگر اپنے دوستوں سے کیسی بے رخی۔ تمہیں گئے ہوئے چھ مہینے ہو چکے ہیں مگر تمہاری طرف سے ایک مرتبہ بھی فون نہیں آیا ۔ ہم تو تمہارے خیر خواہ ہیں بھئی ۔ تمہاری کامیابی سے ہمیں بھی اتنی ہی خوشی ملی ہے جتنی تمہارے گھر والوں کو۔ آخر تم ہمارے بچپن کے ساتھی ہو،بہت اچھا وقت ہم نے ایک ساتھ گزارا ہے مگرامریکہ کی چکاچوندوالی زندگی میں ہمارے ساتھ گزارے ہوئے وقت کو مت بھول جانا۔ ہمیں فخر ہے کہ ہمارا ایک دوست ترقی اور شہرت کی بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ ہمیں خوشی ہے کہ تم نے اپنی محنت اور لگن سے وہ مقام حاصل کیا ہے جس کا خواب آج کل کا ہر نوجوان دیکھتا ہے۔ مگر میں چونکہ تمہارا خیر خواہ ہوں اس لئے تم سے کہنا چاہتا ہوں کہ دنیا میں ہر عروج کو زوال ہے ۔ کامیابی اور شہرت وقتی چیزیں ہیں ،آج تمہارے پاس ہیں کل کسی اور کے پاس ہوں گی۔ دنیا میں کامیابی ہی سب کچھ نہیں ہوتی۔کون سا تمہیں ہمیشہ وہاں رہنا ہے ۔ایک نہ ایک دن لوٹ کر پھر یہیں آنا ہے اس لئے اپنے وطن کو،یہاں کی مٹی کو اور یہاں کے دوستوں کو کبھی مت بھولنا ۔
ہمیں خوشی ہے کہ تم سات سمندر پار جا کر اپنے والدین کا نام روشن کر رہے ہو۔مگر اس بات کا دکھ بھی ہے کہ تم اپنوں سے دور ہو گئے ہو،ماں کی ممتا اور باپ کی شفقت سے محروم ہو گئے ہو ۔دولت کی خاطر تم نے اپنوں سے دور رہنے کا فیصلہ تو کر لیا ہے مگر میری ایک دوستانہ اور مخلصانہ رائے ہے کہ وہاں کے ماحول میں اپنے آپ کو مت ڈھال لینا۔کیوںکہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ جس کو وہاں کی ہوا لگ جائے پھر وہ وہیں کا ہو کر رہ جاتا ہے۔ کئی لوگوں نے تو یہاں تک کہنا شروع کر دیا ہے کہ اب تم کبھی لوٹ کر نہیں آؤ گے ، ہمیشہ کے لئے وہیں بس جاؤگے ۔
عادل بتا رہا تھا کہ رشتہ داروں نے بھی تمہارے والدین کو طعنے دینا شروع کر دیا ہے ،جس کی وجہ سے تمہاری امی کافی دل برداشتہ ہو جاتی ہیں ۔جب سے تم گئے ہو میں نے تمہارے گھر جانا ترک کردیا ہے کہ مبادا مجھے دیکھ کر آنٹی کو تمہاری یاد آ جائے۔ بس کبھی کبھار عادل سے فون پر بات ہوجاتی ہے ۔ اس لئے کہہ رہا ہوں کہ ہمیں اپنی خیریت کی خبر دیتے رہنا ۔کئی دوست یہ شکایت کر رہے ہیں کہ تم ان کے فون ریسیو نہیں کررہے ہو،ان سے ٹھیک سے بات نہیں کر رہے ہو ۔ ساحل کامیابی اپنے ساتھ کئی تقاضے بھی لاتی ہے جو تمہیں طوعاً و کرہاً پورے کرنے ہی پڑیں گے ورنہ سب تم سے بددل ہو جائیں گے ۔ مگر مجھے یقین ہے کہ تم ان سب کی شکایات کو دور کرو گے اور سب کو غلط ثابت کروگے۔
میں تو اس دن کا منتظر ہوں جب تم پھر سے ہمارے بیچ آجاؤگے ۔اپنے کام پر توجہ مرکوز رکھنا اوروقت ملے تو فون ضرور کر دینا ،مجھے خوشی ہوگی۔میں امید کرتا ہوں کہ میری باتوں کو تم بغور پڑھوگے اور اس پر عمل بھی کرو گے ۔ میری نیک تمنائیں اورخواہشات ہمیشہ تمہارے ساتھ ہیں ۔
تمہارا دوست۔۔۔۔۔۔۔
سلمان
******
پانچواں خط
تاریخ : 11 ؍ اپریل 2019
میرے لختِ جگر ۔۔۔۔۔۔ اللہ تمہیں سلامت رکھے
کئی دن ہو گئے بیٹا ،تم نے کوئی فون نہیں کیا ۔میں سمجھ سکتی ہوں کہ تم وہاں کتنے مصروف رہتے ہوگے۔کل رات تم میرے خواب میں آئے تھے ، سب خیر تو ہے نا۔تمہاری بڑی فکر ہوتی ہے بیٹا ۔ وہاں کوئی بھی تو نہیں ہے تمہارا خیال رکھنے کے لئے ۔ کام بھی بہت زیادہ ہوگا ۔ مگر تم پہلے اپنا خیال رکھنا ،کھانا وقت پر کھاتے رہنا۔کام کے ساتھ ساتھ کچھ آرام بھی کرلینا۔تم نے اپنی جو تصویریں بھیجی تھیں اس میں تم کافی دبلے لگ رہے تھے ،میں کتنی دیر تک تمہاری تصویر کو سینے سے لگا کر روئی تھی ۔اپنے اوپر بھی دھیان دیا کرو بیٹا۔ تمہارامن تو لگ گیا ہے نا وہاں ۔یہاںکھانے کے معاملے میں بڑے ضدی تھے ،یہ نہیں کھاؤں گا وہ نہیں کھاؤں گا۔ تمہیں ماں کے ہاتھ کی گرم گرم روٹی کھانے کی عادت تھی،پتہ نہیں وہاں کیا کھاتے ہو گے ۔ جب بھی روٹی بناتی ہوں تُم بڑا یاد آتے ہو۔ چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے ہر وقت تمہاری باتیں یاد آتی ہیں ۔
سنا ہے وہاں موسم زیادہ تر سرد ہوتا ہے،سرد موسم میں تمہاری طبیعت اکثر خراب ہو جاتی ہے اس لئے گرم کپڑے ہمیشہ ساتھ رکھنا۔ مجھے بہت خوشی ہے کہ تم پڑھ لکھ کر ڈاکٹر بن گئے ہو، ہمارا نام روشن کر رہے ہو۔اللہ ہر ماں باپ کو ایسا بیٹا عطا کرے۔ مگر جب سے تم گئے ہو کچھ بھی اچھا نہیں لگتا ۔ تمہارے کمرے میں جاتی ہوں تو آنکھوں سے آنسو نکل آتے ہیں، دل میں ایک ہوک سی اٹھتی ہے۔ تمہاری ایک ایک چیزوں کو ہاتھ لگاتی ہوں اور تمہیں محسوس کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔ کبھی کبھی رات بھر سو نہیں پاتی۔ بس ہر وقت اللہ سے دعا کرتی ہوں کہ اجنبی ملک میں تمہارے لئے ہمیشہ آسانیاں پیدا کرے۔
بچپن سے ہی تم بہت ذمہ دار ثابت ہوئے ہو۔ہمیشہ گھر کی فکر کرتے تھے اور کبھی کوئی بے جا فرمائش نہیں کی۔ مگر اب تم گھر سے اتنی دور ہو، ہم لوگوں کی بالکل فکر نہیں کرنا۔ہم سب یہاں بہت مزے سے ہیں۔میری طبیعت بھی پہلے سے بہت بہتر ہے،دواؤں کا خرچ بھی کم ہو گیا ہے ۔ بس حنا کی شادی قریب ہے تو تمہارے ابّو تھوڑا فکر مند رہتے ہیں ۔باقی تو سب ٹھیک ہے مگرلوگ تھوڑے لالچی نظر آتے
ہیں،حالانکہ بظاہر کچھ کہتے نہیں،لین دین سے بھی بے زاری کا اظہار کرتے ہیں۔مگر میں نے بہت دنیا دیکھی ہے بیٹا ،ایسے لوگ شادی کے بعد ڈھٹائی سے اپنی مطالبات کا اشتہار بن جاتے ہیں ۔خیر اللہ مالک ہے ۔شادی میں ہونے والے خرچ کا انتظام ہم کرلیں گے ۔ تمہارے ابّو کو انشورنس پالیسی کی کافی اچھی رقم ملنے والی ہے ،تمہیں فکرمند ہونے کی بالکل ضرورت نہیں ہے۔ میں نے تمہارے ابّو کو تمہیں پریشان کرنے سے سختی سے منع کیا ہے ۔میں نے ان سے کہا ہے کہ تمہیں رقم بھیجنے کے لئے مجبور نہ کریں۔ اگر وہ کچھ کہیں بھی تو تم فکر مت کرنا،تم اجنبی ملک میں ہو ،پیسوں کی تمہیں زیادہ ضرورت ہوگی۔
تمہارے ابّوتمہاری شادی کی بات چلا رہے ہیں ،تمہاری پھوپھو زاد عائشہ کے ساتھ۔اگر تمہاری مرضی ہو تو میں بات آگے بڑھاؤں گی ورنہ بیٹا اگر تمہارے دل میں تھوڑی سی بھی بات ہو تو مجھے ضرور بتا دینا ،ہم تمہیں مجبور نہیں کریں گے۔ویسے عائشہ بھی اچھی بچی ہے،دیکھی بھالی ہے مگرمجھے تمہاری خوشی سے بڑھ کر کچھ عزیز نہیں۔ وقت ملے تو فون پہ بات کرلینا اور اپنی خیریت کی خبر دیتے رہنا۔ چلو اب بات ختم کرتی ہوں ۔پڑوس میں آئی ہوں خط لکھوانے،کیوں کہ عادل تو ہاتھ آتا نہیں، سارا دن کالج اور کالج سے لوٹنے کے بعد دوستوں کے ساتھ باہر چلا جاتا ہے اور حنا سارادن فون پر مصروف رہتی ہے ۔ ایک بار پھر لکھ رہی ہوں بیٹا کہ اپنا خیال رکھنا اور کھانا وقت پر کھاتے رہنا ، یہاں کی کسی بات کی فکر مت کرنا۔اللہ تمہیں ہمیشہ اپنے حفظ و امان میں رکھے ۔آمین۔
فقط
تمہاری ماں
*****