(Last Updated On: )
والدین کا سایہ سر سے اٹھتے ہی جیسے اشرف کی دنیا بالکل اجڑ گئی اور زندگی کی خوشیوں نے اپنا بوریا بسترا اٹھا کے کہیں اور ڈھیرا ڈال دیا ہو۔ اس کے صبح شام کی آہوں اور سسکیوں نے اس کے دل کو بھی جیسے بالکل ہی توڑ کے رکھ دیا تھا ۔ انتہائی بے بسی کے عالم میں وہ کبھی کبھی خود سے سوال بھی کرتا تھا اور پھر ان سوالوں کے جوابات بھی جاننا چاہتا تھا ۔ سوچتا تھا کہ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور اس کی رفتار اتنی تیز ہو گئی جیسے کہ سارے فاصلے اپنی افادیت کھو چکے ہوں ۔ سبھی خوبیوں اور خامیوں کے باوجود برقی رفتار نے اپنے زور انتے زور سے پکڑ لئے ہیں کہ جسے رستے ٹٹولنا کچھ فاصلے کی دوری پر ہی ختم ہو جاتے ہوں ۔
اشرف کسی اعلی عہدے پر فائز نہیں تھا بلکہ ایک دفتر میں معمولی ملازم تھا ۔ جس کی آمدنی بہت قلیل تھی مگر دفتر کے کاموں اور آفیسروں کی تعمیل حکم میں کبھی کوئی کوتاہی نہیں بھرتا تھا ۔ کافی تاخیر سے تھکا ماندہ گھر لوٹتا تھا تو گھر میں سب مل کر مہابھارت شروع کر دیتے تھے ۔ فوری ردعمل کے نتیجے میں وہ افراد خانہ سے معافی بھی مانگتا تھا تاکہ لڑائی جھگڑے طویل نہ ہو جائے ۔ پیسے کمانے کے لئے وہ گھر کا اکیلا فرد تھا مگر کھانے کے لئے پورے نصف درجن سے کم نیہں تھے ۔ وہ طعنون، لڑائیوں اور الزاموں سے بھری زندگی سے بہت تنگ آ چکا تھا اگر حوصلے سے کام نہ لیتا تو اپنی زندگی کا کب کا خاتمہ کر چکا ہوتا ۔
وہ سکون چاہتا تھا جو اسے یہ بے درد سماج اور گھر کے حالات بہت ساری کاوشوں کے باوجود بھی نہیں دے پا رہے تھے ۔ حساس طبیعت کا مالک یہ اشرف کچھ بھی سوچ کر تڑپ اٹھتا تھا ۔ ویسے اس کی بھی کوئی خطا نہیں تھی ۔ پہلے بیوی پھر تین تین بچوں کا باپ اور اوپر سے ایک بہن کا بھائی، گھر کا گذارا بڑی مشکل سے ہی ہوتا تھا ۔
ایک تو مہنگائی نے اس کی کمر پہلے ہی توڑ کے رکھ دی تھی دوسرا گھر والوں کی روز روز کی لڑائی جھگڑے نے تو اسے کسی ملزم سے کم حقدار بھی نہیں ٹھہرایا تھا ۔ کس کس سے دامن چھڑاتا۔ ایک سادہ لوح انسان کی کہیں قدر ہی نہیں ہوتی ہے ۔
اشرف نے تو اپنی آرزؤں کا پہلے ہی گلا گھونٹا تھا ۔ پھر بھی گھر میں قدم رکھتے ہی گھر کے سبھی لوگ اس پر بادلوں کی طرح گرجتے تھے اور اولوں کی طرح برستے تھے ۔ جسے اس کی اپنی زندگی آسمان کی کالی گھٹاؤں کی طرح تاریک اور سناٹوں سے بھر پور نظر آتی تھی ۔ وہ دل خراش صداؤں کو اپنے اندر چیرتی ہوئی محسوس کرتا تھا مگر پھر بھی نہ جانے اسے یہ سب طعنے اور چیخیں سہنے کی طاقت کہاں سے ملی تھی ۔
شام کا وقت تھا ۔ آسمان پر کالے کالے بادل منڈلا رہے تھے اور دور افق سے اٹھتی ہوئی کالی گھٹا کا سماں بڑا خوفناک لگنے لگا تھا ۔ پرندے بھی جھنڈ کے جھنڈ اپنے ٹھکانوں پر لوٹنے لگے تھے ۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چلنے لگی تھیں ۔ چھوٹے بڑے بچے بھی ان فضاؤں میں اپنے گھروں سے باہر نکل کر کھیلنے میں مصروف ہو گئے ۔ لگتا تھا بارش ہو جائے گی مگر بچوں کو بارش میں بھیگ جانے کی بھی کوئی پرواہ نہ تھی ۔ اشرف بھی یہ تماشہ بڑے مزے سے دیکھ رہا تھا ۔ چہرے پر شادمانی کے آثار نمایاں تھے مگر دل میں گھر کے ابتر حالات اور واقعات بُرے سائے کی طرح منڈلا رہے تھے ۔ گھر کے ان صورتحال سے پریشان اس کے دماغ میں نہ جانے کہاں کہاں سے کبھی کبھی ایسے خطرناک منصوبے بھی نزول ہوتے تھے اور وہ اداکاری کے نئے نئے جوہر دکھاتا تھا ۔ جسے گھر میں امن و امان برقرار رہتا تھا ۔ وہ ہر وقت اللہ سے دعا کرتا تھا کہ کسی کو اپنوں کے دکھ نہ دیکھنے پڑے مگر شور شرابے کا یہ عادی شخص کب خاموشی اور ویرانی میں چپ اور خوش رہتا ۔ پہلے تو اس کا کام تناؤ اور کشیدگی میں ہی چلتا تھا۔ پھر کچھ دنوں سے اسے نہ جانے کیا سوجھا کہ وہ تجربے کرنے پر اترا ۔ وہ گھر سے دو تین دنوں کے لئے لا پتہ رہنے کا ڈرامہ کرنا چاہتا تھا اور پھر اس کے نتائج بھی دیکھنا چاہتا تھا ۔
ایک دن موقعہ پا کر وہ گھر سے غائب ہو گیا ۔ گھر والے پریشان، گمشدگی کی تشویش، تلاش جاری، مر گیا ہے یا زندہ ہے، کہاں ڈھونڈیں، واردات کا تو پتہ چلے ۔ اپنی اپنی جگہ ہر کوئی ہاتھ پاؤں مار رہا تھا ۔رشتہ داروں تک خبر پہنچی تو گھر میں جوق در جوق مہمانوں کا آنا جانا شروع ہو گیا ۔
اشرف یہ سب تماشہ گھر سے غائب رہ کر اپنے دوست کی مدد سے مل کر دیکھ رہا تھا ۔ کئی نزدیکی رشتہ دار اور اپنے گھر والے اس کے غائب ہونے سے بہت پریشان تھے اور کئی ویسے ہی مزے لوٹ رہے تھے ۔ گھر میں راشن اور دیگر اجناس ختم ہونے کو آئے تو گھر والوں کو اس کے غائب ہونے سے ذیادہ گھر کے ضروری اشیاء ختم ہونے کی فکر ہونے لگی ۔ ہر فرد کے لبوں پر جیسے پٹی باندھی ہوئی تھی ۔ بیوی الگ سے کمرے میں جا کر بار بار رونے سے ہچکیاں لے رہی تھی کیونکہ ایک تو گھر میں ضروری اشیاء کی کمی اور اوپر سے بچوں کی ضد ۔ بچے بھی گھوم پھیر کر ماں کو ہی تنگ کر رہے تھے اور بار بار پوچھتے تھے کہ “بابا کہاں ہیں ۔ بابا کہاں ہیں”؟ ۔
گھر سے دور رہ کر آج پورے سات دنوں سے اشرف بھی پریشان تھا اور اس کا دماغ بھی منتشر تھا۔ دوست تو خبر گیری کرتا ہی رہتا تھا مگر اسے بھی تو اپنے گھر کے حالات معلوم تھے ۔ وہ گھر والوں کے لئے اتنا پریشان نہیں تھا جتنا ان کے لئے راشن پائی ختم ہونے کے لئے فکر مند تھا ۔ سوچتا تھا کہ میری ذرا برابر بھی سستی گھر میں خانہ جنگی نہ شروع کر رہے اور گھر کے لوگ کسی قسم کا کوئی ہنگامہ نہ کر یں۔
اس کی سوچ بہت حد تک صحیح تھی کیونکہ اس کے گھر والے پولیس تھانے میں رپورٹ لکھانے کی باتیں کر رہے تھے ۔ اسے پہلے کہ کچھ بازپرس ہوتی اور معاملہ کچھ زیادہ طول پکڑتا ۔ اس کے دوست نے اسے مشورہ دیا کہ اب تمہیں گھر جانا چاہئے تاکہ بات زیادہ آگے نہ بڑھے ۔ ورنہ پھر تم تجربہ کرتے کرتے خود تجربہ بن جاؤ گے۔
اتنا سنتے ہی وہ دوست کے گھر سے نکل کے اچانک اپنے گھر میں داخل ہوا ۔ وہاں بیٹھے جمع لوگ ایک دم سے کھڑے ہوئے ۔ کسی نے گلے سے لگایا اور کسی کی آنکھوں سے خوشی کے آنسوں نکلے ۔ کوئی گلہ شکوہ کرنے لگا اور کئی آپس میں چہ مہ گوئیاں کرنے لگے ۔ اس نے دیکھا کہ گھر کا سارا ماحول ہی بدل گیا ہے ۔ سب نے تقریبا تقریبا میری کمی کو کچھ حد تک محسوس کیا ہے ۔ چاہئے اپنی خودغرضی اور مطلب سے ہی سہی ۔
کسی ایک شخص کی غفلت شعاری سے گھر میں کیا کیا مشکلات پیش آتے ہیں ۔ یہ اشرف نے آج خوب جانا مگر کسی ایک شخص کے گھر میں نہ ہونے سے کیا کیا مشکلات پیش آتے ہیں یہ بھی اتنے دنوں میں اشرف کے گھر والوں نے بخوبی محسوس کیا ۔
اس طرح سب کو اپنی اپنی افادیت کا پتہ چلا ۔ ایک گھر جو کبھی شور شرابے کا اکھاڑہ ہوا کرتا تھا اج خوب گہما گہمی سے اور خوشحالی کی گفتگو سے جنت نشان بن گیا ۔ یہ دونوں دوست ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر جیسے اللہ کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کا بھی شکریہ ادا کرتے تھے مگر کسی کے آگے منہ کھولنے کی ہمت نہیں ہوئی ۔ ذرا سے جھٹکے نے آج اشرف کا گھر ایک سایہ دار شجر بنا دیا ۔
کبھی کبھی وہ سوچتا تھا کہ ایسے لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دینا ہی مناسب ہوتا ہے ورنہ آج یہ اس کا گھر اّسی شور شرابے کا اکھاڑہ ہوتا ۔ وقت ہر زخم کا مرہم ہے ۔ جو بڑے سے بڑے زخم ہی نہیں بھرتا ہے بلکہ آنے والے مشکلوں سے بھی گریز کرنا سکھاتا ہے ۔ یہ سب ڈرامہ جو اس نے اپنی لاچاری اور مہنگائی کے ڈر سے کیا تھا آج بھی راز دل بن کر اس کے دل کے ایک نہاں خانے میں دفن ہے ۔ کہتا ہے
دل ٹوٹنے سے تھوڑی سی تکلیف تو ہوئی
لیکن تمام عمر کو آرام ہو گیا۔
****
واجدہ تبسم گورکو
سری نگر ۔ کشمیر