(Last Updated On: )
جب سے میں نے شمشاد بلڈنگ کے پاس نیاگھر لیا تھا، روز کا معمول تھاکہ تین لڑکے جن کی عمر کم وبیش دس گیارہ بارہ سال کے قریب ہوگی، بھیک مانگتے ہوئے میرے گھرآجاتے ۔شروع شروع میں تو ازراہِ ہمدردی میں کچھ نہ کچھ ا ن کے ہاتھ پر رکھ دیتی لیکن آخر کب تک یہ سلسلہ چلتا۔ میری تنخواہ کاایک اچھا حصّہ ان ننھے فقیروں پر خرچ ہوجاتا۔ رفتہ رفتہ میں نے بھی اپنے اور ہمسایوں کی طرح ان کی آواز سُن کر دروازہ کھولنا بند کردیا…لیکن وہ اتنی آسانی سے کہاں ماننے والے تھے۔ انھوں نے کال بیل بجابجا کر میرے صبر کی آزمائش شروع کردی۔ کالج سے آکر کھانا کھاکر آرام کرنے کے قصدسے لیٹی ہی تھی کہ ان کی فریاداور کال بیل کی آواز آسیب بن کر میرے اعصاب پرحاوی ہونے لگتی اور پھر مجبوراً ہی سہی، مجھے ان کی حاجت روائی کرنی ہی پڑتی ۔
ایک دن میں تھکی ہوئی کچھ زیادہ تھی اور طبیعت بھی کچھ بھاری سی ہورہی تھی اس لیے حسب عادت جب انھوں نے بیل بجانا شروع کی تو میں اپنے غصّے پر قابو نہ پاسکی اور دروازہ کھول کر ان پر برس پڑی۔
’’کیا سرائے سمجھا ہے…روز چلے آتے ہو منہ اُٹھا کر ،میں نے کیا ٹھیکا لیا ہے تمھارا …میرا جیناحرام کردیا ہے تم لوگوں نے بھاگو یہاں سے…اور اب بیل…‘‘
’’باجی دودن سے روٹی پیٹ بھر نہیں کھائی۔‘‘ ان میں سے ایک نے اپنا پچکا ہواپیٹ دکھاتے ہوئے کچھ اس طرح سے دُہائی دی کہ میں آگے کچھ اور نہ کہہ سکی۔ میرے ضمیر نے ان کی زبوں حالی کا ایک بار پھر شدت سے احساس دلایا۔ ایک عجیب قسم کا احساس جرم ساہونے لگا مجھے۔ پیسے دے کر میں قریب رکھی ہوئی کرسی پر بیٹھ گئی ذہن کی سطح پر متعدد روح فرسا سوالات اُبھرنے لگے… آنے والے کل کے یہ معمار اسی طرح بھیک کاپیالہ لئے دردر گھومتے رہے توہمارے ملک کا مستقبل کیا ہوگا؟ کیا ہماری یہ بدحالی لاعلاج ہے؟ کب؟ اور کون مسیحاآئے گاجو ان بے چین روحوں کو گھٹن بھرے ماحول سے نجات دلائے گا؟ کیا اس مسیحا کے انتظار میں ہم سب اسی طرح ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے۔ اور …گاہے بہ گاہے معاشرے میں اصلاح کی صرف باتیں ہی کرتے رہیں گے۔ یاوہ ایک دن کبھی آئے گا جب ہم سب میں سماجی ذمے داری کاادراک پیدا ہوجائے گا اور اپنے ملک کی مجموعی ترقی اور بقا کے لیے ہم سب انفرادی طور پر جدوجہد کریںگے۔ یہ سب سوالات تیر بن کر اکثر میرے دل اور دماغ کو مجروح کرتے رہتے لیکن آج ان کی کسک کچھ زیادہ ہی محسوس ہورہی تھی۔
’’سُنو تم لوگ اس طرح کب تک بھیک مانگتے رہوگے؟‘‘ ایک دن میں نے پوچھ ہی لیا۔
’’باجی روٹی نہیں کھائی کل سے…اماں بیمارہے…ابابھی دن بھر کھاٹ پر پڑا رہتاہے، دے دوکچھ باجی۔‘‘ میرے سوال سے مطلق لاتعلقی برتتے ہوئے، ان میں سے بڑے لڑکے نے صدابلند کی۔ اس کی آواز میں بلا کی التجا تھی۔
’’دیکھو… تمھارے ہاتھ پیر سب سلامت ہیں، محنت مزدوری کرو… بھیک اندھے لنگڑے لوگ مانگتے ہیں تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ اچھا…تم لوگ کچھ کام کروگے؟‘‘ میں نے سب سے بڑے لڑکے کے سرپرشفقت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا۔ اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔
’’بولو…میں تم کو کچھ کام دوں؟‘‘ میں نے پھرپوچھا۔
’’کیساکام؟‘‘
’’یہ جو سامنے والی سڑک پر کوڑا بکھرا ہواہے اس کو جھاڑ کر اُٹھاؤ اور نالی میں جو کاغذ اور چیزیں پڑی ہیں ان کو نکال کرجمع کرو اور سامنے تھوڑی دور پر ایک کوڑادان ہے اس میں ڈال کر آؤ۔‘‘
’’ہمارے ہاتھ گندے ہوجائیں گے۔‘‘ ان میں سے ایک نے احتجاج کیا۔
’’بے شرم…ہاتھ گندے ہوجائیں گے ا س کی بڑی فکر ہے اور ہاتھ پھیلا کر سب سے بھیک مانگتے رہتے ہو تو اس میں شرم نہیں آتی۔‘‘میں بڑبڑاتی ہوئی دروازہ بند کر ہی رہی تھی کہ ان میں سے ایک نے بادل نخواستہ جھاڑومانگی۔ میں نے جھاڑو لاکر دے دی۔ اس دن انھوں نے میرے حکم کی تعمیل توکرلی لیکن دوبارہ نظر نہیں آئے۔ بعد میں مجھے افسوس بھی ہوا۔ اندر ہی اندر ندامت بھی محسوس ہوئی اور اپنی نادانی پر ہنسی بھی آئی…کیوںکہ ایسے بچوں سے جو مفلسی، مجبوری، لاعلمی اور پسماندگی کے اوٹ تلے زندگی گذاررہے ہوں، خود داری، غیرت مندی اور ہمت مرداں کی باتیں کرنے یا اس قسم کی ان سے توقع رکھنا۔ میری حماقت ہی توتھی۔
ادھر تین چار ہفتوں سے کالج میں مصروفیت بڑھ جانے کی وجہ سے میں روز کافی دیر سے گھر واپس آتی اور آتے ہی بستر پر ایسا گرتی کہ مغرب کی اذان سُن کرہی اُٹھتی۔
’’اللہ کے نام پر مدد کردو…اپاہج ہوں…بے سہاراہوں… مدد کردو… اللہ مدینہ دکھائے گا…مدد کردو اس لاچار کی۔‘‘ میری آنکھ لگی ہی تھی کہ اس آواز نے مجھے جگادیا۔
’’افوہ کیا مصیبت ہے۔‘‘ میں بڑبڑائی اور پھر کروٹ بدل کرلیٹ گئی۔
’’بھوکے کی مدد کرو…لنگڑاہوں…اللہ بہت دے گا۔‘‘ آواز کچھ اس قدر پُرسوز تھی کہ میرے ضمیر کی آواز نے مجھے جھنجوڑکر رکھ دیا اور میں نہ چاہتے ہوئے بھی اُٹھ گئی۔
یہ فقیر واقعی قابل رحم تھا۔ اس کی ایک ٹانگ بیکار معلوم ہوتی تھی کیوںکہ اس کانحیف جسم بیساکھی کے ڈنڈوں پر لٹکا ہواتھا۔ کالے حلقوں میں پھنسی اس کی آنکھیں اورچہرے پر پھیلی ہوئی نقاہت…غذا کی کمی اور عدم خوشحالی کی گواہی دے رہی تھی۔ پیسے لے کر مجھے ہزاروں دعائیں دیتاہواوہ چلا گییا مگر میری نظروں میں اس کی صورت گھومتی رہی۔
اس دن کے بعد سے وہ تقریباً روزہی آنے لگا۔ اس کی مدد کرکے مجھے روحانی سکون ملتا۔ اب تو اندرسے ہی اس کی بیساکھی کی کھٹ کھٹ کی آواز سن کر اس کوپہچان جاتی اور فوراً کچھ نہ کچھ اس کے ہاتھ پر رکھ دیتی۔ وہ بھی بہت ساری دعائیں دیتا ہواچلا جاتا۔ نہ جانے کیوں مجھے اس فقیر سے خاص انسیت سی ہوگئی تھی اور مجھے روز اس کا انتظا ر رہتا۔ وہ مجھے رانی بیٹی کہہ کرمخاطب کرتاتھا۔ میں اس کو بابا کہتی تھی۔ رمضان کے آخری دنوں میں اچانک اس نے آنا بند کردیا۔ عید کے دن مجھے بابا کا سخت انتظار تھا کیوں کہ اس کے لیے میں نے نئے کپڑے سلوائے تھے۔ دوپہرتک وہ اپنی بیساکھی سے شور مچاتا ہواآگیا۔ آواز سنتے ہی میں دروازے کی طرف لپکی۔ حسب عادت بابا گیٹ پر کھڑا تھا۔ وہ کبھی بھی لان کے اندر داخل نہیں ہوتاتھا۔
’’بابا! اتنے دنوں سے کہاں تھے…میں نے تمھارے لیے کپڑے سلوائے تھے تاکہ عید کے دن تم بھی نئے کپڑے پہنو۔‘‘ میں نے گیٹ کی طرف آتے ہوئے کہا۔
’’رانی بیٹی روج (روز) ماتھا گرم رہتا ہے اور سانس بھی بہت پھولے ہے…آج بس ہمّت باندھ لی…سوآگیا۔‘‘
’’اچھابابا…آؤاندرلان میں بیٹھ جاؤ میں تمھارے لیے بریانی اور سوئیاں لاتی ہوں‘‘ میں نے لان میں رکھی ہوئی لوہے کی کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
بیساکھی ایک طرف رکھ کر وہ اطمینان سے کرسی پر بیٹھ گیا، اور میری لائی ہوئی بریانی اور سوئیاں کھانے لگا۔
’’بابا…اور کچھ لاؤں؟‘‘ میں نے اس کی خالی پلیٹ دیکھ کرپوچھا۔
’’نہیں رانی بیٹی…بس تھوڑاساایک پنّی میں دے دو، گھر لیتا جاؤں گا۔‘‘
’’ٹھیک ہے، میں تمھارے کپڑے اور کھانا لے کرآتی ہوں۔‘‘ کہہ کر میں ابھی اندر گئی ہی تھی کہ ایک کتّے کے بھونکنے کی آواز آئی ۔ میں نے پلٹ کردیکھا تو دیکھتی ہی رہ گئی۔ پڑوس کا کُتّانہ جانے کیسے زنجیر تُڑاکر میرے لان میں آگیا تھا اور بابا پر جھپٹنا چاہتاتھا۔ بابا دوڑ تاہوا گھر کے اندر داخل ہوگیا۔ دروازہ بند کرکے وہ لمبی لمبی سانسیں لے رہا تھا لیکن گھبراہٹ میں وہ بھول گیا کہ وہ لنگڑاتھا اور صرف بیساکھی کے سہارے ہی چل سکتاتھا۔ مجھے گھورتادیکھ کر اس کو اپنی غلطی کااحساس ہوا لیکن وہ ساکت وجامد کھڑارہا۔
’’تو…تم دوڑسکتے ہو…؟ تم تو کہتے تھے ایک ٹانگ اور ہاتھ فالج نے بیکار کردیا ہے۔ مجھے اور زمانے کو دھوکا دیتے رہے آج تک…اپاہچ بن کرپیٹ پال رہے ہو، تم کو شرم نہیں آتی‘‘
میرے اعتماد کوکسی نے پہلے کبھی اس طرح مجروح نہیں کیا تھا۔ حیرت، غم اورغصّہ کے ملے جلے جذبات نے میرے دل ودماغ میں ایک ہلچل سی مچادی۔ میں مسلسل چیختی رہی اور اس کو بُرابھلا کہتی رہی لیکن وہ معصوم بچے کی طرح سرجھکائے کھڑارہا۔
’’دھوکے باز…میں تم کو پولیس کے حوالے کردوں گی۔‘‘
’’کردو پولیس کے حوالے…وہاں دوروٹی تومل جائے گی۔‘‘ اس نے نرمی سے جواب دیا
’’بکواس مت کرو، اپاہج بن کر رہوگے جیل کی روٹی بھی منظور ہے لیکن محنت مزدوری نہیں کروگے، واقعی رحم کرنابھی حماقت ہے، اتنا بڑادھوکا…اتنے دنوں سے تم مجھ کو دے رہے ہو…‘‘ میں غصّے سے دانت بھینج رہی تھی۔
’’رانی بیٹی ناراج(ناراض) مت ہو۔ پیٹ کے لیے انسان سب کچھ کرسکتاہے، جس کی انتڑیاں بھوک سے سوکھے ہیں وہ ہی جانتا ہے بھوک کیا ہوتی ہے…بی بی مجبوری بڑی برُی چیج(چیز) ہے…بنادواکے ایک لڑکا مرگیا میرا… بڑی بڑی بپتاپڑی ہے تب یہ دھوکا دھڑی کرکے پیٹ پالنے کی سوجھی ہے۔‘‘ اس نے اپنا دفاع کرنے کی کوشش کی لیکن میرے دل میں اس کے لیے رحم تودورنفرت کے سوا اور کچھ نہیں تھا۔
’’محنت مزدوری کرو، جس جسم کو تم نے بیساکھی کے ڈنڈوں پر ٹانگ رکھا ہے اسے کام میں لاؤ، جو ہاتھ بیکار میں لٹکا کررکھتے ہو اس کو کوئی کام کرنے کے لیے استعمال کرو، لیکن تم کو تو مفت خوری کی عادت ہوگئی ہے، بے ایمان -ڈاکو پستول سے ڈراکر لوٹتا ہے، چوررات کی تاریکی میں ہاتھ صاف کرتاہے اور تم جیسے لوگ تو اور زیادہ خطرناک ہو…معصومیت کاچولاپہن کر شریف لوگوں کو دھوکا دیتے ہو۔‘‘ میری آواز میں نفرت کے ہزاروں تیر پیوست تھے جو وہ بغیر محسوس کیے نہ رہ سکا۔ اس کی آنکھیں آبدیدہ ہوگئیں اور وہ رندھی ہوتی آواز میں بتانے لگا کہ کس طرح مشکلات کی ٹھوکروں نے اس کو بیساکھی کاسہار ا لینے پر مجبور کیا۔
وہ ٹھیلے پر کیلے بیچتا تھا اور روزانہ اتنا کمالیتا تھا کہ اپنے بال بچوں کا پیٹ بھر سکے۔ لیکن جب شہر میں تعمیری سرگرمیاں شروع ہوئیں اور سرکار نے سڑکیں چوڑی کرنے کا پلان بنایا تو ٹھیلے والوں کو سڑکوں کے کنارے کھڑے ہونے کی ممانعت ہوگئی۔ روز کنواں کھود کرپانی پینے والے یہ لوگ پریشان وہراساں ڈی ایم کے پاس گئے۔ انھوںنے پوری ہمدردی جتاتے ہوئے انھیں ایک نئے علاقہ میں جگہ دے دی لیکن بھلا ہو ہمارے کچھ پولیس والوں کاجو خود غرضی اور نفس پروری کے کچھ اس طرح شکار رہتے ہیں کہ حصولِ زر ہی صرف ان کی زندگی کاماحصل بن کررہ جاتاہے۔ نتیجہ کے طور پر موقع کافائدہ اُٹھاتے ہوئے انھوںنے غریب ٹھیلہ والوں کے سامنے، جگہ دینے کے عوض ایک ایک ہزار روپیہ کی شرط رکھ دی۔ مرتے کیانہ کرتے، کسی نہ کسی طرح سب نے ان کی جیب گرم کردی لیکن کچھ دنوں کے بعد سرکار نے انھیں ایک نئی جگہ الاٹ کی اور اس دفعہ پھر ان سے ایک ایک ہزار روپیہ جمع کرنے کی توقع کی گئی ۔جنھوں نے مانگ پوری کردی انھیں جگہ مل گئی اور جومجبوری کے تحت اتنی بڑی رقم کا انتظام نہیں کرپائے وہ اپناٹھیلہ لیے اِدھر اُدھر پھرتے رہے۔
’’بی بی میں پانچ بچوں کا باپ…بیوی سداکی بیمار…میں کہاں سے لاتا پھر ایک ہجّار (ہزار)…میں اس کے پیرپڑتارہا…جب اس نے ایک نہ سُنی تو میں نے اس کا گریبان پکڑلیا لیکن…‘‘ کہتے کہتے وہ کچھ دیر کے لیے رُک گیا۔ فرط جذبات سے اس کی آواز حلق میں پھنسنے لگی۔’’ لیکن…لیکن…بی بی اس نے مجھے مارمار کر اَدھ مَرا کردیا اور میراٹھیلہ اور کیلے لے گیا کہ تھانہ پر جمع کیاجائے گا۔ میرا کصور (قصور) کیاہے…میں پوچھتارہا…لیکن کوئی سننے والانہیں تھا۔ وہ حرامی اُلٹا مجھے چور اور حرامی پکاررہاتھا۔‘‘
تھانہ گیاوہ تووہاں ٹھیلہ نہیں ملا بس سب دُھتکارتے رہے کہ اس نے قانون توڑاہے ۔زیادہ بولے گاتو حوالات میں رکھ دیا جائے گاجہاں سڑتا رہے گا۔
’’میں گھر آکر ایساگراکہ چار پانچ ماس تک اُٹھ ہی نہ پایا…وہ بچے جو تمہارے گھر آتے تھے، میرے ہی بچے تھے…بچے تو بچے ہوتے ہیں، وہ کیاکام کرتے…مانگ کرکھالیتے اور ہمارے لیے بھی لاتے…پرکب تک چلتا ایسے…ذرا دم آیا تو میں نے مجوری (مزدوری) کرنا چاہی پربدن نے ساتھ نہ دیا…اینٹیں لے کر ایساگراکہ سراور پھوڑ لیا۔…جب کوئی سہارانہ بناتوبیساکھی کے ان دوڈنڈوں نے مجھے سہارا دے دیا۔‘‘ اور پھر نہ جانے وہ کیاکیا بکتارہا او رچند لمحوں بعد اپنی بیساکھی کے سہارے چلتا ہوامیرے لان سے نکل گیا…لیکن مُڑ مُڑ کر باربار مجھے کچھ ایسی نظروں سے دیکھتا تھا جیسے وہ مجھ سے پوچھ رہا ہوکہ قصوروار کون ہے؟ وہ خودبے سہارا بابا…اس کے معصوم بچے جن کے ہاتھوں میں ضرورت نے بھیک کاپیالہ پکڑادیا تھا… ہمارے ملک کے خود غرض سربراہ…اور رشوت خور سرکاری افسران یاغریب عوام جو ظلم کے خلاف آواز نہیں اُٹھا سکتی۔ بہت دور تک میری نظریں بھی اس کا تعاقب کرتی رہیں۔
’’میرے خدا‘‘ میرے منہ سے ایک سردآہ نکلی۔ ’’پالنے والے…اگر جلد ہی ہمارے معاشرہ نے اپنی ذمہ داری محسوس نہیں کی…اور ہم سب میں نفع اندوزی کی جگہ نفع رسانی کاجذبہ پیدانہیں ہواتو ہمارا ملک بھی ایک روز اسی طرح بیساکھی کے سہارے چلنے لگے گا…لنگڑا لنگڑا کر…‘‘میں سوچنے لگی۔ میراسربُری طرح سے گھوم رہاتھا۔
****
شبیہ زہرا حسینی
علی گڑھ انڈیا