(Last Updated On: )
وہ رات کافی تاریک تھی اور بس اونچی نیچی گھاٹیوں سے بے تحاشہ دوڑ رہی تھی ۔ تقریباً سارے ہی مسافر نیند کی آغوش میں جا چکے تھے ۔ لیکن میں جاگ رہا تھا ۔ زندگی کا بیتا ہوا ایک ایک لمحہ یاد آرہا تھا اور میری نظریں اپنے شہر کو دوبارہ دیکھنے کے لیے بے تاب تھیں ۔ میں بار بار کھڑکی سے باہر جھانک رہا تھا ، لیکن باہر کیا تھا ؟ تاریکی۔۔۔ اور صرف شدید تاریکی ۔ ایسے میں جب بھی مخالف سمت سے کوئی کار ، ٹرک ، یا بس آجاتی تو ایک لمحے کے لیے منظر روشن ہوجاتا اور سڑک کے اطراف کھڑے ہوئی درخت تیزی سے بھاگتے ہوئے پیچھے چھپ جاتے ، جیسے کسی اجنبی مہمان کو دیکھ کر بچے منہ چھپائے دوسرے کمروں میں دبک جاتے ہیں ۔
لیکن میں تو اجنبی نہیں ہوں ۔ اس سڑک سے اُس شہر تک اور اُس شہر سے اس سڑ ک تک بچپن سے جوانی تک جانے کتنی بار گزر ہوا ہوگا ۔ اب تو اس کی گنتی بھی یاد نہیں رہی ۔ اُس زمانے میں میٹرک تک تعلیم تو ہمارے اپنے شہر میں ہوجاتی تھی ۔ لیکن اعلیٰ تعلیم کے لیے حیدر آباد جانا ہوتا تھا ۔ اور جب میں نے بھی میٹرک کامیاب کرلیا تو اعلیٰ تعلیم کے حصول کا جذبہ مجھے عثمانیہ یونیور سٹی لے آیا ۔ میری آنکھوں میں یونیورسٹی کا ایک ایک گوشہ روشن ہوگیا ۔ لیکچر حال ، آڈیٹوریم ، لائبریری ، پھر ہاسٹل اور پھر بے شمار دوستوں کے چہرے جگنووں کی طرح جھلملانے لگے ۔ خدا جانے وہ سب اب کہاں اور کس حال میں ہونگے ۔ ؟ اُس زمانے میں میری دوستی ایک ایسے صحافی سے بھی ہوگئی تھی جو بیچلرس کوارٹر س میں رہتا تھا ۔ میں اس سے ملنے اکثر چلا جاتا تھا ۔ وہ مجھ سے مختلف سیاسی موضوعات پر گفتگو کرتا ۔ تیزی سے بدلتے ہوئے حالات پر تبصرہ بھی کرتا ۔ کبھی اُس کی آنکھوں میں وحشت دکھائی دیتی اور کبھی وہ عجیب سے خواب دکھاتا ۔۔۔ اُس کی باتیں جب میری سمجھ سے بالاتر ہوجاتیں تو وہ مجھے گھسیٹتے ہوئے عابد علی روڈ پر لے جاتا ۔ ہم برقعوں کے نیچے سے جھانکتے ہوئے گورے گورے خوبصورت پیروں کی زیارت کرتے ۔ کبھی ہم دونوں یونہی بے مقصد گھومتے رہتے ۔ کبھی کسی حسینہ کا پیچھا کرتے ہوئے بڑی بڑی دکانوں میں داخل ہوجاتے ۔ بھاؤ ٹاؤ کرتے اور پھر جیسے داخل ہوئے تھے ویسے ہی نکل جاتے ۔
اُن دنوں ہندوستان آزاد ہوچکا تھا ۔ پاکستان کا قیام بھی عمل میں آگیا تھا ، لیکن ریاست حیدرآباد مجھے اپنی تمام تر شناخت کے ساتھ زندہ محسوس ہوتی تھی ۔
ایک جھٹکے کے ساتھ بس رُک گئی اور کنڈکٹر نے اندرونی لائٹں آن کرتے ہوئے اعلان کیا ، ’’ یہاں بس پندرہ منٹ ٹھہرے گی ۔ ‘‘
میں آہستہ سے بس کے نیچے اُترا ۔ یہ کوئی ڈھابہ تھا ۔ چائے کی پیالیاں کھڑ کھڑا رہی تھیں ۔ کھانے پینے کا سامان سجا ہوا تھا ۔ میں ایک کرسی پر بیٹھ گیا ۔ بیرا میرے لیے چائے لے کر آیا اور میں سگریٹ کے دھوئیں میں چائے کی چسکیاں لینے لگا ۔
’’ ایکس کیوز می ۔۔۔ ‘‘ اچانک کپ ساسر سے ٹکرایا ۔ میں نے نگاہیں اوپر کیں ۔ ایک اٹھارہ اُنیس برس کی ماڈرن لڑکی کھڑی تھی ۔
’’ جناب آپ کے پاس پانچ سو روپے کا چینج ( Change ) ہوگا ۔ ؟ ‘‘
میرے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی اور وہ سامنے کی کرسی پر بیٹھتی ہوئی گویا ہوئی ، ’’ سردی بہت ہے اور مجھے چائے کی شدید خواہش ہورہی ہے ، لیکن میرے پاس چینج نہیں ہے ۔ ‘‘
میں نے اُسے جواب دینے کے بجائے بیرے کو چائے کا آڈر دیا تو وہ جھینپتے ہوئے بولی ، ’’ آپ کیوں تکلیف کرتے ہیں ۔ ویسے بھی رات کو دیر تک جاگتے رہنے سے بھوک تو لگتی ہی ہے ۔ ‘‘
’’ جی درست فرما رہی ہیں آپ ۔۔۔ ‘‘
پھر وہ قدرے بے تکلفی سے بولی ، ’’ اب اتنی رات گئے صرف چائے پینے کی خاطر بس سے نیچے کون اُترے گا ۔ ۔۔ ؟ ‘‘
’’ آپ جو بھی چاہیں منگوالیں ۔ ‘‘ میں نے دھوئیں کو ہوا میں اُچھال دیا اور پھر ٹیبل مختلف کھانے کی چیزوں سے سج گیا ۔ میں نے سگریٹ کا ایک طویل کش لیا اور پھر جب اُس کی طرف دیکھا تو اُس کی آنکھوں میں شرارت اور گالوں میں مسکراہٹ مچل رہی تھی ۔
مجھے اپنے آپ پر ہنسی آگئی ۔ یہ نئی نسل کی ماڈرن لڑکیاں عموماً اس طرح کی activity کرتی رہتی ہیں ۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ آج میں شکار ہوگیا ۔میرے منہ سے دھواں نکل رہا تھا اور دھوئیں کی لکیروں میں کچھ چہرے بننے لگے تھے ۔۔۔۔
’’ سجاد حسین ۔۔۔ سجاد حسین ۔۔۔ ! ‘‘
’’ کون ۔۔۔؟ ‘‘ میرے قدم اُسی جگہ پر ہی ساکت ہوگئے ۔
’’ ارے اس طرح حیرت سے کیا دیکھ رہے ہو ۔ ؟ ‘‘ وہ میرے قریب آگئی ، ’’ پہچانا نہیں مجھے ۔۔۔ ؟ ‘‘
’’ جی ۔۔۔ آپ ۔۔۔؟ ‘‘
’’ اوہ ہو۔۔۔ انجان بن رہے ہو ۔ ‘‘ اس نے میری آنکھوں کے سامنے اپنا ہاتھ نچایا ، ’’ ہوں ۔۔۔ سمجھ گئی ۔ میں سب کچھ سمجھ گئی ۔۔۔ ‘‘ اُس نے دیدے مٹکائے ، ’’ اب تم کہو گے کہ صفیہ سلطانہ جب بھی تمھیں دیکھتا ہوں تو لگتا ہے پہلی بار دیکھ رہا ہوں ۔ ‘‘
’’ جی ‘‘ میں شاید اس سے زیادہ کچھ کہنے کے لائق ہی نہیں رہا تھا ۔
’’ واہ جناب ۔ ! کل شام کو میرے ساتھ بڑے زور کا عشق لڑا رہے تھے اور آج یونیورسٹی میں قدم رکھتے ہی بھول گئے ۔۔۔ ‘‘ اُس نے میرے ماتھے پر ہاتھ مارا ۔
’’ دیکھیے محترمہ آپ کو کچھ غلط فہمی ہورہی ہے ۔۔۔ ‘‘
’’ اللہ۔۔۔ ارے صاف صاف کہو نا ۔ یہاں اقرار کرتے ہوئے شرم آرہی ہے ۔ ‘‘ اُس نے ایک دم میرا ہاتھ پکڑلیا ، ’’ لیکن دیکھو ۔۔۔ میں شرمانے والی نہیں ۔ ‘‘ اور پھر اس نے وہیں سے ہانک لگائی ، ’’ آؤ دوستوں ان سے ملو یہ ہیں میرے محبوب۔۔۔ ‘’
اور پھرپلک جھپکتے ہی گارڈن میں چھپی ہوئی ایک ٹولی نے مجھے گھیر لیا ۔
’’ واہ اُستاد ۔ ‘‘ سکندر نے میری پیٹھ پر ہاتھ مارا ، ’’ یہاں ہم فائنل میں پہنچ گئے اور ابھی تک کسی لڑکی نے ہمیں گھانس تک نہیں ڈالا ۔ ‘‘
’’ ارے جناب محبت کے لیے کچھ خاص دل مخصوص ہوتے ہیں ۔ ‘‘
’’ جی ہاں ۔ جی ہاں ۔۔ ‘‘ اختر خانم کی آواز میں آواز ملاتے ہوئے اشفاق نے تائید کی ، ’’ بھئی اب تو پارٹی ہونی ہی چاہیے ۔ ‘‘
اور پھر کب پارٹی ہوئی ، ہم سب کیسے کینٹین میں پہنچے ، مجھے تو کچھ پتہ ہی نہیں چلا ۔ میرے ہوش تو اس وقت ٹھکانے آئے جب صفیہ سلطانہ نے میرے ہاتھوں میں ایک لفافہ تھماتے ہوئے کہا ، ’’ بھائی جان سجّاد حسین ! عقل کے ناخن لو ۔ دراصل تمہارا منی آڈر اشفاق نے اپنے دستخط سے چھڑالیا تھا ۔ یہ پارٹی ان ہی پیسوں سے ہوئی ۔ بقیہ رقم لفافے میں موجود ہے ۔ میرا خیال ہے اس رقم سے تمہارا مہینہ بھر گزارہ ہوجائیگا ۔ ‘‘ اور پھر قہقہوں کی گونج میں وہ سب اُٹھ کر چلے گئے ۔
’’ اچھا جناب ! آپ کا بہت بہت شکریہ ۔ ‘‘ وہ کرسی سے اُٹھ گئی اور میری طرف بنا دیکھے بس کی طرف جانے لگی ۔
میں نے سگریٹ کو دیکھا ۔ وہ کب کا جل چکا تھا ۔ میں پھر ایک بار اپنی سیٹ پر تھا اور بس اپنا سفر شروع کر چکی تھی ۔ میں سیٹ کی پشت پر جھول گیا اور آنکھیں بند کرلیں ۔ ایک طویل عرصے کے بعد انڈیا آیا تھا ، ایک ڈیلی گیشن کے ساتھ ۔ ہمارے مذاکرے ہوچکے تھے اور جب حکومت نے مجھ سے خواہش کی کہ میں اس شہر کے علاوہ کسی ایک شہر میں مزید کچھ دن گزار سکتا ہوں تو میں نے بنا کسی تمہید کے اورنگ آباد کہہ دیا تھا ۔ اُس وقت سب ہی نے میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا تھا کہ آخر میں دہلی ، ممبئی ، کلکتہ ، بنگلور وغیرہ بڑے شہروں کو چھوڑ کر اورنگ آباد کیوں جانا چاہتا ہوں ۔ ؟ تب میں نے بتایا تھا کہ وہاں میرے بہت سارے دوست ہیں جو مجھے مسلسل چِٹھیاں لکھتے رہے کہ میں ایک بار یہاں ضرور آؤں ۔۔۔ ! مجھے فوراً اجازت مل گئی اور میں نے اُسی وقت اپنے بچپن کے دوست سلطان خان کو فون کیا کہ میں کل صبح بس سے اورنگ آباد پہنچ رہا ہوں ۔ باقی باتیں بالمشافہ ہوں گی ۔
میں نے پھر ایک بار کھڑکی سے باہر جھانکا اور گزرے ہوئے وقت کا حساب میری آنکھوں میں روشن ہونے لگا ۔ سقوطِ حیدر آباد ۔ ۔ خون خرابہ ۔۔۔ تباہ حال مسلمان ۔۔۔ گرفتاریاں ۔۔۔ فرار کی کوششیں ۔۔۔ اندھیرے میں ڈوبتا ہوا مستقبل ۔۔۔ اور پھر پورے کنبے کے ساتھ ابّاجان کی پاکستان کی جانب ہجرت ۔۔۔ ریاست سے باہر نکلتے نکلتے میرے سارے خاندان کی شہادت اور میرا یکا و تنہا کراچی پہنچنا اور زندگی کو پھر سے آباد کرنے کی تگ و دو ۔ ۔۔ ویسے اُن دنوں کراچی اجنبی محسوس نہیں ہوتا تھا ۔ وہاں پر بھی قدم قدم پر ترکی ٹوپیاں اور حیدرآبادی ’نکو ‘ اور ’ ہو ‘ کی صدائیں گونجتی رہتیں ۔ سڑکیں بھی ویسی ہی تھیں ۔ میں جدھر سے بھی گزرتا ، عابد علی روڈ کا گمان ہوتا ۔ میری عملی زندگی کا آغاز ایک چھوٹے سے روزنامہ سے ہوا ، اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے مختلف اخبارات میرا مقدر بنتے گئے ، اور میں میڈیا کی آخری حد تک پہنچ گیا ۔ پاک ٹی ۔وی کے جنرل ڈائرکٹر کا عہدہ میرے ماتھے پر سج گیا ۔ پھر میں مختلف ممالک میں اپنے ملک کا نمائندہ بن کر گیا ۔ عزت ، شہرت اور دولت کا وہ خواب جو میری طرح کا ہر نوجوان دیکھتا ہے مجھے میسر آگیا ۔۔۔ اور آج زندگی کی ایک طویل مسافت طئے کر کے میں اپنے شہر لوٹ رہا تھا ۔ میری آنکھوں میں کبھی میرا آبائی گھر اُبھرتا اور میں اپنے دادا دادی اور خاندان کے دیگر بزرگوں کو چلتے پھرتے محسوس کرنے لگتا ۔ کبھی بی بی کا مقبرہ اپنی آن بان شان دکھاتا ، کبھی اصغر حسین کی دیوڑھی میں شہتوت کے درختوں کی باڑ کے قریب دل کے دھڑکنے کی صدائیں محسوس کرتا ، کبھی پن چکی کا آبشار ایک پوری رومانوی فضاء قائم کر دیتا ، کبھی انٹر کالج کے در و دیوار میری شرارتوں کی یاد دلاتے ، کبھی میں اپنے آپ کو امام باڑوں کی مقدس فضاؤں میں پاتا ۔ ایک ایک منظر جانے کیسی کیسی یادوں کے دریچے کھول رہا تھا اور میں ان ہی مناظر میں بہتا ہوا کب نیند کی آغوش میں پہنچ گیا ، مجھے پتہ ہی نہیں چلا ۔
’’ دادا جان ۔۔۔ ! ۔ میں آگیا ہوں ۔ ‘‘ میں نے ادھر اُدھر دیکھا ۔ چنبیلی کا منڈوا سفید پھولوں سے لدا ہوا تھا ۔ سامنے گلاب کی کیاریاں تھیں ۔ کوویلوں سے ڈھکا ہوا ورانڈا جوں کا توں تھا ۔ لکڑی کی جالیوں سے دھوپ چھن رہی تھی ۔ سامنے بڑے سے حوض میں بطخیں تیر رہی تھیں ۔ میں ورانڈے سے ہوتا ہوا تین کمانوں کے بالکل قریب پہنچ گیا ۔ جالی دار دروازہ کُھلا ہوا تھا ۔۔۔۔ارے یہی تو دادا جان کا کمرہ تھا ۔ تخت پر اب بھی اسی طرح جائے نماز بِچھی ہوئی تھی ۔ تسبیح اور کلامِ پاک رکھا ہوا تھا ۔ میں سوچنے لگا ۔۔ یہ دادا جان کہاں چلے گئے ؟ میں نے آہستہ سے اندر کا دروازہ کھولا ، کوئی نہیں تھا ۔ یہ دادا جان کی لائبریری تھی ۔ ساری کتابیں اسی طرح الماریوں میں بند تھیں ۔ رائٹنگ ٹیبل پر کاغذات رکھے ہوئے تھے ۔ قلمدان بھی اُسی طرح موجود تھا ۔ میں نے جھک کر دیکھا ، کاغذ پر لکھی ہوئی تحریرکی روشنائی بالکل تازہ تھی جیسے ابھی ابھی کسی نے لکھا ہو ۔ انداز شکستہ تھا ۔ میں تحریر پڑھنے لگا ، اللہ ہر جگہ موجود ہے اور وہ اپنے بندوں کو رزق پہنچاتا ہے ۔
’’ بے شک ۔۔۔ ! ‘‘ بے اختیار میری زبان سے نکلا اور میری آنکھیں عقیدت سے بند ہوگئیں ۔ ، ’’ وہ ہمیں پاکستان میں بھی رزق پہنچا رہا ہے ۔ ‘‘
’’ اگر تم پاکستان نہ بھی جاتے تو وہ یہاں پر بھی بھوکا نہ رکھتا ۔ ۔۔ ‘‘ آواز میرے پیچھے سے آئی ۔ میں تیزی سے پلٹا لیکن میرے پیچھے کوئی نہیں تھا البتہ ہمارا پالتو کتّا ٹامی ہڈی پر اپنے نوکیلے دانت مار رہا تھا ۔
’’ یہ کب آیا ۔۔۔ ؟ ‘‘ میں نے اپنے آپ سے پوچھا ۔
’’ یہ گیا ہی کب تھا جو واپس آتا ۔ ‘‘ اس بار آواز میرے اندر سے آئی
’’ سجّاد حسین ۔۔۔ ! ‘‘ ایک مدھم سی سرگوشی سنائی دی ۔
میں نے سامنے دیکھا ۔ آم کے درخت پر کیریاں جھول رہی تھیں ۔
’’ سجاد حسین ۔۔۔ ‘‘ پھر کسی نے پکارا ۔
میں نے بائیں بازو دیکھا ۔ کیاریوں میں پھول کھل رہے تھے ۔
’’ سجاد حسین۔۔۔ ‘‘
میں نے آسمان کی طرف دیکھا ۔ بادل مست ہاتھیوں کی مانند جھومتے ہوئے چل آ رہے تھے ۔
’’ سجاد حُسین ‘‘ میرے کانوں میں آواز پھر گونجی
میں نے نیچے دیکھا ۔۔۔ زمین پر اُسی طرح سبزہ لہلہارہا تھا ۔
’’ کمال ہے ۔۔۔ سب کچھ ویسا ہی ہے ۔ ‘‘
’’ ہاں ۔۔۔ یہاں بھی اور وہاں بھی ۔ مگر تم کو اور تمہارے باپ کو یہاں کا یقین نہیں تھا ۔‘‘
’’ دادا جا ن آپ۔۔۔ ‘‘
’’ ہاں ۔۔۔ آگئے تم ۔۔۔؟ آؤ میرے ساتھ آؤ۔۔۔‘‘ اور جونہی انھوں نے میرا ہاتھ پکڑا ، مجھے گمان ہوا جیسے میں ایک دم ہلکا پھلکا ہوگیا ہوں ۔ پھر ہم دونوں چلتے ہوئے نہیں بلکہ اُڑتے ہوئے ڈیوڑھی کے بالائی حصّے پر پہنچ گئے۔
’’ سجاد حُسین ! یہ جگہ زمین سے اونچی اور آسمان سے نیچے ہے ۔ میں یہاں پر روز آتا ہوں ۔ ‘‘ میں حیرت سے ان کی طرف دیکھ رہا تھا اور وہ بھی بنا پلک جھپکائے میری آنکھوں میں جھانک رہے تھے ۔، ’’ میرے ہمراہ میرے سارے ہی پُرکھے ہوتے ہیں اور وہ مجھ سے سوال کرتے ہیں ۔۔۔ ہماری اولاد اپنی تاریخ کو بھلاکر فرار کیسے ہوگئی ؟ کیا وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ ہمارے جدِ اعلیٰ نے نہ تو کبھی حق سے منہ موڑا اور نا ہی حالات سے گھبراکر راہِ فرار اختیار کی اور نا ہی باطل کے ہاتھ پر بیعت کی تھی ۔ ۔۔ بتاؤ ہماری اولاد اپنا ورثہ کیسے بھول گئی ۔ ‘‘
جواب میری زبا ن پر تھا لیکن چاہ کر بھی آواز میرے حلق سے باہر نہیں نکلی ۔
’’ سجاد حسین ! ادھر آؤ۔۔۔ یہاں سے دیکھو ۔۔۔ وہ دور۔۔۔ قبرستان ہے ۔ مردوں کا مسکن ، لیکن کیا تم یہ نہیں جانتے تھے کہ جس مکان کو مکین چھوڑ کر چلے جاتے ہیں وہ مکان آباد بستی میں ہوتے ہوئے بھی ایک قبرستان بن جاتا ہے ۔ ‘‘
’’ قبرستان۔۔۔ ؟ ‘‘ میں دل ہی دل میں بُدبدایا اور جونہی نظریں اُٹھائیں مجھے اپنے چاروں طرف قبریں ہی قبریں نظر آنے لگیں ۔ میں نے اِدھر اُدھر دیکھا ، کوئی نہیں تھا ۔ میں زور سے چلایا ۔۔۔ دادا جان ۔۔۔ داداجان ۔۔۔داداجان ۔۔۔۔
لیکن داداجان بھی وہاں پر موجود نہیں تھے ۔ پھر میری آنکھوں میں اندھیرا بھر گیا ۔ میںآنکھیں پھاڑ پھاڑ کر چاروں طرف دیکھ رہا تھا ۔ لیکن مجھے کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا ۔ میرا دل چاہا کہ میں دھاڑیں مار مار کر رؤوں ۔ تبھی اندھیرا چھٹنے لگا ۔ آسمان سے تارے زمین کی طرف آنے لگے ۔ ہر قبر سے نورانی چہرے باہر نکلنے لگے ۔ اُن کے بدن پر زرق برق لباس تھے ۔ پھر ان کے سامنے کھانوں کے خوان سجنے لگے ۔ نعمتیں اُترنے لگیں ۔ میں نے دیکھا دور قبرستان کے آخری سرے کی ٹوٹی ہوئی قبر سے کوئی بزرگ نمودار ہوئے ۔ اُن کے جسم پر لباس تار تار تھا ۔ وہ آہ و گریہ میں مصروف تھے اور ان کی طرف کوئی دیکھتا نہ تھا ۔ میں نے جونہی غور سے دیکھا میری حیرت کی انتہا نہ رہی ، وہ میرے ہی داداجان تھے ۔ مجھے جھٹکا سا لگا اور میری آنکھ کُھل گئی ۔ ۔۔
بس رُکی ہوئی تھی ۔ مسافر اُتر رہے تھے ۔ سامنے عدالت کی پُرشکوہ عمارت کھڑی تھی اور بس کے دروازے پر سلطان خان ،ہیرالال ، شبیر حسین اور کچھ لڑکے کھڑے تھے ۔ میں خوشی سے جھوم اُٹھا ۔ میں اورنگ آباد پہنچ گیا ۔ میں نے اپنا سوٹ کیس اُٹھایا اور دیوانوں کی طرح جونہی نیچے اُترا ، سب ہی مجھ سے لپٹ گئے ۔ شبیر حسین کو دیکھتے ہی میرے دل میں ایک ہوک سی اُٹھی ۔ میں نے ان کی پیٹھ تھپتھپائی تو وہ گویا ہوئے ، ’’ بھائی آپ میرے پاس ہی ٹھہریں ۔ ‘‘
’’ جی نہیں ! ‘‘ سلطان خان نے قدرے اونچی آواز میں کہا ، ’’ میرا یار میرے گھر ٹھہرے گا ۔ ‘‘
’’ نہ تمہارے گھر نا ان کے گھر ، میرا خیال ہے سجاد حسین میں تمہارا انتظام کسی اچھے سے ہوٹل میں کروا دیتا ہوں ۔ ‘‘ ہیرا لال نے موقع کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے واقعی لاجواب فیصلہ کیا تھا ۔ پھر ہم سب ہوٹل کی طرف روانہ ہوگئے ۔
ایک دوسرے کے گھریلو حالات در یافت کرنے کے بعد ہوٹل کے کمرے سے پہلے سلطان خان پھر ہیرا لال اور اس کے ساتھ وہ سارے لڑکے بھی چلے گئے جو مجھ سے ملنے آ ئے تھے ۔ اب کمرے میں ، میں اور شبیر حُسین ہی رہ گئے تھے ۔ میں نے اُن کی طرف غور سے دیکھا ۔ اب اُن کے چہرے پر وہ رعب داب بھی باقی نہیں رہا تھا ۔ وہ کرسی پر خاموش بیٹھے اپنی لکڑی کی مٹھی کو ہاتھوں میں گھمارہے تھے ۔ میری زبان بار بار کلبلا رہی تھی لیکن الفاظ زبان پر نہیں آرہے تھے ۔ نہیں شاید میں ہمت نہیں جُٹا پارہا تھا ۔ وہ راز جسے میں نے ساری زندگی اپنی زبان پر نہیں لایا تھا ۔ آج مچھلی کی طرح تڑپ رہا تھا ۔ میں نے سگریٹ سلگائی اور جلدی جلدی کش لینے لگا ۔ کمرے میں دھواں پھیلنے لگا ۔ آخر اپنی ساری توانائی کو سمیٹ کر میں نے ایک ادھورا سوال ہوا میں اُچھال دیا ، ’’ وہ ۔۔۔ وہ کیسی ہے ۔ ؟ ‘‘
شبیر حُسین نے میری آ نکھوں میں جھانکا ، ’’ کؤن ۔۔۔ ؟ ‘‘
’’ جی۔۔ ۔ وہ ۔۔۔ وہ شمشاد ۔ ‘‘ جس کے بارے میں پوچھنا چاہ رہا تھا وہ نام اب بھی میری زبا ن سے نہیں نکلا تھا اور میں صرف ہکلا کر رہ گیا تھا ۔
’’ شمشاد ؟ ‘‘ انھوں نے اپنا چشمہ آنکھوں پر سے نکالا ، ’’ کمال ہے ۔۔۔ تمھیں شمشاد اب تک یاد ہے ۔ ‘‘
اب اُنھیں کیسے بتا تا کہ وہی تو ایک ہماری راز دار تھی ۔
’’ اُس کی تو ہم نے شادی کردی ۔ بے چاری کا سارا بچپن ہم لوگوں کی خدمت میں گزرا ۔۔۔ ‘‘ ا نھوں نے کھڑکی سے باہر جھانکا، ’’ اپنے بال بچوں کے ساتھ قریبی دیہات میں رہتی ہے ۔ کبھی کبھی ملنے بھی چلی آتی ہے ۔ ‘‘
’’ آں۔۔۔ اور وہ شہتوت کے درختوں کی باڑ ۔۔۔ ‘‘
شبیر حسین کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی ، ’’ وہ اب بھی ہے لیکن اب اُن پر شہتوت نہیں لگتے ۔ ‘‘
میں نے گردن جھکا دی ، کیسے لگیں گے شہتوت ؟ بار آوری کے لیے محبت کا لمس بھی تو ضروری ہوتا ہے ۔ میں دل ہی دل میں بُدبدایا ، ’’ اور شبیر حسین وہ جو ایک منڈوا تھا جس پر عشق پیچاں کی بیلیں چڑھی رہتی تھیں ۔ ‘‘
’’ وہ منڈوا تو ہے لیکن اب کوئی عشق پیچاں کی بیل نہیں ہے ۔۔۔ ‘‘ خود اُن کی آواز بہت دور سے آتی ہوئی محسوس ہوئی ، ’’ وقت نے سب کچھ چھین لیا ۔ اب تو دیوڑھی کا بہت بڑا حصّہ کھنڈر اور ویران ہوچکا ہے ۔ ‘‘
اس کے بعد ہم دونوں بھی خاموش ہوگئے ۔ میں نے کھڑکی سے باہر جھانکا ، زندگی اپنے معمول پر دوڑ رہی تھی ۔ میری آنکھوں میں میرا تخیل در آیا ۔ دبلی پتلی خوبصورت سی سکینہ پورے قد کے ساتھ کھڑی تھی اور اُس کی آنکھوں میں بھی کئی سوالات جھلملا رہے تھے ۔
’’ اچھا چلتا ہوں ۔ ‘‘ شبیر حُسین ایک دم کھڑے ہوگئے اور پھر نہایت دھیمے لہجے میں انھوں نے کہا ، ’’ آج محرم کی نو تاریخ ہے ۔۔۔ معلوم ہے نا ۔ ؟ ‘‘ وہ میری آنکھوں میں عقیدے کی پختگی کو پرکھنے کی کوشش کر رہے تھے ۔ ’’ شام میں مجلس ہے ضرور آنا ۔ ‘‘
میں نے اثبات میں گردن ہلائی ، ’’ میں شام سے پہلے آپ کے گھر نہیں آسکتا ؟ ‘‘
’’ تمہارا اپنا گھر ہے ۔۔۔ تمھیں تو ہماری ڈیوڑھی ہی میں قیام کرنا چاہیے تھا ۔ ‘‘
میں نے نظریں جھکا دیں اور شبیر حسین آہستہ آہستہ ہوٹل کی سیڑھیاں اُتر نے لگے ۔ میں انھیں دیکھ رہا تھا اور سکینہ ایک ایک سیڑھی چڑھتی ہوئی میرے اندر داخل ہو رہی تھی ۔۔۔ سکینہ میں نے برسوں تمھیں بھلانے کی کوشش کی ، برسوں بعد تمھیں بھُلا پایا ، لیکن یہاں آیا ہوں تو لگتا ہے جیسے وقت کا پہیہ اُلٹا گھوم کر پھر اسی نقطے پر آکر ٹھہر گیا ہے ۔ جونہی میں پلٹا ، اچانک میری نظریں قدِ آدم آئینے پر ٹھہر گئیں ، اور پھر ایک قہقہہ گونجا ۔ عمر کے بوجھ سے جھکا ہوا ایک چہرا مجھے طنز بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔۔۔ سجاد حسین ! آسودگیوں کی بے ڈھنگی سیڑھیاں چڑھنے کے خبط میں تم نے کیا کچھ نہیں روند ڈالا اور اب تم وقت کو پکڑنے نکلے ہو ؟ لیکن وقت اپنا فیصلہ کر چکا ہے ۔
میری آنکھیں بھیگ گئیں اور میں کسی بے جان کھلونے کی طرح اسی جگہ ڈھیر ہوگیا ۔
بہت دیر تک میں اپنے آپ سے لڑتا رہا اور جانے کتنے ہی ہاں اور نہیں کے دائرے بنتے رہے ۔ پھر جب ہوش آیا تو معلوم ہوا کہ چار بج رہے ہیں ۔ میں جلدی سے نہا دھوکر تیار ہوگیا ، اور پھر آٹو رکشے میں سوار ہوگیا اور شہر کی مختلف شاہراؤں سے گزرنے لگا ۔ سب کچھ بدل گیا تھا ۔ شیروانیاں اور ٹوپیاں غائب ہوچکی تھیں ۔ نئی نسل نئے لباسوں میں ملبوس برق رفتار دوڑ رہی تھی ۔ سمنٹ اور کانکریٹ کا جنگل پورے شہر میں پھیل گیا تھا ۔ میں جس محلے سے بھی گزرتا وہ مجھے میری ہی کہانی سُنا رہا تھا ۔ میں ٹاؤن ہال سے بُڈی لین اور پھر مومن پورہ سے منظور پورہ تک آیا ہی تھا کہ اچانک مجھے یاد آیا کہ میری آبائی ڈیوڑھی یہاں سے زیادہ دور نہیں ہے ۔ میں نے رکشے والے کو رفتار دھیمی کرنے کا اشارہ کیا ۔ وہ مجھے چیلی پورہ سے لے کر آگے بڑھا ہی تھا کہ مجھے وہ تاریخی پولس چؤکی نظر آگئی جس کے اوپر مسجد بنی ہوئی تھی ۔ اس کے پائین گزرنے والی گلی ہی مجھے میرے گھر تک پہنچا سکتی تھی ۔ میں رکشے سے نیچے اُتر گیا ۔ اب مجھے اس چھوٹی سی گلی سے گزرنا تھا جہاں ایک قدیم برگد کا درخت میرا استقبال کرے گا لیکن جونہی میں نے گلی میں قدم رکھا برگد کا پُرانا درحت غائب تھا ۔ اُس کے مقابل شبیر حسین کی ڈیوڑھی اور امام باڑہ عہدِ رفتہ کی یاد دلا رہے تھے ۔ میں تیزی سے اپنی آبائی ڈیوڑھی کی طرف بڑھا ۔ میری آنکھوں میں پھر سے ایک بار ڈیوڑھی کا کبھی نہ بند ہونے والا بلند دروازہ ، پھر چنبیلی کا منڈوا ، کویلوؤںسے ڈھکا ہوا ورانڈہ ، تین کمانیں ، داداجان کا کمرہ ، اُن کا تحت ، جائے نماز ، کلامِ پاک ، تسبیح ، ڈیوڑھی کا بالائی حصّہ ، زینہ ، کمرے در کمرے دالان ، سبھی کچھ اُبھر آئے ۔ میں تیز تیز قدم اُٹھانے لگا ، لیکن جونہی میں نے گلی پار کی میری حیرت کی انتہا نہ رہی ۔ ڈیوڑئی غائب تھی ۔ اس کی جگہ ایک عالیشان پانچ منزلہ عمارت مجھے منہ چڑھا رہی تھی ۔ اس کے دروا زے اور کھڑکیاں بند تھیں ۔ مجھے شدید جھٹکا سا لگا ۔ عقب کے امام باڑے سے نوحہ گر کی آوازیں بلند ہو رہی تھیں ،
ائے مسیح دوعالم خبر لیجیے
آخری سانس باقی ہے بیمار میں
المدد ناخدائے جہاں المدد
کشتیِ زیست ہے آج منجدھار میں
میری آنکھیں بھر آئیں اور میرے روم روم سے آوازیں گونجنے لگیں ۔۔۔ داداجان میں آگیا ہوں ۔۔۔داداجان ۔۔میں۔۔۔
لیکن کوئی جواب دینے والا نہیں تھا ۔ دروازے اور کھڑکیاں بند تھیں اور میرے اندر سے اُٹھنے والی چیخیں آوازجرس بن کر اندرگھٹ رہی تھیں ۔ میں بہت پہلے ہی اپنے خاندان پر رو چکا تھا اور اب ڈیورھی کا ماتم دار تھا ۔ دور سے مرثیہ خوانی گونج رہی تھی ،
میں غریب الفکر ہوں تو ہے رئیسِ کائنات
اپنے مدحت خواں کی جانب اک نگاہِ التفات
ماورا میرے خیالوں سے تیر ا حسن ِ ذات
مجھ کو دے دے میرے مولا ساغرِ علمِ حیات
وارثِ نہج البلاغہ مصحف ِ ناطق مدد
ائے حسین ابنِ علی ائے فاقہ کش رزاق مدد
میں نے نظریں اوپر اُٹھائیں اور آسمان کی طرف دیکھا ، کیا میرے سارے ہی پُرکھوں کی روحیں ٹوٹی پھوٹی قبروں میں چلی گئیں ؟
اچانک میرے اندر ایک شور اُٹھا ۔ ہمارے لیے تو ٹو ٹی پھوٹی قبریں بھی باقی نہیں رہیں ۔ ۔۔ قبریں وہی باقی رہتی ہیں جن کے ورثہ حاضری دیتے ہیں ۔ اب ہمیں نہ تو آواز دینا اور نا ہی ہمیں ڈھونڈھنے کی کوشش کر نا ۔ اب ہمارا کوئی پتہ باقی نہیں رہا ۔
میرا دل چاہا کہ میں دھاڑیں مار مار کر روؤں لیکن میں رو بھی نہیں سکا ۔ میرے کانوں میں آوازیں گونج رہی تھیں ۔۔۔ ’’ ہائے امامِ مظلوم ! آپ کے عزیز اور چہیتے باقی نہ رہے ۔۔۔ ہائے امامِ مظلوم آپ سے آپ کا مدینہ چھوٹ گیا ۔۔۔ ہائے امامِ مظلوم ! آپ کی سکینہ بے سہارا ہوگئیں ۔۔۔ ہائے امامِ مظلوم ! آپ کا سب کچھ لُٹ گیا ۔۔۔ ہائے امامِ مظلوم ! آپ کس کس پر صبر کریں گے ؟ ۔۔۔
میں غم سے نڈھال بہت دیر تک سکتے کی حالت میں ڈوبا رہا اور پھر بوجھل قدموں سے چلتا ہوا جیسے ہی امام باڑے میں داخل ہوا ۔ وہاں ماتم اپنے نقطئہ عروج پر تھا ۔ سینے پر پڑنے والی ہر ضرب اور منہ سے نکلنے والی ہر آواز تشنہ شد یا حسین راست میرے دل پر بجلی بن کر گر رہی تھی ۔ ماتم داروں میں میں بھی شامل ہوگیا ۔ میری آنکھوں سے آنسووں کی برسات ہورہی تھی اور میری زبان سے پورے کرب کے ساتھ آوازیں نکل رہی تھیں ،
ہائے تشنہ شد یا حسین
ہائے تشنہ شد یا حسین
ہائے تشنہ شد یا حسین ۔
تمام شد