مہ پارہ کو بی ایڈ کرتے ہی اپنے شہر سے تقریباًدوسو کلومیٹر دور مشرقی یوپی کے ایک چھوٹے سے شہر میں ایل ٹی گریڈ کی نوکری مل گئی تھی۔
اس وقت تک لڑکیوں کے لئے محکمۂ تعلیم کی ملازمت معززسمجھی جانے لگی تھی ۔اس عرصہ میں والدین کو ان کے لئے مناسب رشتوں کی تلاش کا اچھا موقع بھی مل جایا کرتا تھا ۔مقامی اسکول کالجوں میں تقرری نہ ملنے پر اکثر تنگ نظر حضرات بھی اب اپنی بیٹیوں کو دوسرے اضلاع تک بھی بھیجنے لگے تھے۔اس صورت میں عام طور پر نسبتا” ایسے کالجوں کو ترجیح دی جاتی تھی جہاں ٹیچرس ہاسٹل ہوں ۔
مہ پارہ کے والداسے ہاسٹل میں ایک کمرہ دلاکر اسی دن اپنے شہر واپس چلے گئے۔ہاسٹل ایک احاطے کے اندردوسرے احاطے میں واقع تھااور کافی محفوظ تھا۔وہاں مردوں کے سکونت کی قطعا” اجازت نہیں تھی ۔ البتہ ایک ونگ میں کچھ ٹیچریں اپنے کم عمر بچوں کے ساتھ ضرور رہ رہی تھیں ۔اتنے بڑے ہاسٹل میں پانی کا کوئی معقول انتظام نہ تھا اورلے دے کے صرف ایک ہی نل تھا ۔اس کی وجہ سےپانی کی فراہمی میں بہت دشواری تھی ۔مجبوراسبھی نے کام والی ماسیاں مقرر کر لی تھیں۔یہ مہریاں جھاڑو بہارو کر تیں اور سودا سلف بھی لا دیا کرتی تھیں۔
مہ پارہ کو وہاں پہنچنے کے دوسرے ہی دن کچھ دوسری ٹیچروں کے یہاں کام کرنے والی ایک ادھیڑ عمر کی سیدھی سادی سی مہری مل گئی تھی ۔اس کا نام لالی تھا ۔مہ پارہ اسے صرف ایک وقت شام کوہی اپنی موجودگی میں بلاتی تھی ۔اس وقت اسے اپنے گھر کی یاد بہت ستاتی تھی اور وہ تنہا نہیں رہنا چاہتی تھی ۔لالی شام کوخود بھی ذرا جلدی ہی آنا پسند کرتی تھی تاکہ اسے اپنی ضرورت کا پانی باآسانی بغیر دوسری مہریوں سے ٹکرائے ہی حاصل ہوجائے۔
ہندوستان مختلف قوموں، مذہبوں ، تہذیبوں اور زبانوں کا ملک ہے۔ایک علاقہ کی بولی اکثر دوسرے علاقہ کے باشندوں کو مشکل ہی سے سمجھ میں آتی ہے۔ایک ہی صوبہ یو پی کو لیں تویہاں مرکزی اورمشرقی یوپی اورمسلم شرفاء اور نچلے ہندوطبقےکی بول چال میں نمایاں فرق ہے۔مہ پارہ کا تعلق مرکزی علاقہ کے خالص اردو داں مسلم طبقہ سے تھا اس لئےوہ لالی کی باتیں ذرامشکل سے ہی سمجھ پاتی تھی ۔کبھی کبھی لالی سارے کام نمٹانے کے بعد زمین پر آلتی پالتی مارکر بیٹھ جاتی اور اسےاپنی گھریلو داستانیں سناکر اپنا من ہلکا کر لیا کرتی تھی۔زبان و لہجہ میں ہم آہنگی نہ ہونے کے باوجود بھی روز روز انھیں باتوں کی تکرار سےاب تک مہ پارہ اتنا ضرور جان چکی تھی کہ اس کے شوہر کا نام جگو تھااور وہ ایک دیہاڑی مزدور تھا۔ہندوستان کے لاتعداد مزدور طبقہ کے مردوں کی طرح وہ اپنی ساری کمائی جوئے و شراب میں اڑا دیا کرتا تھا۔لالی کی کمائی پر ہی گر ہستی کا دارومدار تھا۔جیسا کہ عام طور پر اس طبقے میں رواج سا بن گیا ہے اکثر جب شراب کے لئے اس کے پاس پیسے نہ ہوتے تو وہ لالی سے چھینا جھپٹی کرتااوراکثر نا امیدی کی صورت میں اسے زدو کوب بھی کردیا کرتا۔گھر کے اس گھٹن زدہ ماحول سے بچنے کے لئے زیادہ تر لالی کافی رات تک اپنا وقت ہاسٹل ہی میں گزارتی تھی ۔باپ کی سنگت سے دور رکھنے کے لئے وہ اپنے بارہ سالہ بیٹےمونو کو بھی اپنے ساتھ یہیں رکھتی تھی۔ یہ دونوں اپنی کوٹھری میں صرف رات میں سونےکے لیے ہی جاتےتھے ۔بڑا بیٹا سونو جوان ہوتے ہی دوسال پہلےگھر سے کہیں دور بھاگ گیا تھا۔اب لالی اپنی دانست میں اس دوسرے بیٹے کو حتی ا لا مکان صاف ستھرا ماحول دینا چاہتی تھی ۔اب وہ پانچویں جماعت کا طالب علم تھا۔ وہ اس ہاساتل کی ٹیچر ممتا تیواری کے اکلوتے بیٹے سمیر کا ہم جماعت تھا۔ وہ اس سے تقریباً” ڈیڑھ دوسال چھوٹا اور بہت ہی شریف الطبع بچہ تھا۔ باپ کا انتقال ہوچکا تھا اور ماں اور بزرگ نانی کے زیر تربیت تھا۔ پڑھائی میں بھی بہت اچھا تھا ۔مسز تیواری کی پوری توجہ اس کی تعلیم و تربیت پر تھی۔ان کا کہنا تھا کہ ان کا یہ اکلوتا بیٹا بگڑ گیا تو نتیجہ صفر فی صد چلا جائے گا اور پھر وہ کہیں کی نہ رہ جائیں گی۔
مونو اسکول سے واپس آکر اپنا زیادہ تر وقت اسی کے ساتھ گزارتا تھا ۔ہوم ورک کرنے میں سمیر سے اچھی خاصی مدد مل جاتی تھی ۔اس کا رپورٹ کارڈ ہمیشہ مہ پارہ کو دکھاتی اور جب بھی وہ اچھے نمبر حاصل کرتا وہ خوشی سے پھولی نہ سماتی ۔ اسے پوری امید تھی کہ ان ٹیچرس کے بچوں کے ساتھ رہ کراس کا مونو بھی انھیں کی طرح پڑھ لکھ کر ایک دن کچھ نہ کچھ بن جائے گا۔وہ اسے بے انتہا پیار کرتی تھی ۔ہمیشہ اپنے منھ کا نوالہ کھلانے کو تیار رہتی تھی اور اپنی حیثیت سے کہیں بڑھ کر اس کے لباس پر خرچ کرتی تھی ۔بظاہر مونو کا رکھ رکھاؤ اور طور طریقہ بھی انھیں بچوں کی طرح تھا جن کے درمیان اس کا وقت گزر رہا تھا۔دیکھنے میں خاصا خوش شکل تھا۔بارہ سال کی عمر میں ہی اس نے ایسے ہاتھ پیر نکال لئے تھےکہ ہاسٹل کی انتظامیہ جلد ہی یہاں اس کے داخلے پر پابندی لگانے والی تھی۔
مہ پارہ کو لالی کی یہ عادت پسند تھی کہ اس نے آج تک تنگ دستی کے باوجود کبھی اس سے نہ تو پیشگی تنخواہ کی مانگ کی تھی اور نہ ہی کوئی بخشش طلب کی تھی۔آج جب وہ آئی تو خلاف عادت دس دن پہلے ہی اپنی تنخواہ سے کچھ رقم پیشگی مانگ رہی تھی ۔حسب ضرورت پیسے پاکر وہ باغ باغ ہو گئی ۔اس نے مہ پارہ کو ڈھیروں دعائیں دیں ۔جاتے جاتے اس نے کل کی چھٹی مانگتے ہوئے یہ بتایا کہ کل چھٹ کا تیوہار ہےاور اسے پورے دن مونو کی سلامتی کے لئے چھٹ کا برت رکھناہے ۔رقم اسی کے لئے درکار تھی۔
دوسرے دن شام چار بجے اسکول کی چھٹی کے بعد جب مہ پارہ ہاسٹل پہنچی تو اس نے آج بھی لالی کو حسب معمول اپنے کمرے سے باہر برآمدے میں اپنا منتظر پایا۔مہ پارہ نے اس کے چہرہ کی طرف نگاہ کی تو اس کی آنکھیں ڈبڈبائی ہوئی تھیں ۔ چہرے پر جگہ جگہ لال کالے چوٹ کےنشانات تھے۔ مہ پارہ نے اسے جگو کی ہی حرکت جانا۔تفصیل پوچھنے پر لالی نے گرنے کا بہانہ بنادیا۔ مرہم پٹی کے لئے کمرے میں جاتے ہی اس کے صبر کا باندھ ٹوٹ گیا اور وہ پھپھک پھپھک کر رو پڑی ۔اپنی قسمت کو کوستے ہوئے اس نے آخرش سب سچ اگل دیا۔ یہ سب اس کے اپنے اسی لاڈلے کی مہربانی تھی جس کی طویل العمری اور سلامتی کے لئے وہ بیچاری آج سویرے سےاپنے اوپر کھانا پانی حرام کئے ہوئے تھی۔
“ اس نے ایسا کیوں کیا؟”مہ پارہ نے تعجب سے پوچھا۔
“ کچھ نہیں بہن جی ۔بہت بچاوا پر ایکالچھن بھی بگڑ گوا۔”
“ضرور آج تم نےاپنے ساتھ سارا دن اسے بھی بھوکا مارا ہوگا ۔”
“نہیں بہن جی ہم تو دوپہر ما اوکا بھر پیٹ کھلاوا رہا۔”
“ پھر ؟”مہ پارہ کا تجسس بڑھا۔
مہ پارہ کی ہمدردی پاکر اس نے گلو گیر آواز میں جو اپنی داستان سنائی اس کا خلاصہ یہ تھا کہ کئی دنوں سے وہ سمیر کے پیروں میں کسی خاص برینڈ کے جوتے دیکھ کر للچا رہا تھامگر لالی کی جیب خالی تھی ۔آج لالی نے جب اسے بازار سے برت کا سامان لانے کے لئے پیسے دئے تو ان ضروری اشیا کے بجائے وہ اسی رقم سے اپنے من پسندجوتے خرید لایا۔اس کے کے بعد جو صورت حال سامنے تھی وہ اسی لاڈلے کی ہاتھا پائی کا نتیجہ تھی ۔ مہ پارہ کو ایک محاورہ یاد آگیا-
“باپ پر پوت پتا پر گھوڑا بہت نہیں تو تھوڑا تھوڑا” ۔
دل نے کہا۔
“ آخر جراف (giraffe )کی گردن تو لمبی ہوگئی تھی نا ؟
دفعتا” خیال آیا ۔
“ مگر نہ جانے کتنی نسلیں گزرنے کے بعد ہی۔”
مہ پارہ کی آنکھوں سے آنسوؤں کی دو بوندیں رخساروں پر لڑھک آئیں۔
اس کے منھ سے اچانک نکلا
“ بے چاری ماں”
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
تحریر: رضیہ کاظمی
نیو جرسی،امریکہ
https://web.facebook.com/photo/?fbid=2809021499388845&set=gm.2965686623682534
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...