ان دنوں ہم مقابلے کے امتحان کی تیاری کررہے تھے ہمارا کوچنگ سینٹر شام میں کھلتا اور رات گئے تک کلاسز ہوا کرتیں۔نواز چونکہ میرا پڑوسی تھا ہم اکھٹے ہی آیا جایا کرتے۔ اس نے انٹر نیشنل لاء کا پیپر بھی رکھا تھا۔ جو بقول اس کے بس سو نمبر سمجھو کہ جیب میں ہی پڑے ہیں۔
مشہور وکیل اسحق یہ پیپر پڑھانے آتے۔کہتے ہیں کہ پہلے تو بہت ہی کامیاب وکیل رہے ۔ مگر جب موکلین نے وکیل کی بجائے جج کرنے شروع کیئے تو ان کی پریکٹس زمین پہ آر ہی، جس کے باعث وہ کو چنگ سینٹر میں بھی کلاسیں لینے پہ مجبور ہوئے۔ نواز کے کہنے پہ ہی ہم دوستوں نے حلف اٹھایا تھا کہ جو دوست بھی کامیاب رہا۔وہ افسر بن کر دیگر دوستوں کا خیال رکھے گا۔جو ہن برسے گا، اس میں خیر خیرات کی بجائے دوستوں کو حصہ دیا کرے گا۔ چونکہ میرے پاس موٹر سائیکل تھا واپسی پہ نواز میرے ساتھ ہی گھر لوٹتا۔لیکن چند بار وہ استاد اسحق کی راہ دیکھتا وہیں بیٹھا رہا کیونکہ اسحٰق نے فون کیا تھا کہ چیمبر میں کچھ موکل آئے ہوئے ہیں۔دیر ہو جائے گے۔میں نواز کو چھوڑ کر ہی چلا آیا، کیونکہ وہ کلاس مس نہیں کرنا چاہتا تھا۔اور مجھے گھر پہنچنے کی جلدی تھی۔ امتحان سر پہ تھا، وقت کم تھا مقابلہ سخت۔
اگلے دن وہ صبح ہی چلا آیا،رات بھر جاگنے سے وہ کسلمندی کا شکار تھا۔آنکھیں بھی سرخ سی ہورہی تھیں۔نیند کا ماتا۔کچھ بہکی بہکی سی باتیں کررہا تھا۔وہ اپنی پوری توجہ میری جانب مبذول کرنے سے جیسے قاصر رہا ہو۔مجھے سخت حیرت ہوئی۔امتحان سر پہ ہو اور انسان رات بھر جاگتا رہے۔میں نے اسے ڈانٹا۔
” کیوں رات بھر موبائل پر باتیں کرتے رہے ہو ؟ “
وہ کچھ الجھا ہوا سا تھا۔
” نہیں بس کچھ دوستوں میں رہا! تمہیں میرے لیے جھوٹ بولنا ہوگا کہ میں رات تمہارے ہاں رہا،ہم پڑھتے رہے “
جھوٹ بولنا تو خیر ایسا مشکل نہ تھا۔مگر اس نے ایک رات جاگ کر گزار دی،جانے کن لغڑیوں میں رہا ہوگا۔میں نے یہ نہ پوچھا کہ کس سے غلط بیانی کروں۔وہ چونکہ والدین کا اکلوتا تھا۔اس کے والد بہت توجہ رکھتے کہ وقت ضایع نہ کرے۔نواز نے میرے ہمراہ ہی ناشتہ کیا،وہیں سے بطور ثبوت گھر فون کیا۔اس کے والد رات بھر تقریباً جاگتے ہی رہے تھے۔چونکہ شہر کے حالات خراب تھے۔آئے دن بم دھماکے ہوا کرتے۔اغواء برائے تاوان کی انڈسٹری بھی زوروں پر تھی۔سرکار بھی پوچھ گچھ کے نام پہ لوگوں کو اٹھا لیا کرتی۔مقدر والا ہوتا تو اغواء کنندہ کو نفسیاتی مریض بناکر باولا کرکے کہیں چھوڑ آتی۔ورنہ تو مسخ شدہ لاش ہی میان غنڈی کے کسی چرواہے کو ملتی۔یہ بھی اچھا ہے کہ بکریاں لاشیں نہیں کھاتیں ورنہ تو صرف چووٹ ہی ملتے۔
فون سنتے ہی اسکے والد جبار انکل جلال اکبری کا شکار بنے ہمارے ڈرائینگ روم میں چلے آئے۔اگرچہ لہجہ دھیما تھا مگر آواز میں آگ تھی،نواز کو خوب سنائیں کہ اگر رکنا ہی تھا تو موبائل پہ اطلاع کر دیتے۔رات بھر پریشان رہے کہ جانے کون اغواء کرکے لے گیا۔پولیس کو بھی اطلاع دینے کا چند بار سوچا مگر یوں پھر ایک نیا باب کھل جاتا۔تھانے میں بھی نام آتا۔جبکہ مقابلے میں کامیابی کے بعد مقامی تھانے سے رپورٹ طلب کی جاتی کہ چال چلن کیسا ہے،تو لکھا ہوتا کہ ایک رات گھر سے غائب بھی رہا۔ڈائری کا یہ اندراج بہت سے سوال کھول دیتا۔جس سے بچنے کے لیے جبار انکل رات بھر انگاروں پر چلتے رہے۔ مگر تھانے فون نہ کیا۔نواز کا جواب بودا سا تھا کہ ایک تو موبائیل کی بیٹری جواب دے گئی تھی دوسرا یہ کہ اس نے سوچا والدین کی نیند خراب ہوگی۔ماں تو ویسے بھی نیند کی گولی کھا کر سوتی،جانے کیوں اسے نیند نہ آتی۔جبار انکل نے میرے سامنے تو لحاظ کیا۔گھر جاکر خوب ہی لتے لیے ہوں گے۔مجھے بھی ڈانٹا کہ کم از کم میں ہی فون کر دیتا۔ایک دو روز میں بات بالکل ہی ذہن سے نکل گئی۔اور ہماری زندگی دوبارہ اسی معمول پر آگئی۔نواز بھی ایک اچھا دوست تھا۔اسے پینے پلانے،تاش کھیلنے اور لڑکیوں سے میسجنگ کا کوئی شوق نہ تھا۔بڑا ہی سیدھا سادھا شریف سا انسان تھا۔جمعرات کو اس نے مجھے حیران کردیا،کوچنگ سینٹر کا آخری پیریڈ تھا کہ وہ میرے پاس چلا آیا۔
” آج میں تمہارے ہاں پڑھائی کے لیے رکوں گا۔والد کو میں نے فون کردیا ہے “
میں گھبرا سا گیا۔
” کیا مطلب میرے ہاں ٹھہرو گے یا کہ۔۔۔۔۔“
وہ مسکرایا۔
” ہاں یا کہ۔۔۔۔۔۔۔۔میں تمہارے نام پہ رات باہر گزاروں گا “
میں نروس ہوگیا۔
” پاگل! مستقبل سامنے ہے،امتحان قریب ہے،کیا بات ہے کہ تم ایک روز آئی جی پولیس یا چیف سیکرٹری لگوگے۔صوبہ کانپے گا تم سے کیا رعب داب ہوگا۔سوچو ذرا کیوں ایک لڑکی کے لیے زندگی برباد کررہے ہو“
اس نے لفٹ نہ کرائی۔
” زیادہ عقلمند نہ بنو۔یہ باتیں میں بھی جانتا ہوں یہ عہدے سارے وقتی ہیں،پھر ریٹائر ہوکر سبزی گلی سے بھنڈی خریدوں گا یا دوران ملازمت نیب پکڑ کر مچ جیل میں بند کردے گی “
میں خوفزدہ ہوگیا۔
” نواز تم پاگل ہوگئے ہو؟ ہوش کی باتیں کرو۔اعلی افسر بیرون ملک جائیداد خرید لیتا ہے۔اس وقت بھی ملک کے بائیس ہزار سے زیادہ اعلیٰ ترین حکام غیر ملکی شہری ہیں۔ان کے پاس امریکہ،آسٹریلیاء اور حسین ملکوں کی شہریت ہے۔جہاں انسان دلکش زندگی گزارتے ہیں“
مگر نواز ٹس سے مس نہ ہوا۔
” یہ ہے تمہاری دوستی،میرے لیے ذرا سا جھوٹ نہیں بول سکتے “
میرے پاس کوئی چارہ نہ تھا۔اگر میں انکار کرتا تو وہ کسی اور دوست کا سہارا لیتا۔یوں بات پھیلنے کا بھی اندیشہ تھا۔
” اچھا یہ تو بتا دو کہ کہاں جارہے ہو ؟ “
نواز میری حماقت پہ مسکرایا۔
” سوچو کہاں جاسکتا ہوں ؟ ایک لڑکی سے ملنے “
مجھے تو پہلے ہی یقین تھا۔مگر اب تو بات ہی کھل گئی تھی۔
” اس کا انجام جانتے ہو؟ اگر پکڑے گئے تو قتل۔کیونکہ سیاہ کار کو قتل کرنا ایک اصول ایک رواج ہے۔کوئی روک بھی نہیں سکتا “
نواز حسب معمول اپنی ہی ہانکے جارہا تھا۔
” کوئی چار پانچ فٹ کے فاصلے پہ رہ کر ہم گفتگو کرتے ہیں۔شعر و ادب کی باتیں،کلام غالب یا پھر کالی داس کی شکنتلا “
مجھے تاؤ چڑھا۔
” کبھی شاعری کی باتیں رات گئے کسی کے گھر میں جاکر لڑکی سے ہوتی ہیں؟ کسی بڑے قبیلے کی تو نہیں؟ کس قوم سے ہے “
نواز آنے والی ملاقات کے سحر میں ڈوبا ہوا تھا۔
” وہ ہندو لڑکی ہے،کامنی نام ہے۔کچھ آسمانی سی مخلوق ہے “
یہ سن کر میری جان میں جان آئی۔شکر ہے ورنہ کوئی قوم قبیلے والی ہوتی تو گھر میں گھس کر قیمہ بنا دیتے۔ہندو لڑکیوں کا اغوا رفتہ رفتہ رواج سا بن گیا تھا۔کسی کمسن لڑکی کو پٹاکر لچھے دار باتوں سے محبت کا سبق پڑھاتے اور مسلمان کرکے شادی کرلیتے۔ہندو چند روز رو پیٹ کر اخباری بیان دینے،پریس کلب کے باہر احتجاج کے بعد دوبارہ اپنے کاموں میں لگ جاتے۔توہین والے قانون کا طوطی بولتا۔ہندو تو کیا مسلمان بھی منقار زیر پر ہی رہتے۔کیا پتہ بیان بازی کا کیا مطلب لے لیا جائے۔
مقابلے کے امتحان کی تیاری میں ہمیں پڑھایا گیا تھا کہ توہین پر جسد خاکی بھی جیپ سے باندھ کر شہر کی سڑکوں پر گھسیٹا جاتا تھا۔ہر سڑک کو یہ تقدیس دی جاتی۔
قیام پاکستان کے وقت پھر 1951 میں قومی اسمبلی کے 53 رکن تھے جن میں سے 13 غیر مسلم تھے۔گویا ان کی نمائیندگی %24 تھی۔ مسلمان 3 کروڑ سے 22 کروڑ ہوئے تو غیر مسلم نمائیندگی %5 پر آگئی۔پاکستان کا پہلا وزیر قانون جوگندر ناتھ منڈل کچھ عرصہ احتجاج کرتا رہا کہ ان پر ظلم ہو رہا ہے۔پھر مستعفی ہو کر چلا گیا۔اس نے استعفیٰ میں ایسے لرزہ خیز الزامات لگائے تھے کہ استعفیٰ ردی کی ٹوکری میں ہی پھینکنا پڑا، داڑھی کی جانب ہاتھ بڑھا رہا تھا۔پھر تو ماشا اللہ مسلمان ہی رہ گئے۔فوج ظفر موج کی طرح۔لہروں کی طرح۔ ماسٹر تارا سنگھ جیسے کو بھی وقت کے طوفان میں بگولے ہی لے اڑے جس نے لاہور میں پنجاب اسمبلی کے باہر کرپان لہرا کر رجز پڑھا تھا۔
جو مانگے گا پاکستان
اس کو ملے گا قبرستان
اس کے جواب میں ہمارے مجاہدوں نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
ہاتھ میں بیڑی منہ میں پان
لے کے رہیں گے پاکستان
اس کے علاوہ قیام پاکستان کے وقت کوئٹہ میں 39 مندر اور گردوارے تھے۔جن میں سے دو چار ہی بمشکل بچ پائے تھے۔ اگر نواز بت سیمیں کے ہمراہ پکڑا بھی جاتا تو بات مار پیٹ سے آگے نہ بڑھنے پاتی۔کامنی کا گھرانہ قتل کرنے کی جرات نہ کرتا۔ زخمی کر کے باہر سڑک پہ پھینک آتا۔نواز موبائیل پہ فون کر کے مجھے بلواتا اور مرہم پٹی ہو جاتی،ہندو لڑکی سے عشق خطرناک نہ تھا مگر امتحان سر پہ تھا۔ عشق تو ادھار کی طرح تا خیر بھی برداشت کر لیتا ہے۔
” وہ ملی کہا تھی یہ تو بتاؤ “
میں جاننے کے کیے بیتاب تھا۔نواز کو بھی تامل نہ تھا۔
” کوچنگ سینٹر سے ایک رات نکلا تو پیدل ہی گھر کا راستہ لیا،رکشہ اول تو وہاں نہ جاتا کونکہ واپسی کی سواری نہ ملتی اور کرایہ بھی من چاہا لیتا۔موسم رومانی تھا،بوندا باندی ہونے لگی،کبھی کبھار چلتن یا شین غر پہ بجلی چمکتی تو پورا شہر پل بھر کو روشن ہوجاتا،میں نے شارٹ کٹ لیا سیٹھ چندر شیکھر کی حویلی کے عقب سے گزرا جہاں گھنے درخت ہیں۔یہیں ان کے پائیں باغ کا دروازہ کھلتا ہے،بجلی جو چمکی تو دیکھا کہ دروازہ خلاف معمول کھلا ہے،ساڑھی پہنے ایک حسین ہندو لڑکی کھڑی ہے۔اگر دل گردہ مضبوط نہ ہوتا تو وہ آسمانی حسن دیکھ کر فوت ہوجاتا۔میں نے جلوہ طور برداشت کیا۔سرمہ ہوگیا مگر بے ہوش ہو کے نہ گرا۔میں نے حیرت سے پوچھا کہ اتنی رات گئے وہ کیا تلاش کررہی ہے۔وہ مسکرائی کہ بس تنہائی اور اکیلے پن سے دل اوب رہا تھا ویسے ہی باہر چلی آئی۔اب جو بجلی چمکی تو اس کی حسین بندیا بھی جگمگا اٹھی۔وہ واپس مڑی تو میں نے کہا اگر اجازت ہو تو کچھ دیر اس گھر کے درختوں تلے ٹھہر جاؤں کیونکہ بوندا باندی نے بارش کی صورت اختیار کرلی تھی۔میں حیران رہ گیا کہ وہ مجھے اندر کمرے میں لے آئی۔پورا گھر ہی سناٹے اور تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔میں نے شکریہ ادا کیا کہ وہ مجھ پر اس قدر بھروسہ کرتی ہے کہ اندر لے آئی۔وہ فرشتوں سی معصوم تھی کھڑکیوں پہ دبیز پردے پڑھے ہوئے تھے۔کمرہ ساگوان کے کلاسیکل فرنیچر سے سجا ہوا تھا۔کارنس پہ Swing Clock بہار دکھا رہا تھا۔Kitchennet بھی تھا۔
” کافی پیو گے شنکر؟ “ اس نے سوال کیا۔وہ آپ سے تم پہ اتر آئی تھی۔مجھے خوشی ہوئی کہ وہ اندھیرے اور کم روشنی کے باعث مجھے اپنا کوئی عزیز سمجھ رہی ہے۔وہ گلے شکوے کرنے لگی کہ میں اتنا عرصہ کہاں رہا۔برسات سے تو ماحول اور بھی خواب آگیں سا لگ رہا تھا۔میں ہر بات پہ ہاں کہتا رہا تاکہ اسے یقین رہے کہ میں ہی شنکر ہوں۔پھر ہم نے مل کر کافی بنائی اور برآمدے میں آبیٹھے۔زور کی بارش تھی۔صبح جب موذن نے اذان دی تو اس نے مجھے ڈبڈبائی آنکھوں سے الوداع کہا۔اور اگلی جمعرات ملنے کا وعدہ کیا۔پتہ نہیں عام دنوں میں کیا مسئلہ تھا۔صرف جمعرات ہی کیوں؟ لیکن جب میں کوئٹہ کی سڑکوں پہ آیا تو دیکھا کہ شہر خشک پڑا تھا“
مجھے شبہ ہوا کہ نواز زیادہ محنت کرنے رات رات بھر جاگنے کے باعث کچھ دیوانہ سا ہوچکا ہے۔مگر اب تو امتحان کی بجائے کامنی اس کے ذہن پہ چھا سی گئی تھی۔جمعراتوں کو ان کی ملاقات ہوتی تو رات بھر جاری رہتی اور وہ جو داغٓ کو عمر بھر شکوہ رہا کہ۔
”دی موذن نے شب وصل اذاں پچھلی رات “
وہ نواز کی ہی بپتا تھی۔یوں تو نواز کتابیں چاٹتا،لکچر سنتا۔مگر جانے کیوں مجھے لگتا کہ اسے امتحان کی بجائے کامنی کا سوئمبر جیتنے کی جلدی ہے،جمعرات کے علاوہ بھی ایک آدھ رات وہ میرے ہاں آکر سورہتا۔تاکہ اس کے والد کو شبہ نہ ہو۔کامنی نے باہر نکلنے کسی ریسٹورینٹ میں جانے سے بھی معذرت کی تھی۔کچلاک اور کولپور کے ریسٹورینٹ اعلی کھانوں کے باعث مشہور تھے۔مگر کامنی کو شاید گھر میں ہی بند رہنے کی عادت تھی۔وہ صرف اپنے ہی گھر میں ملتی وہ بھی شب جمعرات۔
نواز کے حواس پہ وہ اس بری طرح چھا گئی کہ وہ باقاعدہ شادی کے لیے بیکل تھا ۔مجھے تعجب تھا کہ اگر کامنی کو علم ہوا کہ اس کا محبوب شنکر نہیں ہے۔نواز ہے۔تو اس کا کیا رویہ ہوگا۔
ویسے ہندو لڑکی کو پٹاکر شادی کرنے کا عام سا رواج تھا۔کسی بھولی بھالی کمسن لڑکی کو لچھے دار باتوں سے گرویدہ کرکے شادی کرلیتے۔چند روز احتجاج ہوتا۔ایک آدھ خبر بھی لگ جاتی۔مگر بہت جلد لوگ سب کچھ بھول کر نئی خبروں کی تلاش میں لگ جاتے۔دس بیس انسانوں کا خودکش حملے میں اڑجانا،کالج کی لڑکیوں کی پوری بس آگ میں جل جانا۔جیسی خبروں کی موجودگی میں ایک ہندو لڑکی بھلا کیا اہمیت رکھتی۔
کامنی ایک بہت ہی پڑھی لکھی شائستہ سی لڑکی تھی۔اگر وہ نواز کی زندگی میں آتی تو سیٹھ تو نواز کو کاروبار پہ لگا دیتا۔نوکری سے تو یہی بہتر رہتا۔کچھ باتیں ناقابل یقین تھیں۔ایٹمی دھماکہ بھی ہمارے ہی حصے میں آیا تھا۔جس کی تابکاری دس ہزار برس انسانوں کو ہیرو جان وین کی مانند کھاتی رہتی۔گرم ہواؤں نے جالا تان رکھا تھا۔قحط سے لوگ مررہے تھے۔سپن کاریز خشک ہونے کو تھی۔ہنہ جھیل فٹ بال کا میدان بن چکی تھی۔ایسے میں ہر جمعرات کامنی کے گھر پہ موسلادھار بارش برسنا کسی طور حلق سے نہ اترتا۔
یقین تھا اتنے عرصہ ساتھ گزار کے وہ دونوں بے تکلف ہوچکے ہوں گے۔نواز کو ٹٹولا تو وہ یقین دلانے لگا کہ اسکا عشق مستیں توکلی والا ہے۔جو اپنی محبوبہ کو دور سے دیکھ دیکھ ہی گھائل ہوتا رہا۔
” ہندو تو سنا ہے کہ بھگوان کی مورتی کے سامنے بھی ہاتھ پکڑ کر گند ھرب بواہ کر لیتے ہیں؟ تم نے بھی شاید کامنی سے شادی کرلی ہو ؟ “
میں نے متجسس ہوکر سوال کیا۔
نواز نے قہر آلود نظروں سے مجھے دیکھا۔
” پاپی انسان کے اندر بھی پاپ ہی بولتا ہے۔وہ تو جان آف آرک کی طرح ملکوتی ہے۔اس میں کوئی Divine اثر ہے۔مقدس سی لگتی ہے۔بس دیکھے ہی چلا جاتا ہوں “
میں نے دیکھا کہ نواز کے پاس مجھے مارنے کو کچھ نہیں تو میں نے چھیڑا۔
” ہندو تمہارے ساتھ جان آف آرک والا سلوک نہ کریں۔یوں بھی چتا جلانا تو ان کا مذہبی فریضہ ہے۔پاگل عاشق تمہاری کہیں لہڑی سجی ہی نہ بنادیں۔یا پھر لال کباب۔سوچ لو۔ڈی سی بننے کی بجائے مفت میں مارے جاؤ گے “
لیکن بزرگوں نے کہہ رکھا ہے کہ مارخور یا عاشق سے متھا مارنے سے بچو۔نواز نے اپنی والدہ سے سب کچھ کہہ ڈالا۔جس نے انکل جبار تک بات پہنچائی، ملنے ملانے کی کہانی نواز نے سینسر کر ڈالی۔جبار انکل تو سیکولر تھے۔ان کا خیال تھا کہ محبت کے انداز ہیں،کوئی دیکھ کر اس کی خصوصیات کے مطابق پیکر بناکر سامنے رکھتا ہے،کوئی دل میں صورت بنائے رکھتا ہے۔خالق کی محسوساتی صورت بنا لیتا ہے۔
یہاں شیخو اور مہابلی میں کچھ جھڑپ بھی ہوئی۔مہابلی کا خیال تھا کہ امتحان کے بعد وہ رشتہ مانگنے جائیں۔جبکہ نواز کی ضد تھی کہ جھٹ منگنی پٹ بیاہ ہو تاکہ وہ پوری دلجمعی سے امتحان کی تیاری کرسکے۔اور اطمینان رہے کہ کامنی اسکی ہے۔اسی کے گھر میں ہے۔خاندان کے بزرگ روشن خیال تھے۔بعض تو قہقہہ لگا کے ہنس دیے کچھ مسکرائے سیٹھ شیکھر کے رویے کے بارے میں متامل تھے کہ وہ اتنا مشہور اور امیر ہے وہ اپنی بیٹی کا رشتہ بھلا غیر ہندو کو کیوں دینے لگا۔رشتہ مانگنے کے لیے میرے والد کو بھی ساتھ چلنے کی تاکید کی گئی تھی۔میرے والد ناخوش سے تھے۔
” پیروں پہ کھڑے نہیں ہوتے اور چل پڑتے ہیں شادی کرنے “
میں نے نواز کی حمائیت کی۔
” آپ کو وہ کیا بیساکھیوں پہ چلتا دکھائی دیتا ہے“
میرے والد کو چونکہ شاعری سے شغف تھا جھٹ بولے۔
” خاموش رہو ورنہ ٹانگیں توڑ دوں گا “
سیٹھ چندر شیکھر کو پیغام جاچکا تھا،وہ منتظر تھا۔صاحب مطالعہ انسان تھا۔روایات کا پابند بھی تھا۔اسے کچھ حیرت بھی تھی کہ معززین اکھٹے ہوکر کیوں آنا چاہتے ہیں۔کچھ تجسس بھی تھا۔اسکا خیال تھا کہ شائد کسی پراپرٹی کا سودا کرنا چاہتے ہوں اور رواجی قانون کے مطابق میڑھ معرکہ لائے ہوں۔سیٹھ نے خوش دلی سے استقبال کیا۔جب حال احوال کے بعد بات چلی تو رشتہ مانگا گیا۔سیٹھ کے چہرے سے سونامی گزر گئی سخت حواس باختہ ہوگیا۔اس کے ہوش و حواس اڑ چکے تھے۔وہ کسی گہری سوچ میں ڈوب گیا۔پھر بیل بجاکر ملازمین کو بلایا اور چائے لگانے کو کہا۔چائے لگی تو جبار انکل نے دستور کے مطابق دباؤ ڈالا۔
” جب تک آپ ہاں نہ کہیں گے،ہم چائے نہیں پئیں گے“
سیٹھ خود کو مجتمع کر چکا تھا۔
” آپ صاحبان چائے پیئیں میں نے کب انکار کیا ہے،مگر بات کچھ لمبی ہے“
یہ گویا رضامندی کا ہی اعلان تھا۔حاضرین نے جبار انکل کو مبارک باد دی۔سیٹھ نے تصدیق چاہی۔
” آپ کامنی کا رشتہ مانگنے آئے ہیں؟ “
جبار انکل نے فوراً ہی تصدیق کردی۔اور بے چینی سے ہاں کا انتظار کرتے سیٹھ کے چہرے پہ نظریں جمادیں۔
سیٹھ کچھ فکر مند سا لگ رہا تھا۔
” آپ صاحبان چائے پئیں کہیں ہاتھوں سے کپ ہی نہ گر پڑیں “
اس غیر سنجیدہ بلکہ قدرے توہین آمیز فقرے پہ چہروں کے تیور تو بدلے مگر اس وقت وہ سیٹھ کو خفا نہیں کرنا چاہتے تھے۔لیکن سبھی حیران سے رہ گئے۔کیا سیٹھ ان کا مذاق اڑانے کی کوشش کررہا ہے۔
سیٹھ نے خود ہی بات چھیڑ دی۔
” دنیا کی تمام چیزیں دائرے میں گھومتی ہیں چاند، سورج،ستارے،موسم اور انسان بھی دائرے کا ہی راہی ہے۔جیسے انسان پرانے کپڑے اتار کر نئے کپڑے پہنتا ہے۔ویسے ہی آتما پرانے جسموں کو چھوڑ کر نئے جسموں میں داخل ہوکر نیا جنم لیتی ہے۔کرم کرتی ہے۔تو کوئی اپنے منگیتر کو تلاش کررہی ہے۔مگر جسم اور روح کا آپس میں بیاہ کیسے کرایا جاسکتا ہے۔ماترا سپرش آتما پہ اثر نہیں کرتے۔زندگی کا بھی ایک دائرہ ہوتا ہے۔دنیا گھومتی ہے انسان گھومتے جنم لیتا ہے۔بار بار موسموں کی طرح آتا ہے“
حاضرین پہ سکوت چھاگیا۔وہ بھول گئے کہ کیوں آئے تھے بلکہ سیٹھ کی عالمانہ گفتگو کے سحر میں ڈوب کر رہ گئے۔جبار انکل نے ٹوکا۔
” آپ کی علمیت قابل تعریف ہے۔مگر ہم تو رشتہ طلب کرنے آئے ہیں۔یہ آپ جنم جنم کے پھیرے۔آواگون کیا لے بیٹھے؟“
سیٹھ بدستور جانے کس دنیا میں کھویا ہوا تھا۔
” کیا میری بیٹی کا رشتہ؟ کیا نام ہے اس کا؟ طلب کرنے آئے ہیں“
نام جانتے ہوئے بھی وہ تصدیق دوبارہ چاہتا تھا۔جبار انکل بڑے جزبز ہوئے۔
” محفل میں نام نہیں لیے جاتے خواتین یا بچیوں کے مگر مجبوراً آپ کے اصرار پہ نام لے رہا ہوں آپ کی بچی کامنی کا “
سیٹھ نے سبھی کو ساکت کردیا۔
” میری تو کوئی بھی بیٹی نہیں ہے۔دو بیٹے ہیں وہ کب کے کینیڈا میں جا آباد ہوئے آپ جو بار بار جزیہ کے لیے گردن پر تلوار رکھ دیتے ہیں یا زبردستی کلمہ پڑھواتے ہیں۔ہماری خاندان میں کامنی گزری ہے جو 1935 کے زلزلے میں سورگ باشی ہوئی۔کبھی کبھار ہمیں بھی دکھائی دیتی ہے۔31 مئی کو زلزلہ آیا تھا جبکہ یکم جون کو اس کا بیاہ تھا۔اسکا منگیتر شنکر بھی زلزلے کا شکار ہوا“
میرے والد صاحب بتاتے ہیں کہ واقعی ان کے ہاتھ سے چائے کا پیالہ چھوٹنے کو تھا۔سبھی کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔معززین ساکت و جامد رہ گئے۔ان کے ہوش ہی اڑ چکے تھے۔صرف سیٹھ کی آواز ہی کسی پر اسرار معبد کے قدیم پجاری کی طرح سنائی دے رہی تھی۔
” شاید شنکر نے دوبارہ جنم لے لیا ہے۔آپ کے بیٹے کے روپ میں۔روحیں تو روحوں کو پہچانتی ہیں یہی سانکھیہ یوگ ہے “
سبھی سانس روکے بیٹھے تھے۔اپنے حواس یکجا کرنے میں انہیں خاصہ وقت لگا۔پھر وہ سیٹھ کا شکریہ ادا کرکے لوٹ آئے،اور اپنے اپنے گھروں میں سر پکڑ کر بیٹھ رہے۔میرے والد بھی صوفے پہ ڈھیر ہوگئے۔ہم سبھی ان کے پاس چلے آئے،انہوں نے اشارے سے بتایا کہ سب ٹھیک ہے،پھر چائے طلب کی۔بہت دیر بعد انہوں نے ہمیں یہ واقعہ سنایا۔تو ہمارے بھی پاؤں تلے سے زمین ہی نکل گئی۔
نواز دیوانہ ہوکر گھر میں ہی قید ہوگیا۔امتحان قریب تھا۔میں اس کے ہاں گیا۔مجنوں سا لگ رہا تھا اور شیو بھی بڑھی ہوئی تھی۔بال بھی بے ترتیب سے تھے۔آنکھوں سے جھلکتا کہ کئی راتوں سے سویا نہیں ہے۔میں نے دلاسہ دیا تو وہ ابل پڑا۔
” کامنی کا تعلق عالم ارواح سے ہے۔اس کا ایک ہی طریقہ ہے کہ میں بھی عالم ارواح میں چلا جاؤں ورنہ وہ مجھے مل نہیں سکے گی “
خوف سے مجھے جھر جھری آئی کیا کہہ رہا ہے۔کیا خود کشی کرنا چاہتا ہے۔آتما ہتھیا سے آتما کو مایا جال سے آزاد کرے گا ؟
” اس کی بندیا جو میں تحفہ مانگ کر لے آیا تھا اگلے ہی روز کاغذ کے لفافے سے غائب ہوگئی تھی،چند بار تصویریں لیں،سیلفیاں بنائیں مگر تصویروں میں صرف میں ہی دکھائی دیتا۔اس نے بتلایا ہے کہ وہ صرف جمعرات کو ہی مل سکتی ہے۔جمعرات کو تو روحیں زمین پر اترتی ہیں۔مجھے احساس نہ ہوا نہ ہی میں نے اسکا جسم چھو کر دیکھا۔وہ عالم ارواح سے Time Barrier توڑ کر میرے پاس کیسے آتی ہے۔وہ کس قدر بے چین ہے میرے لیے۔میں اپنی منگیتر سے تو کمزور نہیں ہوسکتا۔مجھے بھی جان پر کھیلنا ہوگا “
میں ایک دیوانے سے گفتگو کیے جارہا تھا۔ڈر پیدا ہوا کہ اگر نواز خودکشی کرتا تو مجھے بھی دھر لیتے۔کامیاب لوگوں کے تو لوگ زبردستی دوست بنتے ہیں۔دوست تو بہت ملیں گے بس افسر بن جاؤں لوگ افسر کو دودھ دینے والی بکری سمجھ کر اسکے غمزے برداشت کرتے ہیں۔یہ سوچ کر میں بالکل ہی لاتعلق ہوگیا۔کہہ بھی دیا کہ مجھ سے نہ ملے۔
امتحان کے تمام پرچے بہت اچھے ہوئے جبکہ نواز کبھی دکھائی نہ دیا۔امتحان کے بعد میں گوادر چلا آیا جہاں میرے انکل نیوی کے افسر تھے۔کبھی کسی مالم سے انجانے سمندروں کے پراسرار قصے کہانیاں سنا کرتا،کبھی جھینگے پکڑتا۔وقت بہت تفریح میں گزرتا۔پھر مقدس پہاڑ کوہ مردار کی زیارت کے لیے نکل پڑا پھر وہاں سے ہنگلاج ماتا کی یاترا کے لیے گیا۔نواز کی میں نے کبھی خبر نہ لی۔کھجوروں کی محبت پنجگور لے آئی اور پھر وہیں پہ خبر ملی کہ سیٹھ شیکھر کے باغ میں سنسان گلاس روم کے ساتھ نواز نے کنپٹی پہ گولی مار کر زندگی کا خاتمہ کرلیا ہے۔مجھے بہت صدمہ ہوا۔مگر صدمہ،اداسی،امیروں کے چونچلے ہیں۔مجھے انٹرویو کی تیاری کرنا تھی۔یہ بھی سننے میں آیا کہ معززین نے جائیداد ہتھانے کے لیے خودکشی کو قتل ظاہر کرکے سیٹھ چندر شیکھر کے خلاف پرچہ کرادیا۔پھر خون بہا میں وہ حویلی مانگی۔فیصلہ یہ ہوا کہ مقتول نواز کے والد جبار انکل وہاں گھر بنائیں گے۔سامنے سڑک کی جانب دکانیں ہوں گے۔جن کی مدد خون بہا حاصل کرنے میں شامل رہی۔انہیں ایک ایک دو منزلہ دکان دی جائے گی۔میرے والد کو بھی دو منزلہ دکان ملے گی مال غنیمت مجاہدوں پہ برابر تقسیم ہوگا۔مسجد بھی تعمیر ہوگی جب میں واپس لوٹا تو دیکھا کہ سیٹھ کی حویلی ادھڑ چکی ہے۔تیزی سے تعمیراتی کام جاری ہے۔
ایمان کی حرارت والے مسجد کی بنیادیں کھود رہے تھے۔سیٹھ شیکھر جان بچا کر اپنے بیٹوں کے پاس کینڈا چلا گیا تھا۔یوں تو مزدور کافی تھے۔مگر مسجد کی بنیادوں کے لیے نوجوانوں نے ثواب کی خاطر اپنے نام رضا کارانہ طور پہ لکھوائے تھے۔ میری آمد سے پہلے ہی میرا نام بھی بنیادیں کھودنے والوں میں لکھوا دیا گیا تھا۔میں بھی اس نیکی کے کام میں بنیادیں کھودتا گینتی بیلچہ چلاتا آخرت کماتا رہا۔نواز شہید مسجد کا کام صدقہ جاریہ تھا۔ اور نواز کے نام کو امر کر گئی جبکہ کھدائی کے دوران ہی میرا ریزلٹ کارڈ مجھ تک پہنچایا گیا۔میں اعلیٰ نمبروں سے فیل ہوچکا تھا۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...