تحریر: لیو ٹالسٹائی (روس)
Leo Tolstoy (Russia): 1828-1910
اردو ترجمہ: صابرہ زیدی
“تو آپ لوگوں کا کہنا ہے کہ آدمی اپنے طور پر اچھے بُرے میں تمیز نہیں کرسکتا، آپ کہتے ہیں کہ سب کچھ ماحول کا کرشمہ ہے اور ماحول ہی انسان کی تخلیق کرتا ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ دنیا میں سب کچھ اتفاق کا کھیل ہے۔ کم سے کم اپنے بارے میں تو میں یہ کہہ سکتا ہوں۔۔۔۔۔”
ہم لوگ اس موضوع پر بات چیت کررہے تھے کہ فرد کی شخصیت کو خوب سے خوب تر بنانے کے لیے پہلے اس ماحول کو، ان حالات کو بدلنا ضروری ہے ان میں انسان اپنی زندگی گزارتے ہیں۔ سو اس بات چیت کے خاتمے پر ایوان واسی لئیوچ نے جن کی سب لوگ بہت عزت کرتے ہیں، یہ بات کہی۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم میں سے کسی نے یہ نہیں کہا تھا کہ بطور خود اچھے بُرے میں امتیاز کرنا ناممکن ہے۔ لیکن ایوان واسی لئیوچ کی عادت ہے کہ وہ خود اپنے ان خیالات کا جواب دینے لگتے ہیں جو کسی گفتگو یا بحث و مباحثے کے دوران ان کے ذہن میں اُبھرتے ہیں اور پھر یہ خیالات ان کی زندگی کے جن تجربات کی یاد تازہ کرتے ہیں وہ انہیں بیان کرنے لگتے ہیں۔ اکثر اوقات وہ اپنی داستان میں اسی بری طرح محو ہوجاتے ہیں کہ انہیں یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ انہوں نے وہ داستان کیوں سُنانی شروع کی تھی۔ وہ بڑے جوش و خروش، لگن اور خلوص سے ہر قصہ سناتے ہیں اس لیے وہ اور بھی کھو جاتے ہیں۔
اس دفعہ بھی بالکل یہی ہوا۔
“کم از کم اپنے متعلق تو میں یہی کہہ سکتا ہوں۔ میری زندگی کی تشکیل تو اسی طرح ہوئی اور کسی طرح نہیں، اس میں جو کچھ تبدیلی پیدا ہوئی وہ ماحول کی دین نہیں ہے بلکہ کسی اور ہی چیز کی دین ہے۔”
“کس چیز کی ؟” ہم نے پوچھا۔
“یہ ایک لمبا قصہ ہے۔ اور جب تک میں الف سے یے تک سب کچھ نہ سناؤں آپ لوگوں کو سمجھ نہیں آسکتا۔”
“تو سُنائیے نا!!!”
ایوان واسی لئیوچ ایک لمحے کے لیے سوچ میں پڑگئے، پھر سر ہلا کر بولے:
“ہاں۔۔۔۔۔ بس ایک رات نے بلکہ یہ کہنا چاہیئے کہ ایک صبح نے میری زندگی کی کایا پلٹ کر دی۔”
“بتائیے تو سہی کیا ہوا؟”
“ہوا یہ کہ میں بُری طرح عشق میں مبتلا ہوگیا۔ میں اس سے پہلے بھی چند بار گرفتارِ عشق رہ چکا تھا لیکن یہ کچھ اور ہی چیز تھی، یہ سب سے زیادہ گہری محبت تھی۔ اب اس واقعے کو مدتیں گزر گئیں۔ اب تو میری محبوبہ کی پٹیاں بھی گھر بار والی ہوچکی ہیں۔ اس کا نام وارنکا، “ب” وہ پچاس سال کی عمر میں بھی غیر معمولی حسین تھی۔ لیکن چڑھتی جوانی میں، سترہ اٹھارہ برس کے سن میں تو قیامت تھی قیامت ۔۔ سرو قد، سیم تن اور نازک بدن، چھبیلی اور پُر شکوہ ۔۔۔ ہاں ، ہاں پُر شکوہ۔ اور ‘چال جیسے کڑی کمان کا تیر!’ معلوم ہوتا تھا چھکنا تو اس کے جسم نے سیکھا ہی نہیں۔ اس کا سر ہمیشہ خفیف سا پیچھے جھکا رہتا تھا۔ حالانکہ وہ ہڈیالے پن کی حد تک دبلی تھی مگر اس کی اس ادا، اس کے حسن و رعنائی اور اس کے سرد قامتی نے مل کر اس میں کچھ ایسا شاہانہ وقار پیدا کریا تھاکہ اگر وہ اتنی شوخ و شنگ نہ ہوتی، اگر اس کی مسکراہٹ اس قدر من موہنی اور اس کی آنکھیں اتنی قیامت خیز نہ ہوتیں اور اس قدر تجلیاں نہ بکھیرتیں، اگر اس کا پورا وجود اتنا پیارا، اتنا نوخیز اور اتنا دلفریب نہ ہوتا اس کے رعب حسن وے آدمی نظریں تھوڑا ہی اٹھا سکتا!”
“ایوان واسی لئیوچ تو شاعری کررہے ہیں، شاعری!”
“میں چاہے جتنی شاعری کروں، چاہے جتنا زور بیان صرف کروں، مگر آپ لوگوں کے سامنے اس کی جیتی جاگتی تصویر نہیں پیش کرسکتا۔ لیکن خیر اس بات کا اصل قصے سے کوئی تعلق نہیں۔ میں جو واقعہ آپ کو سنانا چاہتا ہوں، اس صدی کے وسط میں پیش آیا تھا۔
“اس وقت میں ایک علاقائی شہر کی یونیورسٹی میں پڑھتا تھا۔ میں نہیں جانتا یہ بات اچھی تھی یا بری، بہرحال اس زمانے میں ہماری یونیورسٹی میں یہ طرح طرح کے اسٹڈی سرکل اور دنیا بھر کی فلسفہ بازیاں، یہ سب کچھ نہیں ہوتا تھا۔ ہم جوان تھے اور وہی زندگی بسر کرتے تھے۔ جو جوانی کا تقاضا ہے۔ ہم پڑھتے لکھتے تھے، کھیل اور تفریح میں حصہ لیتے تھے۔ میں بڑا خوش باش، تفریح پسند اور زندہ دل نوجوان تھا اور اس پر طرہ یہ کہ مالدار بھی تھا۔ میرے پاس گھوڑا تھا۔ بڑا برق رفتار اور جاندار ۔ سو میں اکثر لڑکیوں کو گاڑی میں گھمانے پھرانے لے جایا کرتا تھا (اس وقت تک اسکیٹنگ کا اتنا فیشن نہیں ہوا تھا) ۔ میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ مے نوشی کی محفلوں میں شریک ہوتا تھا (اس زمانے میں ہم لوگ شمپیئن کے علاوہ اور کسی شراب کو چھوتے بھی نہ تھے۔ جب ہماری جیبیں خالی ہوتیں تو ہم کچھ بھی نہ پیتے کیونکہ ہم آج کل کے لوگوں کی طرح وودکا نہیں پیتے تھے۔)۔ لیکن سب سے زیادہ لطف تو مجھے دعوتوں، پارٹیوں اور رقص کی محفلوں میں آتا تھا۔ مجھے ناچنا خوب آتا تھا اور میں شکل صورت میں بھی بُرا نہیں تھا۔”
“ارے خواہ مخواہ خاکساری نہ کیجئے” سننے والی عورتوں میں سے کسی ایک نے لقمہ دیا۔ “ہم سب نے آپ کا اس زمانے کا فوٹو دیکھ رکھا ہے۔ آپ تو بہت خوبرو اور رعنا جوان تھے کبھی۔”
“خیر ہوں گا کبھی مگر اس کا اصل قصے سے کوئی تعلق نہیں۔ ہاں تو جس زمانے میں میرا عشق اپنے پورے شباب پر تھا میں ایک دفعہ ماسلینیتسا (جاڑوں کو رخصت کرنے کے لیے ایک سلافی تہوار) کے دنوں میں رقص کی محفلوں میں شریک ہوا ۔ یہ محفلِ رقص گورنر کی طرف سے ہوتی تھی، وہ بہت نیک اور خوش مزاج بڑے میاں تھے اور مہمان داری کے بے حد شائق۔ ان کی بیوی جو انہیں کی طرح خوش مزاج اور مشفق تھیں، اپنے شوہر کے پہلو بہ پہلو مہمانوں کے استقبال کے لیے کھڑی تھیں۔ وہ مخملی فراک زیب تن کیے ہوئے تھیں اور ان کے سر پر ایک مرصع کلغی تھی جس میں ہیرا جگمگا رہا تھا، ان کی سفید براق اور گداز گردن اور شانے، جس پر بڑھاپے نے اپنی پرچھائیں ڈال دی تھیں، اس طرح عریاں تھے جیسے ملکہ ایلیزادیتا پیتردونا کی تصویروں میں ہوتے ہیں۔ محفلِ رقص بہت ہی شاندار رہی۔ رقص کا کمرہ بڑا سجا سجایا اور نظر فریب تھا۔ محفل میں بڑے مشہور و معروف مغنی اور موسیقار موجود تھے۔ جو ایک موسیقی کے دلدادہ جاگیردار کے خانہ زاد تھے۔ کھانے پینے کی چیزیں بہ افراط تھیں اور شمپیئن کے تو دریا بہہ رہے تھے۔ میں شمپیئن کا خاصا رسیا تھا مگر میں نے اسے چھوا بھی نہیں کیونکہ مجھ پر تو محبت کا نشہ چڑھا ہوا تھا۔ مگر جہاں تک ناچنے کا سوال ہے میں اتنا ناچا کہ تھک کر چور ہوگیا۔ کون سا ایسا رقص تھا جسے میں نے چھوڑ دیا ہو، والز میں نے کیا، کوادریل ناچ میں ناچا اور پولکا رقص میں بھی شریک رہا۔ ظاہر ہے کہ میں نے حتی الامکان زیادہ سے زیادہ رقص وارنکا کے ساتھ کیے۔ وہ سر سے پاؤں تک سفید لباس میں ملبوس تھی، صرف اس کی کمر پر گلابی پیٹی بندھی تھی، اس کے سفید لباس میں ملبوس تھی، صرف اس کی کمر پر گلابی پیٹی بندھی تھی، اس کے سفید چمڑے کے دستانے اس کی نکیلی اور دبلی کہنیوں سے نیچے تک تھے، اور وہ پاؤں میں سفید چمڑے کے دستانے اس کی نکیلی اور دبلی کہنیوں سے نیچے تک تھے، اور وہ پاؤں میں سفید ساٹن کے جوتے پہنے ہوئے تھی۔ ایک نامعقول انجینئر انیسیموف کے ساتھ مازور کا رقص کرنے بیچ میں کودا۔ اس کی اس حرکت کومیں نے آج تک معاف نہیں کیا۔ جوں ہی وارفکا نے رقص گاہ میں قدم رکھا اس انجینئر نے اسے رقص کی دعوت دے ڈالی۔میں اس وقت اپنے دستانے لینے اور حجام کے پاس گیا ہوا تھا، اسی لیے مجھے کچھ دیر لگ گئی۔ سو اس کے ساتھ مازور کا ناچنے کے بجائے میں ایک جرمن لڑکی کے ساتھ ناچا جس سے ایک زمانے میں مجھے خاصی دلچسپی رہ چکی تھی، مگر میرا خیال ہے کہ اس شام میں اس کے ساتھ خاصی ناشائستگی سے پیش آیا، میں نے اس سے دو بول بھی نہیں کہے اور نہ ہی اس کی طرف نظر بھر کر دیکھا۔ میری نگاہوں کا مرکز تو ایک سفید کپڑوں اور گلابی پیٹی والی سہی قامت، لچکیلی نازنین تھی جس کے گالوں میں گڑھے پڑتے تھے، چہرہ تابناک اور گلنار تھا اس جس کی حسین آنکھوں میں دلنوازی تھی۔ اور میں ہی کیا وہ تو ہر شخص کی نگاہوں کا مرکز تھی، ہر ایک ہی اس مرمٹا تھا، یہاں تک کہ عورتیں بھی اسے تعریفی نظروں سے دیکھ رہی تھیں حالانکہ اس کے حسن کے سامنے وہ سب ماند پڑگئی تھیں۔ اصل میں اس کی بارگاہِ حسن میں خراجِ عقیدت پیش نہ کرنا ممکن ہی نہ تھا۔
“نام کو تو میں ‘مازورکا’ کا ساتھی نہیں تھا لیکن دراصل تقریباً تمام وقت میں اسی کے ساتھ ناچتا رہا۔ بلکہ کسی قسم کی جھجھک یا شرم کے وہ کمرے کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک ناچتی ہوئی میرے پاس آتی تھی اور جب میں اس دعوت کا انتظار کیے بغیر ہی اس کی طرف لپکتا تھا تو میرے پاس آتی تھی اور جب میں اس کی دعوت کا انتظار کیے بغیر ہی اس کی طرف لپکتا تھا تو وہ اپنی ان کہی خواہش کو سمجھ لینے پر ایک تبسم ناز سے میرا شکریہ ادا کرتی تھی۔ جب ناچ کے وقت ہم لوگ اس کے پاس لائے جاتے تھے اور اسے میری خصوصیت کا اندازہ نہیں ہوتا تھا تو وہ اپنے دبلے پتلے کندھے جھٹک کر کسی دوسرے کی طرف ہاتھ بڑھا دیتی اور اظہارِ افسوس اور ہمدردی ہوا تو میں دیر تک اس کے ساتھ والز کرتا رہا۔ اس کا سانس پھول پھول جاتا لیکن وہ مسکرا مسکرا کر مجھ سے کہتی، مکرر، اور میں اس کے ساتھ ناچتا ہی چلا گیا۔ اس وقت مجھے اپنے تن بدن کا ہوش نہ تھا گویا میرا جسم ہوا کا بنا ہوا ہو۔”
“کیا کہا تن بدن کا ہوش نہ تھا؟ مجھے یقین ہے کہ جس وقت آپ کا بازو اس کی کمر کے گرد حائل تھا اس وقت آپ کو نہ صرف اپنے بلکہ اس کے بدن کا بھی خوب اچھی طرح احساس ہوگا” ایک مہمان بول اُٹھا۔
ایوان واسی لئیوج کا چہرہ ایک دم سرخ ہوگیا اور وہ غصے میں تقریباً چیخ کر کہنے لگے۔
“یہ بات تو تم نئی پود کے نوجوانوں پر صادق آتی ہے۔ تم لوگوں کو جسم کے سوا اور کچھ دکھائی نہیں دیتا ہمارے زمانے میں یہ بات نہیں تھی۔ مجھے جس لڑکی سے جتنی زیادہ گہری محبت ہوتی تھی میرے نزدیک وہ اتنی ہی زیادہ آسمانی مخلوق بن جاتی تھی۔ تم لوگوں کو بس ٹانگوں اور پنڈلیوں اور اسی قسم کی دوسری چیزوں کا احساس ہے، تم تو تخیل میں اپنی محبوباؤں کے جسم سے کپڑے اتار ڈالتے ہو۔ لیکن میرے نزدیک تو عظیم ادیب الفونس کار کے الفاظ میں محبوبہ کا پیکر گویا آہنی جامے میں ملبوس رہتا تھا۔ ہم لوگ تو حضرت نوح کے نیک بیٹے کی طرح عریانی کو نمایاں کرنے کے بجائے اس کی پردہ پوشی کی کوشش کرتے تھے لیکن تم بھلا یہ بات کیسے سمجھ سکتے ہو۔”
“اس کی پرواہ نہ کیجیئے، آپ تو اپنا قصہ بیان کیے جائیے” ایک اور سننے والے نے کہا۔
“ہاں تو میں زیادہ تر اسی کے ساتھ ناچتا رہا اور مجھے وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہوا۔ سازندے تھک کر چور ہوچکے تھے۔ آپ جانتے ہی ہیں ہر محفل رقص کے آخر میں کیا حال ہوتا ہے۔۔ وہ مسلسل مازورکا کی دُھن بجاتے رہے۔ اماں اور ابا تاش کی میزیں چھوڑ چھوڑ کر کھانے پینے کی امید میں ملاقاتی کمرے سے نکلنے لگے، وردی پوش ملازم کھانا لے کر ادھر سے ادھر دوڑنے بھاگنے لگے۔ تین بجا چاہتے تھے۔ ہمیں ان چند آخری لمحوں کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا تھا۔ میں نے ایک بار پھر اسے ناچنے کی دعوت دی اور ہم سویں بار پھر کمرے کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک ناچتے چلے گئے۔
“کھانے کے بعد کوادریل ناچ تو میرے ہی ساتھ ہوگا نا؟ میں نے اپنی محبوبہ کو واپس اس کی جگہ پر پہنچاتے ہوئے پوچھا۔
“ہاں ضرور، بشرطیکہ میرے والدین مجھے گھر نہ لے گئے، اس وقت تک، اس نے مسکرا کر جواب دیا۔
“میں انہیں لے جانے ہی کب دوں گا۔” میں بولا۔
“اسے واپس کرتے ہوئے مجھے افسوس ہورہا ہے، میں نے اس کی معمولی، سفید پنکھیا ایک پر نوچ کر میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
“میں نے پر لے لیا اور صرف نگاہوں ہی نگاہوں میں اپنے بے پایاں وجد و مسرت اور تشکر کا اظہار کیا۔ میں صرف مسرور اور مگن ہی نہیں تھا مجھ پر تو کمال بے خودی، گہری مسرت، سچی سرخوشی اور انبساط کی کیفیت طاری تھی، میں اس وقت بڑا وسیع القلب ہورہا تھا، میں ، میں نہیں تھا بلکہ کوئی ایسی مخلوق تھا جو اس دھرتی کی نہیں تھی، جو برائی سے کوسوں دور تھی، جو صرف نیکی ہی نیکی کرنا جانتی تھی۔ میں نے پر اپنے دستانے میں ٹھونس لیا اور اسی جگہ کھڑا رہ گیا گویا زمین نے میرے پاؤں پکڑ لیے ہوں۔ مجھ میں اس سے دور جانے کی طاقت نہیں تھی۔
“دیکھیے لوگ پاپا سے رقص کے لیے اصرار کررہے ہیں، اس نے ایک دراز قد اور شاندار شخص کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ یہ اس کے باپ تھے۔ وہ فوج میں کرنل تھے اور ان کی وردی میں نقرئی جھبے لگے ہوئے تھے۔ وہ دروازے میں کھڑے ہوئے خاتون خانہ اور چند دوسری عورتوں سے بات چیت کررہے تھے۔
“وارنکا ، یہاں آنا ذرا، ہیرے کی کلغی والی خاتون خانہ نے اسے آواز دی۔”
وارنکا دروازے کی طرف بڑھی اور میں بھی اس کے پیچھے پیچھے چلا۔
“پیاری ذرا اپنے پاپا کو اپنے ساتھ رقص کرنے پر راضی تو کرو۔ اور پھر کرنل کی طرف مڑکر خاتون خانہ نے کہا: “پیوتر ولادی سلاوچ کر لیجیئے نا ایک رقص۔”
“وارنکا کے باپ بڑے وجیہ، بلند قامت، خوبصورت اور شاندار بوڑھے تھے اور ان میں ابھی جوانی کا دم خم پاقی تھا۔ ان کے چہرے پر سرخی رہتی تھی اور سفید مونچھیں نکولائی اول کے انداز میں مڑی ہوئی تھیں، ان کے گل مچھے کنپٹیوں کی طرف مڑے ہوئے تھے اور ان کی چمکدار آنکھوں میں اور ہونٹوں پر وہی جاندار مسکراہٹ کھیلتی رہتی تھی جو ان کی بیٹی کی خاص چیز تھی۔ ان کی کاٹھی بڑی اچھی تھی، سینہ خوب فراخ تھا اور فوجی انداز میں تنا رہتا تھا، اس پر چند فوجی تمغے جگماتے تھے، ان کے شانے مظبوط تھے ٹانگیں لمبی اور خوبصورت۔ وہ نکولائی اول کے سے فوجی انداز کے پرانی وضع کے افسر تھے۔
“جب ہم دروازے کے قریب پہنچے تو سنا کہ کرنل یہ کہہ کر ناچنے سے انکار کررہے ہیں کہ وہ تو سب کچھ بھول بھال گئے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود وہ مسکرائے، اپنی تلوار کی طرف ہاتھ بڑھاکر اسے نیام سے نکالا اور قریب کھڑے ہوئے ایک نوجوان کو پکڑا دیا جو اپنی خدمات پیش کرنے کے لیے بے تاب تھا۔ پھر انہوں نے سوئیڈ کا ایک دستانہ اپنے دائیں ہاتھ پر چڑھایا۔ “ہر چیز قاعدے کے مطابق ہونی چاہیئے۔” انہوں نے مسکرا کر کہا اور اپنی بیٹی کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر ناچنے والے کا انداز اختیار کیا اور تال کا انتظار کرنے لگے۔
“مازور کا ناچ کی تال پڑتے ہی انہوں نے اپنا ایک پاؤں بہت جاندار اور پھرتیلے انداز سے زمین پر مارا اور دوسرے پاؤں پر تیزی سے گھوم گئے اور پھر ان کا لمبا چوڑا جسم پوری رقص گاہ میں تھرکنے لگا۔ وہ بار بار اپنا ایک پاؤں دوسرے سے ٹکراتے، کبھی دھیرے دھیرے اور بڑی خوش ادائی اور لطافت کے ساتھ ناچتے تو کبھی بہت پھرتی، توانائی اور تڑپ کے ساتھ۔ وارنکا کو کومل اور رعنا پیکر اپنے باپ کے ساتھ ساتھ تیر رہا تھا۔ وہ غیر محسوس طریقے سے لیکن بالکل وقت پر اپنے سفید ساٹن میں چھپے ہوئے چھوٹے چھوٹے پیروں کو اپنے باپ کے قدموں کی حرکت سے ہم آہنگ کررہی تھی۔ سارے مہمان ٹکٹکی باندھے اس جوڑے کی ہر ادا اور ہر جنبش کو دیکھ رہے تھے۔ اور میں ان دونوں کو محض تعریف کی نگاہوں سے نہیں دیکھ رہا تھا، مجھ پر تو اس وقت ایک نشاط و بے خودی کی کیفیت طاری تھی۔ خاص طور پر کرنل کے بوٹوں کو دیکھ دیکھ کر مجھ پر بہت اثر ہورہا تھا۔ وہ عمدہ چمڑے کے بوٹ تھے لیکن بالکل بے ایڑی کے اور ان کے پنجے اس وقت کے فیشن کے مطابق نکیلے ہونے کے بجائے چوڑے تھے۔ غالباً وہ بٹالین کے موچی کے بنائے ہوئے تھے۔ بچارے بڑے میاں فیشن ایبل بوٹوں کے بجائے یہ چپٹے پنجوں کے جوتے پہنتے ہیں تاکہ اپنی لاڈلی بیٹی کو اچھے اچھے کپڑے زیور سے سجا کر سوسائٹی میں لاسکیں، میں نے دل ہی دل میں سوچا اور اسی لیے مجھے ان کے چپٹے پنجے والے بوٹوں نے اتنا متاثر بھی کیا۔ یہ تو صاف ظاہر تھا کہ وہ کبھی بہت اچھا ناچتے ہوں گے لیکن اب ان کا جسم خاصا بھاری پڑگیا تھا ٹانگوں میں اتنی لچک نہیں رہی تھی کہ وہ ان تمام خوبصورت اور پھرتیلی جنبشوں اور چکروں سے عہدہ برا ہوسکیں جن کی وہ کوشش کررہے تھے۔ پھر بھی دو دفعہ تو انہوں نے بڑی عمدگی سے کمرے کے چکر لگائے۔ اور جس وقت انہوں نے پھرتی سے دونوں ٹانگیں پھیلائیں، پھر انہیں ایک دوسرے سے ٹکرایا اور ذرا بوجھل سے انداز میں ایک گھٹنے کے بل بیٹھ گئے اور اس نے مسکراتے ہوئے اپنا اسکرٹ چھڑایا جو کرنل سے الجھ گیا تھا اور ان کے گرد تیرنے سی لگی تو تالیوں سے ہال گونج اُٹھا۔ وہ کوشش کرکے کھڑے ہوئے اور بیٹی کے چہرے کو دونوں ہاتھوں میں نرمی سے لے کر اس کی پیشانی پر بوسہ دیا۔ پھر وہ اسے میرے پاس لے آئے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اس کا رقص کا ساتھی میں ہی ہوں۔ میں نے انہیں بتایا کہ یہ بات نہیں ہے تو انہوں نے اپنی تلوار نیام میں رکھتے ہوئے تپاک سے مسکرا کر کہا:
“خیر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اب آپ اس کے ساتھ رقص کریں۔”
“جس طرح ساغر و مینا سے ٹپکا ہوا پہلا قطرہ اپنے پیچھے ایک پوری دھار لے کر آتا ہے اسی طرح وارنکا سے مجھے جو محبت تھی اس نے میرے دل میں محبت کی ساری خفتہ صلاحیتوں کو جگا دیا، میری روح میں محبت کے سارے سوتے ابل پڑے، میرے محبت نے ساری دنیا کو اپنی آغوش میں سمیٹ لیا۔ میں ہیرے سے مرصع کلغی والی خاتون خانہ کے لیے، ان کے شوہر کے لیے، ان کے مہمانوں کے لیے، ان کے وردی پوش ملازم کے لیے، یہاں تک کہ اس کم بخت انیسیسموف کے لیے بھی جو مجھ سے یقیناً خفا تھا محبت محسوس کررہا تھا۔ اور رہے میری محبوبہ کے باپ جن کی مسکراہٹ خود اس کی مسکراہٹ سے اس قدر مشابہ تھی اور جو چوڑے پنجے کے جوتے پہنتے تھے، سو ان کے لیے تو اس وقت میرے دل میں ایک عجیب وجد آفریں محبت کا جذبہ پیدا ہوچکا تھا۔
“مازور کا ختم ہوا تو ہمارے میزبانوں نے سب کو کھانے کی دعوت دی۔ لیکن کرنل “ب” نے کھانے سے انکار کردیا، انہوں نے کہا کہ انہیں صبح سویرے اُٹھنا ہے اور میزبان سے اجازت چاہی۔ مجھے ڈر ہواکہ کہیں وارنکا کو بھی وہ اپنے ساتھ نہ لے جائیں لیکن وہ اور اس کی ماں رہ گئیں۔
“کھانے کے بعد میں نے اس کے ساتھ وہ کوادریل رقص کیا جس کا اس سے وعدہ لے چکا تھا اور حالانکہ مجھے خیال تھاکہ میری مسرت نے اب اپنی آخری حدوں کو چھولیا ہے لیکن یہ تھی کہ ہر لمحہ بڑھتی ہی جارہی تھی۔ ہم دونوں نے پریم کے چرچے نہیں کیے، میں نے نہ اس سے پوچھا، نہ خود اپنے دل سے سوال کیا کہ وہ مجھ سے محبت کرتی ہے یا نہیں۔ میرے لیے یہ کافی تھاکہ میں اس سے محبت کرتا ہوں۔ مجھے اگر کوئی اندیشہ تھا تو یہ کہ کہیں کوئی چیز میری مسرت کو خاک میں نہ ملا وے۔
“جب میں گھر پہنچا اور کپڑے وغیرہ اتار کر سونے کا ارادہ کیا تو مجھے اندازہ ہواکہ نیند کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ میرے ہاتھ میں اسکا دیا ہوا پر تھا اور اس کا ایک دستانہ جو اس وقت اس نے مجھے دیا تھا جب میں اسے اور اسکی ماں کو گاڑی میں سوار کرا رہا تھا۔ ان چیزوں کو دیکھ کر میری آنکھوں کے سامنے اس کی وہ تصویر آگئی جب اس نے ہم دو میں سے ناچ کے ساتھی کا انتخاب کرنے کے کھیل میں میرا فرضی نام بھانپ لیا تھا اور بڑی پیاری اور رسیلی آواز میں پوچھا تھا ‘خودار ٹھیک ہے نا؟’ اور خوش ہو کر میری طرف ہاتھ بڑھایا تھا، پھر میری چشمِ تصور نے اسے کھانے کی میز پر بیٹھے ہوئے دیکھا جب وہ نزاکت سے شمپیئن کے چھوٹے چھوٹے گھونٹ لے رہی تھی اور مجھ پر محبت پالش نگاہیں ڈال رہی تھی۔ لیکن میرے تخیل میں اس کی سب سے زیادہ صاف اور روشن تصویر تو اس وقت کی ابھرتی تھی جب وہ اپنے باپ کے ساتھ اس قدر رعنائی اور نازک ادائی کے ساتھ رقص کررہی تھی اور فخرو مسرت کے جزبات سے پر، سارے سراہنے والے اور تعریفی نگاہیں ڈالنے والے تماشائیوں کو دیکھ رہی تھی۔ وہ خود اپنی وجہ سے بھی خوش اور نازاں تھی اور اپنے باپ کی وجہ سے بھی۔ اور اس وقت غیر ارادی طور پر میں نے اس کے اور اس کے باپ دونوں کے لیے ایک ہی سا گہرا اور نرم و لطیف جزبہ محسوس کیا تھا۔
“اس زمانے میں میرے مرحوم بھائی اور میں ایک ساتھ رہتے تھے۔ میرے بھائی کو سوسائٹی سے قطعی کوئی دلچسپی نہیں تھی اور وہ کبھی رقص کی محفلوں میں نہیں جاتے تھے۔ اب وہ ایم اے کے امتحان کی تیاری کررہے تھے اور بڑی مثالی زندگی گزارتے تھے۔ اس وقت وہ سوئے ہوئے تھے۔ ان کا سر تکیے میں دھنسا ہوا تھا اور آدھا سر کمبل سے ڈھکا تھا۔ میں نے جب اس حالت میں انہیں دیکھا تو مجھے ان پر بڑا ترس آیا۔ مجھے اس لیے ترس آیا کہ وہ اس خوشی سے محروم ہیں جو مجھے میسر ہے۔ ہمارا خانہ زاد ملازم پیتروشا شمع لیے آیا اور کپڑے وغیرہ اتارنے میں میری مدد کرنا چاہی۔ مگر میں نے اسے چلتا کردیا۔ مجھے اس کا نیند سے ماتا چہرہ اور بکھرے بال دیکھ کر بڑا ترس آیا۔ اس خیال سے کہ کہیں کوئی آواز نہ ہو میں پنجوں کے بل چلتا ہوا اپنے کمرے میں آیا اور پلنگ پر بیٹھ گیا۔ میرا پورا وجود سرشار مسرت تھا، ایسے میں بھلا نیند کہاں اوپر سے کمرے میں گرمی بھی بہت تھی، سو میں اپنی وردی اتارے بغیر ہی خاموی سے دلان میں آگیا اور اوورکوٹ پہنا، باہر کا دروازہ کھولا سڑک پر نکل آیا۔
“میں کوئی پانچ بچے تو رقص ہی سے لوٹا تھا اور اب اسے بھی دو گھنٹے ہوچکے تھے، سو جس وقت میں باہر نکلا تو پوپھٹ رہی تھی۔ یہ ماسلینیتسا کا خاص موسم تھا۔ ہر طرف دھندلکا چھایا ہوا تھا، سڑکوں پر گیلی برف پگھل رہی تھی اور چھتوں سے پانی ٹپ ٹپ گر رہا تھا ۔ ان دنوں کرنل ‘ب’ مضافات شہر میں رہتے تھے۔ ان کا مکان ایک کھلے میدان کے اس پار تھا، جس کے ایک طرف لڑکیوں کا اسکول تھا اور دوسری طرف چہل قدمی کے واسطے جگہ تھی۔ میں اپنی چھوٹی سی سنسان گلی سے گزر کر بڑی سڑک پر آیا۔ وہاں اب راہ گیر بھی نظر آرہے تھے۔ اور وہ گاڑی بان بھی جو برف گاڑیوں میں ایندھن لاد کر لیے جارہے تھے۔ گاڑیوں کے دھرے برف کو چیر کر سڑک کے پتھروں تک پہنچ رہے تھے اور مجھے ہر چیز ۔۔۔ روغن کیے ہوئے جوؤں کے نیچے بڑے آہنگ سے پسینے سے تر سر ہلاتے ہوئے گھوڑے، کندھوں پر بوریاں ڈالے اور لمبے لمبے جوتے پہنے گاڑی بان جو اپنی گاڑیوں کے ساتھ ساتھ پگھلتے ہوئے برف پر چل رہے تھے، سڑک کے دونوں طرف استادہ مکان جو دھند میں بہت اونچے اونچے معلوم ہورہے تھے۔۔ غرض ہر چیز مجھے اس وقت خاص طور پر پیاری، دلکش اور خوبصورت معلوم ہورہی تھی۔
جب میں اس میدان کے قریب پہنچا جہاں ان لوگوں کا مکان تھا تو میں نے دیکھا کہ مکان کے آخر میں ٹہلنے کی جگہ پر کوئی کالی کالی اور بڑی سی چیز متحرک ہے اور ساتھ ہی مجھے طبل کی گمک اور بانسری کی فریاد بھی سُنائی دی۔ میرا دل تو پورے وقت گاہی رہا تھا اور گاہے بگاہے مازور کی موسیقی بھی میرے کانوں میں گونج رہی تھی۔ مگر یہ تو کسی اور ہی قسم کا سنگیت تھا۔۔ بڑا ہی ناخوشگوار اور سمع خراش۔
“یہ کیا چیز ہوسکتی ہے۔” میں نے دل ہی دل میں سوچا۔ پھر میں اس پھلواں سڑک پر ہولیا، جو گاڑیوں کے گزرنے کے لیے میدان کے آرپار بنائی گئی تھی اور انہیں آوازوں کی سمت چلنے لگا۔ کوئی سو قدم چلنے کے بعد مجھے دھند کے پیچھے لوگوں کا ایک مجمع سا نظر آنے لگا۔ غالباً سپاہی ہوں گے۔ شاید قواعد کررہے ہیں، میں نے سوچا اور آگے بڑھتا گیا۔ میرے سامنے ایک لوہار بھی چل رہا تھا جس کی جیکٹ اور پیش بند پر چکنائی کے داغ دھبے پڑے ہوئے تھے اور ہاتھ میں ایک بڑا سا بنڈل تھا۔ ہم دونوں سپاہیوں کے قریب پہنچ گئے۔ سیاہ کٹوں میں ملبوس سپاہی دو قطاروں میں آمنے سامنے بے حس و حرکت کھڑے تھے۔ وہ اپنی بندوقیں زمین پر ٹکائے ہوئے تھے۔ ان کے پیچھے ایک بانسری نواز اور نقارچی کھڑے تھے اور وہ مسلسل وہی ناخوشگوار اور تیز دھن بجائے جارہے تھے۔
“یہ لوگ کیا کررہے ہیں؟” میں اپنے پہلو میں کھڑے ہوئے لوہار سے سوال کیا۔
“کسی تاتاری کو بھاگنے کی سزا دے رہے ہیں، لوہار نے اس دوہری قطار کے سب سے دور والے حصے کی طرف دیکھتے ہوئے خفگی سے جواب دیا۔
“میں بھی ادھر ہی دیکھنے لگا اور مجھے دونوں صفوں کے درمیان کوئی خوفناک چیز اپنی طرف آتی ہوئ دکھائی دی۔۔۔ یہ ایک آدمی تھا جو کمر تک ننگا تھا۔ وہ بندوقوں سے بندھا ہوا تھا جن کو دو سپاہی کھینچ رہے تھے۔ اس کے برابر ایک دراز قد افسر فوجی کوٹ اور ٹوپی پہنے چل رہا تھا۔ اسکا قد و قامت اور چال ڈھال مجھے کچھ جانی پہچانی سی معلوم ہوئی۔ قیدی کا پورا جسم تشنجی انداز سے پھڑک رہا تھا، اس کے پاؤں پگھلتی ہوئی برف پر بڑی بُری طرح گھسٹ رہے تھے۔ اور دو دو طرفہ داروں کے درمیان آگے بڑھ رہا تھا۔ وہ کبھی تو چھپ کر پیچھے ہٹنے کی کوشش کرتا، جس پر وہ دونوں سپاہی جو بندوقوں کے دونوں سرے پکٹرے ہوئے تھے اس کو جھٹکے سے آگے کھینچ لیتے تھے اور کبھی تیزی سے آگے چھپٹتا تو وہی سپاہی جھٹکے سے اس کو پیچھے کھینچ لیتے تھے کہ کہیں یکبارگی وہ گر نہ پڑے۔ قیدی کے ساتھ ساتھ وہی دراز قد افسر مضبوط قدموں سے چلتا ہوا ہماری طرف آرہا تھا۔ وہ کبھی ایک منٹ کے لیے بھی پیچھے نہیں رہا۔ یہ لال گالوں اور سفید مونچھوں اور گل مچھوں والا شخص وارنکا کا باپ تھا۔
“ہر وار پر قیدی اپنا دکھ اور کرب سے بگڑا ہوا چہرہ اسی طرف اٹھاتا تھا جدھر سے وار ہوتا تھا، گویا زبانِ حال سے اظہار حیرت کررہا ہو۔ اس کا منہ کھلا ہوا تھا، سفید سفید دانت نظر آرہے تھے اور وہ مسلسل کسی بات کی تکرار کیے جارہا تھا۔ لیکن جب تک وہ میرے بالکل قریب نہیں آگیا میں اس کے الفاظ سمجھ نہیں سکا۔ وہ کہہ رہا تھا۔۔ کہہ کیا رہا تھا۔۔ سسکیوں کے درمیان اس کے منہ سے یہ الفاظ نکل رہے تھے، بھائیو، رحم کرو، میرے اوپر رحم کرو، بھائیو۔۔ لیکن بھائیوں کو ذرا بھی رحم نہ آیا۔ جب یہ جلوس بالکل میرے سامنے پہنچا تو میں نے دیکھا کہ ایک سپاہی بڑے تیہے کے ساتھ قطار سے نکلا اور آگے بڑھ کر اپنا ڈنڈا اس قدر ذور سے تاتاری کی پیٹھ پر جمایا کہ ہوا میں اس کی آواز گونج گئی۔ جب تاتاری آگے کی طرف چھک گیا تو سپاہوں نے پھر اسے جھٹکے سے سیدھا کردیا اور مخالف سمت سے اس پھر ایک زور دار ہاتھ پڑا، اس کے بعد ادھر سے پڑا، پھر اس طرف سے پڑا۔۔ کرنل اس کے ساتھ چل رہا تھا، وہ کبھی تو اپنے پیروں کو دیکھنے لگتا اور کبھی قیدی پر نظریں گاڑ دیتا، وہ خوب زور زور سانس لے کر بہت سی ہوا اندر کھینچتا، کلے پھلاتا اور پھر دھیرے دھیرے اپنے کھلے ہوئے منہ سے ہوا باہر نکال دیتا۔ جب یہ جلوس ٹھیک اس جگہ سے گزرا جہاں میں کھڑا تھا تو مجھے سپاہیوں کی قطاروں کے بیچ سے قیدی کی پیٹھ کی ایک جھلک دکھائی دی۔ یہ گیلی، سرخ اور موٹے موٹے نشان پڑی ہوئی پیٹھ کچھ ایسی غیر فطری اور ناقابلِ بیان چیز تھی کہ الفاظ اس کی تصویر کھنچنے سے قاصر ہیں۔ مجھے یقین نہیں آسکا کہ یہ انسانی جسم کا کوئی حصہ ہوسکتا ہے۔
“اُف اللہ! میرے نزدیک کھڑے ہوئے لوہار نے زیرِ لب کہا۔
“جلوس آگے بڑھ گیا۔ اس دبکتے، ڈرتے، گرتے پڑتے بدنصیب شخص پر دونوں طرف سے مار پڑتی رہی، بانسری روتی رہی، طبل گمکنا رہا اور دراز قد، شاندار کرنل قیدی کے ساتھ ساتھ بڑی ثابت قدمی سے چلتا رہا، یکبارگی کرنل رک گیا اور پھر تیزی سے ایک سپاہی کے پاس گیا۔
“وار خالی گیا؟ اچھا میں تجھے مزا چکھاتا ہوں۔۔۔ ” میں نے کرنل کی غضبناک آواز سُنی۔ لے اور لے!
“اور میں نے دیکھا کہ اس نے اپنے مضبوط ہاتھ سے جس پر سوئیڈ کا دستانہ چڑھا ہوا تھا اس کمزور اور مخنی سے سپاہی کے منہ پر زور کے کئی تھپڑ رسید کیے کیونکہ اس سپاہی کا ڈنڈا تاتاری کی سرخ کمر پر کافی سختی سے نہیں پڑا تھا۔
“نیا ڈنڈا لاؤ!” کرنل نے حکم دیا۔ یہ کہہ کر وہ مڑا اور اسی لمحے اس کی نگاہ مجھ پر پڑ گئی۔ لیکن اس نے یہ ظاہر کیا گویا مجھے پہچانا ہی نہ ہو اور نے انتہا سختی، بدمزاجی اور خفگی سے تیوری پر بل ڈال کر دوسری طرف مڑ گیا۔ میں اس قدر شرمندہ ہوا کہ سمجھ میں نہیں آتا تھا کدھر دیکھوں گویا میں کوئی بہت ہی شرمناک حرکت کرتے ہوئے پکڑا گیا ہوں۔ میں سر جھکائے تیز تیز قدموں سے گھر کی طرف چل پڑا۔ پورے راستے میرے کانوں میں طبل کی گمک اور بانسری کی گریہ زاری، تاتاری کے الفاظ رحم کرو، بھائیو۔۔ رحم اور کرنل کی خود اعتمادی سے لبریز غضبناک آواز، ‘لے’ اور لے۔۔۔۔ یہ سب کچھ گونجتا رہا۔ میرا دل اس بری طرح دکھ رہا تھا جیسے سچ مچ اس میں درد ہورہا ہو، اس روحانی کرب کی شدت سے مجھے متلی ہونے لگی تھی اور اسی وجہ سے راستے میں کئی بار رکنا پڑا۔ مجھے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ اب الٹی ہوئی کہ تب ہوئی۔ مجھے یاد نہیں کہ میں کس طرح گھر پہنچا اور کیسے پلنگ پر لیٹا۔ لیکن جوں ہی میری آنکھ ذرا سی لگی پھر وہی سب کچھ سنائی اور دکھائی دینے لگا اور میں اچھل کر کھڑا ہوگیا۔
“یقیناً اسے کوئی ایسی بات معلوم ہے جو مجھے نہیں معلوم، میں نے دل ہی دل میں کرنل کے بارے میں سوچا۔ اگر وہی بات جس سے وہ واقف ہے مجھے بھی معلوم ہوجائے تو میری سمجھ میں سب کچھ آجائے گا اور میں نے جو کچھ دیکھا ہے اس سے مجھے قدر روحانی اذیت اور کرب نہیں ہوگا۔ میں نے اپنے دماغ پر خوب زور دیا لیکن ہزار کوشش پر بھی میری سمجھ میں نہیں آیا کہ آخر وہ کیا چیز ہے جو کرنل کو معلوم ہے۔ مجھے کسی صورت نیند نہیں آئی، میں صرف شام ہوتے ہوسکا اور وہ بھی اس وجہ سے کہ ایک دوست کے پاس جاکر خوب پی پلا کر نشے میں چور گھر لوٹا تھا۔
آپ سمجھتے ہوں گے میں نے یہ نتیجہ نکالا کہ جو چیز میں نے دیکھی تھی وہ بری تھی؟ قطعی نہیں۔ اگر میں نے جو کچھ دیکھا اسے لوگ اس قدر خوداعتمادی کے ساتھ کرتے ہیں اور سب اس چیز کو ضروری سمجھتے ہیں تو اس کا یہی مطلب ہوسکتا ہے کہ ان لوگوں کو کوئی ایسی بات معلوم ہے جو مجھے معلوم یہ تھا وہ نتیجہ جس پر میں پہنچا اور میں نے جاننے کی کوشش کی کہ آخر وہ کیا بات تھی۔ لیکن کبھی نہ جان سکا ۔۔ اور چونکہ میں وہ جان نہیں سکا اس لیے میں نے کبھی فوج کی نوکری بھی نہیں کی۔ حالانکہ شروع میں میرا یہی ارادہ تھا۔ اور فوج ہی میں کیا، میں نے کبھی کہیں اور کسی قسم کی ملازمت نہیں کی اور نتیجہ یہ ہے کہ آپ لوگوں کے سامنے ایک نکما اور بے کار محض آدمی بیٹھا ہے۔”
“ہم خوب جانتے ہیں کہ آپ کس قسم کے نکمے اور بے کار محض آدمی ہیں۔” ایک مہمان نے کہا۔ “اگر یہ کہا جانتے تو کہیں زیادہ صحیح ہوگا کہ آپ نے نہ جانے کتنوں کو نکما اور بےکار محض ہونے سے بچالیا۔”
“یہ کیا حماقت کی بات کرتے ہو۔” ایوان واسی لئیوچ نے واقعی جنجھلا کر کہا۔
“اچھا یہ تو بتائیے کہ آپ کے عشق کا کیا انجام ہوا؟” ہم لوگوں نے پوچھا۔
“میرا عشق؟ اس دن سے میرے عشق پر اداسی سی پڑگئی۔ جب کبھی ہم دونوں ساتھ ٹہلنے لگتے اور وہ اپنے خاص سوچ میں ڈوبے انداز میں مسکراتی تو فوراً کرنل کی میدان والی تصویر میرے حافظے میں ابھر آتی اور اس کی وجہ سے مجھ پر ایک عجیب سی گھبراہٹ اور بے چینی کی کیفیت طاری ہوجاتی اور طبیعت مکدر ہوجاتی۔ سو رفتہ رفتہ میں نے اس سے ملنا ہی بند کردیا۔ اور اس طرح ہمارے عشق کے سوتے سوکھ گئے۔ تو جناب ایسے ایسے واقعات ہوتے ہیں دنیا میں اور اسی قسم کے واقعات انسان کی پوری زندگی کو بدل ڈالتے ہیں، اس کا رخ موڑ دیتے ہیں، اور آپ ہیں کہ ماحول ماحول چلاتے ہیں۔۔ ” انہوں نے اس طرح اپنی بات ختم کی۔۔۔۔ انتخاب و کمپوزنگ: یاسر حبیب
(1903ء)
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...