تحریر: محمد بَراَدا (مراکش)
انگریزی سے اردو ترجمہ: عطا صدیقی
ہم دیر سے جاگے اور بستر میں پڑے پڑے جماہیاں لیتے رہے۔ یوں لگتا تھا جیسے ہڈیوں کا جوڑ جوڑ الگ ہوجائے گا۔ یہ نظر آرہا تھا کہ آج کا دن بھی پچھلے گزرے ہوئے دنوں ہی کی طرح گزرے گا۔ ہم نے اپنا سر چوبی سرہانے پر ٹکا دیا۔ ہماری نظر دھندلی دھندلی ہورہی تھی اور بلاشبہ ہمارا چہرہ بھی پیلا پڑا ہوا تھا۔ ہم ڈاکٹر سے اس سلسلے میں رجوع کرچکے تھے۔ اس سے اپنی شکایت کی جس پر اس نے سیانوں کی طرح سر ہلا کر کہا تھا،
"تم اکیلے نہیں ہو۔۔۔ تمہاری طرح کے وہ تمام افراد جو غور و فکر میں مبتلا رہتے ہیں اور خواب دیکھتے رہتے ہیں اور حال سے مطمئین نہیں ہوتے، اسی مرض کا شکار ہوتے ہیں۔"
ہمیں یاد آیا ایسا ہی جواب کسی ڈاکٹر نے ۔۔۔ غالباً ہمارے ہی ڈاکٹر نے ۔۔۔ ہمارے ایک دوست کو بھی دیا تھا، جو اس کے پاس بد ہضمی اور سینے کی جلن کی شکایت لے کر گیا تھا۔
"کوئی علاج بھی ہے ڈاکٹر؟"
"میں تم کو چند گولیاں دے دیتا ہوں، جس سے تمہیں افاقہ ہوگا۔ لیکن زیادہ خوش فہمی میں مت پڑنا۔ ہر صبح جیسے ہی آنکھ کھلے، ذہن پر زور دے کر کوئی ایسا دلچسپ واقعہ یاد کرنا جس سے تم بانچھیں پھاڑ کر مسکرا سکو اور پھر بستر سے کودنا اور بلند آواز سے گانا۔ ایسے موقعے پر بے سُری آواز بھی چلے گی۔"
ہم نے ڈاکٹر کے مشورے پر عمل کرنے کے ارادے سے اپنی یاداشت کے کونے کھدروں میں کسی ایسے قصے کو تلاشا جو ہمیں ایک دم لوٹ پوٹ ہوجانے پر مجبور کردے۔ ہماری ایک ولایتی پڑوسن اکثر وہ بیشتر خوش وقتی کے لیے ٹیکسی پکڑ لیتی تھی، حالانکہ خود اس کے پاس کار تھی۔ سیر سپاٹے کے بعد جب ٹیکسی بلڈنگ کے دروازے پر رُکتی تو وہ یہ ظاہر کرتی کہ پیسے تو گھر ہی پر رہ گئے۔ پھر وہ اتر کر پیسے لینے بلڈنگ میں چلی جاتی اور اوپر جاکر غائب ہوجاتی اور وہ بے چارہ ٹیکسی والا ہارن بجاتا رہتا۔ بلڈنگ والے جھانک جھانک کر دیکھتے کہ اسے کیا ہو گیا۔ عورت کا گھر معلوم نہ ہونے کی وجہ سے وہ ٹپتا رہ جاتا اور بک جھک کر چل دیتا اور وہ عورت اپنے کمرے میں ہنس ہنس کر دوہری ہوجاتی۔ ہی ہی ہی ہی !!! ہا ہا ہا ہا!! اس قصے کا یاد آنا تھا کہ ہم خوب ہی ہنسے اور اور دل ہی دل میں اپنی اس ہوشیار پڑوسن کے ممنون ہوئے۔ پھر ہم اپنے بستر سے کودے اور گاتے ہوئے اپنی طویل تعطیل کا ایک نیا دن شروع کیا۔
اپنے بھرے پرے کتب خانے میں ہم دیر تک بے مقصد ٹہلتے رہے۔ ہم نے دیکھا کہ اس میں بیشتر کتابیں وہ ہیں جنھیں ہم نے بعد کے لیے اُٹھا رکھا تھا کہ جب فرصت ملے گی تو انکا مطالعہ کیا جائے گا۔ ہمارا ہاتھ ایک سُرخ جلد کی طرف بڑھ گیا۔ جس کا مصنف چالیس سال قبل مراکش کے مدینتہ الاحمر میں رہتا تھا۔ وہ کتاب محمد ابنِ عبداللہ المعقط کی "سفرنامہء مراکش عرف افعالِ شسیعہ کا عصری عکس المعروف بہ تارکِ سنت کے خلاف تیغِ بے نیام" تھی۔
۔۔۔ پھر شیخ عبد الہادی نے ارشاد فرمایا، "جس نے سوال کیا اور جس سے سوال کیا گیا، ہر دو فرد دسویں صدی کے لوگوں میں سے تھے۔ اب ذرا ہمارے اس زمانے کو قیاس کرو، جو مثل ایک طویل شبِ مظلمہ کے ہے، کہ بات کتنی نہ بڑھ چکی ہوگی۔ سردرانِ قوم کو لو تو انھوں نے رعیت کو ظلم کے سوا کیا دیا ؟ گوشت انھوں نے نوچ لیا اور خون پی کر ہڈیوں کا گودا تک وہ چوس گئے اور دماغ چٹ کرگئے اور رعیت کے لیے نہ دنیا چھوڑی نہ دین۔ متاعِ دنیا کو لو تو انھوں نے سب کچھ سمیٹ لیا۔ کچھ نہ چھوڑا اور دین کی پوچھو تو ان کا منہ اس سے موڑا۔ یہ سب ہمارے مشاہدے کی باتیں ہیں، فقط باتیں ہی باتیں نہیں۔۔۔"
ابو زید نے سوال کیا، "اللہ آپ کو توفیق دے، کیا ایسے دیار میں قیام کرنا جائز ہے۔ جہاں کوئی منکرات کی نہی کرنے پر قادر نہ ہو؟"
ذہن کو مطالعے سے کوئی سکون نہیں ملتا۔ قدیم جدید نظر آتا ہے اور جدید قدیم، مگر دماغ اس کے ناممکن ہونے پر احتجاج کرتا ہے۔ وہ یہ مان کر ہی نہیں دیتا کہ "سورج نور سے عاری ہے۔" ہم نے خود سے کہا کہ شاید اس کا سبب بے زاری، تعلقات کی طوالت، گہرے رموز کا افشا، التباسات کی اصلیت کا کھل جانا، خوابوں کی بکھر جانا، آئندہ سے لگاؤ اور حال سے بے نیازی ہو۔ ہم کو چاہیئے کہ نفس کو صبر کا خوگر بنائیں اور باربار دوہرائے جانے والے معمولات کے ساتھ لمحہء موجود کو بالتفصیل گزاریں۔
کھانے پر ہمارے مہمان ہمارے ایک عزیز تھے، جو ساٹھ کے پیٹے میں تھے۔ انھوں نے اوائل عمر ہی میں قرآن حفظ کرلیا تھا، اس کے ایک ایک لفظ سے واقف تھے اور آخر کو مؤذن ہوگئے تھے۔ ایک برس قبل جب ان کی اہلیہ نے وفات پائی تو انھوں نے اپنی ایک اور عزیزہ کو عقد کے لیے منتخب کرلیا، کہ مؤذن کو مجرد رہنے کی اجازت نہیں، مگر انھوں نے یہ بہتر سمجھا کہ یہ فریضہ وہ حج سے واپسی کے بعد ادا کریں۔ ان کی غیر موجودگی میں خدائی فوجداروں نے مداخلت کی اور اس خاتون کا نکاح کسی اور سے کروادیا۔ چنانچہ وہ اب بھی رشتے کی تلاش میں تھے۔
"الحمدللہ کہ تم خیر سے ہو۔ بندے کو ہر حال میں اور کیا حال ہیں؟ کاروبار کیسا چل رہا ہے؟ ٹھیک ٹھاک۔ ہمیں بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھنا۔ اور صاحب زادے کس حال میں ہیں؟ کام میں دل لگاتے ہیں۔ انھیں سے پوچھیے، خود بتائیں گے۔ ہمیں تو کام چور دکھائی پڑتے ہیں۔ بڑے شرم کی بات ہے بیٹا! کاش تم اپنے چچا عبدالرحمٰن کے نقشِ قدم پر چلتے۔"
انکے الفاظ نے گویا ہمارے ذہن میں کسی بھولی بسری یاد کو بیدار کردیا۔ ہم نے پوچھا،
"وہی جو غرق ہو کر مرے تھے؟"
"ہاں ۔۔۔ اور شہید بھی کہلانے تھے۔ جان لو کہ حدیث شریف کی رو سے تین قسم کے مُردے شہید کا درجہ رکھتے ہیں، وہ جو آگ میں جل کر مرے، وہ جو پانی میں غرق ہوجائے اور وہ جو کسی دیوار کے نیچے دب گئے۔"
اب ان کا روئے سخن صاحب زادے کی طرف ہوگیا۔ وہ ہر نوع اور ہر قسم کی ہدایتیں اور نصیحتیں سننے کا عادی تھا، اس لیے اس نے ذرا بھی ناگواری ظاہر نہیں کی۔
"تمہارا چچا عبدالرحمٰن ابھی اٹھارہ برس کا تھا جملہ علوم میں طاق ہوچکا تھا۔۔۔"
مسکراتے ہوئے صاحب زادے نے قطع کلام کیا،
"میں تو ابھی سترہ برس کا بھی نہیں ہوا۔"
ہم نے مناسب طور پر اسے سرزنش کی،
"تمھارا کھوپڑا گدھے کے سر سے بھی زیادہ خالی ہے۔ جو ہم کہیں اسے گرہ میں باندھ رکھو۔ مستقبل تمھارا ہے۔ ہماری نصیحتوں پر عمل نہیں کروگے تو آپ بھگتو گے۔ تمھارا کیا خیال ہے، روزی کمانا کچھ آسان کام ہے؟ کچھ کے سروں پر ٹیکا ہوتا ہے تو دوسروں کے سروں پر کام کا سربند۔"
حاجی صاحب نے اپنی بات جاری رکھی۔
"عبدالرحمٰن ۔۔۔ اللہ اسے اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے ۔۔۔ جملہ علوم میں طاق تھا۔ اس کی خطاطی ازحد دیدہ زیب تھی۔ محکمہء مالیات میں ملازم تھا اور کم عمری ہی سے جُبہ اور عمامہ پہنتا تھا۔ مشاق تیراک اور ماہرشہ سوار تھا۔ ایک مرتبہ ایک فقیہہ جو سُوس سے ہماری ملاقات کو آئے تھے۔ اس سے مل کر اس کی علمیت اور ذہانت سے بہت متاثر ہوئے۔ انھوں نے اس خوف سے کہ کہیں اس کو جن و انس کی نظرِ بد نہ لگ جائے، ایک تعویز، جو حرزاالبحر اور دافعِ بلّیات کہلاتا ہے۔ لکھ کر دیا کہ اپنے جبے پر پہنے رہے تاکہ بلّیات سے محفوظ رہے۔"
گفتگو میں اپنی دلچسپی ظاہر کرنے کے لیے گو اوپری ہی سہی ہم نے کہا،
"مشیتِ الہٰی! وہ رباط سے سالے آرہا تھا۔ وادی ابورقرق اس نے کشتی سے عبور کی تھی۔ پھر اس نے عمامہ اتار کر وضو کیا ، ظہر کی نماز ادا کی ، پھر وہاں سے روانہ ہوکر ابھی بیس قدم گیا ہوگا کہ اس کا تیرنے کو جی چاہا۔ بس وہ اسی مقام کو لوٹا، اپنا لباس اتارا اور تیرنے لگا۔۔۔"
حسبِ معمول مسکراتے ہوئے صاحب زادے نے قطع کلام کیا،
"کیا اس زمانے میں لوگ ننگے ہی پھرتے تھے؟"
گو ہم کو یہ سوال معقول معلوم ہوا مگر یہ محل کسی اور ردِ عمل کا متقاضی تھا۔ چنانچہ ہم نے صاحبزادے کو کھا جانے والی نظروں سے گھُورا اور بے بسی کے اظہار میں کفِ افسوس ملا اور پورا زور لگا دیا کہ کہیں ہماری ہنسی نہ چھوٹ جائے۔
"نہیں وہ لنگی باندھتے تھے۔ اُس دن اتفاق سے تعویذ دوسرے جبے میں رہ گیا تھا اور پانی میں اس کی مشاقی ذرا کام نہ آئی اور سمندر اب تک اس کو دبائے بیٹھا ہے۔"
یوں عبدالرحمٰن تو اپنی جان سے گیا۔ رہ گئے دونوں جہاں کے علم تو اس میں سرسر نقصان میں ہم رہے۔
ابھی کھانا ختم نہیں ہوا تھا مگر باتیں ختم ہوگئی تھیں۔ ہم اپنے مہمان کو آرام سے نوالہ چباتے دیکھتے رہے۔ سوچتے رہے کہ اب کس موضوع ِ گفتگو میں ان کو لگائیں۔ ہم کو چند واقعات اور ادھر اُدھر کی باتیں یاد آئیں جو وہ اس سے پہلے ہمیں کئی مواقع پر سُنا چکے تھے۔ بس یاد دلانے کی دیر تھی کہ وہ شروع ہوجاتے۔ مثلاً ہم کہہ سکتے تھے کہ اگلے وقتوں کے لوگ جب یہ نعرہ لگاتے تھےکہ 'عزت اور دولت سب مولائے عبدالعزیز کی'، تو واللہ دل سے لگاتے تھے۔ ان کے لیے اتنا اشارہ کافی تھا۔ وہ سلطان مولائے عبدالعزیز اور اس پاس کے قبائل کی جنگ و جدال کے واقعات سلسلہ وار سنانا شروع کردیتے یہاں تک کہ فرانسیسیوں کے ورود تک پہنچ جاتے۔ تاہم یہ سوچتے ہوئے کہ یہ گفتگو اکتا دے گی، ہم نے مناسب سمجھا کہ خود اُنھیں کے بارے میں بات چھیڑی جائے۔ اذان دیتے اور نماز پڑھنے کے علاوہ باقی وقت کیوں کر گزرتا ہے؟ حرمین شریفین سے واپسی کے بعد حشیش انھوں نے ترک کردی تھی اور نئی اہلیہ کا بھی دور دور پتا نہیں تھا۔ آخر پھر وقت کس طرح کٹتا ہے؟ کیا وہ خود کو چلتی پھتی لاش تصور کرتے ہیں؟ بظاہر اپنے اردگرد کی دنیا سے ان کا تعلق بہت محدود تھا۔ وہ بس ادھر اُدھر کی باتیں سُن سُنا کر اپنی حاشیہ آرائی کے ساتھ سنا دیا کرتے تھے، اور بات ختم یوں کرتے تھے کہ اللہ نے اختیار یوں تو سب کو دے رکھا ہے مگر اصل اختیار اُسی کا ہے۔
صاحب زادہ کھانے پر ندیدوں کی طرح گرتاہے۔ ممکن ہے اس وقت خالی الذہن ہو، مگر وہ آس پاس ہونے والی باتوں پر توجہ دیتا ہے، میکانیکی انداز ہی میں سہی۔ وہ سگریٹ کا مزہ ، پڑوس کی لڑکیوں کا تعاقب اور فٹ بال کا چسکا بھی دریافت کرچکا ہے۔ تھوڑے سے استغراق کے بعد وہ گرما کی تعطیلات میں یورپ کے سفر کی خواہش کا اظہار بھی کرتا ہے، چاہے اس کو وہاں پا پیادہ ہی کیوں نہ جانا پڑے، (جس سے اس کے سفر کے اخراجات میں اضافہ ہی ہوگا۔)
اور ہم؟ ہم بزرگوار اور صاحب زادے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ ہم ان کے دل میں آنے والے خیا لات کا اندازہ لگا رہے ہیں، اردگرد کی دنیا سے ان کے رشتے کو سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس کے بعد؟ قیلولہ اور پھر ؟ گھومیں پھریں گے، تازہ ہوا کھائیں گے۔ اور پھر؟ ہم اپنی رفیقہ کو ٹیلیفون کریں گے۔ کہیں ملیں گے، گپ لگائیں گے۔ ہماری حرارت بڑھے گی، جبلّتیں کھل کھلیں گی۔ پھر وہی بے زاری کا دور دورہ ہوگا اور ہم دونوں اپنی اپنی راہ لیں گے۔ کبھی مدح کریں گے، کبھی دم اور یوں اپنے دل کا غبار نکالیں گے۔ مگر جب اپنی بے بسی کی انتہا کا اندازہ ہوگا تو سارا جوش بیٹھ جائے گا۔ہم پھر سڑکوں پر نکل جائیں گے۔ عورتوں کے مدود اور بھرے بھرے جسموں کی جنبشیں دیکھ کر ہوس پھر سر اُٹھائے گی۔ ہم اکثر اپنے متاہل احباب سے پوچھا کرتے ہیں۔ تو گویا تمھاری اہلیہ اپنی صنف کی قائم مقام ہوتی ہے؟ ہم کو جواب یہ ملتا ہے؟ہرگز نہیں۔ بیوی سے محبت رکھنے کے باوجود بیوی والوں سے زیادہ کوئ دوسری عورت کا خواہاں نہیں ہوتا۔ ہم اس عقدے کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، عقل کے مطابق تو جیہہ کرتے ہیں۔ سبب اس کا سراسر اختلاطِ مرد و زن، پُرکشش اشتہارات، میک اپ، اونچی ایڑی کی جوتی اور ۔۔۔ اور کیا ہے؟
ہم نے اس کو یہ بتایا تو اس نے سختی سے ٹوکا؛
"سب بکواس ۔ محبت کی مدد سے ہم ہوس کو زیر کرسکتے ہیں۔"
"اور محبت سے کہاں؟'
"اچھا ، تو تم بھی از قسم قنوطی ہو۔ مجھی کو لو۔" اس کی کہانی بھی عام قسم کی نکلی۔ وہ اسے کسی بوڑھے سے بیاہنا چاہتے تھے تو اس نے خودکشی کی دھمکی دے دی، اور ان دونوں نے تامرگ ایک دوسرے کا ساتھ نبھانے کے وعدے وعید کیے وغیرہ وغیرہ
وہ ہماری بات سمجھا ہی نہیں۔ اس کے سامنے فرائڈ کا قول دُہرانے کا کیا فائدہ۔ "میں خود کو اس خیال کا خوگر بنانے کی کوشش کررہا ہوں کہ ہر وصل میں چار افراد شریک ہوتے ہیں۔"
ہم غلو سے کام لیتے ہیں اور وہ لمحہ ہم کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ صرف بوالہوسی نہیں جو دہلاتی اور اکساتی ہے۔ ترغیب تو جرم میں، خودکشی میں، شراب میں اور انقلاب میں بھی ہوتی ہے، مگر یہ دوسری قسمیں ہمیں اتنا اکساتیں، کیوں کہ ان سے مانوسیت کو کوئی ٹھیس نہیں لگتی اور لکھنا؟
میں چپ تھا اور وہ جواب دیتے پر مائل نہ تھے۔ بس تسبیح کے دانے گن رہے تھے۔ عبدالباسط نے عرض کیا، "میں ہمیشہ سے جانتا آیا ہوں کہ جناب کے مقال میں وہ تاثیر ہے کہ آپ کے روبرو بڑے بڑے لسّان گنگ رہ جاتے ہیں اور ان کے دماغ لاجواب۔۔۔۔ آپ اپنے دل آویز ارشادات سے صبح شام ہمارے حوصلے کچھ یوں بلند کرتے ہیں کہ ان ارشادات کے خوش آئند نقوش ہمارے نفوس پر ثبت ہوجاتے ہیں۔ ہم نے تو جناب کو مدام اسی حالت میں پایا۔
پھر اب کیا ہوا؟
شام کو ہمیں پھر وہی احساس ہوا ہڈیاں بکھری جارہی ہیں اور ایک دلگیر اداسی بھی طاری ہوگئی۔ اس سے جان چھڑانے کے لیے ہم نے سوچا کہ ڈاکٹر کا وہی معروف نسخہ آزمایا جائے، مگر ہم کو تذبذب ہوا کہ ڈاکٹر نے وقت کا تعین کردیا تھا، شام نہیں، صبح۔ تو کوچہ کوچہ آوارہ گردی کریں گے اور عوام النّاس کے چہروں کو تاڑیں گے، شاید کوئی علاج سوجھ جائے۔ ہم کافی دیر گردش میں رہے۔ کیفے کھچا کھچ بھرے ہوئے ہیں۔ بیئر کی بوتلیں چشمِ زدن میں خالی ہورہی ہیں۔ قہقہے گونج رہے ہیں۔ ہر دم چلتی ہوئی رَس نکالنے والی مشینیں کھڑکھڑا رہی ہیں۔ اس کے باوجود ہماری اداسی ہے کہ اڑی کھڑی ہے، جانے کا نام ہی نہیں لیتی۔ کاریں تیز رفتاری سے گزرتی ہیں۔ بسیں سست اور ٹھاٹھیں بھری ہوئی ہیں۔ سینماؤں پر قد آور ہیرو اشتہار بنے کھڑے ہیں۔ یوں نظر آتا ہے کہ ہمارے چاروں طرف ہر شخص بھاگا چلا جارہا ہے۔ جی چاہا ان کو روکنے کے لیے چلائیں۔ "تم بھاگے جارہے ہو؟" مگر یہ خیال احمقانہ اور بے جواز سا لگا۔ ہم نے دل سے پوچھا، کسی شے کو ثبات بھی ہے؟ پھر ہم اس حیات کی کہانی قلمبند کرنے کے لیے جو ہم قسطوں میں جیتے ہیں گھر لوٹ آئے۔
Written by:
Mohammed Berrada, Moroccan writer and critic, was born in Rabat On May 14, 1938. He holds a PhD degree from France in criticism and literary sociology. He writes short stories, novels and essays, and translates from French. He is considered one of Morocco’s most important modern authors.
https://www.facebook.com/groups/AAKUT/permalink/2014425238787999/