کمرہ لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔حقیقی معنوں میں کھوے سے کھوا چھل رہا تھا۔
”بھائی ڈاکٹر صاحب کب تک آجائیں گے؟“بھانت بھانت کی آوازوں میں ایک کمزور سی آواز سن کر میں نے سر اٹھایا۔شلوارقمیص میں ملبوس ایک درمیانی عمر کا آدمی ڈسپینسر کم ریسیشنسٹ سے مخاطب تھا۔”بس آتے ہی ہوں گے۔آپ اب تک کوئی چار بار پوچھ چکے ہیں۔“ڈسپینسر نے جھلا کر جواب دیا۔
”بھائی نو بجے کا ٹائم ہےاب تو ساڑے نو سے بھی اوپر ہوچکے ہیں۔کام پر بھی جانا ہے ہمیں۔“آدمی نے کمزور سا احتجاج کیا۔
”ارے تو میں کیا کر سکتاہوں کہیں ٹریفک میں پھنس گئے ہوں گے۔آئیں گے تو یہیں سامنے سے گزریں گے ۔پوچھ لینا ان سے۔“ڈسپینسر نے برا سا منہ بنا کر کہا۔
یہ کراچی کے علاقے صدر کے ایک کلینک کا منظر ہے۔ڈاکٹر صاحب ایک مخصوص کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔اس کمیونٹی کے مریضوں سے یہ کلینک ہمیشہ ناک تک بھرا رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب ہمیشہ ادویات بنانے والے کمپنیوں کے منظور نظر رہتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کو بھی اس بات کا بہ خوبی علم ہے اسی لیے وہ اسے اچھی طرح کیش بھی کرتے ہیں۔
میرا تعلق بھی ملک کے ایک بڑے دوا ساز ادارے سے ہے۔میں اسی سلسلے میں ڈاکٹر صاحب کے انتظار میں بیٹھا تھا۔
تھوڑی دیر میں ڈاکٹر صاحب آگئے۔۔۔ڈاکٹر صاحب آگئے۔۔ کاغلغلہ اٹھا۔میں سکون سے بیٹھا رہا لیکن مریضوں میں کھلبلی مچ چکی تھی۔
ریسیپشنسٹ بھی الرٹ ہو گیا۔سامنے سے قیمتی شلوار قمیض سوٹ اور کوٹ میں ملبوس ڈاکٹر صاحب آتے دکھائی دیے۔پیچھے ان کا ملازم بریف کیس لیے چلا آرہا تھا۔
نظریں نیچی کیے ہاتھ کے اشارے سے مریضوںکےسلام کا جواب دیتے ڈاکٹر صاحب نے نظر اٹھا کے میری جانب دیکھا اور اشارے سے پیچھے آنے کو کہا۔
میں سنبھل کر کھڑا ہو گیا۔”بھائی میرا پہلا نمبر ہے۔“میں نے پیچھے اسی آدمی کی آواز سنی ۔
‘ہاں ہاں بھائی آپ کا ہی نمبر ہے ڈاکٹر صاحب کو بیٹھ تو لینے دو۔“میں ان دونوں کو الجھتا چھوڑ کر ڈاکٹر صاحب کے چیمبر میں داخل ہو گیا۔
”السلام علیکم سر!“میں نے خوش دلی سے کہا اور ان کے سجے سجائے چیمبر پر ایک نگاہ ڈالی۔
”آؤ آؤ امجد بیٹھو ،کیا حال ہیں؟“ڈاکٹر صاحب نے بے تکلفی سے کہا۔
”الحمد اللہ ۔۔۔بالکل ٹھیک۔آپ کے لیے اچھی خبر ملی توپہلی فرصت میں چلا آیا۔آپ کا کام ہو گیا ہے۔“
”ارے واہ اتنی جلدی۔۔۔امجد تم بہت بریلیئنٹ لڑکے ہو،بہت آگے جاؤ گے۔تم سے پہلے جو بند ہ تھا وہ بس پڑھنے پڑھانے کی باتیں کرتا رہتا تھا۔کوئی کام بول دو تو اس کی میّا مر جاتی تھی۔تم بھی تو ہو آخر۔“ڈاکٹر صاحب کے لہجے سے خوشی پھوٹی پڑ رہی تھی۔
”سر سب کا اپنا اپنا طریقہ ہے کام کرنے کا۔کل ان شاءاللہ آپ کے فیورٹ برینڈ کے مطلوبہ ماڈل کا فریج آپ کے گھر پہنچ جائے گا۔میں خود جاؤں گا پہنچانے اور بھابی جی کی تسلی کروا کر ہی آؤں گا۔“میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”زبردست ہو گیا۔تمہاری بھابی کب سے پیچھے پڑی تھی کہ یہی ماڈرن فریج چاہیے خوش ہو جائے گی۔“ڈاکٹر صاحب خوش دلی سے بولے۔
اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی۔اسی مریض نے اندر جھانکا اور اشارے سے اندر آنے کی اجازت مانگی۔اجازت ملنے پراس کے ساتھ برقعے میں ملبوس تقریبا اسی کی عمر کی ایک عورت بھی پیچھے پیچھے اندر آئی۔اس عورت کو میں نے باہر انتظار گاہ میں نوٹس نہیں کیا تھا ۔
دونوں آکر ڈاکٹرصاحب کے سامنے کرسیوں پر بیٹھ گئے۔
”اب سر آپ نے خیال رکھنا ہےمیرا۔“میں نے مطلب کی بات پر آتے ہوئے کہا۔
”ارے تم فکر ہی نہ کرو ۔بس دیکھتے جاؤ۔“ڈاکٹر صاحب نے مریض کی جانب متوجہ ہوتے ہوئے کہا؛”جی فرمائیے۔“
مریض نےجھجھکتے ہوئے میری جانب دیکھاجیسے وہ میری موجودگی میں بات کرنا نہ چاہ رہا ہو۔میں نے معاملہ سمجھ کر اٹھنے کی کوشش کی لیکن ڈاکٹر صاحب نے اشارے سے مجھے بیٹھنے کے لیے کہا اور ساتھ ہی مریض سے بولے؛”یہ بھی ڈاکٹر ہی ہیں ان سے کیا پردہ آپ اپنا مسئلہ بتائیے۔“
ڈاکٹر صاحب کی بات سن کر میں دوبارہ اپنی نشست پر ٹک گیا۔
”وہ دراصل مسئلہ یہ ہے کہ ۔۔۔“آدمی نے دھیرے دھیرے بولنا شروع کیا۔”ہماری شادی کو آٹھ سال ہوچکے ہیں اولاد نہیں ہو سکی اب تک۔“کافی جگہ دکھایا لیکن بات نہیں بنی۔ابھی ایک جگہ دکھایا تھا انہوں نے رپورٹ دیکھ کر منع کردیا کہ آپ کو اولاد نہیں ہو سکتی۔“
”ارے ایسا کیا۔۔۔“ڈاکٹر صاحب چونک کر بولے۔”رپورٹ لائے ہو؟“
”جی جی لائے ہیں“۔۔۔عورت ہاتھ میں پکڑے تھیلے میں کاغذ ڈھونڈنے لگی۔
کسی نے ہمیںآپ کے بارے میں بتایا کہ آپ کے ہاتھ میں بہت شفا تو ہم آپ کے پاس چلے آئے۔“
اتنے میں عورت نے رپورٹ نکال کر ڈاکٹر صاحب کو پکڑادی۔”اچھا کیا۔۔۔لیکن بھائی شفا تو اللہ کے ہاتھ میں ہے ہم تو کوشش ہی کر سکتے ہیں۔“ڈاکٹر صاحب نے روایتی تسلی آمیز جملہ دہرایا اور چشمہ اوپر کرکے رپورٹ پڑھنے لگے۔میں نے دیکھا رپورٹ پر شہر کے ایک مہنگے اور جانے مانے اسپتال کی لیبارٹری کامونوگرام دور سےہی نظر آرہا تھا۔
ڈاکٹر صاحب نے ایک نظر دونوں میاں بیوی پر ڈالی اور بولے؛”یہ ٹیسٹ دوبارہ کرواناہوگا لیکن اس لیبارٹری سے نہیں،جس کا نام میں لکھ رہا ہوں اس سے کروائیں۔“
”لیکن ڈاکٹر صاحب یہ لیبارٹری تو بہت مشہوراور مہنگی ہے۔“مریض نے حیرانی سے کہا۔
”ہوگی۔مجھ سے علاج کروانا ہے تو اسی جگہ سے ٹیسٹ کروانا ہوگاجس سے میں مطمئن ہوں۔“ڈاکٹر صاحب خشک لہجے میں بولے۔
”جی جی ٹھیک ہے کروالیتے ہیں یہاں سے بھی۔“اس بار عورت نے جواب دیا۔
”میں ایک طاقت کی دوا لکھ رہا ہے آپ دونوں نے یہ تین ماہ تک مسلسل بلا ناغہ کھانی ہے“، اورنسخے پر میری ٹارگٹڈ دوا لکھ دی ۔سر اٹھاکر میری جانب دیکھا اور خفیف سا اشارہ کیا۔
میں نے بھی مسکرا کر ان کی بات سمجھنے کا عندیہ دیا۔
”ٹیسٹ کروا کر اور یہ دوا لے کر اگلے ہفتے تشریف لائیں ۔“ڈاکٹر صاحب نے کہا۔
”ٹھیک ہے ڈاکٹر صاحب،شکریہ ۔“مرد نے کاغذات کا تھیلا اٹھایا اور دونوں کمرے سے باہرنکل گئے۔
میں نے ہنستے ہوئے کہا؛”وہ تو بڑی مستند لیبارٹری کی رپورٹ تھی اور اگر اس میں کورا جواب تھا تو ۔۔۔۔“میں نے بات ادھوری چھوڑ دی۔
”ٹھیک کہ رہے ہو۔“ڈاکٹر صاحب بولے؛”بھائی رزق خود چل کر آیا ہے تو کفرانِ نعمت تو نہیں کر سکتے نا۔ہمیں بھی پیٹ پالنا ہے اپنا ۔۔۔۔اور تمہارا فریج بھی تو حلال کرنا ہے کہ نہیں ۔۔۔۔“
میں پھیکی سی ہنسی ہنس کر چپ ہوگیا۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...