ریل، ریلوے، ریل کی سیٹی اور ریلوے اسٹیشن رومانوی ادب کے عالمگیر استعارے ہیں۔خوشونت سنگھ اپنا شاہکار ناول ً دلی ً لکھ رہا ہو یا چیخوف اپنا نمائندہ ڈراما چیری آرچرڈ، اے حمید کا افسانوی ادب ہو یا معروف امریکی شاعر جان ایشبری کی پیچیدہ موضوعات پر مبنی نظم MelodicTrains ریل اور ریل کا سفر ہر ایک تحریر میں مذکور ہے۔ ریل کی سیٹی جتنی تیکھی اور تیز کیوں نہ ہو طبعِ نازک پہ گراں نہیں گزرتی۔ کتنی عجیب سی بات ہے کہ ریل کا تعلق مشین اور شمار مشینی دور میں ہوتا ہے لیکن اس کی آواز کو چرخے، پن چکی اور بانسری کی آوازوں کی ہمنوا سمجھا جاتا ہے۔
ریل کا سفر کتنا ہی طویل کیوں نہ ہو بوجھل محسوس نہیں ہوتا۔ دنیا کے تمام ممالک کی طرح ہمارے دیس میں بھی ہر اسٹیشن ایک نئی رونق، چہل پہل، کلچر اور تہزیب کو لے کر ہمارا استقبال کرتا ہے۔ منچلے ہر اسٹیشن پر نیچے اترنا اپنا فرضِ عین سمجھتے ہیں۔کوئی پیارا چہرہ دکھ جائے تو سونے پہ سہاگا ورنہ سرکاری نلکے سے پانی پینے کر ہی نیچے اترنے کا جواز ڈھونڈ لیتے ہیں۔ہر اسٹیشن اپنی مخصوص کھانے پینے کی چیزوں کی وجہ سے شہرت رکھتا ہے۔ جب میانوالی سے راولپنڈی ریل کار چلا کرتی تھی تو جنڈ کے پکوڑوں کا بے تابی سے انتظار کیا جاتا تھا۔ یہ پکوڑے زیادہ تر بینگن کے بنائے جاتے تھے۔ بینگن کسی کو پسند ہوں نہ ہوں بینگن کے پکوڑوں سے کوئی انکار نہ کر پاتا۔ واپسی پر جنڈسٹیشن پر دال بکا کرتی تھی جو مٹی کیDisposable چھوٹی چھوٹی پلیٹوں میں دی جاتی۔ یہ پلیٹیں کھانا کھانے کے بعد میں دائیں کھڑکی میں سے اس وقت باہر پھینکتا جب دورگیس فیلڈکی آگ جلتی ہوئی دکھائی دیتی تھی۔
کسی زمانے میں میانوالی سے لاہور ماڑی انڈس ٹرین جو دنیا کی شاید سست رفتارترین گاڑی تھی چلا کرتی تھی۔ مغرب کے وقت گاڑی کندیاں کے اسٹیشن پر پہنچتی تو گرم چائے اور بڑے بڑے پکوڑے فروخت کرنے والے ریڑھی والوں کی آوازیں بلند ہونا شروع ہو جاتیں۔ کندیاں سے عشاء کے وقت جب گاڑی لاہور کی طرف روانہ ہوتی تو اندھیروں کا سفر شروع ہو جاتا۔ رات گیارہ بجے سرگودھا کا پرشور ریلوے اسٹیشن جاگ رہا ہوتا۔ پلیٹ فارم نمبر ۲ پر ایک بوڑھا جس کو مقامی لوگ چاچا ریڈیو کہا کرتے تھے اپنی مسلسل اور دھیمی آواز میں پھلوں کی صدا لگاتا رہتا۔ سحری کے وقت ٹرین فیصل آباد پہنچتی تو ناشتہ ناشتہ کرتے ہاتھوں میں ٹرے اٹھائے کینٹینوں کے چھوٹے بڑے نمائندے گاڑی میں سوار ہو جاتے اور گہری نیند سوئے ہوئے مسافروں کو اپنی کرخت آوازوں سے بیدار کر دیا کرتے۔ راستے میں شاہدرہ باغ کے پکوڑے بھی منفرد ذائقے کے حامل ہوا کرتے۔ ٹرین صبح آٹھ یا نو بجے لاہور پہنچا کرتی۔ لاہور ریلوے اسٹیشن پر قلیوں کی بھاگ دوڑ لاہور کی تیز زندگی کا پتہ دیتی۔ کئی گاڑیاں کراچی، راولپنڈی اور پشاور کے لیے تیار کھڑی دکھائی دیتیں۔ پلیٹ فارم نمبر ایک پر سرکاری کینٹین کا خوابیدہ ماحول آج بھی یادوں میں زندہ اور بیدار ہے۔ سٹیشن سے باہر تانگے، رکشے، بسیں اور ویگنیں ادھر سے اُدھر بھاگتے ہوئے دکھائی دیتے۔
میانوالی کا ریلوے اسٹیشن شہر کے مرکز میں واقع ہے۔ گو اب اس کی افادیت سفری سہولیات کے حوالے سے تو بہت معدوم ہو چکی ہے لیکن اس کی اہمیت سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ایک پرسکون جگہ ہے جہاں روزگار کی تھکن اتارنے کو کئی لوگ یہاں کا رُخ کرتے ہیں۔چاروں اور پرشور اور ہنگامہ خیز زندگی کے بیچوں بیچ یہ عمارت لاہور کے مشہورشہرِ خموشاں میانی صاحب کی یاد دلا دیتی ہے، جس کا خاموش وجود باوجود لاکھوں عظیم ہستیوں کو سموئے ارد گرد کی طوفانِ بدتمیزی کے برعکس خاموشی، سکوت،خوف اور یادوں کی مبہم باراتیں سمیٹے اونگھ رہا ہے۔ میانوالی کے سٹیشن پر کبھی شب و روز میں دس سے زیادہ گاڑیاں گزرا کرتی تھیں جن کی تعداد اب فقط دو رہ گئی ہے اور وہ بھی رات کے سناٹے میں چپکے سے گزر جاتی ہیں۔ ہم نہ تو ان کے چلنے کی آواز سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں اور نہ ہی گارڈ اور انجن کی دلنیشیں سیٹیوں سے۔ سنا ہے کہ رات کو جنگل میں تھوڑی دیر کے لیئے منگل کا سماں پیدا ہوتا ہے۔ چند ساعتوں کے لیئے سگنل باکس کے کل پرزے ہلائے جاتے ہیں، ٹکٹ کی کھڑکی کھلتی ہے، مسافر دو آنے اورجانے والی گاڑیوں میں سے اترتے اور داخل ہوتے ہیں، انجن غراتے بھی ہیں اور گارڈکی سنگت میں رومانوی سیٹیاں بھی بجاتے ہیں لیکن یہ سب کچھ ہماری بصارت اور سماعت سے کے حلقوں سے بہت دور ہی ہوتا ہے کہ ہمیں کانوں کان اس کی خبر تک نہیں ہوتی۔
ریلوے سٹیشن جب آباد ہوا کرتا تھا تو یہاں ایک بڑا سا بک سٹال اور شب و روز کھلی رہنے والی کنٹین کے ساتھ پلیٹ فارم کے شمالی حصے میں پکوڑوں کا ایک ٹھیلا بھی موجود ہوا کرتا تھا۔ اس زمانے میں پلیٹ فارم نمبر ۲ بھی آباد ہوا کرتا تھا کیونکہ سرگودھا کی ریل کار پلیٹ فارم نمبر ۲ پر ہی قیام کیا کرتی تھی۔ مسجد کے لیئے گرمیوں میں صحن موجودہ کینٹین کے پیچھے موجود ہوتا تھا جہاں شام اور عشا کی نماز پڑھتے ہوئے کھلی فضا میں ایک عجیب سرور ملتا تھا۔دور دور کے علاقوں سے لوگ رات کو نماز ادا کرنے اور واک کرنے کی خاطر یہاں آیا کرتے تھے۔
ریلوے اسٹیشن میانوالی کا ایک ادبی کردار بھی ہے۔ ماضی کے نامور ادیب، صحافی، نظریاتی سیاستدان ، اساتذہ اور دانشور شام اور رات کو یہاں اکٹھے ہوا کرتے تھے۔ شرر صہبائی، انجم جعفری، سلیم احسن اور سرفراز خان جیسے لوگ پلیٹ فارم پر اکثر چہل قدمی کرتے یا بک سٹال کے سامنے والے بینچ پر بیٹھے دکھائی دیتے۔ ادب اور سیاست کے موضوع پر زوردار بحثیں ہوا کرتیں، چائے کے دور چلتے اور اسی دوران ان لوگوں کے ہنسی قہقہے دور دور تک سنائی دیتے تھے۔
گو آج پہلے جیسی بات نہیں ہے لیکن پھر بھی سٹیشن شہر بھر میں اپنا ایک منفرد مقام سنبھالے ہوئے ہے۔ صبح اور شام کو بیسیوں لوگ چہل قدمی اور ورزش کرنے کے لیے یہاں آتے ہیں۔ یہاں کی خوبصورت مسجد بھی لوگوں کی کشش کا باعث ہے۔شام کے وقت جب موسم سرد ہو اور زمستانی ہوائیں چل رہی ہوں تو ویران، خاموش، پرسکون اور نیم روشن پلیٹ فارم پر بیٹھنے کا اپنا ہی ایک مزہ ہے۔ اگر آپ کے ہاتھ میں ایسے میں مونگ پھلیوں کا لفافہ ہو یا کوئی ہمدمِ دیرینہ ساتھ ہو تو پھر کیا ہی بات ہے۔
سوہنی دھرتی کے لاوارث شہید ارضِ وطن کے عسکری یتیموں کا نوحہ
بہت سال پہلے کا ذکر ہے ۔ لاہور سے سیالکوٹ آیا مانی چھاوٗنی کے شمال مشرقی گیٹ کے پار لال...