موریشس کا ساحل پوری دنیا میں مشہور ہے۔ سمندر کا دلفریب منظر آنکھوں کو خوش کرتا ہے ۔ جہاں تک نگاہ جاتی ہے سفید اور باریک ریت ہے۔ پانی باکل صاف ہے۔ کہیں پر پانی ہلکا نیلا نظرآتا ہے تو کہیں پرگہرا نیلا اور کہیں کہیں ہرا نیلا معلوم پڑتا ہے۔ آسمان بالکل صاف رہتا ہے اور سورج کی گرمی پانی کو ہر وقت گرم رکھتی ہے۔ غروب آفتاب اور طلوعِ آفتاب کی دلکشی دل کو سکون دیتی ہے۔ ساحل پر اونچے اونچے درختوں کی قطاریںراحت مہیا کرتی ہیں۔سمندر میں طرح طرح کے جانور رہتے ہیں جو اس جزیرے کی خوبصورتی پر ناز کرتے ہیں۔ انہیں جانوروں میں سے ایک کیکڑا تھا۔
ایک دن کیکڑاموریشس کے سمندر کے کنارے چل رہا تھا۔ نمکین پانی کی مہک اس کو خوش رکھتا۔ لہروں کا شور اسے مسرور کرتا۔ سمندر اس کا گھر تھا۔ وہ اسی جگہ پیدا ہوا ۔ سمندر اس کا دوست بھی ہے۔ وہ اپنے دوست سے اپنی ساری باتیں بتاتا۔ اس پرسکوں جزیرے میں اس کی زندگی آرام سے گزر رہی تھی۔ چلتے چلتے اس کے پیڑوں کے نشان ریت پر پڑتے۔کیکڑا اپنی چھوٹی ٹانگوں سے بنائے گئے نشانات کو دیکھ کر خوش ہورہاتھا۔ موریشس کے ساحل کی سفید ریت دھوپ میں ہیرے کی طرح چمک رہی تھی۔ چمکتی ریت میں کیکڑے کی ٹانگوں کے نشانات اور زیادہ خوش نما نظر آتے۔ اچانک سمندر کی لہریں ان نشانات کو بہا لے گیا اور سب پہلے کی طرح ہوگیا۔ جیسے یہاں سے کبھی کوئی نہیں گذرا تھا۔
کیکڑا مایوس ہوا ۔ اسے یوں لگا کہ کسی نے اس کے وجود کو فنا کردیا۔ اس نے سمندر سے کہا: ’’میں یہ سمجھا تھا کہ تم میرے بہترین دوست ہو۔ پھر تم نے میری ٹانگوں کے نشانات کیوں مٹائے؟ میرا دل ادس ہوگیا۔‘‘
سمندر نے جواب دیا: ’’میرے عزیر دوست ایک ماہی گیر تمہاری تلاش میں نکلا ہے۔ وہ تمہاری ٹانگوں کے نشانات سے تم تک پہنچنا چاہتا ہے۔ اس لئے میں نے وہ نشان مٹادئے۔ اگر ماہی گیر تمہیں پکڑتا تو تم اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے۔ میں اپنے سب سے قریبی دوست کو کھونا نہیں چاہتا۔ ‘‘
یہ سنتے ہی کیکڑے کا دل بھر آیا۔ ’’مجھے معاف کردو میرے دوست۔ میں نے تمہیں غلط سمجھا جبکہ تم میری بھلائی کا خیال کررہے تھے۔‘‘ کیکڑا شرمندہ ہوا۔
سمندر میں اس کی طرح اور بہت سارے کیکڑے تھے۔ کسی زمانے میں وہ سب کے ساتھ مل جل کر رہتا تھا۔ لیکن وہ سب اس کو ساحل پر چلنے سے روکا کرتے۔ اس بات سے ننھے کیکڑے کو تکلیف ہوتی۔ اس کے دوست اس کو وہ کام کرنے سے روک رہے تھے جو وہ بہت پسند کرتا تھا۔ وہ آزادماحول میں رہنا چاہتا تھا۔ اس لئے اپنے کنبے کو چھوڑ کر وہ سمندر سے دوستی کرنے لگا۔ اس دن کیکڑے نے یہ سبق سیکھا کہ جب پرانے دوست دھوکا دیتے ہیں تو ضروری نہیں کہ نئے دوست بھی دھوکا دیں۔ سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا نہیں چاہئے۔
لوگ اکثر دوسروں کی نیت پر شک کرتے ہیں جس طرح کیکڑا سمندر کی نیت پر شک کر رہا تھا۔لیکن سمندر کا ارادہ کیکڑے کے نشانات مٹانا نہیں تھا بلکہ وہ ماہی گیر سے اس کی جان بچانا چاہتا تھا۔اس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملا کہ دوسروں پر شک کرنے کی جگہ اور ان کے عمل کا غلط مطلب نکالنے کی جگہ ان کے ارادوں کو سمجھنے کی کوشش کیا جائے۔ درحقیقت وہ آپ کو تکلیف نہیں بلکہ آپ کی مدد اور آپ کی حفاظت کرناچاہتے ہیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...