ایک لڑکی کی عمر انتیس سال ہے۔ ایک بیٹی کی ماں ہے۔ بائیس سال کی عمر میں شادی اور چوبیس سال کی عمر میں بیوہ ہوئی۔ معاشی طور پہ آسودہ ہے۔ شوہر کا ترکے بھی ملا ہے اور میکہ بھی خوشحال ہے۔ والدہ بیمار رہتی ہیں۔ اس لیے گھر کی ساری زمہ داری اس پہ ہے۔ شادی شدہ بہنوں کی ڈیلوریز نمٹانا، اسپتال میں ان کے ساتھ رہنا اور ان کے سسرال والوں کے ناز نخرے اٹھانا اب اسی کی زمہ داری ہے۔ ان پانچ سالوں میں اس کے گھر والوں نے اس کی شادی کے بارے میں کبھی نہیں سوچا۔ سوشل میڈیا پہ ہی اس کی ملاقات ایک لڑکے سے ہوئی۔ لڑکا چونتیس سال کا ہے۔ لڑکے کی تین چھوٹی بہنیں ہیں۔ تینوں غیر شادی شدہ ہیں۔ ماں نے صاف کہہ دیا ہے کہ جب تک تینوں بہنوں کی شادیاں نہیں ہوجاتیں، وہ اپنی شادی کا سوچے بھی نا۔
یہ دونوں شادی کرنا چاہتے ہیں۔ لڑکا اسے بیٹی کے ساتھ قبول کرنے کے لیے تیار ہے۔ لڑکی کا کہنا ہے کہ وہ شادی کے بعد اپنے شوہر پہ معاشی بوجھ نہیں ڈالے گی۔ مرحوم شوہر کے ترکے سے اپنا اور اپنے بچے کا خرچہ بآسانی اٹھا لے گی۔ لیکن لڑکے کی والدہ ایک لفظ سننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ادھر لڑکی کی والدہ کا کہنا ہے کہ اب اسے شادی کی کیا ضرورت ہے۔ جو خوشی اس کے نصیب میں تھی مل چکی۔ اب اسے اپنی زندگی بیٹی کی پرورش، والدین کی خدمت اور بہن بھائیوں کی ٹہل سیوہ میں گزارنی چاہیے۔
کچھ ماہ پہلے اس نے مجھے کہا ہے کہ ہم خفیہ نکاح کر رہے ہیں کیونکہ ہمارے والدین ہماری شادی نہیں کریں گے۔ مجھے کہتی ہے آپا بیوہ، مطلقہ یا بڑی عمر کی غیر شادی شدہ بیٹی ہمارے ہاں سب سے سستی ہاؤس کیپر، نرس اور کک ہے۔ اپنے منہ سے شادی کا کہنے والی بے غیرت اور بے حیا ہے۔ صرف ایک سوال۔ انہیں یہ قدم اٹھانے کے لیے کس نے مجبور کیا؟ کیا اس لڑکی اور لڑکے کا مطالبہ غلط ہے؟ یہ تو فطرتاً صالح ہیں جو نکاح کرنا چاہتے ہیں ورنہ کیا وہ بے راہ رو نہیں ہوسکتے؟ ان کی فطری خواہش کا گلہ گھونٹنے کا حق ان کے والدین کو کس نے دیا؟؟
ایک لڑکی ہے۔ اس کی شادی کی عمر نکلی جا رہی ہے۔ اس کا کزن جو اس کا ہم عمر ہے پانچ سال سے اس کا رشتہ مانگ رہا ہے۔ والدین تیار نہیں۔ وہ اس کے پھوپھی زاد سے اس کی دوسری شادی کرنا چاہتے ہیں جو اس سے پندرہ سال بڑا ہے اور چار بچوں کا باپ ہے۔ صرف اس لیے کہ وہ مالدار ہے۔ لڑکی کے باپ نے اس سے صاف کہہ دیا ہے کہ چاہے وہ ساری زندگی گھر بیٹھی رہے، وہ اس کی شادی اس کی پسند سے نہیں کریں گے۔ اس لڑکی نے مجھ سے کہا ہے کہ آپا بروزِ حشر میرا ہاتھ ہوگا اور میرے والدین کا گریبان۔ میں آگے سے چپ رہی۔ کیا جواب دیتی۔
ایک لڑکا ہے بتیس سال کا۔ سات سال پہلے خاندان میں منگنی ہوچکی ہے۔ ملک سے باہر کما کما کر اپنی دو بہنوں کی شادی کر چکا ہے۔ مکان بھی بنا لیا ہے۔ ہر ماہ ایک معقول رقم بھی بھیجتا ہے۔ اس سال شادی کا ارادہ تھا۔ والدہ نے کہا کہ آتے وقت دلہن کے زیورات لیتے آنا۔ لڑکے کا کہنا ہے کہ اس کی اتنی گنجائش نہیں کہ شادی کے خرچے کے ساتھ زیورات بھی خریدے۔ اس پہ والدہ محترمہ نے فرمایا تو پھر ایک سال لیٹ کرتے ہیں کیونکہ انہیں شریکے میں منہ بھی دکھانا ہے اور بری کے زیورات کے بغیر بہو لا کر وہ اپنے خاندان کی عورتوں کے سامنے ناک نہیں کٹوا سکتیں۔ لڑکی بغیر زیورات کے بھی رخصت ہونے کے لیے تیار ہے لیکن اس کی ہمت نہیں کہ کسی کو کچھ کہہ سکے۔ وہ بس اپنے منگیتر کے سامنے رو ہی سکتی ہے، جو وہ پوری دلجمعی سے کر رہی ہے۔ لڑکے کے زیادہ زور دینے پہ اسے والدین کی طرف سے بیغیرت، بے حیا اور بے شرم کے خطابات مل چکے ہیں۔
اور ہم کہتے ہیں کہ معاشرے میں دن بدن بڑھتی بے راہ روی، اخلاقی تنزلی کی وجہ آج کی نوجوان نسل ہے۔ موبائل فون اور سوشل میڈیا ہے۔
تھوڑا نہیں پورا سوچیے۔