(Last Updated On: )
میں بہت انٹروورٹ(introvert) ہوں دوست نہیں بنا پاتی۔ کیا کوئی یقین کر سکتا ہے کہ اتنی طویل عمر میں میری دوستیں چھنگلی کی پوروں سے بھی کم ہیں۔ میرا ذہن پورا پیراگراف بولتا ہے اور منہ سے بمشکل ایک ٹھٹھرا بسہ ہوا جملہ ادا ہوتا ہے۔ بینک میں میری علیک سلیک ڈپارٹمنٹ میں سبھی سے تھی کھانا بھی کینٹین میں ہم آٹھ خواتین ساتھ ہی کھاتیں تھیں مگر “دوست” جس سے فریکوئنسی میچ کرتی ہو، جس سے دل کی کہی جاتی ہو ایسی کوئی نہ تھی۔
میں مسرت عثمانی، میں نے معاشیات میں کراچی یونیورسٹی سے پوسٹ گریجویشن کی تھی اور مقامی بینک سے ابھی حال ہی میں ریٹائر ہوئی ہوں ۔
اتنی مصروفیت کے بعد ایک دم سے اتنا بڑا بے مصرف اور ڈھنڈر دن گزارنا بہت مشکل تھا وقت کاٹے کٹتا نہ تھا۔
بہو کو کچن میں میری مداخلت پسند نہ تھی۔
کچن تو خیر کیا! اسے گھر میں کہیں بھی میری دخل اندازی گراں تھی۔ ظاہر ہے اپنے راج سنگھاسن میں کس کو ساجھےداری بھاتی ہے۔ میں بھی اپنی حدود میں رہتی بہت کم ہی دخل در معقولات کرتی۔
مجھے کچن سے جوانی میں بھی کوئی ایسا شغف نہ تھا بس مجبوری کا نام شکریہ۔ دراصل ہم دو ہی بھائی بہن تھے اور میں پڑھنے کی شوقین بھی تھی سو امی نے بہت لاڈ سے پالا اور پڑھائی پر ہی فوکس رکھنے کی تاکید کی۔ گھرداری آتی ضرور تھی اور احسن طریقے سے کی بھی مگر ڈیوٹی سمجھ کر شوق اور للک کے ساتھ نہیں۔
ماسٹر کرتے ہی شادی ہو گئی۔ میاں بھی بینکر تھے مگر مزاجاََ دو جمع دو پانچ تھے۔ پیسے کو دانتوں سے پکڑنے اور دھنیا پودینہ کا حساب رکھنے والے۔ وہ صرف اپنی ہی نہیں میری تنخواہ کا بھی پورا پورا حساب رکھا کرتے تھے۔ ہمارا جوائنٹ اکاؤنٹ تھا۔ میری ذمہ داری بس اکاؤنٹ میں پیسہ ڈالنے کی حد تک تھی اور اکاؤنٹ پر دسترس میاں سرکار کی۔ میں تو اپنی تنخواہ بھی اپنی ذات پر خرچ کرنے کی مجاز نہ تھی۔
میں بینک اور گھر دونوں جگہ بیلنس شیٹ کو بیلنس کرتے کرتے ڈس بیلنس ہو گئی۔ شاید ہم دونوں میں برداشت کا بھی فقدان تھا۔
ہم نے زندگی کی گاڑی کو باوجود غیر متوازن پہیوں کے کھنچنے کی کوشش تو کی مگر جلد ہی دم ہار گئے سو یہ حسابی کتابی سفر اختتام پذیر ہوا۔
بیٹے کی خاطر میں نے حق مہر معاف کر کے پلے سے دو لاکھ مزید دیے اور بدلے میں اپنے بیٹے جبران کی فل کسٹڈی لے لی۔
میاں سرکار کے بھی مانو “بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا۔” انہوں نے دوبارہ چھیل چھبیلے بن کر زیرو میٹر سے نئے ہمسفر کے ساتھ زندگی شروع کر دی۔ مرد یادداشت کے معاملے میں کمال ہوتا ہے کبھی بھی ماضی کا بیگج یاد اور ساتھ نہیں رکھتا۔
رہا میرا معاملہ تو دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک کر پیتا ہے کے مصداق اس دشت کی سیاحی(شادی) سے ہی توبہ کر لی۔
ہمارا معاشرہ بھی خوب ہے وہ بیوہ پر تو پھر بھی ترس کھا لیتا ہے لیکن طلاق یافتہ کے لیے کوئی سافٹ کارنر نہیں رکھتا ۔ کوئی بھی کہیں بھی آپ سے آپ کا کیریکٹر سرٹیفکیٹ مانگ سکتا ہے بلکہ آپ کے کلین شیٹ ہونے پر بھی عموماً لوگ آپ کے خلاف ایک خفیہ گمان بد ضرور رکھتے ہیں اور آپ سے دل لگی تو گویا ان کا حق ٹھہرا۔
جب تک ماں باپ حیات رہے زندگی گوارا تھی۔ امی نے طویل زندگی اور تنہائی کے مضمرات سے ڈرایا بھی اور بہت سمجھایا بھی مگر اس وقت میں اپنی ساری توانائی اور صلاحیت جبران کو پالنے پوسنے پر خرچ کر رہی تھی اس لیے ان کی نصیحت پر کان ہی نہیں دھرا۔ ماضی کا تجربہ بھی کچھ اتنا تلخ تھا کہ گویا
کس درجہ دل شکن تھے محبت کے حادثے
ہم زندگی میں پھر کوئی ارماں نہ کر سکے۔
اس وقت سوچا ہی نہیں تھا کہ تنہائی ڈس بھی سکتی ہے۔
جبران ہی میری کل کائنات تھا اور ذہن میں یہی رہا کہ جب سگے باپ نے نہیں پوچھا تو سوتیلے باپ سے کیا امید۔ میں نےاپنا تن، من اور دھن سب جبران پر نچھاور کر دیا۔
میری دنیا بیٹے سے شروع ہو کر بیٹے پر ختم تھی۔
بیٹے کو پڑھایا لکھایا اور اس کی پسند کو خوش دلی سے بہو بنا کر گھر اس کے حوالے کر دیا۔ میری بے رنگ زندگی وقت کی پُرپیچ گھاٹی سے گزرتی رہی۔
اب بیٹے کی ترجیحات بدل چکیں تھیں اس کے اپنے دو بیٹے تھے اور میں اس سیٹ اپ میں مس فٹ سی فٹ تھی۔
جب تک بینک کا شغل تھا زندگی لگے بندھے شیڈول پر چلتی رہی۔ ساری خرابی اس ناہنجار ریٹائرمنٹ نے پیدا کی۔ اسمارٹ فون نے جہاں بہت آسانیاں فراہم کیں ہیں وہیں کچھ چور دروازے بھی کھول دئیے ہیں۔ اب وقت گزارنا درد سری نہیں بلکہ مثبت طریقے سے وقت کی تقسیم ایک مشکل امر ٹھہرا۔ فون کے ساتھ یاری اور وقت گزاری بینک کے دنوں میں بھی تھی پر کم کم۔ اب جو فرصت کا دورانیہ طویل تر ہوا تو
مانو فون ہمزاد ہوا۔
کافی لوگ ایڈ اور ڈیلیٹ ہوئے اور ایک دوسرے کی پوسٹ پر ہوتے تبصرے اور تذکرے سے ہوتے ہوتے ایک صاحب “دبیر الحسن” میری سوچ سے نسبتاً قریب ہوئے کہ ان کے کمنٹس علمی ہونے کے ساتھ ساتھ مزاح کی چاشنی بھی رکھتے تھے۔ ہم دونوں کب پوسٹ پر کمنٹ سے روزمرہ کی بول چال میں داخل ہوئے احساس ہی نہیں ہوا اور گفتگو ذاتی ہوتی چلی گئی اور گفتگو کا دورانیہ بھی بڑھتا چلا گیا۔
دبیر الحسن محکمہ تعلیم سے ریٹائر ہوئے تھے اور اپنی بیگم کے والا و شیدا تھے۔ ان کی بیگم ندرت جہاں بھی کھلکھلاتی ہوئی زندگی سے بھرپور پارے کی مانند متحرک تھیں پر موت سے کس کو رستگاری ہے۔ اس چہچہاتی مینا کو پندرہ سال پہلے موت نے اسیر و ساکت کیا۔ موت بھی کب بخشتی ہے وہ تو بس ہڑپتی ہے۔
ان کے دو ہی بچے ہیں بڑا بیٹا حماد جو میجر ہے اور آج کل لاہور میں پوسٹیڈ ہے۔ چھ سال پہلے بیٹی رحمہ کی ذمہ داری سے فارغ ہوئے تھے اور داماد آج کل ملتان میں ڈیوٹی نبھا رہے ہیں ۔
دبیر الحسن تنہائی کا شکار اپنی بیٹی رحمہ کی شادی کے بعد ہوئے اور مداوا ٹھہرا انٹرنیٹ۔ چونکہ شعبہ تعلیم سے منسلک رہے تھے لہذا نستعلیق تو تھے ہی ساتھ ساتھ لکھنے لکھانے کا شوق اور ذوق بھی رکھتے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے شوشل میڈیا کی جانی مانی شخصیت بن گئے۔ ان کے مضامین اور آرٹیکل واقعی سوچ کے در وا کرتے اور عام چیزوں کو ایک نئے تناظر میں دیکھنے کی بصیرت بھی عطا کرتے تھے ۔
پرسو شام کی چائے پر مجھے جبران نے اپنی ترقی کی خوشخبری کے ساتھ ساتھ اسلام آباد تبادلے کا بھی بتایا اور یہ بھی کہ اب ہم سب کراچی سے اسلام آباد شفٹ ہو جائےئیں گے۔ بیٹے کی ترقی کی خوشخبری کے بعد دوسرا خیال جو میرے ذہن میں آیا وہ یہ تھا کہ
“ارے! دبیر بھی تو اسلام آباد میں رہتے ہیں”
اور میں اس خیال کے آتے ہی سن ہو گئی۔ یہ خیال کیوں آیا مجھے؟
اس دن جو میں نے خود کو ٹٹولا تو بھید کھلا کہ جس تعلق کو میں اتنا سادہ اور سرسری سمجھ رہی تھی وہ اس قدر سرسری تھا نہیں ۔ میں اپنے دل کی کیفیت پر دھک رہ گئی!!
میں نے بڑی چوکنی اور محتاط جوانی گزاری تھی۔ میرے صبر کی ردا میں ایک بھی پیوند نہیں تھا۔
پھر اب کیا ہوا؟
اس عمر میں کہاں اور کیسے لڑکھڑائی؟
میں نے یہ کیسے فراموش کر دیا تھا کہ نفس کا اژدھا کبھی بھی انگڑائی لیکر بیدار ہو سکتا ہے،
ڈس سکتا ہے۔
میں اپنے اندر اگتے سبزے سے کیسے بےخبر رہی ؟پھر میں نے شعوری طور پر دبیر سے چیٹ میں کمی کی اور ان کو اپنے بیٹے کی اسلام آباد کی پوسٹنگ کا نہیں بتایا۔
اسلام آباد کراچی والوں کے ویسا ہی سحر آفریں ہے جیسے تھر والوں کے لیے نخلستان۔ یہاں اس قدر ہریالی اور شگفتگی ہے کہ بیان سے باہر۔ تراوٹ اور سبزے نے روح کو شاداب کر دیا تھا۔ قدرت بےطرح فیاض تھی اسلام آباد پر۔
گو موسم، رویہ، لوگ اور طور طریقے سب کچھ کراچی سےبہت مختلف تھا پر میرے لیے زیادہ فرق یوں نہ ہوا کہ میرا باہر کی دنیا سے واسطہ برائے نام ہی تھا۔ میں تو موسم اور پہاڑوں کے حسن کی اسیر تھی۔ ان دنوں کچھ دل بھی خوش گمان تھا اور زندگی تتلی کے پروں کی طرح ملائم اور رنگین محسوس ہوتی تھی۔ اندر کی بھید بھری دنیا بھی اپنے کشف دھیرے دھیرے منکشف کرتی ہے اور انسان تحیر زدہ اور مسحور رہ جاتا ہے۔
ڈی۔ ایچ۔ اے میں واقع یہ بڑی دیدہ زیب اور آرام دہ کوٹھی تھی۔ یہ جبران کے دوست کے ماموں برگیڈیر ولید کی تھی اور وہ دو تین سالوں کے لیے اپنی بیٹی کے پاس آسٹریا جا رہے تھے اس لیے بہت ہی معمولی کرائے پر جبران کو یہ کوٹھی مل گئی۔ برگیڈیر صاحب کو دراصل اپنی کوٹھی کے لیے کوئی بھروسے کا بندہ چاہیے تھا۔ انہیں جبران کی صورت بھروسے کا بندہ مل گیا اور ہم لوگوں کو نہایت مناسب کرائے پر شاندار کوٹھی۔
میرے کمرے سے متصل شترنجی ٹائیلوں سے آراستہ مستطیل برآمدہ تھا اور برآمدے سے دو سیڑھیاں اتر کر ہریالی کا ایک خوشنما قطعہ جہاں ایک اکیلا املتاس کا درخت اور وہ درخت اپنے حسن اور اکلوتے پن کے سبب مجھے بہت Fascinate کرتا تھا۔
اب میرا زیادہ تر وقت اس پچھلے برآمدے میں روکنگ چیر پر کتابیں پڑھتے گزرتا۔ اسلام آباد میں ان دونوں بہار اپنے جوبن پر تھی فضا خوشبو سے بوجھل تھی اور باغ کا وہ قطعہ مسحور کن تھا۔
ایک شام جبران کے کولیگ نے کھانے پر بلایا تھا اور جبران کا فون چارج نہیں تھا۔ اس نے GPS کے لیے میرا فون مانگا اور اس طرح دبیر کے علم میں یہ بات آئی کہ میں اسلام آباد میں ہوں کیونکہ میں ہمیشہ اپنی لوکیشن آف رکھتی تھی ۔
ان کے پوچھنے پر جب میں نے جبران کے تبادلے کا بتایا تو انہوں نے بہت خوشی اور حیرانگی کا اظہار کیا۔ وہ بھی ڈی۔ ایچ۔ اے میں ہی کہیں رہتے تھے۔
دو تین دن کے بعد دبیر نے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا اور کہا کہ انہیں کچھ ضروری باتیں کرنی ہیں جو بالمشافہ ہی ممکن ہیں۔ ان کے اصرار پر میں انکار نہ کر سکی کہ میرے دل کی بھی یہی آرزو تھی اور ملنے کی ہامی بھر لی۔ انہوں نے میری سہولت کے حساب سے مجھے Cafe Burning Brownie میں مدعو کیا جو میرے گھر سے قریب ہی تھا اور میں وہاں جبران کے ساتھ جا چکی تھی۔
بدھ کے دن گیارہ بجے میں کیفے پہنچی۔ مجھ پر ایک گھبراہٹ اور ہیجانی کیفیت طاری تھی۔ میں بظاہر خود کو کمپوز رکھنے کی پوری کوشش کر رہی تھی حالانکہ میرے دل کی دھمک میرے کانوں میں گونج رہی تھی۔ کیفے پہنچے مجھے آدھ گھنٹے سے اوپر ہو چکا تھا اور دبیر کا کہیں نام و نشان نہ تھا۔ دو دفعہ اپنے پرس پر گرفت مضبوط کرتے ہوئے میں واپسی کے ارادے سے اٹھی اور دونوں بار ہی میرا دل اس فیصلے کے آڑے آیا۔
آخر سوا بارہ بجے میں کیفے سے باہر آ گئی۔ پارکنگ میں دس منٹ مزید انتظار کیا۔
میرا خجالت اور وسوسے سے برا حال تھا۔ دبیر اس قدر معقول آدمی تھے کہ ان سے وعدہ خلافی کی توقع نہیں تھی۔ گھر واپسی پر ہمت کر کے ان کو میسج کیا مگر جواب ندارد۔
آج اپنے جذبات پر میں خود حیران ہوں۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ میں ندرت کے علاوہ کسی کو چاہ سکتا ہوں۔
اس کی موت نے مجھ سے جینے کی امنگ چھین لی تھی۔ وہ تو بھلا ہو بیٹی رحمہ کا جس نے مجھ اپنے میں الجھا کر پھر زندگی کی طرف کھینچ لیا۔ رحمہ کی شادی کے بعد میں بہت تنہا ہو گیا تھا اور دوسراہٹ کے لیے انٹرنیٹ کا سہارا لیا اور لکھنا لکھانا شروع کر دیا۔
نیٹ پر جہاں کافی لوگوں سے جان پہچان بڑھی وہیں مسرت عثمانی سے بھی تعارف ہوا۔ آرٹیکل اور مضامین پر ہوتے تبصروں سے بات چیت کا آغاز ہوا اور جانے کیسے ان سے ایک قربت اور اپنائیت کا رشتہ بنتا چلا گیا۔ جس دن ان سے بات نہ ہوتی طبیعت میں ایک بےکیفی اور اضمحلال رہتا۔
مجھے اب تنہائی کھلنے لگی تھی اور میں نے مسرت سے بات کرنے کی ٹھانی۔ یہ بھی اچھا تھا کہ وہ بیٹے کی فیملی کے ساتھ اسلام آباد منتقل ہو گئی تھیں۔ مجھے ذرا بھی اندازہ نہیں ہے کہ وہ کیا جواب دینگی مگر میں قسمت آزمانا چاہتا ہوں۔
بدھ کو ان سےcafe burning brownieمیں گیارہ بجے ملاقات طے ہوئی ہے اور میں کسی ٹین ایج لڑکے کی طرح نروس ہوں اور حدت جذبات سے تپ رہا ہوں۔
یہ رات کسی طور کٹے تو صبح ہو۔
صبح ہو تو دید ہو۔
صبح ناشتے سے فارغ ہو کر عرصے بعد میں بہت اہتمام اور لگن سے تیار ہوا۔ گل دستہ اور کتاب میں رات ہی لے آیا تھا۔
رات مضطرب ہی گزری تھی کسی پہلو قرار نہ تھا۔ مسرت کے جواب کے وسوسے نے بےدم کیا ہوا تھا۔ میں امید و بیم کے مابین معلق تھا۔ مجھے ان کے ردعمل کا بھی خوف تھا۔
ابھی میرا ہاتھ گاڑی کے دروازے کو ان لاک ہی کر رہا تھا کہ مجھے لگا کہ میری آنکھوں کے آگے پھلجھڑیاں جل رہی ہیں، انار پھوٹ رہے ہیں ۔ میں زمین پرگرتا چلا گیا اور میرا ذہن مکمل تاریکی میں ڈوب چکا تھا۔
جب میری آنکھیں کھلی تو اجنبی ماحول تھا اور میں کسی کو بھی پہچانے سے قاصر تھا حد کے اپنا جسم ہلانے پر بھی قدرت نہیں رکھتا تھا۔ پھر میری حسیات نے رحمہ کے لمس کو شناخت کر لیا۔ یہ میرے سامنے رحمہ کھڑی تھی میں حال میں لوٹ آیا۔ میں خفیف حرکت سے بھی معذور تھا اور پوری قوت صرف کرنے کے باوجود بھی بولنے سے قاصر۔
رحمہ نے مجھے بتایا کہ میرا بلڈ پریشر خطرناک حد تک بڑھ گیا تھا اور مجھے میرے پڑوسی محمود قریشی بےہوشی کے عالم میں ہسپتال لائے اور محمود ہی نے حماد کو اطلاع دی۔
رحمہ نے مجھے یہ خبر بد بھی دی کہ مجھے پر فالج کا حملہ ہوا ہے اور آج مجھے اسپتال میں نواں دن ہے۔
یہ انکشاف جان لیوا تھا۔
میرا اپنا آپ میرے پنجر میں یوں پھڑپھڑا رہا تھا جیسے اندھی ابابیل کنوئیں کی دیواروں سے سر پھوڑتی پھرے۔ میں ایک ٹک رحمہ کو اور اس کے بہتے آنسوؤں کو دیکھتا رہا۔ شاید میری بھی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے کہ رحمہ کبھی ٹیشو اور کبھی اپنے ڈوپٹے سے مسلسل میرا چہرہ پونچھ رہی تھی اور میرے پائنتی پہ کھڑے حماد کا چہرہ شدت ضبط سے سیاہ ہو رہا تھا۔
میں صرف ایک بات سوچ رہا تھا کہ فالج بجائے جسم کے ذہن پر گرتا تو کتنا اچھا ہوتا۔ میں کم از کم بےبسی اور معذوری کے اس سفاک اور جان لیوا احساس سے تو عاری ہوتا۔ آگے کی بےکس و بےبس زندگی کا تصور ہی سوہان روح تھا۔
جانے کیوں میرے ذہن میں مستقل نو دن کا فقرہ گردش کر رہا تھا پھر ایک نام جھماکے کی طرح روشن ہوا “مسرت” ۔
اور میرا دل درد سے بھر گیا۔
بہت سارے سوال ذہن کے پردے سے ٹکرا کر آنکھوں تک آتے ہیں مگر رحمہ اور حماد ان سوالات کو بوجھنے سے قاصر تھے۔
درد بھی شاید گونگا ہوتا ہے۔
زبان میری بند ہے۔
بس آنکھوں سے رواں سیل اشک ہے جو بے بند ہے۔
انسان کس قدر بےبس ہے۔ ایک بے فیضا خاکی پتلا۔
آج پندرہ دن ہو گئے ہیں دبیر الحسن کا کوئی میسج نہیں، کوئی پتہ نشان نہیں۔ ان کا فون کا بھی بند جا رہا ہے۔ دل یہ ماننے کو تیار نہیں کہ میرے ساتھ بھیانک مذاق ہوا ہے
دل ابھی بھی ان ہی کا ہمنوا ہے مگر آج میں نے فون کی سم ڈسٹ بن میں پھینک دی ہے۔
اب میں نے ورچوئل دنیا سے مکمل طور پر ناطہ توڑ لیا ہے۔ میرے دل میں تنہائی کا ڈیرا ہے اور املتاس کے زرد پھول جو کچھ دن پہلے تک خوشی کے پیغام بر لگتے تھے اور اب کسی حسین دوشیزہ کے زرد گالوں پر ڈھلکتے آنسو سے مشابہ ہیں۔ دل کی دنیا کیا اجڑی کہ آنکھوں کی جوت ہی بجھ گئی اور دنیا بےرنگ ہو گئی۔
****
تحریر: شاہین کمال
****
تحریر: شاہین کمال