(Last Updated On: )
بڑا کم ظرف تھا، خاصا کمینہ بھی۔ بدمزاج اور تخریب کار، ذہن تھا کہ تخریب کاری کا کارخانہ، ہمہ وقت تخریب کی سوچتا تھا اور نِت نئی تخریب انجام دیتا تھا ۔ گاؤں والوں کو طرح طرح سے تنگ کرتا تھا اور کم ظرفی کا ایک بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا تھا ۔ نام گجن گڑیال ، عمر لگ بھگ چالیس پنتالیس سال، چوڑے چکلے شانے ، قد میانہ ، چہرہ بدصورت اور وضع قطع خاصی بدہئیت اور خوفناک تھی ۔ شاطر تھا اور اڑوس پڑوس میں خاصا بدنام بھی ۔ بٹھوال گاوں کا ساکن تھا اور بٹھوال بستی کےلئے دردِ سر اور سوہانِ روح بنا ہوا تھا۔ گجن گڑیال یوں تو ایک پھندے باز تھا ۔ پھندے لگاتا تھا ، مگر وہ ایک مشاق شکاری اور بندوق باز بھی تھا ۔
پھندے بازی میں ایسا ماہر تھا کہ جنگلی جانوروں کا بچنا محال ہوتا تھا اور کوئی بھی جانور آج تک گجن گھڑیال کے پھندے اور عتاب سے بچنے میں کامیاب نہیں رہا تھا ۔ خرگوش سے لے کر ہاتھی تک کا شکار کرتا تھا ، نیز لکڑی کی سمگلنگ بھی ۔ پھر بٹھوال گاوں کے جنگلات اور پہاڑ کے کیا کہنے ، یہاں سونا اُگلنے والے سرسبز گھنے جنگلات اور پہاڑ تھے اور صحیح معنوں میں ہمہ وقت سونا اُگلتے تھے ۔ گاوں والے یہاں سے لکڑیاں ، مشروم اور جڑی بوٹیاں وغیرہ سے اِستفادہ حاصل کرتے تو تھے ہی ، مگر کچھ دیگر لوگوں کےلئے یہ جنگلات یقینا”سونا اُگل رہے تھے ۔ گجن گڑیال ان میں سر فہرست تھا۔ گجن ان جنگلات سے صندل ، شیشم اور ساگوان کی لکڑی سمگل کرتا تھا اور اسی سے اپنا کاروبارِ حیات چلاتا تھا ۔ وہ جنگلی جانوروں کی کھالیں اور ہاتھی دانت وغیرہ بھی سمگل کرتا تھا اور خوب پیسے کما رہا تھا ۔
حیدر رضا بٹھوال کے اِنہی جنگلات کے دامن میں تعمیر ایک خُوبصورت سرکاری محکمانہ ہٹ کے چھوٹے سے خُوبصورت لان میں ایک کُرسی پر بیٹھا گجن گڑیال کے بارے میں بڑی تفصیل سے سُن رہا تھا اور محوِ حیرت اپنے سامنے بیٹھے چند مُلازمین جو گجن کی رام کتھا سُنا رہے تھے کے چہرے تک رہا تھا ۔ وہ خود خاموش تھا اور بس ہُوں ہاں کئے جارہا تھا ۔ بغل میں ایک جونیئر جنگلات افسر سہگل سِنگانی بھی براجمان تھا جو پاس بیٹھے مُلازمین سے سوال و جواب کررہا تھا ۔ خود رضا حیدر کا تعلق وائلڈ لائف محکمے سے تھا ۔ وہ ایک سینئر افسر تھا اور دونوں افسران کا حال ہی میں یہاں پر تبادلہ ہوا تھا ۔ دونوں یہاں ایک خاص مشن پر آئے ہوئے تھے اور اب دونوں نے اپنا کام کاج سنھبال بھی لیا تھا ۔ بڑی خُوبصورت جگہ تھی جو حیدر رضا اور سہگل سنگانی کو بڑی پسند آئی تھی ۔
خُوبصورت سرکاری محکمانہ ہٹ ایک ندی کے کِنارے کی ڈھلان پر تعمیر تھی اور پورا آس پاس مختلف قسم کے سرسبز درخت اور پیڑ پودوں سے گِھرا ہوا تھا ۔ مُختلف اِقسام کی بیلیں کچھ پیڑوں کے اردگرد لپٹی ہوئیں اور بل کھاتی ہوئیں بہت اُوپر تک چلی گئیں تھیں ۔ اِن بیلوں میں رنگ برنگے پھول بھی لگے تھے جو ہر سو اپنی خوشبو بکھیر رہے تھے ۔ ہر سُو ہریالی ہی ہریالی تھی ، چنانچہ لان میں لگے پھل اور پھولوں کی خُوشبو نے پُورےماحول کو لالہ زار اور معطر بنا دیا تھا ۔ حالانکہ گرمیوں کا موسم تھا مگر سائیں سائیں کرتی ہوئی ہوائیں فرحت بخش رہی تھیں اور بڑی بھلی لگ رہی تھیں ۔ وہ آپس میں باتیں کر رہے تھے کہ ہٹ کا چوکیدار برکت خان آتا ہوا مُخاطب ہوا۔
” جناب، گجن صاحب آئے ہیں۔ آپ سے مِلنا چاہتے ہیں ۔” گجن کا نام سُنتے ہی سب چونک گئے ۔
” کہاں ہیں ۔؟” حیدر رضا نے پوچھا۔
” جناب ۔۔۔۔ باہر گیٹ پر ۔” برکت خان مودب انداز میں جوابی ہوا ۔
جبھی اچانک حیدر رضا اور سہگل سنگانی کے چہروں پر ناگواری کے اثرات ترشح ہوگئے اور دونوں ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے ۔
” ہوں ” حیدر زیر لب بڑبڑایا ۔
” ٹاک آف ڈیول اینڈ ڈیول اِز پریزیڈنٹ ۔” یعنی شیطان کی بات اور شیطان حاظر ۔ وہ سہگل کی طرف دیکھنے لگا ۔
دُونوں نے اشاروں اشاروں میں کچھ بات کی اور مُسکرانے لگے ۔ ” بھیجدو ۔” سنگانی نے برکت خان سے کہا اور وہ ” جی جناب ” کہتا ہوا واپس چلا گیا ۔
تھوڑی ہی دیر بعد گجن گڑیال آتا ہوا دکھائی دیا ۔ جبھی سبھی لوگ اُس کی طرف متوجہ ہوگئے ۔ وہ خراماں خراماں ان کی طرف چلا آرہا تھا ۔ سج دھج کر آیا تھا مگر بڑا بھدا لگ رہا تھا ۔ ایک ڈھیلا ڈھالا سوٹ پہنے تھا جو اُس کی صورت اور بد وضع جسامت سے میل نہیں کھا رہا تھا ۔ ستم یہ کہ قمیض کے بغیرِ اِستری کا کالر خاصا میلا تھا اور سوٹ کی ایسی کی تیسی کر رہا تھا ۔ قریب آتے ہی اُسنے سلام دعا کی اور اپنے ہاتھوں میں تھما ہوا گلدستہ حیدر رضا کی طرف بڑھادیا جھبی حیدر رضا نے گلدستہ سامنے والی تپائی پر رکھنے کا اشارہ کیا تو گجن گڑیال کھسیانا ہوکر قریب ہی کی ایک خالی کُرسی پر بیٹھ گیا ۔
” جناب آپ کا تہہ دل سواگت ہے ۔ ” وہ بولا ۔
” شکریہ ۔ ” حیدر رضا نے خشک لہجے میں جواب دیتے ہوئے سرد مہری کا اظہار کیا ۔
” جناب آپ کے بارے میں بہت کچھ سنُا ہے ۔”
وہ بہت جلد خوشامد پر اُتر آیا اور پھر اپنے اثر و رسوخ کی باتیں بھی کرنے لگا ۔ کمشنر سے لے کر ڈپٹی کمشنر تک اپنا توسط جتانے لگا اور بڑی بڑی باتیں کرنے لگا ۔ جبھی حیدر رضا بے زار ہوتے ہوئےاور کھڑا ہوتے ہوئے اجازت لے کر اپنے ہٹ کی طرف چلدیا اور اپنی ہٹ کے اندر چلا گیا ۔
شام کو حیدر رضا اور سہگل سنگانی اپنی ٹیم کے ساتھ بٹھوال کے جنگلات کی معمول کی گشت پر تھے ۔ مطلع صاف اور موسم خوشگوار تھا ۔ ہوا میں اب خنکی آگئی تھی ، چنانچہ سائیں سائیں کرتی ہوئی ہوائیں اب بھلی لگ رہی تھیں ۔ چلتے چلتے سہگل سنگانی کے جوتے کے تسمے کچھ ڈھیلے پڑ گئے تو وہ ایک جگہ رک گئے ، جبھی سنگانی نے اپنے جوتے کے تسمے سرِ نو باندھنے شروع کردیئے ۔ اسی اثنا میں نزدیک سے کسی جانور کے چیخنے چلانے کی آوازیں آنا شروع ہوگئیں تو یہ سارے لوگ چوکنے ہوگئے ۔ انہوں نے اپنی بندوقیں سنبھالتے ہوئے اس سمت بھاگنا شروع کردیا ۔ آوازیں متواتر آرہی تھیں ۔ تھوڑی ہی دیر بعد یہ لوگ اب ان آوازوں کے قریب پہنچ گئے ۔ سامنے کا منظر دیکھ کر یہ لوگ ششدر سے رہ گئے ۔
دو جنگلی خرگوش ایک پھندے میں پھنس گئے تھے اور اب چیخے چلائے جارہے تھے نیز آزاد ہونے کی جدوجہد بھی کر رہے تھے ۔ بڑے پیارے خرگوش تھے اور زخمی حالت میں ماہی بے آب کی طرح تڑپ رہے تھے ۔ بڑا دل خراش منظر تھا ۔ خرگوش خوفزدہ تھے اور ہانپ رہے تھے ۔ جلد ہی ان خرگوشوں کو آزاد کیا گیا اور مرہم پٹی کرکے انہیں کھُلا آزاد چھوڑ دیا گیا ۔ اسی رات اچانک ایک چیتے کی چیخ چنگاڑ نے پورے ماحول کو خوفزدہ بنادیا ۔ ٹیم کے لوگ افرا تفری میں جاگ گئے اور پھر تھوڑی ہی دیر بعد حیدر رضا کی قیادت میں اپنی بندوقیں سنبھالتے ہوئے اور سمت کا تعین کرتے ہوئے ایک جیپ گاڑی میں روانہ ہوگئے ۔ کچھ دور جاکر انہیں جیپ چھوڑ کر پیدل سفر کرنا پڑا کیونکہ آگے جیپ کا راستہ نہیں تھا ۔ اب وہ تیز تیز قدموں کے ساتھ چیخ چنگاڑ کی آوازوں کی طرف بڑھ رہے تھے ۔
پھر وہ جائے واردات پر پہنچ ہی گئے ۔ پیش منظر بڑا کربناک تھا ۔ ایک چیتا ایک آہنی پھندے میں پھنسا ہوا تھا ۔ اُس کا آدھا دھڑ پھندے میں جکڑا ہوا تھا ۔ اب وہ اس سے باہر نکلنے کی انتھک کوشش کررہا تھا مگر پھندا خاصا مظبوط تھا ، وہ نکل نہیں پارہا تھا ۔ وہ زخمی تھا اور کافی تھکا ہوا بھی ۔ کافی غُصے میں تھا اور چیخے چنگھاڑے جارہا تھا ۔ ان لوگوں کے قریب پہنچتے ہی وہ اور زور زور سے چیخنے چنگھاڑنے لگا ، ایسے جیسے یہ سب ان لوگوں کا کیا دھرا ہو ۔ وہ انہیں پھاڑ کھانے والی نظروں سے دیکھ رہا تھا اور مسلسل پھندے سے نکلنے کی کوشش بھی کررہا تھا ۔ ٹیم کے لوگوں نے تھوڑی دیر کچھ مشورہ کیا اور پھر اپنی مخصوص بے ہوش کرنے والی رائفل سے چیتے پر فائر کرکے اسے بے ہوش کردیا۔ تھوڑی ہی دیر بعد اب چیتا آہنی پھندے سے آزاد تھا اور اسے مرہم پٹی اور دیگر علاج کےلئے جیپ کی طرف لے جایا جارہا تھا ۔ ٹیم نے آہنی پھندے کو بھی ضبط کیا تھا اور اس پورے منظر کی فلم بھی بنالی تھی ۔
حیدر رضا اور سہگل سنگانی اب یہاں تین مہینے کے زائد عُرصے سے مقیم تھے۔ انہیں بڑا مزا آرہا تھا ، ڈیوٹی اچھی جارہی تھی ۔ سرکاری کام شد ومد سے ہورہا تھا ، وہیں سیر و تفریح بھی ہورہی تھی ۔ یہاں اب پہلے سے تعینات عملے کو تبدیل کرکے نئے چُست و درُست ، ایماندار اور فرض شناس عملے کو تعینات کیا گیا تھا ۔ پُورے علاقے میں اب گشت بڑھا دی گئی تھی ، نیز مجرموں کی نکیل بھی کس دی گئی تھی ۔
ایک سیاہ و خوفناک رات تھی ۔ سنسان اور بے جان ۔ چاند گہرے کالے گھنے بادلوں میں گھرا ہوا تھا اور چاند کی چاندنی بکھیرنے کے عمل میں مانع و حائل تھا ۔ پورا جنگل گھپ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا ۔دائیں بائیں جنگلی جانوروں کی خوفناک اور کریہہ الصوت آوازوں نے پورے ماحول کو خاصا ڈراونا بنا دیا تھا ، چنانچہ شب کی معمول کی گشت کو موخر کیا گیا تھا اور رات دیر گئے تک ہٹ میں گپ شپ جاری رہی تھی ۔ اب حیدر رضا اور ٹیم کے دیگر افراد اپنے اپنے بستروں میں آرام فرما رہے تھے ۔ صُبح نور کے تڑکے ہی کسی نے آکر اطلاع دی کہ جنگل میں کہیں گڑ بڑ محسوس کی گئی ہے اور کہیں سے چیخنے چلانے کی آوازیں بھی سنائی دی گئی ہیں ۔ یہ اطلاعات جنگل کے سیکڑ سی کی آبزرویٹری سے وائرلیس کے ذریعے موصول ہوئیں تھیں جسے یہاں سیٹ پر بیٹھے ہوئے آپریٹر نے موصول کیا تھا ۔ اطلاع موصول ہوتے ہی اور اچانک نیند میں خلل پڑنے سے یہ لوگ کچھ پریشان ضرور ہوئے تھے ، مگر انہوں نے تیار ہونے میں قطعی کوئی دیر نہیں کی تھی بلکہ فورا” سے پیشتر یہ لوگ تیار ہوئے تھے اور موصولہ اطلاع کے مطابق جگہ اور سمت کا تعین کرتے ہوئے اپنی دو جیپ گاڑیوں میں سوار اپنی منزل کی طرف روانہ ہوئے تھے ۔
اب صُبح کے اُجالے اپنی نوید و نمود کے ساتھ روشن ہونا شروع ہوچکے تھے ۔ اُجالا ہورہا تھا اور یہ لوگ بڑی دقتوں کا سامنا کرتے ہوئے اب اپنی منزل کے قریب اُس جگہ تک پہنچ چکے تھے جہاں کچھ ہلچل ہورہی تھی اور کسی شخص کے چیخنے چلانے اور کراہنے کی آوازیں اب صاف سُنائی دے رہی تھیں ۔ یہ لوگ بھاگتے ہوئے آگے بڑھتے رہے اور پھر نزدیک پہنچتے ہی سبھوں کے منہ حیرت سے کھُل گئے ۔ سامنے کا منظر کافی حیران کُن تھا ۔ گجن گڑیال ایک آہنی پھندے میں پھنسا ہوا تھا اور اپنی ایڑیاں رگڑ رہا تھا ۔ پاس ہی اُس کی بندوق بھی پڑی ہوئی تھی ۔ وہ چت پڑا ہوا تھا اور پھندا کھولنے کی کوشش کررہا تھا مگر اُس کی ایک ٹانگ کے ساتھ ساتھ اس کا ایک بازو بھی آہنی پھندے میں پھنسا ہوا تھا اس لئے پھندا کھُلنا ناممکنات میں تھا ۔ وہ نا چار و لاچار اور زخمی تھا ، اُس کی آنکھیں باہر کو نکلی ہوئی تھیں اور منہ سے جھاگ نکل رہا تھا ۔ وہ ہانپ رہا تھا اور ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مدد کےلئے پکار رہا تھا ۔ بچاو ۔۔۔۔۔ بچاو ۔۔۔۔ بچاو ۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭٭٭٭