”چل میرے گھوڑے ٹک ٹک ٹک۔ امی راکا کو باہر لے چلو نا۔ مجھے اس کی سواری کرنی ہے“ چھوٹا عامر طبیلے میں بندھے گھوڑے پر بیٹھا اپنی ماں سارہ سے اپنی خواہش کا اظہار کررہا تھا۔
”نہیں عامر بیٹا ابھی کیسے باہر جاسکتے ہیں۔ باہر تو سارا بند پڑا ہے۔“ گھوڑے کے سامنے گھاس ڈال رہی سارہ نے بڑے پیار سے عامر کو گھوڑے سے اتارتے ہوئے کہا۔ یہ تھوڑی ہی گھاس بچی تھی جو وہ آخری بار گھوڑے کو کھلا رہی تھی اس کے بعد ان کے پاس ایک تنکابھی نہیں بچا تھا جو وہ آج شام گھوڑے کو کھلا دیتے۔
سرتاج کے دل میں مایوسی اور آنکھوں میں اداسیاں ڈیرہ ڈال چکی تھیں۔ وہ اپنی ماں،اپنی بیوی سارہ اور بچوں سے آنکھیں چرارہا تھا۔ غربت کی منحوس دیوی اس کے گھر ڈیرہ ڈال چکی تھی۔ وہ ڈر کر بھاگ گیا ہوتا اگر اسے یہ احساس کچوکے نہ لگاتا کہ وہ سارے پریوار کا واحد کفیل ہے۔
”کچھ کرو سرتاج۔ بچے بھوکے ہیں؟“ سارہ نے اس کے تناؤ بھرے چہرے کی طرف دیکھے بغیر کہا تو سرتاج اور زیادہ گھبراگیا۔
یہ کرفیو کا کالا د یو اب کی بار شہروں کو چھوڑ کر قصبوں اور گاؤں کی ہر ڈگر، ہر پگڈنڈی اور کھیت کھلیانوں کو اپنے خونی پنجوں میں دبوچ چکاتھا۔ کھلے آنگن، دھول بھری گلیاں۔ کیچڑ سے لت پت ارورمرور اور آبڑ کھابڑ راستے سب بند ہوچکے تھے۔یہ کرفیو کا دوسرا مہینہ جاری تھا۔ ان دو مہینوں میں جلسے جلوس جاری تھے۔کہیں کہیں پر جھڑپیں۔شیلنگ اورفائرنگ بھی ہوتی رہتی تھی۔ سیب، اخروٹ، بید اور سفیدوں کے بڑے بڑے باغات میں جہاں کبھی شگوفے پھوٹتے اور سبزہ اگتا تھا اب وہاں خون کے فوارے پھوٹ رہے تھے۔ ہر دن کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی مارا جاتا تھا۔ مرنے والوں کی تعداد سو کے قریب اور زخمیوں کی تعداد ہزاروں ہوگئی تھی۔ ہڑتال کی وجہ سے بازار بند۔ ٹریفک بند۔ فون اور انٹرنیٹ بند۔ غرض زندگی جینے کے سارے وسیلے عنقا۔ بھوک و افلاس دروازوں پر دستک دے رہے تھے۔کئی گھروں میں کنستر خالی ہوچکے تھے۔آس پڑوس کی محلہ کمیٹیاں جو ریلیف کے نام پر خیرات بانٹ رہی تھیں۔ وہ بھی اپنا بوریا بسترسمیٹ چکی تھیں۔ سودا سلف لانا مشکل ہورہاتھا۔ رات دیر گئے کسی کوچے میں چوری چھپے کوئی جنرل اسٹور کھل بھی جاتا تھا تووہاں بھیڑ اتنی زیادہ ہوجاتی تھی کہ دکاندار کو اپنے گھر والے بھی مدد کے لئے رکھنے پڑتے تھے۔ کوئی پیسے لے رہا ہے تو کوئی راشن دے رہا ہے۔کئی لوگ تو پیسے دے کر بھی آدھا آدھا گھنٹہ انتظار میں کھڑا رہتے تھے۔ سرتاج کئی دفعہ دکان کے نزدیک گیا لیکن اس جمگھٹے میں اتنے لوگوں کے سامنے دکاندار سے سوداسلف مانگنے کی ہمت ہی مجتمع نہیں کرپا رہا تھا۔ سوچ رہا تھا کہ سب کے سامنے کیسے دکاندار سے ادھار مانگے گا۔ اس کی ماں، بیوی اور بچے دو دن سے صرف چاول کے سوتو اور نمکین چائے پر گذارہ کر رہے تھے۔ ریلیف میں جو چند کھلے بسکٹ ملے تھے ان کا ذائقہ بھی خراب ہوچکا تھا۔ کل شام جب کھانے کے لئے کچھ نہیں بچا تھا تو بچوں نے وہی بدبودار بسکٹ نمکین چائے کے ساتھ کھالئے تھے۔
سرتاج گھوڑا بان تھا۔ اس کے پاس خوبصورت گھوڑاتھا جس کا نام اس نے ایک انگریز کے نام پر راکا رکھا تھا۔ وہ ہر سال راکا کو لے کر پہلگام جاتا تھا۔ پہلگام جو کشمیر کا سب سے زیادہ پرکشش اور خوبصورت صحت افزا مقام ہے۔ یہاں مزہ کرنے کے لئے گھوڑ سواری سب سے بڑا شوق ہے اور دنیا کے کونے کونے سے اس کے شائقین آتے رہتے ہیں۔ یہاں کا ٹورسٹ سیزن اپریل سے شر وع ہوکر اکتوبر نومبر تک ہی رہتا تھا لیکن اب کچھ سالوں سے ٹورسٹ کو برف دیکھنے کا چسکہ بڑھنے لگا تو پہلگام کے ہوٹل والے، دکاندار، مزدوروں کے ساتھ ساتھ گھوڑے بانوں کا بھی اچھاخاصا کام چل نکلا تھا۔ سرتاج غریب آدمی تھا۔ جب مزدوری مل جاتی تھی اس دن مزے سے کھانا کھاتے تھے ورنہ اکثر چاول اور چٹنی پر ہی گذارہ کرنا پڑتا تھا۔ پھر دن رات مزدوری کرکے کچھ پیسہ بچاکر اس نے بڑی مشکل سے راکا کو خریدا تھا۔ راکا شاندار گھوڑا تھا اورسارے پہلگام میں راکا کی وجہ سے سرتاج بھی بہت مشہور ہوچکا تھا۔ گھوڑ سواری کے شوقین سیاح دور سے ہی دیکھ کے راکا کو پسند کرتے تھے۔جب سے سرتاج راکا کو لیکر پہلگام آیا تب سے ان کے گھریلو حالات میں تھوڑا بہت سدھار بھی آگیا تھا ۔۔۔ سرتاج جتنا کماتا تھا وہ سب خرچ کردیتا تھا۔۔۔ ماں بیوی اور بچوں کو خوش رکھنے کی کوشش کرتا تھا۔اس کے بچے اب اسکول بھی جانے لگے تھے۔ بیوی خوش تھی۔ ماں ہر نماز میں دعا ئیں مانگتی تھی۔وہ جب بھی پہلگام سے گھر آتا تھا۔ بچوں کے لئے کوئی نہ کوئی کھلونا، سارہ کے لئے کوئی سامان اور ماں کی پسند کی پنیر ضرور لاتا تھا۔
سب کچھ صحیح جارہاتھا کہ اچانک حالات بگاڑ دیئے گئے۔ سیاحوں کو وادی چھوڑنے کا سرکاری آدیش دیا گیا۔ خراب حالات کی وجہ سے سارے ٹورسٹ بھاگ گئے۔ پہلگام سوناپڑ گیا۔ ہوٹل والے، دکاندار ، مزدور سب گھروں کو واپس لوٹ آئے۔ سرتاج بھی راکا کوکرلے کرگھر آگیا۔ گھر آکر کچھ دن ٹھیک سے گذرے۔ لیکن کتنے دن۔ ابھی کام شروع ہی ہوا تھا کہ یہ افتاد پڑگئی۔ گھر میں جو جمع پونجی تھی وہ سب ختم ہوگئی۔اب کھانے کے لالے پڑھ رہے تھے۔ کرفیو کے دن بڑھائے جارہے تھے۔ اڑوس پڑوس سے بھی اب کوئی توقع نہ رہی تھی۔
پیٹ خالی ہوتو ہرچیز دھندلی دھندلی نظر آنے لگتی ہے۔ ہاتھ خالی ہوتو برے برے سپنے آتے ہیں۔ گھر میں پیسہ بچا تھا نہ کھانے کا کوئی سامان۔ بھوک سے پیٹ جلنے لگے تھے۔ بچے کھانا مانگ رہے تھے۔ سرتاج کو اپنے سے زیادہ راکا کی فکر لگی تھی۔ اس کا ایک دن کا کھانا ان کے خاندان کے لئے دس دن چل سکتا تھا۔ ان حالات میں جب کھانے کے لالے پڑرہے ہوں تو گھوڑے کا کیا کریں۔ یہی وہ ساری چیزیں تھیں جس کے لئے سرتاج کے ساتھ ساتھ اس کی ماں اور بیوی بھی بہت پریشان ہورہی تھیں۔
” کسی سے ادھار مانگ لے سرتاج۔“
”سارہ تم بھی کیسی باتیں کرہی ہو۔ تم کو کیا لگتا ہے۔میں نے بچوں کے واسطے کسی سے نہیں مانگا ہوگا۔کس کس کے سامنے ہاتھ نہ پھیلائے۔ کسی نے ہاتھ سہلایا توکسی نے ٹرخادیا۔ جو قریب کے لوگ ہیں وہ میرے جیسے ہی محتاج ہیں۔ مجھ ہی سے مانگ کر مجھ کو شرمندہ کررہے ہیں۔ اب تو بس ایک ہی سہارا ہے۔“
وہ رات سرتاج اور سارہ نے آنکھوں میں کاٹ لی۔ وہ صبح صادق تک اپنی بیوی کے ساتھ صلاح مشورہ کرتا رہا اور آخر وہ دل دہلانے والا فیصلہ سنایا جسے سن کر سارہ کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ وہ بہت چیخی چلائی۔ لیکن سرتاج کو گھر چلانے کے لئے پیسہ چاہئے تھا اور پیسہ آنے کا اورکوئی آسان راستہ اسے سجھائی نہیں دے رہاتھا۔ وہ بڑی مشکل سے بیوی کو سمجھانے میں کامیاب ہوگیا۔ آخر نہ چا ہتے ہوئے بھی سارہ نے اس کے فیصلے کے سامنے سر جھکا لیا۔۔۔
خیالات۔ احساسات۔ اور جذبات اگر منتشر بھی ہوں۔۔۔ ان کو یکجا کرنے اور ایک ڈگر پہ لانے کے لئے تحفظات کا ایک پُل فراہم کیا جائے توسب اپنے راستے پر لوٹ آتے ہیں۔ نہیں تو انسان بکھر کے رہ جاتا ہے۔ اور سرتاج پوری طرح ٹوٹ چکا تھا۔ بکھر چکاتھا۔
آج رات دیر گئے جب ماں اور بچے سو گئے۔ سرتاج نے سارہ کوساتھ لیا۔ او ر دونوں طبیلے میں راکا کے پاس پہنچ گئے۔ گھوڑے نے مالک اور مالکن کو آتے دیکھا تواس کی باچھیں کھل گئیں۔ وہ ہنہنایا۔لیکن اس کے منہ سے نحیف آواز نکل رہی تھی۔ راکا بہت زیادہ لاغر اور کمزور ہوچکا تھا۔ سرتاج نے بڑے دکھ کے ساتھ اس کی گردن پر ہاتھ پھیرا تو گھوڑے نے مستی سے سر اوپر اٹھایا اور پیار سے تھوتنی سرتاج کے کاندھے پر رکھ دی۔
”نا سرتاج نا۔۔۔ میرا راکا نہ لے جا۔۔۔ میرا بیٹا، میرا سہارا نہ لے جا“
”میں مجبور ہوں سارہ۔ میں مجبور ہوں۔ میرے بچوں کی بھوک مجھ سے برداشت نہیں ہوتی۔مجھ سے تیری اداس آنکھوں کی ویرانی اور ماں کے سوکھے ہونٹوں پربھوک سے جمی کایا دیکھی نہیں جاتی۔ راکا میرا گھو ڑا نہیں میرابیٹا ہے۔ میرا بڑا بیٹا۔ میرا سہارا۔پر میں کیا کروں۔ تم اسے میری خود غرضی کہہ لو لیکن مجھے میرے بچوں کی جان راکا سے زیادہ پیاری ہے۔ اور تم لوگوں کی خاطراگر مجھے اپنی جان بھی بیچنی پڑے تو میں وہ بھی کرلوں گا۔ راکا ہمارا آخری سہارا ہے اور جاتے جاتے بھی یہ ہمیں سہارا دے کے ہی تو جارہا ہے۔“
سارہ نے راکا کا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے لیا اور اسے بے تحاشہ چومنے لگی۔ وہ ساتھ ساتھ روئے بھی جارہی تھی۔ اس کی ہچکی بندھ چکی تھی۔ سرتاج نے بڑی مشکل سے اسے چپ کرایا۔ دونوں نے راکا کی لگام پکڑلی اور اسے طبیلے سے باہر نکال لائے۔ راکا ہر بات سے بے خبر بڑی شان سے اپنے مالک اور مالکن کے ساتھ آگے بڑھ رہا تھا۔ سرتاج نے سارہ کوواپس گھر بھیج دیا اور خود رات کے اندھیرے میں راکا کو لے کر اپنے گاؤں سے نکل آیا۔۔۔
توقع سے بھی کم پیسے ہاتھ میں لے کر سرتاج کو بہت دکھ ہورہا تھا۔ وہ الٹ پلٹ کر پیسے بار بار گن رہا تھا۔
”دیکھو سرتاج ان حالات میں تیرا گھوڑا کوئی نہیں خریدے گا ۔۔۔ یہ جرم ہے جو میں کرہا ہوں۔ لیکن میں اس سے زیادہ پیسے نہیں دے سکتا۔ میں نے جتنے پیسے دیئے نا وہ بھی بہت ہیں۔ اور ہاں یہ کسی کو کانوں کان خبر نہیں لگنی چاہئے۔ ورنہ دونوں قانون کی زد میں آجائیں گے“
سرتاج ہچکچا رہا تھا۔ اس نے حسرت سے راکا کی طرف دیکھا۔ راکا کی آسیب زدہ آنکھوں میں اسے بھوک کے خوفناک سائے تیرتے ہوئے نظر آرہے تھے۔ اس کی آنکھیں بھر آئیں۔ اس نے نمی میں تر اپنی آنکھیں بند کرلیں۔ وہ راکا سے زیا دہ اپنے بچوں کے لئے فکرمند تھا۔ اس نے بڑی بے دلی کے ساتھ پیسے جیب میں ڈال لئے اور راکا کو لے کرقصائی کے ساتھ مذبح خانے کے اندر چلاگیا۔۔۔
مضمون کیسے لکھا جائے؟
مضمون کیسے لکھا جائے؟ بطور مڈل اسکول، ہائی اسکول یا پھرکالج اسٹوڈنٹ ہر کسی کا واسطہ ایک نہیں بلکہ بیشترمرتبہ...