وہ خوب رو تھی،مگر چہرے پر مُردنی سی چھائی ہوئی تھی ۔آنکھیں ویران، لب خُشک اور بال اُلجھے ہوے تھے ۔لق ودق تپتے ہوے صحرا میں پیر پسارے وہ دور افق کی طرف دیکھ رہی تھی،جہاں گہرے سیاہ گھنے بادلوں کے کئی ٹکڑے فضاء میں تیر رہے تھے ۔ وہ جیسے کئی روز کی پیاسی تھی اور ان آوارہ بادلوں کی طرف آس لگائے بیٹھی تھی ۔ کب یہ آوارہ بادل آُس کے سر کے اوپر سے گزر جائیں اور چھم چھم برستے ہوے اس کی پیاس بجھائیں ۔اس کے نرم و نازک ہاتھ آگے کی طرف پھیلے ہوئے تھے ۔ایک ہاتھ میں راکھی اور دوسرے ہاتھ میں سیندور کی ایک ڈبیا تھمی ہوئی تھی ۔
دراصل یہ ایک پینٹنگ تھی جسے ایک بین الاقوامی آرٹ نمایش کےلیے حیدر آباد کی آرٹ گیلری میں نمایش کےلیے رکھا گیا تھا ۔ میں بس دیکھتے ہی رہ گیا اور میرے آگے بڑھتے ہوئے قدم اچانک رک گئے ۔ اب میں پینٹنگ کو بڑے انہماک سے دیکھ رہا تھا ۔ پینٹنگ اُلجھانے والی تھی اور میں الجھتا ہی جارہا تھا ۔
"کیا ہوا ؟ کہاں اٹک گئے؟" اختر نثار نے میرے کندھے پر زور سے مارتے ہوئے کہا ۔ میں چونک گیا ۔
"یہ ۔۔یہ۔۔۔ پینٹنگ " میں ہڑبڑاتے ہوے بولا ۔
" پینٹنگ ۔۔۔ہاں تو " کہتے ہوے وہ استفہامیہ نظروں سے مجھے دیکھنے لگا ۔
"راکھی اور سیندور " میرے منہ سے بے ساختہ نکل گیا ۔
"بھئی واہ، تم نے تو عنوان بھی دے دیا ۔"
"شاندار ہے نا ۔۔۔؟"
"روچی چیان کی ہے ۔بڑی مشہور آرٹسٹ ہے " کہتے ہوے اختر نثار نے پینٹنگ کے ایک کونے کی طرف اشارہ کیا جہاں "روچی چیان " لکھا ہوا تھا ۔
جبھی میں پھر چونک گیا کیونکہ دوچی چیان کو میں جانتا تھا ۔ایک دن اُن سے فون پر بات ہوئی تھی ۔ انہیں میرا ناول " سٹریٹ بواے " پسند آیا تھا اور انہوں نے مجھے فون کرکے میرے ناول کی تعریف کی تھی ۔
"اب چلو بھی " اختر نثار نے پھر ٹوکا ۔
"مگر ۔۔ٰ۔۔۔۔؟"
" تبصرہ بعد میں ۔ ابھی تم چلو "
اختر نثار خود بھی ایک آرٹسٹ تھا ۔ آرٹ سے اس کا گہرا لگاؤ تھا ۔ وہ میرا دوست بھی تھا اور میری کتابوں کے سرورق بھی ڈیزائن کرتا تھا ۔ وہی مجھے نمائش میں کھینچ لایا تھا، ورنہ میرا یہاں آنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا ۔ میں حیدرآباد میں ان کے ہاں ہی ٹھہرا ہوا تھا ۔ ان کے چھوٹے بھائی کی شادی تھی اور مجھے خصوصی زمرے میں مدعو کیا گیا تھا ۔
شام کو میں پھر کمرےمیں بیٹھا روچی چیان کی پینٹنگ کے بارے میں ہی سوچ رہا تھا ۔ پینٹنگ میرے اعصاب پر بُری طرح سے چھائی ہوئی تھی ۔ میں خاصا اُلجھا ہوا تھا اور پینٹنگ کی گہرائیوں تک جانا چہتا تھا اور یہ اختر نثار کی مدد کے بغیر ممکن نہ تھا ۔ ستم ظریفی یہ کہ وہ شادی نظامت میں مصروف تھا ۔ چنانچہ میں بات نہ کر سکا ۔ میں روچی چیان کو بھی فون کرنا چہتا تھا اور پینٹنگ کے حوالے سے ان تک اپنے توصیفی کلمات پہنچانا چہتا تھا مگر سچ تو یہ ہے کہ میں ابھی تک اس پینٹنگ کو سمجھ ہی نہ پایا تھا۔
یوں روچی چیان سے میرا ایک تعلق قائم ہوا تھا ۔ میری جان پہچان ہوئی تھی اور ایک انجانا سا رشتہ قائم ہوا تھا ۔ روچی دراصل برمن تھی اور دہلی کی ایک مشہور یونیورسٹی میں آرٹ کی جونئیر پروفیسر تھی ۔ وہ بچپن سے ہی ایک آرٹسٹ تھی اور فنِ مصوری میں عالمی شہرت یافتہ تھی ۔ مگر وہ ٹیڑھی کھیر تھی اور اسے سمجھنا کارِدارد والا معاملہ تھا ۔میں پیہم اسے سمجھنے کی کوشش کررہا تھا اور وہ تھی کہ سمجھ سے باہر تھی ۔ اکثر گھما پھرا کر بات کرتی تھی ۔ کبھی کھل کر بھی بات کرتی تھی اور کبھی اس کی باتوں سے غرور بھی جھلکتا تھا ۔
روچی سے اب میری قربت بڑھ سی گئی تھی مگر اس کے لب و لہجے نے مجھے کافی محتاط بھی کردیا تھا ۔ اب میں بھی اس کے ساتھ گھما پھرا کر بات کرتا تھا ۔ میں اس کی تخلیقات میں کافی دلچسپی لینے لگا تھا اور ہم دونوں میں ایک انجانا سا رشتہ قائم ہوا تھا ۔
ایک روز اچانک وہ مجھ سے ملنے چلی آئی ۔وہ بڑی سنجیدہ تھی اور پریشان بھی ۔ اُس نے میری طرف ایک بڑا سا پیکٹ بڑھادیا اور میرے چہرے پر نگاہیں گاڑھے بولی ۔
"یہ آپ کےلئے ۔۔۔ اور ہاں ، میں جارہی ہوں ۔شاید اب نہ مل سکوں " میرے ہاتھوں میں پیکٹ تھماتی ہوئی وہ
بولی اور تیزی سے واپس چلی گئی ۔ میں حیران سا اسے جاتا ہوا دیکھتا رہا ۔ میں نے جلدی سے یہ بڑا سا پیکٹ کھولا اور دیکھا۔ یہ وہی پینٹنگ تھی جسے میں نے "۔راکھی اور سیندور " کا عنوان دیا تھا ۔
چیان کی یہ پینٹنگ"راکھی اور سیندور " اب بھی میرے پاس پڑی ہے آور ایک معمہ بنی ہوئی ہے ۔ میں اور اختر نثار نے اس پینٹنگ کے کئی معنی پہنا بھی دئیے مگر بے سود ۔ پینٹنگ اب بھی میرے اعصاب پر بُری طرح سے چھائی ہوئی ہے اور میں اس انتظار میں ہوں کہ چیان آے اور اس پینٹنگ کو کوئی معنی پہناے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمیں چیان کا انتظار ہے ۔ کیا چیان آئے گی۔؟ میرے خیال میں ضرور آے گی اور اپنی پینٹنگ کو معنی پہناے گی ۔
ایم بی بی ایس 2024 میں داخلہ لینے والی طلباء کی حوصلہ افزائی
پروفیسر صالحہ رشید ، سابق صدر شعبہ عربی و فارسی ، الہ آباد یونیورسٹی نے گذشتہ ۳۱؍ دسمبر ۲۰۲۴ء کو...