(Last Updated On: )
وہ خوش و خرم گاڑی میں سامان رکھوا رہا تھا۔ پھلوں کے دو بڑے ٹوکرے ، ایک ٹوکرا مٹھائی کا اور کچھ خشک میوہ جات کے ڈبوں کے علاوہ ایک زنانہ اور ایک مردانہ سوٹ جو اس نے اپنی اکلوتی بیٹی اور اکلوتے داماد کے لیے بڑی چاہت سے خریدے تھے۔ اسے پتہ چلا تھا کہ وہ نانا بننے والا ہے ۔ آنے والے نواسے کے لیے سامان اس نے اپنی پسند کا خریدا تھا۔
سامان گاڑی میں رکھوانے کے بعد وہ خود گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا تھا۔ اس کی اکلوتی بیٹی کی شادی کو چار ماہ ہو گئے تھے۔ ان چار ماہ میں وہ بیٹی کی طرف صرف ایک چکر لگا پایا تھا۔ اس کی بیٹی بھی سسرال دور ہونے کی وجہ سے اور میاں کی مصروفیات کی وجہ سے زیادہ میکے نہیں آ سکتی تھی اور جب سے اس کے ہاں خوش خبری آئی تھی ڈاکٹر نے اسے طویل سفر کرنے سے منع کیا تھا۔
اس کی کل کائنات اس کی یہی بیٹی تھی۔ بیوی سے برسوں پہلے علیحدگی ہو چکی تھی۔ دوسری شادی کی بہت کوشش کی مگر ہو نہیں سکی تھی۔ بہنیں اس کی تھی نہیں۔ ماں باپ بہت پہلے چل بسے تھے۔ صرف دو بڑے بھائی تھے۔ وہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ بڑی پر سکون زندگی گزار رہے تھے۔ بھائی اس سے بہت پیار کرتے ہیں، اسی خیال کے تحت اس نے ہمیشہ بھائیوں پہ جان دی ۔ ڈھلتی عمر ، برائے نام بچی جائیداد اور کمزور پڑتی طاقت کے ساتھ اس کو اپنے اس خیال کی نفی کرنا پڑی تھی۔ اسے معلوم ہو گیا تھا کہ اسے اس کے اپنے ہمیشہ سے صرف استعمال کرتے آئے تھے۔
وہ ایک طویل سفر طے کرنے کے بعد بیٹی کے گھر کے سامنے گاڑی روک چکا تھا۔ گاڑی سے سامان نکال کر گھر میں داخل ہوتے ہوئے خوشی سے اس کی حالت عجیب ہو رہی تھی۔ چون سال کا ایک سانولے رنگ کا آدمی جس کے چہرے پر اکیلے پن کی داستان واضح رقم تھی۔ بڑی خوشی کے ساتھ گھر کے صحن تک پہنچ چکا تھا۔ اس نے زور سے سلام کیا تھا ۔ ایک سینکڈ سے بھی کم لمحے میں اس کے ذہن کے پردے پر ایک منظر ابھرا ۔ اس کی بیٹی اپنے کمرے سے دوڑتی ہوئی باہر آئی تھی ، ایک پاؤں میں جوتا دوسرا پیر ننگا ، وہ بابا کہتی اس سے بچوں کی طرح لپٹ گئی تھی۔ وہ تصور کی دنیا سے باہر آیا۔ ابھی تک کسی کو بھی اس کی موجودگی کا احساس نہیں ہوا تھا۔ اس نے اونچی آواز میں دوبارہ سلام کیا۔ جواب نہ ملنے کی صورت میں وہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا بیٹی کے کمرے کے عین سامنے پہنچا ہی تھا کہ اسے اندر سے کچھ آوازیں سنائی دیں۔
” کمینی عورت! بچہ پیدا کرنے والی تو کوئی انوکھی عورت نہیں ہے، ساری عورتوں کو درد ہوتا ہے۔ دوائیوں کی ضرورت نہیں۔
چل اب اٹھ اور میرے کپڑے استری کر کے دے ۔ “
” کل ہی چار جوڑے استری کر کے الماری میں لٹکا دئیے تھے۔ “
اس کی بیٹی کی سسکتی ہوئی آواز سنائی دی۔
” مجھے وہ گرے کلر والا کُرتا استری کر کے دے ۔ وہی پہنوں گا “
یہ اس کے داماد کی آواز تھی۔
” وہ۔۔۔۔ وہ تو میلا پڑا ہے ۔ آپ کوئی اور پہن لیں۔ کل مشین لگاؤں گی تو دھلائی کروں گی۔ “
اس کے ذہن کے پردے پہ ایک منظر ابھرا۔
” نسرین ! مجھے ابھی کے ابھی کاٹن والا وہ سوٹ دھولائی کرکے استری کر کے دو جو میرا دوست عیدپہ لایا تھا میرے لیے۔ “
“وہ۔۔۔ میں کپڑے دھلائی تو کر دیتی ہوں مگر آج سالن نہیں بنا پاؤں گی ۔ طبیعت بہت خراب ہے۔ پ۔۔پلیز مکھن ، لسی یا اچار کے ساتھ سب کھانا کھا لیں گے یا اماں کو بول دیں چٹنی بنا لیں گی ۔”
” ذلیل عورت ! تو کوئی انوکھی نہیں ہے جو ماں بننے جا رہی ہے۔ بہانے کرتی ہے ۔ “
اور اس کے ہاتھ معصوم حاملہ بیوی کے گالوں پر برس پڑے تھے۔
اس نے اپنے ماتھے سے پسینہ پونچھا ۔
کمرے کے اندر سے بیٹی کے الٹی کرنے جیسی آواز آئی۔ ساتھ ہی داماد کی آواز سنائی دی۔
” تھوڑا کھایا کر جو ہر وقت الٹی کرتی رہتی ہے۔ “
بائیس سال پہلے کا منظر اس کی آنکھوں کے سامنے ابھرا۔
نسرین ٹونٹی والی جگہ پہ ایک ہاتھ سینے پہ رکھے دوسرے ہاتھ سے دیوار کا سہارا لیے قے کرتی نڈھال کھڑی تھی۔
اور اس نے اسے زیادہ کھانے کا طعنہ دیا تھا۔
اس کی بیٹی منہ پہ ہاتھ رکھے کمرے سے باہر ٹونٹی کی طرف بھاگی نظر آئی اور اس کی آنکھوں کے سامنے سے بائیس سال پہلے کا منظر محو ہو گیا۔ بیٹی کی نظر باپ پر نہیں پڑی تھی۔
اس کے ہاتھ سے سامان کے تھیلے چھوٹ گئے ۔ خشک میوہ جات کے ڈبے تھیلوں میں سے نکل کر اِدھر اُدھر بکھر گئے تھے۔ پھلوں کے ٹوکرے گاڑی سے نکالنے کی ضرورت نہیں رہی تھی۔
وہ وہیں ساکت سا کھڑا رہ گیا۔
چند ثانیے بعد اس کی بیٹی دوپٹے کا پلو منہ پہ پھیرتی واپس آئی تھی اور باپ کو دیکھ کر حیران ہوئی تھی۔
وہ باپ سے لپٹ کر روئے جا رہی تھی۔ اس کا داماد بھی کمرے سے باہر نکل آیا تھا۔ اسے سلام کر کے وہ گھر سے باہر نکل گیا تھا۔ بیٹی نےکمرے میں بٹھایا، پانی پلایا۔ اور چائے بنانے کے لیے جانے ہی لگی تھی کہ اس نے بیٹی کو روک کر پاس بٹھا لیا۔
بیٹی کی زبانی اسے معلوم ہوا تھا کہ اس کا داماد جو شادی سے پہلے خود کو ایک آفیسر بتاتا رہا تھا۔ اس کے پاس دراصل کوئی ملازمت تھی ہی نہیں۔ تعلیم نام کی کوئی چیز اس کے پاس نہیں تھی۔ وہ نشہ کرتا تھا۔ اس کے پاس اپنا گھر بھی نہیں تھا وہ کرائے کے مکان میں رہتے تھے۔
نشہ کرنے والا شوہر بیوی کو مارنا اپنا فرض سمجھتا تھا اور بڑی بے دردی سے اپنی ہوس پوری کرتا تھا۔
چون سالہ بوڑھے کے دل میں درد ہوا تھا۔ ان کے ساتھ دھوکہ ہوا تھا۔ اس کی بیٹی کی زندگی برباد ہو گئ تھی۔ اس نے بیٹی کو ساتھ لے جانے کا کہا۔ وہ اپنی لختِ جگر کو اس جہنم میں نہیں چھوڑ سکتا تھا۔
مگر اس کی بیٹی نے اس کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا تھا۔
اس کے پیٹ میں ایک بچہ تھا اور وہ اس بچے کو اس کے باپ سے محروم نہیں کرنا چاہتی تھی۔ اس نے کچھ وقت ماں کے پاس گزارا تھا جب وہ باپ جیسے نام سے ناآشنا تھی۔ جب اس نے ہوش سنبھالا تو باپ اس کے پاس تھا مگر اس کی ماں کو اس سے جدا کر دیا گیا تھا۔ وہ رشتوں کی کمی کو اچھی طرح سے جانتی تھی اور اپنے بچے کی یہ کمیاں پوری کرنے کے لیے وہ مرتے دم تک ایک نشئی اور ظالم انسان کے ساتھ رہنے پر مجبور ہو گئ تھی۔
اسے یہ ڈر بھی تھا کہ مستقبل میں اس کے ساتھ بھی اس کی ماں کے جیسا سلوک کر کے اس سے اس کا بچہ نہ چھین لیا جائے۔
اس نے باپ کو فقط اتنا کہا تھا ۔
” بابا ! میری شادی کرنے سے پہلے آپ کو سوچنا چاہیے تھا۔ “
چون سالہ سانولی رنگت والا بوڑھا اس وقت خود کو مزید بوڑھا محسوس کر رہا تھا۔
وہ شکست خوردہ سا وہاں سے اٹھا اور واپسی کے لیے گاڑی میں آ بیٹھا۔
اس کی اکلوتی اولاد ، اس کی متاع جاں بھی اس سے دور ہو چکی تھی۔
وہ بھیگتی آنکھوں ، لرزتے لبوں کو قابو کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے کانپتے ہاتھوں سے گاڑی چلا رہا تھا۔ اس کے کان نسرین کی آوازوں کے شور سے پھٹ رہے تھے۔
” خدا کرے تمہیں کبھی محبت نہ ملے۔
تم خالص رشتوں کے لیے تڑپتے رہو ،
تڑپتے رہو۔۔۔۔۔۔
اور تڑپ تڑپ کے مر جاؤ۔۔۔۔۔
” سب تم سے دور ہو جائیں ۔
دور ہو جائیں۔۔۔۔
تم نے مجھے چھوڑا ۔ تمہارے اپنے تمہیں چھوڑ جائیں ۔ ۔۔۔۔۔ “