(Last Updated On: )
آج چاند نہیں نکلا تھا۔ ہر سو اندھیرے کا راج تھا۔ رات کے پچھلے پہر ہر شے ساکن ہو چکی تھی۔ تنگ و تاریک گلی سے ایک ہیولہ نمودار ہوا اور بڑی سڑک کے کنارے تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا ایک جانب بڑھنے لگا۔ چلتے چلتے وہ کافی دور نکل آیا تھا۔ وقفے، وقفے سے اکا دکا گاڑیاں اس کی قریب سے گزرتیں تو اس کا دل جیسے خزاں رسیدہ پتے کی مانند لرزنے لگتا۔ تیز چلنے کی وجہ سے سانسیں بے ہنگم ہو رہی تھیں۔ مرکزی سڑک سے اتر کر اب اس کا رخ نشیب کی جانب ہو چکا تھا۔
ایک طرف سے دو آوارہ کتے بھاگتے ہوئے اس کے قریب سے گزرے تو اس کے ہاتھ میں پکڑی ہوئی پوٹلی زمین پر گر پڑی، چہرے سے سیاہ چادر ذرا سی سرک گئی۔ رات نے حیرت زدہ ہو کر اسے دیکھا۔ سیاہ چادر میں لپٹا وجود ایک سہمی ہوئی لڑکی کا تھا۔ اس نے جھک کر پوٹلی اٹھانے کی کوشش کی تو جیسے زمین نے اسے اپنی طرف کھینچ لیا۔ وہ تھک کر زمین کی آغوش سے لپٹ گئی،بہت سے پل یونہی سرک گئے۔
“میں اڑنا چاہتی تھی لیکن میرے پر نوچ لیے گئے۔ میں اس زخم خوردہ وجود کے ساتھ وقت کے تھپیڑے سہنے پر مجبور ہو گئی۔ میں نے آزاد فضا میں سانس لینا چاہی تو مجھ پر زندگی تنگ کر دی گئی۔ میری بے بسی میرے لیے سزا بنا دی گئی۔ میں نے ایسا نہیں چاہا تھا لیکن مجھے ایسا کرنا پڑا!” درد اس کے وجود کو ڈس رہا تھا۔ وہ مٹی کو اپنے دکھ سنا رہی تھی۔
شدت گریہ زاری سے اس کا حلق خشک ہو چکا تھا۔ اس نے سوکھے لبوں پر زبان پھیری، اور اندھیرے میں نظریں ادھر ادھر دوڑائیں لیکن اس ویرانے میں پانی کا ہونا اسی طرح تھا جیسے صحرا میں کسی پھول کا اگ آنا۔
“میری ہر تلاش ختم ہو چکی ہے پھر مجھے پانی کیوں چاہیے؟ نہیں مجھے اب کچھ نہیں چاہیے۔ زندگی کی سب بے اعتنائیوں کو میں نے اپنے سینے میں چھپا لیا، ہر درد کو اپنی ایک ایک پور میں سمو لیا ۔ میرے جسم نے درد سے دغا نہیں کی، میں نے ہنس کر ہر غم کا خیر مقدم کیا۔ میں بے وفا نہیں ہوں، میں بے ایمان بھی نہیں پھر! پھر! میرے ناتواں وجود میں اب طاقت نہیں، میں ختم ہو چکی ہوں۔ میں شاید مر چکی ہوں۔ ہاں میں مر گئی ہوں۔” وہ چیخنا چاہتی تھی لیکن آواز اندر ہی کہیں دم توڑ گئی۔
ایک دم زمین کی گود سے ایک روشنی جاگی اور اس کی جانب بڑھنے لگی۔ وہ حیرت سے اس کی طرف دیکھے گئی۔ وہ روشنی اس کے قریب آتے، آتے مدہم ہو چکی تھی۔ اس سے ایک بالشت کے فاصلے پر آ کر روشنی، فضا میں ٹھہر گئی۔ وہ لاشعوری طور پر سہم کر پوٹلی کی آڑ میں خود کو چھپانے لگی۔
“مجھ سے مت ڈرو!” روشنی سے آواز آئی۔
“کک کون ہو تم؟” وہ بمشکل بولی تھی۔
“میرے ساتھ آؤ!” سناٹے میں ابھرتی آواز نے ماحول کو مزید پر اسرار بنا دیا تھا۔
“لیکن کیوں؟”
“سوال مت پوچھو! جو کہا ہے وہ کرو۔ مجھ پر بھروسہ کرو۔” وہ ڈرتے ڈرتے اٹھ کھڑی ہوئی۔ اس نے قدم اٹھانا چاہے تو من،من بھر کے ہو رہے تھے۔ اسے لگا جیسے وہ گہری دلدل میں ہے۔
“چلو بھی!” روشنی کی نرم سی کرن جگمگائی۔ اس نے ہمت کر کے پاؤں کو زمین کی گرفت سے آزاد کیا۔
روشنی نے ایک طرف بڑھنا شروع کیا، وہ بھی ایک معمول کی طرح اس کی پیروی میں قدم اٹھائے گئی۔
“اس تاریک رات میں، تم کہاں جا رہی تھیں؟” مدہم روشنی سے آواز ابھری۔
“میں تھک گئی تھی، بھاگ رہی تھی۔” وہ پر تھکن آواز میں بولی۔
“خود سے بھاگ کر کہاں جاؤ گی؟”
“شاید موت میری آخری پناہ گاہ ہوتی۔”
“موت؟ لیکن اس پوٹلی کا کیا کرنا تھا؟”
“اس میں میری آدھی موت ہے۔”
“آدھی موت؟”
“ہاں ! اس پوٹلی میں میرے پر ہیں، جو نوچ کر پھینک دیے گئے تھے۔ میں نے سمیٹ کر اس پوٹلی میں باندھ لیے۔ اس میں بیڑیاں بھی ہیں۔”
“کیسی بیڑیاں؟”
“میرے پاؤں سے لپٹی ان دیکھی بیڑیاں, جو مجھے باندھنا پڑیں۔”
“اور کیا ہے اس میں؟”
“بہت سے مکھوٹے, جو مجھے پہننا پڑتے ہیں جب دل روئے تو مسکراہٹ کا مکھوٹا، جب خاموشی اوڑھنے کا من چاہے تو گفتگو کا مکھوٹا!” وہ چلتے چلتے رک گئی۔
“رکو مت! چلتی رہو۔”
“میں پیاسی ہوں، یوں لگتا ہے صدیوں سے میرے لب، آب جو کو ترس رہے ہیں۔”
“تمہیں رکنا نہیں ہے چلتی رہو، پانی بھی ملے گا۔” آواز نے اسے دلاسہ دیا۔
“یہ تو صحرا آ گیا ہے۔ یہاں پانی کہاں ہو گا بھلا؟”اس کے پیروں نے ریت کو محسوس کیا۔
“ہاں! لیکن تمہیں تھکنا نہیں ہے۔ تم بہت با ہمت ہو چلتی رہو۔” روشنی جگنو کی مانند اسے راستہ دکھا رہی تھی۔
“ارے وہ دیکھو پانی!” اس نے ایک طرف اشارہ کیا۔
“یہ پانی نہیں ہے۔ فقط سراب ہے اس طرف مت جاؤ۔”
“تم پہلے کی نسبت پھیل رہی ۔ تم پہلے بہت مدہم تھی، جیسے ایک ننھا سا جگنو لیکن اب زیادہ چمک ہے ۔ مجھے اب پہلے سے بہتر دکھائی دے رہا ہے۔ ایسا کیسے ہوا؟ کون ہو تم؟”
“یہ ایک راز ہے۔ وقت آنے پر سب معلوم ہو جائے گا۔” جگنو ستارے میں تبدیل ہو چکا تھا۔
“ارے وہ دیکھو! پانی کا چشمہ! آؤ اس طرف چلیں۔” اس کی آواز میں بشاشت تھی۔
“چلو آؤ!” اس بار اس نے روکا نہیں تھا۔ وہ صحرا سے نکل کر پہاڑی علاقے میں داخل ہو چکے تھے۔ روشن ستارے نے اسے بچوں کی طرح خوش ہوتے، پانی کے چھینٹے اڑاتے ہوئے دیکھا اور اس کی چمک مزید بڑھ گئی۔
وہ جی بھر کر پانی سے سیراب ہوئی، چہرے کو رگڑ، رگڑ دھویا۔
مسکراہٹ والے مکھوٹے نے مسکرا کر اس پر الوداعی نگاہ ڈالی۔
دھیرے دھیرے روشنی بڑھتی جا رہی تھی۔ اسے دور سے بھی چیزیں واضح دکھائی دینے لگی تھیں۔ آڑو کے پیڑ سے جھانکتی گلابی کلیاں اسے دیکھ کر کھل اٹھیں, ان کی رنگت بھی مزید گہری ہو گئی تھی۔ اس نے ایک شاخ کو پکڑ کر ہلایا تو اس پر پڑی برف نے اس کے رخسار کا بوسہ لے لیا۔ کلیوں کا عکس اس کے عارض میں گھل گیا۔ روشن ستارے نے ماہ تاب کی شکل اختیار کر لی تھی۔ ماہ نے اسے پکارا، وہ مسکرا کر آگے بڑھ گئی۔ پوٹلی سے بیڑیاں کب نکل کر گر گئیں اسے پتا نہیں چلا تھا۔
سفر پھر سے شروع ہو چکا تھا۔ وہ بھاگتے بھاگتے ماہ تاب سے آگے نکل جاتی تھی پھر شرارتی مسکان لبوں پر سجائے رک جاتی۔ چاندنی اس کی زلفوں سے اٹھکیلیاں کرتی، اس کے وجود کو چھو کر آگے چلنے لگتی۔
اچانک اس کے پاؤں نے سرسبز ٹھنڈی گھاس کو چھوا۔ وہ ایک پگڈنڈی تھی جس پر وہ چلتی جا رہی تھی۔ خوشبو کے جھونکوں نے جھک کر اسے خوش آمدید کہا، وہ ایک باغیچے میں داخل ہو رہی تھی۔ وہ دور تک پھیلے ہوئے رنگ برنگے پھولوں کو دیکھ کر کھلکھلا کر ہنس دی۔ وہ ہنسی تو ادھ کھلا گلاب ایک دم سے کھل اٹھا۔ تتلیوں نے اس کے کانوں میں سرگوشی کی اور اس کے اردگرد رقص کرنے لگیں۔
اس نے مسکراتی نگاہوں سے ماہ تاب کی کرنوں کو دیکھا۔
“میرے پر نکل آئے۔ میں پھر سے اڑوں گی۔ میں ہوا کے سنگ پرواز کروں گی۔ اب چٹانیں میرے وجود کو زخمی نہیں کر پائیں گی۔” اس نے آسمان کی جانب نگاہ کی چاندنی دور ابھرتی سحر کے سنگ چھن چھن کرتی اسے دیکھ کر کھلکھلا اٹھی۔ صبح نو طلوع ہو رہی تھی۔ درد نے اس کے جسم کو آزاد کر دیا۔ اندھیرے چھٹ گئے تھے، روشنی اس کے وجود میں سما چکی تھی۔ وہ راز سحر جان چکی تھی۔ اس نے اڑان بھری اور آسمان کی وسعتوں میں گم ہو گئی۔۔
*****
افسانہ نگار۔شفاء چوہدری۔(وہاڑی،پاکستان)
افسانہ نگار۔شفاء چوہدری۔(وہاڑی،پاکستان)