ریحان کو اس بات پر غصہ نہیں آیا تھا کہ اس کے دوستوں نے اس کی بات پر یقین نہیں کیا تھا۔غصہ اس بات پر تھا کہ انہوں نے ایک ساتھ مل کر پورے کلاس میٹس کے سامنے اس کا مضحکہ اڑایا تھا۔ اور تو اور، اس کا سب سے قریبی دوست ارسلان بھی ان میں شامل تھا۔اس کا بس چلتا تو وہ اسی وقت اپنی بات کا ثبوت ان کے سامنے پیش کر دیتا۔مگر یہ اس وقت ممکن نہیں تھا لہٰذا اسے خون کاگھونٹ پی کر رہ جانا پڑا۔مزید غصہ اس بات پر بھی تھا کہ دوسروں کی جھوٹی باتوں پر تو انہوں نے یقین کر لیا تھا مگر اس کی سچی بات پر کسی کو یقین نہیں آیا تھا۔
ٹفن کھاتے وقت باتوں ہی باتوں میں موہن نے بتایا کہ اس کے پاپا کے پاس ایک ایسی کار ہے جو ضرورت پڑنے پر ہیلی کاپٹر کی طرح اڑ بھی سکتی ہے۔سبھوں نے ہاں میں ہاں ملا یا کہ انہوں نے اخبارات میں ایسی کار کے بارے میں پڑھا تھا جو جاپان کی ایجاد تھی۔ ندیم نے بڑے فخر سے سنایا کہ گاؤں میں اس کی بہت بڑی حویلی ہے جس کی چھت پر سوئمنگ پول ہے۔راجن نے بتایا کہ اس کے پاس ایک ایسی بلی ہے جو آدمیوں کی طرح باتیں کرتی ہے۔ریحان نے جب یقین کرنے سے انکار کر دیا تو دیگر دوستوں نے اسی کی حمایت کی۔
کیوں؟ جب طوطے کو بولنا سکھایا جا سکتا ہے تو بلی کو کیوں نہیں؟
وہ خاموش ہو گیا تو انہوں نے پوچھا: ”تمہارے پاس ایسی کوئی چیز نہیں ہے بتانے کے لئے؟“
سنو گے تو دنگ رہ جاؤ گے۔“ اس نے فخریہ کہا۔
”اچھا؟ ایسی کون سی چیز ہے بھلا؟ ہمیں بھی تو بتاؤ۔“ وہ سب ایک ساتھ بولے۔
”میرے دادا کے باغیچےمیں ایک ایسا درخت ہے جس پر ہر طرح کے پھل لگتے ہیں۔“
”مطلب؟“
”مطلب اس کی شاخوں پر آم، سیب، امردود، نارنگی، کیلے، ناشپاتی، انگور، جامن اور شریفے سبھی پھلتےہیں۔“
راشد نےزوردار قہقہہ لگایا اور سبھوں نے اس کا بھرپور ساتھ دیا۔
”تم لوگوں کو یقین نہیں آیا؟“ اس نےتیکھے لہجے میں پوچھا۔
”ایسی باتوں پر تو دنیا کا سب سے احمق آدمی بھی یقین نہیں کرے گا۔“موہت نے اس کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا۔دوسروں نے بھی تضحیک آمیز قہقہے لگائے تو وہ پیر پٹختا ہوا وہاں سے چل دیا۔
گھر لوٹتے ہی اس نے دادا کو فون کیا جو دلدار نگر گاؤں میں رہتے تھے اور اس درخت کی ایک اچھی سی تصویر فوراً بھیجنے کی فرمائش کر ڈالی۔ دادا نے وعدہ تو کر لیا مگر ایک ماہ بعد بھی وہ تصویر نہیں بھیج سکے۔وہ جب بھی فون کرتا، داداایک ہی بات دہراتے کہ جلد ہی بھیج دیں گے۔شرمندگی کے مارے اس نے دوستوں سے باتیں کرنا بھی بہت کم کر دیا تھا کیوں کہ موقع ملتے ہی وہ اسے اس عجیب و غریب درخت کی بات یاد دلا کر چھیڑنے لگتے۔
اب اسے گرمی کی چھٹیوں کا انتظار تھا جب وہ خود گاؤں جا کر اپنے کیمرے سے اس درخت کی ہر زاویے سے تصویریں لیتا اور اپنے کلاس میٹس کی بولتی بند کر دیتا۔
چھٹیوں میں گاؤں پہنچتے ہی اس نے دادا سے اپنا وعدہ پورا نہ کرنے کی وجہ پوچھی تو وہ ایک دم سے اداس ہو گئے۔
”کل باغیچے میں چل کر خود دیکھ لینا۔“ان کے لہجے میں مایوسی کی جھلک تھی۔
”مگر بات کیا ہے؟ کچھ بتائیے بھی تو۔“اسے دادا کے رویّے پر حیرت ہو رہی تھی۔
”بس خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لینا۔“
اس نے بحث کر نا مناسب نہیں سمجھا اور کل کا بےچینی سے انتظار کرنے لگا۔
دوسرے دن صبح صبح ضد کر کے ناشتے سے قبل ہی دادا کے ساتھ باغیچے میں پہنچ گیا۔
اسے یقین نہیں آیا کہ یہ وہی درخت ہے جسے وہ پچھلے کئی برسوں سے دیکھتا آیا تھا۔
”یہ …یہ کیسے ہوا؟ اور کب ہوا؟“اس نے انتہائی حیرانگی سے پوچھا۔اب اسے دادا جان کے رویّے کا سبب سمجھ میں آگیا تھا۔
”پتہ نہیں کب نارنگیوں کی تعداد بڑھنی شروع ہوئی۔احساس تو تب ہوا جب نارنگیوں کی تعداد اتنی بڑھ گئی کہ آم، سیب اور کیلے ڈھونڈنے کے لئے شاخیں کھنگالنی پڑ یں۔“
اس نے دیکھا اوپر نیچے دائیں بائیں ہر ٹہنی پر صرف نارنگیاں ہی نارنگیاں تھیں۔ کیلے اور سیب بہت کم رہ گئے تھے۔ آم تو اور بھی کم تھے۔کئی دوسرے پھل تو ندارد تھے۔
اسے بےحد افسوس ہو رہا تھا۔ اس نایاب درخت پر اس کے خاندان کی کئی نسلیں فخر کرتی چلی آ رہی تھیں۔ لوگ دور دور سے اسے دیکھنے کے لئے آتے تھے۔
”آپ نے کچھ کیا نہیں؟“اس نے درخت کو انتہائی تاسف سے دیکھتے ہوئے دادا سے پوچھا۔ان کے باغ کی انفرادی حیثیت اب ختم ہونے کے قریب تھی۔
”بوٹانیکل سروے آف انڈیا میں میرے ایک پرانے دوست مسٹر رام داس کسی اونچے عہدے پر فائز ہیں۔ پوری بات سننے کے بعدانہوں نے نہایت دلچسپی کا اظہار کیا اورماہرین کی پوری ٹیم کے ساتھ آنے کا وعدہ کیا۔“
”تو پھر؟ کیاوہ نہیں آئے؟“ ریحان نے بےصبری سے پوچھا۔
”پوری ٹیم آئی تھی۔ انہوں نے سارا دن درخت کے مطالعے میں گزارا۔ پھر سبھی پھلوں کے ایک ایک نمونوں کے علاوہ درخت کے تمام حصوں سے ڈنٹھلوں اور شاخوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کاٹے اور تجربہ گاہ میں مزید چانچ کے لئے اپنے ساتھ لے گئے۔“
”انہوں نے کچھ بتایا نہیں؟ کہ اس کا سبب کیا ہو سکتا ہے؟“
”نہیں، بس اتناکہا کہ کچھ حیرت انگیز انکشافات ہوئے ہیں۔ تفصیل آ کر ہی بتائیں گے۔“ دادا باغیچے سے باہر نکلنے والے گیٹ کی جانب بڑھ رہے تھے۔ ریحان بوجھل قدموں سے ان کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا۔
دوسرے دن ساڑھے دس بجے مسٹر رام داس اور ان کے ایک ساتھی کے آنے کی اطلاع ملی۔ وہ بھاگتا ہوا بڑے ہال میں پہنچا جہاں دادا جان ان کے ساتھ بیٹھے چائے پی رہے تھے۔
”آؤ، ریحان آؤ۔یہ میرا پوتا ہے۔ شہر کے سنٹرل اسکول میں درجہ ہفتم کا طالب علم ہے۔“ دادا نے ریحان کا تعارف مہمانوں سے کرایا۔
”خوشی ہوئی کہ اس عمر میں بھی تمہیں ایک نایاب درخت کو بچانے کی اتنی فکر ہے۔“ مسٹر رام داس نے ریحان کو تعریفی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
پھر انہوں نے بتایا کہ ڈنٹھلوں کے تمام ٹکڑوں میں یکساں قسم کے عرق کی موجودگی کے ثبوت ملے ہیں۔اور یہ عرق نارنگی کے رس سے بہت زیادہ مماثلت رکھتا ہے۔ حیرت انگیز طور پر دیگر پھلوں کی ٹہنیوں کے ٹکڑوں میں بھی یہی عرق موجود ہے مگر قدرے کم مقدار میں۔
”لیکن یہ سب ہوا کیسے؟“ریحان نے پوچھا
”شروعات کیسے ہوئی، یہ تو کہنا ابھی مشکل ہے۔ مگر نارنگیوں کی تعداد میں اضافہ کا سبب سمجھ میں آگیا ہے۔“ مسٹر رام داس نے بتایا۔
”کیسے؟“ریحان اور اس کے دادا نے بیک وقت سوال کیا۔
”اس کے لئے باغیچے میں چلنا پڑے گا۔“
وہ سب ساتھ باغیچے میں آئے۔
مسٹر رام داس نےایک سیب کی طرف اشارہ کیا اور اسے چھو کر دیکھنے کو کہا۔
ریحان نے جب اسے پکڑا تو چونک گیا۔ یہ اتنا پلپلہ تھا کہ انگلی کے زیادہ دباؤ سے اس کے پھٹ جانے کا اندیشہ تھا۔
”یہ تو شاید سڑ گیا ہے۔“ریحان نے پیچھے ہٹتے ہوئے کہا۔
”نہیں، اس میں سیب والی سختی اس لئے ختم ہو گئی ہے کہ اس میں نارنگی کا رس بھرنا شروع ہو گیا ہے۔“مسٹر رام داس نے وضاحت کی۔
ریحان اور اس کے دادا ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔
”تمام درختوں کے تنوں اور شاخوں میں نہایت باریک سرنگ نما نلیاں ہوتی ہیں جو ٹہنیوں اور ڈنٹھلوں سے ہوتی ہوئی ہر پتے اور پھل میں داخل ہو جاتی ہیں …“
”زائلم اور فلوئم؟“ ریحان نے ان کی بات مکمل ہونے سے قبل ہی اپنے قیاس کی تصدیق چاہی۔
”بالکل۔“ مسٹر رام داس نے اسے ستائشی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا: ”ان کا جال درخت کے پورے جسم میں پھیلا ہوتا ہے۔نارنگیوں کے رس ان ہی راستوں سے دوسرے پھلوں میں داخل ہو رہے ہیں اور وہ پھل دھیرے دھیرے نارنگیوں میں تبدیل ہونے لگے ہیں …“
”مگر نارنگیوں کا رس ہی کیوں؟ دیگر رس دار پھل بھی تو ہیں۔“ ریحان نے ان کی بات کاٹ کر پوچھا۔
”اس کی وجہ یہ ہے کہ نارنگیوں کا رس رقیق شکل میں ہوتا ہے اور کششِ ارضی کے زیر اثر ہائٹ گریڈینٹ کے سبب بڑی آسانی سے چاروں طرف پھیل جاتے ہیں۔“
”لیکن انگوروں کا رس تو اور پتلا ہوتا ہے… پھر؟“دادا نے سوال کیا۔
”ٹھیک کہا۔ انگوروں کا رس بھی رقیق شکل میں ہوتا ہے اور نارنگیوں کے رس سے پتلا بھی ہوتا ہے۔ مگر ان کے ایک پھل میں رس کی مقدار اتنی کم ہوتی ہے کہ وہ کوئی پریشر ڈالنے سے قاصر رہتے ہیں۔نتیجتاً زائلم اور فلوئم میں کسی قسم کا بھی بہاؤ قائم کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔وہ اپنی ڈنٹھلوں سے ہی نکل نہیں پاتے تو شاخوں تک بھلا کیسے پہنچ پائیں گے۔“
ریحان اور اس کے دادا خاموش تھے۔
”اب آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ یہ تمام نارنگیاں نئی نہیں ہیں بلکہ یہ سیبوں، آموں اور دیگر پھلوں کی تبدیل شدہ شکلیں ہیں۔آپ اس آم کو چھوئیے …. نہیں، وہ نہیں ….اس کے اوپر والا۔“مسٹر رام داس نے ایک آم کی طرف اشارہ کیا۔
دادا نے اسے چھوا تو وہ بھی پلپلہ نکلا۔
”اب اس کے نیچے والا چھوئیے۔“
”یہ سخت ہے۔“دادا نے اسے چھو کر کہا۔
”ابھی تک اس کے گودوں میں مزاحمت باقی ہے اس لئے اس میں نارنگی کا رس اب تک سرائیت نہیں کر پایا ہے۔“
”لیکن اہم سوال یہ ہے کہ اس وبا کو پھیلنے سے روکا کیسے جائے۔“ دادا نے متفکر ہو کر پوچھا۔
”دیکھئے، جب تک اس وبا کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا علاج نہیں دریافت ہو جاتا، اسے قابو میں رکھ کر پھیلنے سے روکنا ہوگا تا کہ اس پر مزید تحقیق کے لئے وقت مل سکے۔یہ نہایت ضروری ہے۔ اگر یہ زہریلا عرق پورے درخت میں پھیل گیا تو پھر اسے ختم کرنا نہایت مشکل ہو جائے گا۔“
”لیکن ہم اسے قابو میں کیسے کریں گے؟“ریحان نے الجھن بھری نظروں سے دونوں ماہرین کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”صرف ایک راستہ ہے۔“مسٹر رام داس نے ریحان کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔
ریحان بدستور مجسم سوال بنا رہا۔
”قینچی۔“انہوں نے سپاٹ آواز میں کہا۔
”قینچی؟“ریحان اور اس کے دادا نے بیک وقت سوال کیا۔
”ہاں۔“مسٹر رام داس نے دونوں کو باری باری سے دیکھتے ہوئے کہا:”آپ نے راستے کے کنارے کی دکانوں پر یا ٹھیلا لگائے پھل فروشوں کو دیکھا ہوگا۔ وہ انگور تولتے وقت ایک چھوٹی قینچی کا استعمال کرتے ہیں۔ اس سے وہ نہ صرف مطلوبہ تعداد والے انگوروں کے گچھوں کو الگ کرتے ہیں بلکہ سڑے ہوئے انگوروں کو بھی اسی قینچی سے کاٹ کر پھینکتے رہتے ہیں۔“
”ہاں، ہاں، بارہا دیکھا ہے۔“
”تو بس نارنگیوں کو فی الحال قینچی کی مدد سے کاٹ کر الگ کرتے رہیں۔ ان کے عرق کے پھیلنے کی رفتار خود بخود سست ہو جائے گی۔لیکن یا د رہے، انہیں ہاتھوں سے نہیں توڑنا ہے۔“
”مگر کیوں؟“
”کیوں کہ اس صورت میں نہ صرف ٹہنیاں ہلیں گی اور رگوں میں عرق کا بہاؤ تیز ہو جائے گا بلکہ ڈنٹھلو ں کے جھٹکے سے ٹوٹنے کے سبب نارنگیوں کے رس کے چھینٹے جا بجا بکھریں گے اور ان وبائی نارنگیوں کے پھیلنے کی رفتار اور بھی تیز ہو جائے گی۔آپ فی الحال یہ کام سنبھل سنبھل کر کریں۔ تب تک ہمارے ماہرین اس کا کوئی مستقل علاج ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔“
دادا نے ریحان کی آنکھوں میں فولادی عزم کی جھلکیاں دیکھیں۔ چہرے پر بچپن کی معصومیت کی جگہ غیر معمولی سنجیدگی دیکھی۔ نہ جانے کیوں وہ اپنے پوتے کے تعلق سے تھوڑے فکر مند ہو گئے۔
”اتنا تو اندازہ ہو ہی گیا ہوگا کہ نیچے کی نارنگیوں کو الگ کرنا نہایت آسان ہوگا کہ زمین پرکھڑے کھڑے یہ کام انجام دیا جا سکے گا۔ مگر اوپر کی نارنگیوں کو الگ کرنے کے لئے درخت پربےحد احتیاط سے چڑھنا ہوگا تاکہ ٹہنیاں بھی نہ ہلیں اور آپ کے قدم بھی جمے رہیں۔چوٹی کی نارنگیوں کو جہاں سے رس سب سے زیادہ تیزی سے نیچے بہتے ہیں شاخوں سے الگ کرنا نہایت جان جوکھوں کا کام ہوگا کیوں کہ اوپر کی ٹہنیاں اتنی سبک اور نرم ہوں گی کہ ان پر پاؤں رکھ کر ان تک پہنچنا ناممکنات میں سے ہوگا۔امید ہے آپ سب اس نایاب درخت کے تحفظ میں ہماری مدد کریں گے اور آنے والی نسلوں کے لیے اسے ناپید ہونے سے بچائیں گے۔“
”بے فکر رہیں۔ ہم یہ کام خود نہیں کریں گے بلکہ اس کام کے لیے پیشہ ور مزدوروں کی خدمات حاصل کریں گے۔“ دادا نے کہا۔
دادا مہمانوں کو ان کی گاڑی تک رخصت کر کے لوٹے تو ریحان نظر نہیں آیا۔دادی سے پتہ چلا کہ وہ اپنی کتابوں کا تھیلا پیٹھ پر لادے باغ کی طرف گیا ہے۔ کہہ رہا تھا کہ وہیں اطمینان سے پڑھائی کرے گا۔
”یہ لڑکا بھی نا …“کہتے ہوئے وہ آئینے کی طرف بڑھے۔ شیو کرنے سے قبل بڑھی مونچھوں کو کترنے کے لیے انہوں نے شیونگ کٹس کھولا تو قینچی ندارد۔
”ارے میری قینچی کیا ہوئی؟“ انہوں نے اونچی آواز میں پوچھا۔
”ریحان نے نکالی تھی۔ کہہ رہا تھا کچھ کاغذ کاٹنا ہے۔“اس کی دادی نے اونچی آواز میں جواب دیا۔
دادا کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔
***
شائع شدہ:ماہنامہ ” شاعر“ (اکتوبر 2018)، ماہنامہ ”ایوان اردو“ (جون2019)
***
افسانہ نگار کا سوانحی خاکہ :
نام : جاوید نہال حشمی
والد: حشم الرمضان (مرحوم)
تاریخ پیدائش : ١٧ مارچ ١٩٦٧ ء ( کانکی نارہ ، شمالی ٢٤ پرگنہ، مغربی بنگال)
تعلیمی لیاقت : بی ایس سی آنرز؛ بی ایڈ؛ بی اے ( انگلش) ؛ ڈپلوما ان سافٹ وئر ٹکنالوجی
ملازمت : درس و تدریس، کلکتہ مدرسہ اینگلو پرشین ڈپارٹمنٹ ( مدرسہ عالیہ) شعبہ ء تعلیم، حکومت مغربی بنگال
تصانیف : (١) دیوار (افسانوں کا مجموعہ) ٢٠١٦
(٢) کلائیڈوسکوپ (افسانچوں کا مجموعہ) ٢٠١٩
زیر ترتیب : (١) بیچ کا آدمی (انشائیے)
( ٢) سائنسی مضامین کا مجموعہ
انعامات و اعزازات :
(١) دیوار ( افسانوی مجموعہ) پر علامہ راشد الخیری ایوارڈ ٢٠١٦ ( من جانب: مغربی بنگال اردو اکیڈمی)
(٢) دیوار ( افسانوی مجموعہ) پر دس ہزار روپے کا انعام ( من جانب : بہار اردو اکیڈمی)
(٣) توصیفی سند ( اردو زبان میں فروغ سائنس کے تئیں خدمات) ٢٠١٧، اردو مرکز برائے فروغ علوم، مولانا آزاد نیشنل یونیورسٹی ( حیدرآباد)