(Last Updated On: )
حبس آلود دوپہر میں جب ریلوے سٹیشن کی تنہاء اُداسی بھری چھاؤں میں اس نے قدم رکھا تو اس کے کچھ دیر بعد ہی ایک پہاڑی چڑیا گرمی سے نڈھال اس کے قدموں میں آن گری۔
ٹوٹے ہوئے لکڑی کے بینچ پر بیٹھتے ہوئے اس نے چڑیا کی پیاس سے نڈھال سانسوں میں موت کی ہلکی سی آمیزش کو شدت سے محسوس کیا اور کسی انجانے خوف کے پیش نظر اس نے پانی کے لئے نظروں کو چاروں طرف پھیلا دیا۔۔
دور ٹوٹے ہوئے مٹی کے ایک مٹکے نے اسے اپنی طرف دیکھتا پاکر آنکھیں چرا لیں تھیں۔
وہ چڑیا کو بینچ کی سطح پر کسی مرے ہوئے لمحے کی طرح چھوڑ کر بھاگتا ہوا وہاں گیا۔لیکن اس میں پانی کی جگہ تنہائی بھری ہوئی تھی ۔
اس نے سٹیشن ماسٹر کی کے کمرے کی طرف دوڑ لگا دی اور جب وہ پانی لیکر چڑیا کے پاس پہنچا اس کی سانسوں کی ڈور پیاس کی نوکیلی تیز دھار سے کٹ چکی تھی۔
اسے لگا جیسے چڑیا کی پیاس بھری ہوئی آنکھیں اس کے ہاتھ میں موجود میلے گلاس میں بیٹھے ہوئے پانی پر موکوز تھیں۔
یہ کوئی نیک شگون ہر گز نہیں تھا۔
اس نے چڑیا کے مردہ وجود کو مٹی کی نظر کیا اور جب زمین بالکل ہموار ہوگئی تو اچانک ہی آسمان نے اس ناگہانی موت پر نوحہ کہا اور بارش نے ٹین کی چھت پر الواعی دھن کو چھیڑا۔
فضا کسی جوان بیوہ کی آنسوؤں کی طرح گیلی اور سوگوار یادوں کی ہجوم سے نم ہو گئی۔
اس نے اپنے تھکے ہوئے وجود کو بینچ پر گرا دیا اور اطراف میں دیکھنے لگا ۔شاید وہ چڑیا کی موت سے توجہ ہٹانا چاہتا تھا ۔
.اب وہ چاروں طرف انتظار کو چلتے پھرتے دیکھ رہا تھا سامنے بیٹھے بوڑھے کی جھریوں سے انتظار تاکا جھانکی کر رہا تھا ۔قلیوں کے شکن زدہ لباس کی لکیروں میں بھی انتظار رقص کر رہا تھا ۔اس کے سامنے کچھ دوری پر بیٹھی لڑکی کی ہاتھوں میں لگی مہندی سے بھی انتظار کی مہک آرہی تھی اور اس کی آنکھوں میں انتظار جل رہا تھا ۔انتظار گاہ میں چلتے پھنکے تک ہوا کی جگہ انتظار پھینک رہےتھے .موتیے کے پھول بیچنے والا لڑکا نہیں جانتا تھا کہ اس کے پھولوں سے انتظار کی باس آرہی ھے ۔ اس نے اس بوڑھی کو بھی دیکھا جس کے سفید بالوں میں انتظار کے کچھ کالے بال اگ آئے تھے ۔سپیکر سے آتی آواز گویا انتظار کی آہٹ تھی جسے سن کر سب چونک اٹھتے تھے اور ریل کی پٹڑیوں پر دور تک اس سمت انتظار بھری نگاہ ڈالتے جہاں سے ریل انتظار کی پٹریوں پرسے کچھ اور انتظار لیکر آتی۔یہاں ہرطرف انتظار تھا ۔چلتا انتظار ۔ٹھہرا انتظار۔ دوڑتا انتظار۔ بیٹھا انتظار ۔لیٹا انتظار۔۔بولتا انتظار خاموش انتظار ۔۔ریلوے اسٹیشن کے چپے چپے پر انتظار جم سا گیا تھا۔۔جیسے ٹھہرے پانی پر کائی جم جاتی ھے ۔
لو ٹرین آگئی اس میں بھی ہر سیٹ پر انتظار بیٹھا تھا۔۔ منزل پر پہچ جانے کا انتظار۔۔۔
لاحول ولاقوة__اس کا جی انتظار کی بُو سے متلانے لگا تو اس نے دوبارہ اس چھوٹی سی مٹی کی ڈھیری کو دیکھا جہاں کچھ لمحوں پہلے ہی اس نے پیاسی چڑیا کو دفنایا تھا ۔
چڑیا کی موت شاید آنے والے کسی بڑی جدائی بھرے حادثے کی پیشن گوئی تھی۔
اس نے مردہ چڑیا کی بجھتی ہوئی آنکھوں میں اپنی موت کا عکس لہراتے ہوئے واضح طور پر دیکھا تھا۔
رائگاں سفر کی مشقت اور بے حسی کے منہ زور تھپڑوں سے نڈھال اس کا وجود اس بینچ کی طرح جگہ جگہ سے ٹوٹا ہوا تھا جس پر شاید برسوں بعد وہ آکر بیٹھا تھا۔
جب مٹی کی خوشبو میں اداسی کی خوشبو شامل ہوکر ریلوے سٹیشن کی تنہائی بھری فضا میں پھیل چکی تو بادل اپنے آنسو پونچھتے ہوئے اس بچے کی طرح سو چکے تھے جسے من پسند کھلونا نہ دیا گیا ہو ۔۔آسمان کی گالوں پر اسی بچے کی طرح کچھ آخری بوندیں لڑکھڑاتی ہوئی تیرے جا رہی تھیں۔
دھوپ نے سٹیشن کے نیم تاریک ماحول میں قدم رکھا تو اس کی نظریں ریلوے لائن پر دور تک دیکھتی ہوئیں اداس تھیں۔
اسے اندازہ ہوا کہ شہر میں ہونے والے حادثوں میں کچھ بڑے حادثے کبھی لوگوں کی نظر میں نہیں آتے۔جیسے اس چڑیا کی موت یا گاڑی کے نیچے آکر مرنے والے بلونگڑے کی موت۔۔
کوئی بھی ٹی وی چینل ایسے واقعات کی کبھی کورج نہیں کرتا ہے۔۔اسے دکھ ہوا کہ کوئی کہانیاں لکھنے والا بھی ان اموات پر کبھی کوئی کہانی نہیں لکھتا ہے۔
اُس نے دوہارہ اس جگہ کو دیکھا جہاں چڑیا دفن تھی۔
کون کہے گا کہ یہاں پیاس سے نڈھال ایک چڑیا دفن ہے ۔۔جس کی جگر گوشے گھونسلے میں بیٹھے اس کی راہ دیکھ رہے ہوں گے۔۔اس چشم تصور میں اس چڑیا کے بچوں کو دیکھا ۔۔۔جن کی آنکھوں میں انتطار پھیلا ہوا تھا۔
کاش میں ان کو بتا سکتا کہ وہ انتظار نہ کریں۔
اس نے دل میں تاسف سے سوچا۔
اس نے وقت گزری کے لئے ریلوے سٹیشن کا مشاہدہ کیا۔
ایک ٹوٹا ہوا پانی کا گھڑا، ایک لیڑ بکس جس میں ایک کوے نے اپنے گھر بنایا ہوا تھا ۔۔اور ایک لکڑی کا بکسہ جو تابوت کی طرح وہاں پڑا ہوا تھا ۔
انگریزوں کی دور کی پرانی گھڑی جو سٹیشن ماسٹر کے کمرے کی دیوار پر کسی ادھورے وعدے کی طرح ایک جگہ رکی ہوئی تھی۔
اس کے علاوہ دکھ بھرا بوڑھا انتظار جو نجانے کتنی صدیوں سے وہاں بیٹھا ہوا ریل گاڑی کی انتظار بھری آواز کو سن رہا تھا ۔
اور ایک وہ۔۔جو کسی پرانے شکستہ وائلن کی ٹوٹی تاروں میں سانس لیتی کسی دھن کی آواز جیسا تھا۔
آوازیں جب مجسم ہوجائیں تو ان کے اندر کا کہرب کس قدر واضح ہوجاتا ہے۔۔
غرض زندہ لوگوں کے لئے شاید اس ریلوےاسٹیشن میں کوئی کشش یا دلچسپی کا سامان نہیں تھا_
ٹرین پتا نہیں کب آئے گی_اس نے دل میں سوچا اور پھر ریلوے پلیٹ فارم پر چل قدمی کرنے لگا اس کی نگاہیں کسی چیز کی تلاش میں تھیں۔پھر اسے اسٹیشن ماسٹر کے کمرے کے سامنے ادھ جلا ہوا سیگریٹ بلاآخر نظر آگیا ۔خود سے نگاہیں چراتے ہوئے اس نے سیگریٹ اٹھایا اور جیب سے ماچس نکالی جس میں آخری تیلی بچی ہوئی تھی__اُسے دوسری تیلی کی ضرورت بھی نہیں تھی_
سیگریٹ سلگتے ہوئے وہ وہ خاموشی سے وہیں اسی بینچ پر آ بیٹھا۔
اچانک ہی پٹریاں کسی مریض کی طرح ہلکی سی کانپی
جدائی کی گہری نیند میں سویا ہوا ریلوے سٹیشن یک لخت ہی بیدار ہوا تھا۔
ریل کی آواز ریل سے آگے دوڑتی ہوئی وہاں داخل ہوئی تھی۔
اس نے طویل سانس اپنے اندر کھینچا اور مایوسی سے سگریٹ کو دیکھا جس کے وہ محض دو کش ہی لے سکا تھا۔
جدائی کا وقت پرانی گھڑی سے کود کر باہر آگیا تھا___اور پھر
کچھ ہی دیر بعد وہ اس ریلوے اسٹیشن پر تھکا دینے والے بوڑھے انتطار کی آنکھوں میں تحلیل ہوچکا تھا ۔
اور پیچھے چڑیا کی آخری سانسیں اور اس کا بیگ پڑا رہ گیا تھا جس میں وہ عمر بھر ناکامیاں اور خواب جمع کرتا تھا__اور ہاں___ریل کی سیٹی ___جو گہری اور ہمیشہ کی جدائی کی تمہید تھی!