“رحمت ہو تجھ پر اے اللہ کی بندی، تیرا در سخی کا در اس سوالی کا سوال پورا کر ۔”
اس گونج دار فریاد کے ساتھ ہی آمین آمین کی مترنم تکرار سے سناٹے میں ڈوبا پورا کاریڈور دھمک اٹھا ۔ چند ہی ساعتوں میں یوں لگا جیسے کسی نے ‘سن رائز اپارٹمنٹ’ کی مردنی چھائی اس سات منزلہ عمارت میں نئی جان پھونک دی ہو ۔ دروازے دھڑا دھڑ کھلنے اور بند ہونے لگے ۔ اپارٹمنٹ کے دیگر مکینوں کی طرح میں بھی چونک پڑا ۔ مگر اگلے ہی پل میرے ذہن کے پردے پر بابا پیر شُکراللہ کے آستانے کی متبرک تصویر اپنی تمام تر جزیات کے ساتھ متحرک ہو اٹھی ۔ تصویر کا نقش اتنا گہرا تھا کہ میں لوبان کی خوشبو تک محسوس کرنے لگا ۔ مجھے یقین ہوگیا کہ یہ وہی مست فقیر بابا سلیم ہیں، جو سات آٹھ فقیروں کو ساتھ لیے دو برس پہلے تک ہر سال ہمارے گھر آتے رہے تھے ۔ لہذا میں نے دروازہ کھولنے سے پہلے بہو کو آواز دی کہ وہ ڈرائنگ روم کو ذرا دیکھ لے ۔ پھر کچھ توقف سے دروازے کی طرف بڑھا ۔ بہو فوزیہ نے بڑی سرعت سے ٹی پائی پر رکھے برتن اٹھائے، سوفے وغیرہ کی شیٹس اور کھڑکیوں کے پردے درست کیے ۔
میں نے دروازہ کھول کر ان کا استقبال کیا اور پورے احترام کے ساتھ انھیں اندر لے آیا ۔ جیسے ہی فقیروں کی یہ ٹولی اندر داخل ہوئی پورا گھر خس کی روح پرور خوشبو سے معطر ہوگیا ۔ ان کے سروں پر بندھے سبز رنگ عمامے اور ٹخنوں تک جُھل رہے ہرے ہرے جبوں کو دیکھ کر محسوس ہو رہا تھا جیسے عطرِ خس اپنا رنگ بھی ساتھ لایا ہے ۔ بہو نے پردے کی آڑ سے ٹھنڈے پانی کی بوتلیں اور کانچ کے خالی گلاس ایک خوبصورت سِرامک ٹرے میں رکھ کر مجھے سونپے ۔
مجھے بابا سلیم کے علاوہ ان میں سے کسی کی بھی صورت یاد نہیں تھی مگر یہ یقین تھا کہ یہی سات آٹھ فقیر بابا سلیم کے ساتھ ہمارے یہاں دعوت پر آتے رہے تھے ۔ ان کے جُبّے اجلے اور جھولیاں دھلی ہوئی تھیں، مگر چہرے دھوپ کی تمازت سے جھلسے ہوئے نظر آ رہے تھے ۔ بھوک ان کی الجھی ہوئی داڑھیوں میں اٹکی پڑی صاف دکھائی دیتی تھی ۔ بابا سلیم کا حال بھی تقریباً ایسا ہی تھا ۔ پہلے تو انھوں نے بہ نظر غائر ڈرائنگ روم کا جائزہ لیا ، پھر کچھ کہنا چاہا، لیکن لفظ ان کے کپکپاتے ہونٹوں کو چھو کر لوٹ گئے ۔ بعد ازاں عصا اور کاسے کو ایک طرف رکھا اور درمیان میں رکھے سنگل صوفے پر اس انداز بیٹھ گئے جیسے مراقبے میں بیٹھے ہوں ۔ پانی پیش کر دینے کے بعد میں نے دیکھا فقیروں کے چہروں پر بھی مغائرت تھی اور اسی اجنبیت سے وہ نظر گھما گھما کر دیوار کے ٹیکسچر کلر کو تو کبھی چھت کے پی اوپی اور اس میں لگی ایل ای ڈی لائٹس کی کاریگری کو دیکھ رہے تھے ۔
بابا سلیم یوں تو گویا دھیان لگائے بیٹھے تھے لیکن بار بار ان کی نظر کچن کے دروازے پر دستک دے رہی تھی ۔ مجھے یہ سمجھنے میں زیادہ دیر نہیں لگی کہ وہ ریحانہ کی عدم موجودگی کو محسوس کر رہے ہیں ۔ ہمارے خانوادے سے ان کے تعلق کی واحد کڑی میری بیوی ریحانہ تھی ۔ گھر میں ریحانہ کے علاوہ انھیں کوئی سمجھ نہیں پاتا تھا اور وہ بھی گویا ہم میں سے صرف ریحانہ ہی کو جانتے تھے ۔ ان کا ویسا سروکار گھر کے دوسرے کسی فرد سے رہا بھی نہ تھا ۔ آج بھی ان کی صدا کا راست تخاطب اللہ کی سخی بندی یعنی ریحانہ ہی سے تھا ۔
ریحانہ کو اولیائے کرام پر حد درجہ اعتقاد تھا ۔ پیر باباؤں کے آستانوں پر جانا، منتیں ماننا، نذر و نیاز کرنا اور درگاہ کے فقیروں کی غم گساری کرنا اس کا دینی فریضہ تھا ۔ پیر بابا شکر اللہ سے اسے خاص عقیدت تھی ۔ ہر تین چار مہینوں کے درمیان چالیس کلو میٹر کا سفر طے کر کے ان کی مزار پر حاضری دینے جایا کرتی تھی ۔ قلندرانہ صفت رکھنے والے مست فقیر بابا سلیم انھی پیر بابا شکراللہ کے در کے سائل تھے ۔ یہیں ریحانہ ان سے پہلی بار ملی اور ان کے زہد و تقوے سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی ۔ تبھی سے بابا سلیم، ولی اللہ پیر بابا شکراللہ کے صندل پر ہر سال ہمارے گھر دعوت کھانے آنے لگے تھے ۔ میں برسوں سے اس پر تکلف دعوت کا شاہد رہا ہوں ، اور ‘بے اختیار’ میزبان بھی ۔
میں نے دیکھا بابا سلیم کی بے چینی بڑھتی جا رہی ہے ۔ ریحانہ کی غیر حاضری اب انھیں کھلنے لگی تھی ۔ میرے لیے یہ حیرت اب تک بنی ہوئی تھی کہ جس کسی نے انھیں اس فلیٹ کا پتا دیا اس نے انھیں مزید کچھ کیوں نہیں بتایا !! سردست میں بھی انھیں اس وقت تک کچھ بھی بتانا نہیں چاہتا تھا جب تک میں انھیں پیٹ بھر کھانا کھلا کر اپنی نیک بیوی کی روایت کو قائم نہ کر لوں ۔ اسی بیچ دل کے کسی گوشے میں انچاہی مسرت کا ایک دیپ بھی جل اٹھا تھا، کہ آج میں ان فقیروں کا ‘با اختیار’ میزبان ہوں ۔ لیکن مجھے تھیلیاں لٹکائے بازار جانے کی ضرورت نہیں تھی ۔ گھر میں سب کچھ موجود تھا ۔ اناج، تیل اور مسالوں کے علاوہ فریج میں ہفتے بھر کا مٹن ،چکن اور سبزی؛ غرض کہ میرا بیٹا ارشد ہرا دھنیا، کڑی پتہ اور پودین ہرا تک ایک ہفتے کا اسٹاک کر کے رکھ لیتا ہے ۔
میرے کچن میں جا کر آنے کے کچھ دیر بعد ہی مکسر گرائنڈر کی گھُر گھُر اور پھر مزید کچھ دیر بعد کوکر کی سیٹی کی آواز سے ڈرائنگ روم میں بیٹھے فقیروں کی ریاضت میں جیسے خلل پڑ گیا ہو ۔ ابھی اس کیفیت سے محظوظ ہوئے بیس منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ مسالوں کی اشتہا انگیز مہک اڑنے لگی اور اب میری بھی بھوک مچل کر شدید ہوگئی ۔
مہک جب بگھونے میں کھل کھل کرتے دلیم کی اٹھتی تو مومن باڑے کی پوری رمضانی گلی کو مہکا دیتی تھی ۔ اس دن لنگر کا سا سماں ہوتا ۔ ریحانہ بڑے خلوص سے ان فقیروں کی دعوت کیا کرتی تھی ۔ دن کے شروع ہوتے ہی مسالے باٹ کر بِگُل بجا دیتی تو میرے بھی کان پھڑ پھڑا جاتے ۔ میں سرکاری ملازم کی طرح بے دلی سے تھیلیاں لٹکائے بازار کو روانہ ہوجاتا ۔ اس دن مزید دو سیگڑیوں کا انتظام کیا جاتا ۔ کسی پر دلیم تو کسی پر پلاؤ ۔ زردہ اکثر چھوٹی سیگڑی پر اور چھوٹی پتیلی میں پکتا ۔ اور گوشت کا سالن ہر دعوت کی مین ڈش ہوتا تھا ۔ دیر تک گفگیر ہلتی، کوچے چلتے، ڈھکنے ہٹائے اور ڈھانکے جاتے اور اخیر کار اگلے کمرے میں سبز قالین پر سرخ دسترخوان بچھ جاتے ۔ میری ذمہ داری آفتابہ لیے سلفچی میں مہمانوں کے ہاتھ دھلوانے سے لے کر اختتام پر دوبارہ ہاتھ دھلوانے تک محدود تھی ۔ اس مختصر دورانیے میں مجھے طباق اور رکابیوں کو بھرا ہوا رکھنا ہوتا تھا ۔ بعد از طعام سینی میں سجے لسی سے لبالب آب خوروں کو پیش کرنا یا پِرچ میں کھیر اتار اتار کر پلانا بھی میرے ذمے کا اہم کام تھا ۔ پھر کھانے سے فراغت کے بعد جب ریحانہ ان کا عشائیہ کمنڈلوں میں بھر دیتی تو کمنڈلوں کو پورے احترام کے ساتھ مہمانوں کے سپرد کرنا بھی میرے فرائض میں شامل تھا ۔
کچن سے آتی کانچ کے برتنوں کی جل ترنگ کی سی آواز سے میں اپنے فلیٹ میں واپس لوٹا ۔ یقیناً کھانا پک کر تیار چکا ہوگا ۔ اس قیاس کے ساتھ ہی میں نے نظر اٹھائی اور دیکھا کہ اب سچ مچ سبھی فقیر مراقبے کی سی کیفیت میں لگ رہے تھے ۔ ان کے چہروں پر اے سی کی ٹھنڈک کا سکون تھا، وگرنہ اپریل کی دھوپ تو ان کی صورتوں کو کباب بنائے ہوئے تھی ۔ اتنا وقت بیت جانے کے بعد بھی سب پر خاموشی چھائی ہوئی تھی، گویا سکینہ نازل ہو رہی ہو ۔ البتہ درمیان میں دو باتیں ضرور ہوئیں، لیکن ان دو باتوں میں ریحانہ کا ذکر کسی نے نہیں کیا ، میں نے، نہ ان میں سے کسی نے ۔ بابا سلیم نے میری اس دریافت پر کہ آپ لوگ پچھلے دو برس سے کیوں تشریف نہیں لائے، بتایا کہ دو سال سے وہ آٹھ سو کلومیٹر دور آستانہء یاوری سے کسب فیض کر رہے تھے ۔ ان کے اس جواب پر میرے ذہن میں ارشد کے الفاظ گونجے:
“چھوڑیے ابو، شاید انھیں امی کی خبر مل گئی ہوگی ۔ ”
یہ الفاظ ارشد نے مجھ سے پچھلے برس اس وقت کہے تھے جب میں ان فقیروں کی مسلسل دوسری بار غیر حاضری پر کچھ فکر مند سا ہوگیا تھا ۔ ارشد کے یہ الفاظ اس مزاج کے غماز تھے ۔ اسے ریحانہ کا مزاروں پر جانا، یوں فقیروں کو مہمان بنا کر گھر میں لانا بالکل پسند نہ تھا ۔ لیکن ریحانہ کی کھینچی ہوئی لکیر وہ کیسے پار کرتا ۔
اسی اثنا بابا سلیم نے فلیٹ کی تعریف کرتے ہوئے کہا : ” مکان اچھا بنایا ہے ۔” بابا کے یہ جملے میرے لیے غیر متوقع تھے ۔ ایک کاغذی مسکراہٹ میرے چہرے پر ابھری ۔ اسی اثنا مجھے بہو فوزیہ کا خیال گزرا جو اس وقت کچن میں اپنی تمام صلاحیتیں جھونک رہی تھی ۔ ابھی دو ڈھائی برس پہلے ہی وہ بہو بن کر اس گھر میں آئی اور بہت جلد دلوں میں گھر کر گئی ۔ اس نے اپنی خوش مزاجی اور سگھڑ پن سے گھر کو جنت بنائے رکھنے میں کوئی کسر رکھ نہیں چھوڑی ہے ۔ فوزیہ کی انھی خوبیوں کو دیکھ کر میں ارشد کے مستقبل سے مطمئن ہوجاتا ہوں ۔ میں فوزیہ کو اپنی ہی طرح معصوم اور فرما بردار بھی سمجھتا ہوں ۔ جس طرح مجھے گھر کے متعلق ریحانہ کے کسی فیصلے پر کبھی کوئی اعتراض نہیں رہا ویسے ہی اس نے بھی کبھی ارشد کے فیصلوں پر اعتراض نہیں کیا، نہ اس کے آگے سوچنے کی سعی کی ۔ ارشد کی ہر بات، ہر حکم کو وہ حرف آخر سمجھ کر تسلیم کرتی ہے ۔ ارشد نے مومن باڑے کا گھر بیچ کر راتوں رات ہمیں ‘سن رائز ‘اپارٹمنٹ میں شفٹ کروا دیا ۔ اس نے کچھ نہ کہا، اور نہ میں نے ۔ اور میں بھلا کہتا بھی کیا ! میں تو شروع ہی سے امور خانہ داری سے دور رہا ہوں، اور گھر کے ہر فیصلے پر چاہے ریحانہ کا فیصلہ ہو کہ ارشد کا ، بس اللھم خیر کہتا رہا ۔ اور حقیقت تو یہ بھی ہے کہ ریحانہ کسی طور اپنا گھر، اپنا محلہ چھوڑ کر کہیں اور جا کر رہنے کے لیے راضی نہیں تھی ۔ کسی اپارٹمنٹ میں تو قطعی نہیں، اس کے نزدیک فلیٹوں کی زندگی گوشہ نشینی کی زندگی تھی ۔ ارشد لاکھ دہائی دیتا لیکن وہ سرے سے انکار کر دیتی تھی ۔ حالانکہ وہ ارشد کے سوشل اسٹیٹس کو سمجھتی تھی ۔ لیکن اس نے ارشد کے جاب، اس کے کلچر اور اس کے دوستوں کو کبھی اپنے فیصلے میں رکاوٹ بننے نہیں دیا ۔
ادھر ظہر کی اذان کے لیے موذن نے کھنکارا اور ادھر بہو نے پردے کی آڑ سے کھانا لگ جانے کی اطلاع دی ۔ ‘آئیے’ کہتے ہوئے میں نے ہاتھ دھلوانے کے لیے سب سے واش بیسن کی طرف چلنے کی گزارش کی ۔ بابا سلیم کے نشست چھوڑتے ہی سبھی فقیر اٹھ کر ریل گاڑی کے ڈبوں کی مانند میرے پیچھے لگ گئے ۔ ہاتھ دھلوانے کے بعد میں انھیں ڈائننگ روم میں لے گیا، جہاں ڈائننگ ٹیبل پر کھانا سج چکا تھا ۔ ہر چند کہ وہ سب ایک عجب سی جھجک میں مبتلا تھے ، لیکن ان کی آنکھیں بھوک کو مات دینے کے جذبے سے چمک رہی تھیں ۔ ٹیبل پر بچھے پلاسٹک کے سلور دستر خوان پر کانچ کے ایک جیسے دکھائی دینے والے تین چار بڑے پیالے ڈھکے ہوئے تھے ۔ نیز ٹیبل کے سروں تک سلیقے سے پھیلی ہوئی ایک جیسی ڈیزائن کی پلیٹیں، آنکھوں میں چبھنے کی حد تک چمچما رہی تھیں ۔ ڈھائی تین گھنٹے کی انتظار جیسی ریاضت کے بعد اگر صرف دو روٹیاں ہی میسر آ جائے تو بھوکوں کے لیے کسی عرفان سے کم نہیں ۔ لیکن ٹیبل پر چکن گریوی ، بھونے گوشت کا تری دار شوربہ ، زیرہ رائس ، گاجر کا حلوہ، سلاد کی پلیٹوں کی لمبی قطار، بٹر نان کے ڈھیر اور ڈھنگ سے سینکی گئی روٹیاں بھاپ اڑا اڑا کر استقبال کر رہی تھیں ۔
اپنی اپنی نشست سنبھالنے کے بعد اب سب لوگ بابا سلیم کی بسمہ اللہ کا انتظار کرنے لگے ، مگر بابا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میرا دل ایک دم سے دھڑکا ۔ مجھے خدشہ ہوا کہ مبادا ریحانہ سے متعلق اس وقت نہ پوچھ بیٹھے ۔ دراصل میرے لیے ان لوگوں کی وقعت چند معمولی فقیروں سے زیادہ کچھ بھی نہیں تھی، لیکن ان کی نسبت ریحانہ سے تھی ۔ بابا سلیم ریحانہ کے لیے پیر و مرشد کا درجہ رکھتے ہیں ۔ اسی لیے سردست ان کی قدر میرے لیے مقدم اور اولین ترجیح تھی ۔
بابا سلیم ریحانہ ہی کے منتظر تھے ۔ یقیناً وہ ہوتی تو ضرور دروازے پر کھڑی نگرانی کر رہی ہوتی اور مجھے یہاں سے وہاں دوڑاتی رہتی ۔ اس دوران مجھ سے زیادہ اس کی مصروفیت دیکھنے کے قابل ہوتی تھی ۔ اور اب بابا سلیم کی پیشانی پر ابھری سلوٹوں کو دیکھ کر میری حالت دیکھنے کے قابل تھی ۔ بابا سلیم کے یوں دیر تک کھانا شروع نہ کرنے کی اس کشمکش کے بیچ میں نے سوچا کہ اگر ابھی نہیں تو کھانے کے بعد ضرور ریحانہ کے بارے میں پوچھیں گے ۔ اس لیے بھی کہ بابا سلیم اکثر کھانے سے فارغ ہونے کے بعد ہی کلام فرماتے تھے ۔ اس وقت ریحانہ کا موجود ہونا ضروری ہوتا تھا ۔ اور ان کا یہ کلام حاضرین کے لیے مذہبی وعظ ہوا کرتا تھا ۔ بابا سلیم کا کلام یا وعظ جو بھی ہو، بڑا فلسفیانہ طرز کا ہوتا تھا ۔ سننے والے یقیناً آسانی سے سمجھ نہیں پاتے ہوں گے ، لیکن سنتے پوری دلجمعی کے ساتھ تھے ۔ ریحانہ ویسے تو کچھ پڑھی لکھی نہ تھی کہ اس قدر ادق اور ثقیل زبان میں بابا کی رشد و ہدایت کو سمجھ سکے گی ، لیکن اس سنجیدگی سے سنتی تھی جیسے ایک ایک لفظ کو گرہ میں باندھ رہی ہو ۔ میں نے اپنی پوری زندگی زبان کی تدریس کی لیکن میں خود بھی ان فلسفیانہ لفظیات اور تراکیب کو سمجھنے سے قاصر رہتا تھا ۔
سردست میری پریشانی کا سبب یہ تھا کہ اس وقت یا جب کھانا ختم ہوگا تب، بابا سلیم ریحانہ کی عدم موجودگی پر استفسار کریں گے تو میں انھیں کس طرح بتاؤں گا کہ ریحانہ آپ کی میزبانی کرنے یا آپ کو سننے کے لیے اب اس دنیا میں زندہ نہیں ہے ۔ دو سال پہلے جب بابا سلیم اپنے ساتھیوں کے ساتھ آ کر چلے گئے تھے ، اس کے کچھ دو مہینے بعد ریحانہ مختصر علالت کی تاب نہ لاکر اچانک اللہ کو پیاری ہوگئی تھی ۔
آخر کار بابا سلیم نے بسمہ اللہ پڑھ لی ۔ سب نے گویا راحت کا سانس لیا ۔ مجھے بھی تناؤ سے راحت ملی ۔ تمام لوگ اطمینان کے ساتھ کھانا کھانے میں منہمک ہو گئے ۔ سبھی نے سیر ہو کر کھانا کھایا، کولڈرنکس پی اور واپس ڈرائنگ روم میں آ کر صوفوں پر دھنس گئے ۔ کچھ دیر بعد فوزیہ نے پارسل کنٹینر میرے حوالے کیے اور میں نے ان کے ۔ میں آخری کنٹینر ان کے حوالے کر کے اپنی نشست پر بیٹھا ہی تھا کہ بابا سلیم نے آخرکار ریحانہ کا ذکر چھیڑ ہی دیا ۔ اب میں اس صورت حال کے لیے تیار تھا، لیکن تب بھی ویسی ہمت جٹانے میں ناکام ثابت ہو رہا تھا ۔ جیسا بھی ہو مجھے اب انھیں ریحانہ کے انتقال کی خبر سنانی تھی، سو سنا دی ۔
میرا آخری جملہ ابھی پورا بھی نہ ہوا تھا کہ وہ ایک دم سے سیدھے ہوگئے ، جیسے صوفے کی پشت پر کانٹے اگ آئے ہوں ۔ ان کے باقی ساتھیوں کو بھی مانو سانپ سونگھ گیا! بابا سلیم مجھے اس طرح دیکھنے لگے گویا مجھ سے کوئی ناقابل معافی گناہ سرزد ہوگیا ہو ۔ پھر آہستہ آہستہ وہ یکسر گہرے رنج میں ڈوبتے چلے گئے ۔ آن کی آن میں پورے کمرے پر غم و اندوہ کی لہر دوڑ گئی ۔ وفور جذبات سے میرا دل بھی بیٹھ گیا ۔ کچھ دیر اسی کیفیت میں غرق رہنے کے بعد انھوں نے آنکھیں بند کر لیں ۔ پھر چند منٹوں بعد جب ان کی آنکھیں کھلیں تو ان کے ساتھی سعادت مند شاگردوں کی طرح بڑے ادب سے سبق سننے کے انداز میں ان کی طرف متوجہ ہوگئے ۔ فوزیہ بھی پردے کی آڑ لیے کھڑی ادھر کی کیفیات کا اندازہ لگا رہی تھی ۔ بابا سلیم نے ریحانہ کی مغفرت کے لیے خوب دل سے دعائیں کیں، جن پر ایک بار پھر آمین آمین کی مترنم صدائیں گونج اٹھیں ۔ بعد ازاں کچھ توقف فرمایا اپنا وعظ شروع کیا ۔
اب کی دفعہ بابا سلیم کا خطاب پہلے کی طرح مختصر نہیں تھا ۔ انھوں نے بہت دیر تک اپنی رشد ہدایت میں دین و دنیا اور اس کی جزیات کو سموئے رکھا،اس وعظ میں تہذیبوں کے بکھرنے کا نوحہ بھی اور روایت کے قائم رکھنے کا عزم اور ہدایت صاف تھی ۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ مجھے ان کی باتیں سمجھ میں آ رہی تھیں ۔ اور جو کچھ وہ نہیں کہہ رہے تھے اس کے مفاہیم بھی مجھ پر منکشف ہو رہے تھے ۔ کیا صرف چند گھنٹوں ہی میں میرا عقیدہ اتنا پختہ ہوگیا تھا ! ریحانہ کہا کرتی تھی، عقیدہ مضبوط ہو تو جو کہا نہیں گیا وہ بھی سمجھ میں آجاتا ہے ۔
دوران خطاب بابا سلیم نے پردے کے پیچھے کھڑی میری بہو فوزیہ سے بھی تخاطب کیا،اسے ڈھیروں دعائیں دیں اور دیر تک اس کے ہاتھوں کے بنے کھانے کی تعریف کرتے رہے ۔ اسی درمیان مجھے یہ خوشگوار احساس ہوا کہ پردے کے پیچھے فوزیہ نظر جھکائے دیوار سے ٹیک لگا کر کھڑی ہوگی اور ہلکی سی مسکان کے ساتھ اپنے ڈوپٹے کے کنارے کو شہادت کی انگلی پر لپیٹ رہی ہوگی ۔ اور ایسا کرتے ہوئے وہ بالکل…. بالکل ریحانہ کی طرح لگ رہی ہوگی ۔
ختم شدہ ۔