ملک میں سیاسی اتھل پتھل شروع ہوتے ہی سرکار کا اپوزیشن پر نزلہ کچھ اس قدر گرا کہ جہاں بھی کوئی سیاسی رہنما یا سرکردہ کارکن نظر آیا اُسے راتوں رات آلو پیاز کی بوریوں کی طرح بنڈل کرکے تھوک کے بھاو گاڈیوں میں ڈال کر سرکاری گوداموں تک پہنچایا گیا۔ جہاں بھی کوئی ملا اور جدھر کوئی نظر آیا اُسے بڑی بے مروتی سے دھر دبوچ کر قلیل اور سستے داموں سرکاری مہمان خانے پہنچایا گیا ۔ کہیں کسی ٹاٹ کے پیوند تو کہیں کسی ایرے گیرے نتھو کھیرے کی بھی شامت آگئی ۔ چنانچہ پولیس کی دھڑ پکڑ میں آتے ہی سیدھے جیل پہنچا دیئے گئے ۔ ایسے میں میری خیریت کیونکر محفوظ تھی اور میرے بچنے کی اُمید بھی کہاں ممکن تھی ۔ میں تو اپنی پارٹی کے سینئر گنے چُنے رہنماؤں میں شمار تھا اور سیاسی انتقام گیری کی اس فہرست میں سر فہرست تھا ۔۔۔۔ ۔ نور کے تڑکے ہی میری اقامت گاہ " سائیباں " کے بیرونی مرکزی دروازے پر گاڈیوں کے رُکنے کی آواز یں ، بھاری وزنی جوتوں کی دھمک اور کال بیل کے متواتر بجنے کی آواز کے ساتھ ہی میرے کان کھڑے ہوگئے ۔ میں فورا" بھانپ گیا کہ سرکاری کارندے ہیں اور مجھے سرکاری مہمان بنانے کی آرزو لے کر آئے ہیں ۔ضرور تگڑا سرکاری دعوت نامہ ساتھ لے کر آئے ہوں گے اور خالی ہاتھ لوٹ کر نہیں جائیں گے ۔ میں اپنے کمرے میں ٹہلتا ہوا کچھ سوچ ہی رہا تھا کہ جبھی خدا خدا کرکے سرونٹس کواٹر میں خوابِ خرگوش میں مست اور خراٹے مارتا ہوا خدمت گار پرویز ٹنکو بیدار ہوا اور اپنی خوابیدہ آنکھیں ملتا ہوا بڑی بیزاری سے گھر کے بیرونی مرکزی گیٹ تک چلا آیا ۔ دروازہ کھلا تو سامنے ڈی ایس پی غضنفر غزالی نظر آیا ۔ ٹنکو نے جھٹ سے اُسے سلام کیا ۔
" بختاور بلالی صاحب ہیں ۔ " ڈی ایس پی غزالی نے سلام کا جواب دیتے ہوئے پوچھا اور ٹنکو کا جواب سنے بغیر ہی اندر چلا آیا ۔ اُس کے ہمراہ پولیس کے چند اور اہلکار بھی تھے ۔ میں اپنی خواب گاہ کی کھڑکیوں کے شیشوں سے جھانک کر یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔
ٹنکو انہیں سیدھے سرونٹس کواٹر کے مُلحق بنے میرے نجی دفتر میں بٹھا کر خود گھر کے اندر چلا آیا اور میری خواب گاہ تک رسائی حاصل کرتا ہوا مجھے یہ سب بتانے لگا۔ " میں تھوڑی دیر میں چلا آتا ہوں ۔ تم مہمانوں کےلئے چاے پانی کا بندوبست کرو ۔ اور ہاں ۔۔۔۔۔ میر عبداللہ کو جگا کر اُن کے پاس رہنے کو کہو ۔" میں نے کہتے ہوے اُسے سمجھایا اور وہ اثبات میں اپنا سر ہلاتا ہوا واپس چلا گیا ۔ میر عبداللہ دراصل میرا پی اے تھا جو کواٹر میں ہی موجود محو خواب تھا ۔ وہ مہمانوں کو اچھی طرح سے اٹنڈ کر سکتا تھا اور میرے آنے تک انہیں انگیج بھی رکھ سکتا تھا ۔ میں اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ جب تک بیگم صاحبہ کی سمجھ میں بھی یہ سب کچھ آچکا تھا۔ وہ دراصل صبح کی نماز ادا کرنے کی منشاء سے پہلے ہی سے جاگ رہی تھیں ۔ میں نے اُسے کپڑے وغیرہ پیک کرنے کی ہدایات دیں اور خود گھر کی سیڑھیاں اُترتا ہوا نیچے چلا آیا۔
دفتر میں مقامی ڈی ایس پی غضنفر غزالی سے ملاقات ہوئی ۔ وہ میرا شناسا تھا ۔ دیگر دو اہلکاروں میں سے جو دونوں میرے لئے اجنبی تھے ایک انسپکٹر اور دوسرا سب انسپکٹر تھا ۔ رسمی علیک سلیک کے بعد غزالی آمد بر مقصد ہوتے ہوئے گویا ہوا ۔ " معافی چاہتا ہوں سر ۔آپ کو ہمارے ساتھ آنے کی زحمت اٹھانا پڑے گی ۔ اب کیا کریں اوپر کی ہدایات ہیں ۔ " کہتے ہوئے وہ اپنے کندھے اُچکانے لگا۔
،ضرور ۔۔۔۔۔ مگر پہلے چاہے پانی ہوجاے ۔،" میں مُسکراتے ہوئے مہمان نواز ہوا ۔
" سر دیر ہوجائے گی ۔" وہ اپنی دستی گھڑی دیکھتا ہوا اور اُٹھتا ہوا بولا ۔
" نہیں نہیں ۔۔۔۔۔ پہلے چاہے وغیرہ ہو جائے ۔" میں نے اصرار کیا ۔ تھوڑی سی ہچکچاہٹ کے ساتھ وہ تینوں آپس میں آنکھوں ہی آنکھوں میں مشورہ کرتے ہوئے چائے لینے پر آمادہ ہو گیے ۔ تھوڑی ہی دیر میں چائے بھی آگئی اور تینوں افسران جلدی جلدی چائے کی چُسکیاں لینے لگے ۔ چاہے نوشی سے فارغ ہوتے ہی ہم باہر چلے آئے ۔ اس دوران میں اندر جاکر بیگم صاحبہ سے رخصت ہو کر آچُکا تھا ۔ گہری نیند سو رہے بچوں کو ہم نے جگانا مناسب نہیں سمجھا اور انہیں سوتے سوتے ہی پیار دیا ۔ بیگم کے چہرے پر ہوائیاں اُڑنے لگیں تو میں نے اسے دلاسہ دیا اور ان سے رخصت ہوا ۔ اُس کی آنکھیں تر دیکھ کر میرے دیدے بھی ڈبڈبائے مگر میں نے کمال مہارت سے اپنے آنسو روک لیئے اور گھر سے باہر چلا آیا ۔اس دوران ٹنکو میرا بیگ لے کر آگیا تھا ۔ مجھے ایک سرکاری جپسی کی اگلی سیٹ پر بٹھایا گیا ۔ میں بیٹھ ہی رہا تھا کہ جبھی پیچھے سے ہی ۔۔ ہی ۔۔۔۔ ہی کی آواز کے ساتھ ہی میں چونک گیا ۔ " اسلام و علیکم بختاور صاحب ۔" کی ایک جانی پہچانی آواز کے میرے پردہ سماعت سے ٹکراتے ہی مجھے اپنے پیچھے بابر بنجانی نظر آنے ۔ میری نظر یں پڑتے ہی وہ بغلیں جھانکنے لگے ۔
" اچھا تو جناب بھی پکڑ میں آگئے ۔" کہتے ہوے میں نے خیر و خبر پوچھی ۔
" جی جی ۔۔ خاکسار کو بھی اس قابل سمجھا گیا۔ " وہ انکساری جتانے لگا ۔
" آپ اندر تشریف لے کر کیوں نہیں آئے ۔" میں بولا ۔
" ارے صاحب، قیدی ہیں ۔ کیسے آتے ۔ ہی ہی۔ہی۔" وہ کھسیانی ہنسی ہنستا ہوا اپنی آنکھیں مٹکانے لگا۔ ہم لوگ روانہ ہوئے اور تقریبا" ایک گھٹنے کے سفر کے بعد جپسی میں ہچکولے کھاتے ہوئے سرکاری مہمان خانے پہنچ گئے۔ صبح ہو چکی تھی ۔ اُجالے اپنا پھن پھیلا رہے تھے ۔ پرندے چہچہانے لگے تھے اور بھانت بھانت کی مرغولیوں کے ساتھ نغمہ سرا تھے ۔ یہ مسحور کُن مرغولیاں سن کر میں اچانک بے قرار سا ہوا اور میرے جسم کے اندر درد نے ایک انگڑائی سی لی ۔ مجھے میرے گھر کے پنچھی یاد آ گئے ۔ گھر میں طوطے میناوں کے تین چار جوڑے تھے جو پنجروں میں بند تھے اور گھر کی چھت کے ٹھیک نیچے ایک چھوٹے سے کمرے میں رکھے گئے تھے ۔ یہ بچوں نے شوقیہ لا کے رکھے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔ پہلے پہل ان کی خوب خاطر تواضع کی تھی اور پھر دھیرے دھیرے وہ ان کو بھول بھی چکے تھے ۔ حتا کہ اب گھر کے نوکر بھی انہیں نظر انداز کر نےلگے تھے ۔ اب میں ہی ان پرندوں کی دیکھ ریکھ اور دیکھ بال کرتا تھا ۔ روز صبح فجر کی نماز کے بعد میں انہیں دیکھنے جاتا تھا ۔ مجھے دیکھتے ہی یہ من موہک اور خوبصورت پنچھی زور زور سے چہچہانے لگتے تھے اور مسرت کا اظہار کرتے تھے ۔ میں ان کےلئے دانا پانی ڈال دیتا تھا تو یہ دُنکے چُگنا شروع کر دیتے تھے ۔ یہی عمل نماز ظہر اور نماز مغرب کے بعد بھی دہرایا جاتا تھا۔
سینٹرل جیل پہنچتے ہی بابر بنجانی کو مجھ سے علیحدہ کرکے کہیں اور لے جایا گیا اور مجھے جیل کی ایک چھوٹی سی سیل میں ڈال دیا گیا ۔سیل خالی تھی ۔ یہاں گھپ اندھیرا تھا اور اب بہت اُوپر کمرے کی چھت کے قریب نصب دو چھوٹے چھوٹے روشندانوں میں سے ہلکی ہلکی روشنی سیل میں آنا شروع ہوگئی تھی ۔ سیل میں سامان نام کی کوئی چیز موجود رہی ہو ایسا نہیں تھا البتہ ایک چھوٹی سی چار پائی ضرور تھی اور اُس پر بستر نام کی کوئی چیز بھی موجود تھی ۔ تھوڑی سی تاک جھانک کے بعد سیل کی دیوار میں ایک سوئیچ بورڈ بھی نگاہ سے گزرا، جس میں کہ دو ایک سوئیچ لگے ہوئے تھے ۔ میں نے سیل کو روشن کرنے کی غرض سے ایک سوئیچ آن کیا جبھی اچانک کھٹ کھٹ کھٹ کی ایک زوردار آواز کے ساتھ اُوپر سے دُھول اُڑنا شروع ہوگئی ۔ میں اچانک کی اس زور دار کھٹ کھٹ کھٹ کی کریہہ الصوت آواز کے ساتھ ہی اُچھل پڑا اور گھبرایا سا ادھر اُدھر دیکھنے لگا۔ یہ دراصل سیل کی سیلنگ میں لگا ہوا کسی پرانے زمانے کا ایک بد ہئیت پنکھا تھا جو اب کھٹ کھٹ کھٹ اور زوں زوں کی آواز کے ساتھ چلنا شروع ہوگیا تھا ۔میں اب پنکھے کو چلتے ہوئے اور ہچکولے کھاتے ہوئے دیکھ رہا تھا کیونکہ میں نے بورڈ میں لگا ہوا دوسرا سوئچ بھی آن کردیا تھا کہ جس سے چھت میں لگا ہوا ایک عمر رسیدہ بلب روشن ہوا تھا جو کافی میلا اور گندہ تھا اور اس پر کافی دھول بھی جمی ہوئی تھی۔ روشنی محدود ہی سہی مگر اب سیل کی اندرونی صورت حال کو دیکھا جاسکتا تھا۔ میں نے پلک جھپکتے ہی پنکھے کا سوئچ بند کیا اور اطمینان کی سانس لینے لگا۔
عمر رسیدہ بلب کے روشن ہوتے ہی سیل کی روشنی میں قدرے اضافہ ہوا ۔کچھ اُوپر کے روشندانوں میں سے محدود سی روشنی چھن چھن کر سیل میں آنا شروع ہوئی اور کچھ تھوڑی دیر سیل میں بیٹھے رہنے سے میری آنکھیں بھی مانوس ہونے لگیں ۔ اب سیل کا فرش، خالی خولی دیواریں اور سیل کا آہنی دروازہ صاف صاف نظر آرہے تھے ۔ سیل میں لگتا تھا کہ کافی دنوں بعد صفائی کرنے کی کوشش کی گئی ہے ، مگر سیل کے فرش میں جگہ جگہ گڑھے پڑے تھے اور فرش پر کالی کائی سی جم گئی تھی ۔دیواروں کا پلاسٹر جگہ جگہ سے اُکھڑا ہوا تھا ۔ بدبو آرہی تھی اور پورا ماحول پراگندہ لگ رہا تھا ۔بدبو کے پھبکے دماغ کے اندر گھسنے لگے تو میں نے رومال سے اپنا منہ ڈھک لیا اور سر تھام کر سیل میں پڑی چار پائی پر بیٹھ گیا۔
دن جیسے تیسے گزر گیا ۔ رات میں نے کانٹوں میں گزار دی ۔ بھوکا پیاسا تھا کیونکہ جیل کا کھانا تناول نہ کر سکا تھا ۔ سونے کی کوشش کرتا رہا، پر سو نہ سکا ۔ رات بھر چارپائی پر کروٹیں بدلتا رہا کیونکہ چار پائی میں چھُپے کھٹملوں نے کافی پریشان کر رکھا تھا ۔ من گھر کے تانوں بانوں میں اُلجھا رہا ۔ بیگم صاحبہ یاد آئیں ، بچے یاد آئے۔ سب سے بڑھ کر گھر میں پنجروں میں قید پرندے یاد آئے ۔ انہیں کسی نے دانا پانی ڈالا ہوگا یا میری طرح بھوکے پیاسے ہوں گے ۔ کیسے ہوں گے اور کیا کر رہے ہوں گے ۔ بار بار مجھے یہ باتیں ستانے لگیں ۔ ابھی جیل کی یہ پہلی ہی رات تھی ،مجھے قیامت سے گزرنا پڑا تھا اور میرے انجر پنجر ڈھیلے ہو گئے تھے ۔ پنجروں میں مُقید پرندے تو کئی سالوں سے بند پڑے ہیں، ان کی کیا حالت رہی ہوگی ۔ جیل کی سیل تو پھر بھی کشادہ تھی ۔ پنجروں کی محدود قلیل و کوتاہ جگہ کی بلا کیا اوقات رہی ہوگی ۔ پہلی بار میں نے اس انداز سے سوچا تو میں دّرد و کرب کی کیفیت سے ہمکنار ہوا اور رات بھر چار پائی پر کروٹیں بدلتا رہا ۔ کبھی سیل کے اندر بڑی بیقراری کے ساتھ چہل قدمی کرتا رہا اور کبھی ہونقوں کی طرح اندھیرے میں آنکھیں پھاڑ کر دیکھتا رہا۔
یہ رات جیسے سال بھر کی رہی ہو میں سوچتا رہا ۔ کیونکہ صبح ہونے میں بہت دیر ہوئی تھی ۔ پوری رات صبح ہونے کی چونپ میں گزر گئی ۔ ساری شب آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر بہت اُوپر دیوار میں نصب دو چھوٹے چھوٹے روشندانوں کی طرف ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہا ۔ خدا خدا کرکے کُفر ٹوٹا اور اِن روشندانوں میں سے روشنی کا گزر ہوا ، گویا عید کا چاند نظر آیا اور جیسے عید ہوگئی ۔ اب صبح ہوئی تو کچھ کچھ اچھا ہی ہوا ۔ اچانک سیل کے آہنی دروازے پر جیل حکام نظر آئے اور دروازہ کھول کر مجھ سے مخاطب ہوئے۔
" سر آپ پلیز باہر آئیے ۔ کل دراصل جلدی میں آپ کو غلط سیل میں ڈالا گیا تھا ۔" کوئی مجھ سے مخاطب ہوا تو میں فورا" سے پیشتر سیل سے باہر آگیا ایسے جیسے ڈر ہو کہ مخاطب اپنا ارادہ تبدیل نہ کردے " ہاں فرمائیے ۔۔۔۔۔۔۔ ۔"میں نے جیل حکام کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا ۔۔ میرا لہجہ خاصا ناخشگوار تھا ۔
" سر میں ۔۔۔۔۔ ڈی ایس پی بادل بھٹواری ۔ آپ پلیز میرے ساتھ چلے آئیے ۔ آپ کا سامان بھی آجائے گا ۔"
ڈی ایس پی جس نے اپنا نام بادل بٹھواری بتایا تھا، مصافحہ کرتے ہوئے بڑی متانت سے بولا ۔ لہجہ خاصا مہذبانہ تھا ، سو میرا غصہ بھی ہرن ہوگیا۔
تھوڑی ہی دیر بعد مجھے ایک نئی سیل میں منتقل کیا گیا ۔ میری تو جان میں جیسےجان آگئی ۔ سیل نسبتا" کھلی اور کشادہ تھی ۔روشنی بہتر تھی اور رکھ رکھاو بھی نِسبتا" ٹھیک ہی تھا ۔ سیل میں ایک ٹوائلیٹ اور واش روم کی موجودگی نے میری ساری فکر رفع کردی ۔ اب میں نہا دھو کر تازہ دم ہو سکتا تھا اور باقاعدگی سے نماز بھی ادا کر سکتا تھا۔
وقت ایک جگہ ٹھرتا نہیں بلکہ اپنی رفتار سے محوِ سفر رہتا ہے ۔ میں اسیر زنداں رہا ۔ اب جیل میں میرا یہ چھٹا مہینہ تھا ۔ تن تنہا تھا اور باہر کے حالات سے قطعی بے خبر بھی ۔ بیگم صاحبہ کو اس دوران البتہ بڑی کوششوں کے بعد کئی بار ملاقات کی اجازت مل گئی اور ہماری چند ملاقاتیں بھی ہو گیں۔
قدرت کا کرم دیکھیئے، جیل کی نئی سیل میں سیل کی اندرونی چھت میں ابابیلوں کے دو آشیانے بھی موجود تھے ۔ ان میں ابابیلوں کے دو جوڑے رہتے تھے ۔ بڑی خوبصورت ابابیلیں تھیں جو ہمہ وقت چہچاتی رہتیں رہتی تھیں ۔ چھت کے قریب نصب ایک چھوٹے سے روشندان کا شیشہ ٹوٹا ہوا تھا اور یہی اِن ابابیلوں کے عبور و مرور کا وسیلہ تھا ۔ صبح نور کے تڑکے اِن ابابیلوں کا مرغولنا مجھے بڑا اچھا لگتا تھا ۔ اِن معصوم اور خوبصورت ابابیلوں کی فسوں مرغولی سے میں بیدار ہوتا تھا اور اسے اذان سمجھ کر فجر کی نماز ادا کرتا تھا ۔ ابابیلیں مجھے اکثر میرے گھر " سائبان " میں مُقید طوطے مینوں کی یادیں دلاتی تھیں ۔ میں اچانک پریشان ہو جاتا تھا۔ " وہ بڑے کمزور پڑگئے ہیں ۔ خاموش رہتے ہیں ۔ٹھیک سے دُنکے بھی نہیں چُگتے۔ یہی حال رہا تو مرجائیں گے ۔" بیگم نے دورانِ ملاقات کہا تھا تو میں کافی افسردہ ہوا تھا اور میرے چہرے پر غم و فکر کے گہرے سائے لہرانے لگے تھے۔
" میں ہوں نا ۔ سنبھال لوں گی ۔تم بس اپنا خیال رکھنا ۔" بیگم نے میری حالت بھانپتے ہوئے مجھے دلاسہ دیا تھا۔
میں اب جیل کی اس کوٹھری میں کافی تنگ آچکا تھا ۔اب صحت بھی دھیرے دھیرے گرتی جارہی تھی ۔ کمزور پڑگیا تھا اور چہرے پر پیلے پن کا غازہ بھی چڑھنے لگا تھا ۔ ہمارے ذاتی موبائیل اب تک جیل حکام کی تحویل میں تھے ، سو کہیں بات بھی نہہں ہو پاتی تھی ۔ میں عُزلت میں تھا ۔ اب بس ابابیلیں ہی میری ساتھی تھیں۔ میں ان کا خیال رکھتا تھا۔ ان کو دانا ڈالتا تھا ۔ انہیں پانی پلاتا تھا اور کبھی کبھار کون خروں کی طرح اُن سے باتیں بھی کرنے لگتا تھا ۔
ایک صبح میں فجر کی نماز کے ساتھ دست بدُعا تھا کہ اچانک چند آوازوں کے ساتھ سیل کے آہنی دروازے کے کھُلنے کی چرچراہٹ کی آواز میرے پردہ سماعت سے آ ٹکرائی ۔ میں نے گھوم کر دیکھا جیل کے سپرانڈنٹنٹ بومن بجولی اپنے عملے کے چند افراد کے ساتھ سیل کے اندر آرہے تھے ۔ میں دعا مکمل کرکے ایستادہ ہوا اور نووارد افراد سے سلام دُعا کرنے لگا ، جبھی بومن بجولی مُسکرائے ۔
" بختاور صاحب، آپ تیاری کیجئے ۔" وہ بولے اور مسکراتے رہے ۔" جی ۔۔۔۔ میں ۔۔۔۔۔۔ ۔" میں نے کچھ کہنا چاہا جبھی وہ پھر بولے ۔ " بس موڈ بن گیا ۔ آج ہم آپ کے گھر کی چائے پئیں گے اور وہ بھی ایک ساتھ ۔۔۔۔۔۔۔ اور ہاں یہ لیجئے آپ کا فون ۔ آپ گھر اطلاع کرسکتے ہیں ۔"
مختصر سی گفتگو کے بعد یہ لوگ چلے گئے تو میں سمجھ گیا کہ میری رہائی ہونے والی ہے ۔ میں نے ایک لمبی آہ کھینچتے ہوئے اللہ کا شُکر ادا کیا اور ابابیلوں کے آشیانوں کی طرف دیکھنے لگا ۔ ابابیلیں اچانک زور زور سے چہچہانے لگی تھیں ۔ وہ جیسے بھانپ گئی تھیں اور خوشیاں منا رہی تھیں ۔ میں تھوڑی دیر میں ان کے نغموں میں کھو سا گیا ، جبھی مجھے خیال آیا کہ گھر فون کر کے اطلاع کردوں ۔ اب میرا موبائل میرے پاس تھا اور جبھی میں اپنے موبائل سے گھر کا نمبر ملا رہا تھا ۔
پھر تقریبا" ڈیڑھ گھنٹے کے بعد میرے گھر پہنچتے ہی " سایئباں " میں جشن کا سا سماں بندھ گیا ۔گھر کے سبھی افراد چشم براہ تھے ۔سبھی گلے ملنےلگے اور مجھے پھولوں کے ہار پہنانے لگے ۔ میری رہائی نے سبھی کے چہروں پر مسکراہٹ اور رونق پوت دی تھی ۔ سب لوگ بڑے خوش تھے اور شاد و شادماں میری رہائی سیلبریٹ کر رہے تھے ۔
صبح ہوچکی تھی اور سورج نے اپنی پہلی روپہلی کرنوں کو چہار سو بکھیرنا شروع کر دیا تھا ۔ اب اُجالا تھا اور سب لوگ ایک خاص مقصد کےلئے " سائبان " کے خوبصورت لان میں جمع تھے ۔ سامنے ایک میز پر پنجروں میں مُقید پنجروں کے پنچھی بھی موجود تھے ۔ وہ زور زور سے چہچہا رہے تھے اور اپنے پر زور زور سے پھڑپھڑا رہے تھے ۔انہوں نے مجھے پہچان لیا تھا ۔ اب وہ شاد و شادماں تھے اور جیسے میری رہائی کی خوشیوں میں برابر کے شریک تھے ۔ میں انہیں دیکھتا رہا، ایک مجرم کی طرح اور ایک گناہ گار کی طرح ۔ اچانک میری آنکھیں نم ہوئیں آور میں اک ہوک سے ہمکنار ہوا ۔ میں نے قریب موجود جیل سپرانڈنٹنٹ بومن بجولی کی طرف دیکھا جبھی وہ معنی خیز نظروں سے دیکھتے ہوئے مُسکرائے اور اثبات میں اپنا سر ہلانے لگے ۔ پھر اچانک ہم دونوں نے میز پر رکھے ہوئے پنجروں کو کھول دیا اور ان میں سے مقید پرندوں کو نکال کر ہوا میں زور سے اُچھال دیا ۔۔۔۔۔ پرندے پھُر کی آواز کے ساتھ ہوا میں اُڑنے لگے اور دھیرے دھیرے بیکراں نیلے آسمان کی وسعتوں میں پرواز کرتے ہوئے نظروں سے اوجھل ہو نے لگے ۔