سامنے والی برتھ پر اَماں بیٹھی اَبا کو اپنے ہاتھ سے کھانا کھلا رہی تھیں – اَبا کی آنکھوں پر کالا چشمہ لگا تھا جس کے پیچھے اُنکی لال لال سوجی ہو ئی آنکھیں چھپی ہوئی تھیں –
تھری ٹائر کی یہ بوگی تقریباً خالی تھی ٹرین سے باہر کا موسم بڑا خوشگوار تھا ورنہ دن کا سفر بہت تکلیف دہ ہوتا ہے – میرے پاس بیٹھی ہوئی ایک خوبصورت سی بوڑھی عورت نے مجھ سے پوچھا؛
یہ تمہاری ساس ہیں یا ماں ؟
دونوں – میں نے مسکرا کر مختصر سا جواب دے دیا –
اِس کا مطلب ہے تم کو بہت پیار کرتی ہیں اور اپنے میاں کو بھی –
اَماں کے کانوں میں شاید آواز پہنچ گئی – اُنہوں نے ترچھی نظروں سے اِس بوڑھی عورت کی طرف دیکھا اور بغیر کچھ بولے اَبا کے منہ میں نوالہ رکھ دیا – میری نگاہ بھی اَبا پر ہی تھی – اُنھوں نے اپنا چشمہ تھوڑا نیچے کیا تو اُنکی سُرخ سُرخ آنکھیں دکھائی پڑیں پھر چشمہ درست کر کے اَماں کا ہاتھ پکڑ لیا –
بس ساجد کی ماں ، بس ، میری آنکھوں میں ایکدم پھانس سی چبھنے لگی ہے – بہت تکلیف ہو رہی ہے – اب بھوک بھی ختم ہو گئی ہے –
میرے پاس بیٹھی ہوئی بوڑھی آنٹی کی نگاہ بھی شاید اُن کی آنکھوں پر پڑ گئی تھی –
ارے میں تو سمجھی تھی کہ یہ بیچارے آنکھوں سے …
نہیں نہیں – میں نے جلدی سے ان کی بات کاٹ دی –
ایسی کوئی بات نہیں ہے اُن کی آنکھیں تو آشوب کر آئی ہیں- اصل میں آنٹی ہم لوگ ایک شادی کی تقریب میں گئے تھے – آج کا رزرویشن پہلے ہی سے تھا اور کل شام کو اچانک اَبا کی آنکھوں میں تکلیف شروع ہو گئی لیکن یہ وہاں مزید رکنے کے لئے تیار نہیں تھے – اب یہ چھ سات گھنٹوں کا دن کا سفر ہے لیکن موسم اچھا ہے گزر ہی جائے گا –
اَبا نے ایک بار پھر چشمہ درست کیا اور ایک لمبی سی سانس کھینچ کر لیٹ گۓ – اَماں نے مجھ سے کھانے کے لئے پوچھا تو انکار کر دیا اور وہ پلیٹ دھونے واش بیسن تک چلی گئیں – اُن کے جانے کے بعد آنٹی نے پھر کمِنٹ کیا –
بہت غصہ ور بھی معلوم ہوتی ہیں ؟ لیکن اپنے میاں کوچاہتی بھی بہت ہیں –
اَبا کو ایکدم کھانسی آ گی اور وہ اٹھ کر بیٹھ گئے –
رضیہ بیٹا میری آنکھوں میں جیسے کوئی مہین مہین سوئیاں چبھو رہا ہے – میں لیٹ جاؤں تو تم دوا ڈال دو –
لیکن آپ نے ابھی گھر سے چلتے وقت تو دوا ڈلوائی تھی – ڈاکٹر نے تو دُو دُو گھنٹوں کے بعد کہا ہے-
اَماں پلیٹ اور ہاتھ دھو کر واپس آ گئیں پھر اَبا کے پیروں کے پاس بیٹھ کر کچھ کُھردرے سے لہجہ میں مُجھ سے بولیں –
رضیہ یہ تمہاری آنٹی جی کیا کہہ رہی تھیں ؟
میں تو ایکدم گھبرا گئی کہ کہیں ماحول خراب نہ ہو جائے لیکن آنٹی نے خود ہی بات بنا لِی –
بہن میں آپ کی تعریف کر رہی تھی کہ آپ کو اِتنی اچھی بہو مِلی ہے اور آپ اپنے شوہر سے بھی بہت پیار کرتی ہیں –
آنٹی بہترین اُردُو بول رہی تھیں – اُنہوں نے اپنی نرم گفتگو سے عورتوں کی کمزور والی نَس پر انگلی رکھ دی – اَما ں کے تیور اچانک نرم پڑ گئے – اپنی تعریف سُن کر چہرے پرمسکراہٹ بھی آ گئی اور میں نے دل میں الله کا شکر ادا کیا کہ حالات بگڑنے سے پہلے ہی سَنبھل گئے – اَماں کے چہرے کو پڑھ کر آنٹی نے فوراً خود ہی اپنا تعارف کرا دیا ؛
میرا نام گا ئِتری آہوجہ ہے لیکن پرورش مُسلمانوں کے درمیان ہوئی ہے اور اتفاق سے میں ایک ایسے کالج کی پرنسپل رہی ہوں جہاں مُسلم لڑکیوں کی اکثریت تھی – ابھی دو سال قبل ریٹایر ہو چُکی ہوں – یہ میری پُوتی اُوشا ہے اِس نے اِسی سال بی اے فائنل کا امتحان دیا ہے – میں اپنے بڑے بیٹے کے پاس گئی تھی آج کل اِس کی چھٹیاں ہیں اِس لئے میرے ساتھ آ گئی ویسے میں مُستقل طور پر اپنے چھوٹے بیٹے کے ساتھ رہتی ہوں –
اُنھوں نے ایک ہی سانس میں سب کچھ بتلا دیا –
اَماں کا مُوڈ یہ سب سُن کر ٹھیک ہو چُکا تھا اور غالباً آنٹی کی تعلیم اور نہایت مُہذِب گفتگو کی وجہ سے مرعوب بھی ہو چکی تھیں – پھر اُن دونوں کے درمیان باتیں ہونے لگیں – میں اُٹھ کے کِھڑکی کے قریب اُوشا کے پاس بیٹھ گیٔی اور ہم لوگوں میں فوراً بے تکلفی بھی ہو گئی – ہماری باتیں فِلموں سے شروع ہو کر ٹِی وِی سِیریل تک پہونچتی جا رہی تھیں لیکن باتوں کے درمیان میرے کان اَماں اور آنٹی کی گفتگو کی طرف بھی لگے تھے –
آپ کے مسٹرآہوجہ کیا کرتے ہیں ؟
اَماں نے ایک نِجی سوال کر دیا –
وہ ڈاکٹر تھے ابھی ایک سال قبل اُنکو ہارٹ اٹیک ہوا اور ہمیں تنہا چھوڑ گئے –
ارے !!
اَماں نے تعزیتی لہجہ میں اُن سے ہمدردی جتائی – اَبا جو ہماری طرف پیٹھ کئے لیٹے تھے ایکدم اٹھ کے بیٹھ گئے اور اپنا چشمہ درست کرتے ہوئے سینے پر ہاتھ رکھ لیا – اُنکی آنکھوں سے ہلکا ہلکا پانی بہہ کر داڑھی کو بھگو رہا تھا – اَماں گھبرا کے کھڑی ہو گئیں اور تَولیہ سے اُن کی داڑھی اور چہرے کو صاف کرتے ہوئے پوچھ لیا ؛
کیا سینے میں زیادہ تکلیف ہے ؟
ہاں – وہ جو آنکھوں کی تکلیف تھی وہ اب یہاں آ گئی ہے –
آنٹی نے فوراً اپنی اٹیچی کھول کر بلڈ پریشر چیک کرنے کی مشین نکالی – چیک کرنے کے بعد بولیں؛
بی پی تو ٹھیک ہے – ٹھہرئے میں آپ کو گُلو کُوز دیتی ہوں – یہ ڈِپریشن بھی ہو سکتا ہے –
اَماں نے فوراً گُلو کُوز گھول کر پلا دیا –
اب طبیعت کیسی ہے ؟
دونوں نے بیک وقت سوال کیا –
شکریہ مُحترمہ – اب پہلے سے بہتر ہے – آپ تو پورا اسپتال ہی ساتھ لے کر چلتی ہیں ؟
جی ہاں – ڈاکٹر کی بیوی جو ٹھہری – اچھا اب آپ آرام کیجئے –
پھر آنٹی مُجھ سے مُخاطب ہوئیں –
اگر دُو گھنٹے ہو گئے ہوں تو آنکھوں میں دَوا ڈال دُو –
اَماں اور آنٹی کی باتیں پھر شروع ہو گئیں – اَبا خاموشی کے ساتھ لیٹے سُن رہے تھے – جب دُو عورتیں اور خصوصی طور پر بوڑھی عورتیں آپس میں بے تکلف ہو جاتی ہیں تو اپنی جَوانی کی باتیں ضرور کرتی ہیں – آنٹی نے
بھی یہ سِلسِلہ شروع کر دیا –
کیا آپ دونوں نے اپنے پَسند کی شادی کی تھی ؟ شوہر کے ساتھ آپ کی مُحبت دیکھ کر یہی اندازہ ہوتا ہے –
اَماں کا چہرہ شرم سے سُرخ ہو گیا –
ہاں یک طرفہ مُحبت تھی – اصل میں ہماری پہلے سے رشتہ داری بھی تھی – مُجھے یہ پسند تھے لیکن یہ تو شادی سے ہی اِنکار کر رہے تھے – بہر حال دُونوں کے والدین نے اِن کو راضی کر لیا اور پھر شادی کے بعد سے ہم دُونوں بہت خوش ہیں –
تو کیا شادی کے بَعد اِس مسئلہ پر آپ نے بات کی کہ شادی سے اِنکار کی وجہ کیا تھی ؟
بات تو نہیں کی لیکن یہ اندازہ ہو گیا کہ کچھ عِشق وِشق کا چکر رہا ہو گا کیونکہ اِنکے سینے میں یہ جو سُوئیاں سی چبھتی ہیں یہ پچھلے پچاس سال سے چُبھ رہی ہیں – جب بھی کِسی مسئلہ پر ہمارے درمیان اِختلاف ہوتا ہے تو سُوئیاں زیادہ چُبھنے لگتی ہیں – شُروع شُروع میں مُجھے بھی فِکر ہوئی تو ڈاکٹروں کو دِکھلایا – پھر میں عادی ہو گئی کیونکہ ہر ڈاکٹر کا ایک ہی جواب تھا کہ اِنکو صِرف وہم ہے –
اَبا نے پھر ایک لمبی سانس لی –
ساجد کی ماں کاش میں تُم کو اپنی تکلیف بتا سکتا کہ …
ارے چھوڑیے وہ زمانے لد گئے جب آپ کے عِشق کی کہانیاں سُن سُن کر میں پریشان ہو جایا کرتی تھی –
اَماں کے اِس بَرجَستہ کمِنٹ پر وہ تینوں ہی ہنس دِئے – آنٹی بھی غالباً اب مُوڈ میں آ چکی تھیں –
بہن میرا مُعاملہ آپ سے مُختلف تھا ہمارے ماں باپ تو اپنے پَسند کی شادی چاہتے تھے لِیکن میں تیار نہیں تھی –
آخر کیوں ؟
اَماں آنٹی کے اور قریب ہو گئیں – ہم لڑکیوں نے بھی اپنے کان اُسی طرف لگا دئےکیونکہ فِلمی باتوں سے زیادہ اب اِس اصل کہانی میں مزہ آ رہا تھا –
جیسا کہ میں پہلے ہی بتلا چُکی ہوں کہ میرا نام گائِتری آہُوجہ ہے لیکن شادی سے قبل میں گائِتری رائے تھی – میرے والد پرہلاد رائے کا اناج اور کپڑے کا ہُول سِیل بزنس تھا میں اُس وقت دسویں کِلاس میں تھی اور وہ دُبلا پَتلا پیارا سا ایک مُسلمان لڑکا تھا جو ہمارا پڑوسی بھی تھا اور میرے بھائی آنند کا کلاس فیلو بھی – وہ دُونوں اِنٹر فائِنل کر رہے تھے – وہ کبھی کبھی ہمارے گھر آ کر آنند بھیا کے ساتھ جُوائِنٹ اِسٹڈی بھی کرتا تھا – پڑھنے کے علاوہ اُس کو شِعر و شاعِری سے بھی دِلچسپی تھی – وہ اُردو کے شِعر سُنا کر مُجھے اور آنند بھیا کو اُن کے مطلب بھی بتاتا تھا – بس اِسی شِعر و شاعِری کے درمیان ہم لوگ غیر اِرادی طور پر ایک دُوسرے کے قریب آ گئے – سِلسِلہ بڑھتا رہا اور پھر ایک دِن جب آنند بھیا نہیں تھے تو وہ آ گیا اور کمرے میں بیٹھ کر اُن کے آنے کا اِنتظار کرنے لگا – میں پانی کا گِلاس لے کر گئی تو … خُود کو رُوک نہ پائی –
آنٹی چند مِنٹ تک خاموش رہیں غالباً وہ تصور میں اُس لَمحہ کو سَمیٹ رہی تھیں – اَماں نے اُن کا کندھا ہلا کر جگا دیا ؛
پھر آپ نے کیا کیا ؟
پھر میں نے اُسکے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں لے کر چُوم لیا اور کمرے سے بھاگ گئی – وہ اپنا پسینہ پونچھتا ہوا بڑی تیزی سے واپس جا رہا تھا – دروازے پر آنند بھیا مِل گئے –
ارے تم اِتنے گھبرائے ہوئے کیوں ہو ؟
وہ بغیر کوئی جواب دیٔے چلا گیا – آنند بھیا سِیدھے مِیرے کمرے میں آ گئے –
گائِتری تم نے اُس سے کُچھ کہا ہے ؟
جی نہیں میں صِرف پانی کا گلاس رکھ کر واپس آ گئی تھی –
شاید اِس طرح کے جُھوٹ مُحبت میں جائز ہو جاتے ہیں – میں نے اپنے اِس صاف جھوٹ کا جَواز نکال لیا – اَماں نے آنٹی کی پیٹھ پر ہاتھ مارا –
بہن اُس لڑکے کا تو کباڑا ہو گیا ہوگا لیکن تھا شریف لڑکا ورنہ گھبرا کر بھاگ نہ جاتا –
آپ ٹھیک کہتی ہیں – مُجھے بھی اپنی اِس تِیزی پر شرمندگی تھی – پھر وہ دِو دِن ہمارے یہاں نہیں آیا تو شُبہ یقین میں بدل گیا کہ وہ ناراض ہو گیا – لیکن تیسرے دِن ہی شام کو وہ آنند بھیا کے پاس آیا اور چلتے وقت مُجھے ایک پرچہ دے گیا – اُس نے ایسی شاعرانہ زبان لکھی تھی کہ میں نے اُسے کئی بار پڑھا اور ایک ایک لفظ مجھے یاد ہو گیا – اُس نے لکھا تھا …
گائِتری، اُس دن کی تمہاری وہ حرکت صحیح تھی یا غلط لیکن دل کی آواز تھی جو مُجھ تک پہنچ گئی – ہم دونوں شاید بہت تیز دوڑنے کی کوشِش کر رہے ہیں – ابھی تو ہم تیراکی سیکھ رہے ہیں – گہرے پانیوں میں جانے سے قبل ہمیں اِس قابل ہونا پڑے گا کہ ہم دھارے کے خِلاف بھی تیر کر زندگی کی ندی کو پار کر سکیں – دُوسری ضروری بات یہ ہے کہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے اِس قابل ہونا چاہتا ہوں کہ ہمارے درمیان سے مذہب کی دیواریں خود ہی مِٹ جائیں اور پھر میں تمہیں وہ سب سُکھ دے سَکوں جو تم کو اپنے گھر میں حاصل ہیں – کیا تم اِنتظار کرو گی ؟
دُوسرے ہی دِن میں نے ایک مُختصر سا جواب دے دیا …
میں کمزور سی لڑکی ہوں پھر بھی کوشِش کروں گی –
ایک ہفتہ بھی نہیں گزرا تھا کہ میرے خیالوں کے شِیش مَحل میں بُھونچال سا آ گیا – آنند بھیا نے اِطلاع دی کہ وہ لوگ اپنا مکان اور کاروبار سب کچھ فروخت کر کے راتوں رات دُوسرے شہر کو چلے گئے ہیں – پورا مُحلہ حیران تھا کہ یکا یک یہ کیسے ہو گیا – مُجھے اِتنا سَخت دھکا لگا کہ میں ڈِپریشن میں چلی گئی – کئی ماہ تک عِلاج ہونے کے بعد نارمَل ہوئی تو گھر میں میری شادی کی باتیں ہونے لگیں – میں نے پڑھائی جاری رکھنے کا بہانہ کیا تو یہ کہہ کر میری زبان بند کر دی گئی کہ لڑکا خود تم کو اعلیٰ تعلیم دِلوانا چاہتا ہے کیونکہ وہ بھی ابھی ڈاکٹری کے آخری سال میں ہے – آخر کار میں مجبور ہو گئی – شادی کے بہت دِنوں کے بعد معلوم ہوا کہ اُس لڑکے کا مکان اور اُسکے اَبا کی چھوٹی سی دوکان سب کچھ میرے پاپا نے ہی خرید لیا تھا –
اچھا ہوا بہن وہ بے وفا بھی تھا اور بُزدل بھی –
اَماں نے اُسکے خِلاف غُصہ ظاہر کیا –
وہ اپنے دُوست آنند کو ایک خط لکھ کر یہ تو بتا سکتا تھا کہ وہ کہاں ہے –
نہیں مُجھے اُس سے کوئی شِکایت نہیں کِیونکہ جب مُجھے یہ عِلم ہوا کہ اُس کا گھر وغیرہ سب پاپا نے ہی خرید لیا تھا تو میں سب کچھ سمجھ گئی تھی – بہر حال اپنی سَسرال میں ہر طرح کے آرام کے باوجود میں اُس کو بُھول نہیں پائی – آنند بھیا کے ساتھ اُسکی اِیک بہت پُرانی تصویر میرے پرس میں ہر وقت مَوجود رہتی ہے – کاش میں اُس سے ایک بار مِل پاتی –
شاید کوئی اِسٹِیشن قریب آ رہا تھا گاڑی کی رفتار بتَدریج کم ہو رہی تھی – اُوشا نے باہر دیکھ کر آنٹی کو اِسٹِیشن کا نام بتا دیا – انھوں نے فوراً اپنا سامان سَمیٹنا شُروع کر دیا –
اب اِسکے بَعد میرا اِسٹِیشن آنے والا ہے –
رضیہ بیٹا شائد مُجھے ڈِپریشن ہو رہا ہے اپنی آنٹی سے کہو کہ اگر گُلو کُوز ہو تو ایک بار اور دے دیں – پہلے بھی پی کر بہت سُکون ملا تھا –
اَماں نے چلتے چلتے اُس لڑکے کی پھر یاد دِلا دی ؛
اب اپنے اُس عاشق کی تصویر تو دِکھا دیجئے جس کو آپ آج تک بھول نہیں سکیں –
آنٹی نے پرس کی اَندرونی جیب سے ایک پُرانا سا لِفافہ نِکالا اور اُس میں سے ایک گِھسی پٹی سی تصویر نِکالی – ایک لڑکا سائِکل پر بیٹھا تھا اور دُوسرا اُس کے پاس کھڑا تھا ؛
یہ جو سائِکل پر بیٹھا ہے یہ وہی لڑکا ہے اور دُوسرا میرا بھائی آنند ہے-
لیکن آنٹی دُونوں کے چہرے تو سَمجھ میں نہیں آ رہے ہیں –
میں نے تصویر واپس کرتے ہوئے کہا –
بیٹا وہ چہرہ تو مِیری آنکھوں میں مَوجود ہے –
پھر اُنھوں نے اُس کو پرس میں رکھ کر اپنا وِزِٹِنگ کارڈ نِکال کر مُجھے دیا –
آئندہ کبھی آپ لوگ اِس طرف سے گزریں تو مُجھے مِہمان نوازی کا مَوقع ضرور دیجیے گا – یہ پانچ گھنٹے آپ کے ساتھ بہت دِلچسپ گزرے –
میں اَماں کے ساتھ اُن لوگوں کو بُوگی کے گِیٹ تک چھوڑنے گئی – واپسی پر اَماں ٹوائِلیٹ چلی گئیں – مُجھ کو اکیلا آتے دیکھ کراَبا نے رازداری سے پُوچھا ؛
وہ کہاں ہیں ؟
جی وہ ٹوا ئلیٹ چلی گئی ہیں –
رضیہ تمہاری اِن آنٹی کی کہانی سُن کر مُجھ کو اِتنا سُکون مِلا کہ وہ جو پچھلے پچاس سال سے سینے میں سُوئیاں سی چُبھ رہی تھیں جَیسے سب نِکل گئی ہوں – جانتی ہو کِیوں، کِیونکہ مُحبت میں ناکامی کے باوجُود وہ اپنے حال سے مُطمِئن ہیں –
لیکن اَبا آپ پر اُن کی کہانی کا اِتنا اثر کِیوں ہوا ؟
کِیونکہ یہ میرے حالات سے مِلتی جُلتی ہے – اگر تم وعدہ کرو کہ جو راز میں تم کو بتلانے والا ہوں وہ کِسی سے حَتیٰ کہ ساجد سے بھی نہیں کہو گی تو …
آپ مُجھ پر بھروسہ کر سکتے ہیں – جلدی بتائے ورنہ اَماں آجائیں گی –
بیٹا جو تصویر تمہاری آنٹی نے دِکھائی تھی اُس میں سا ئِکل پر بیٹھا ہوا لڑکا میں ہوں-
اور پھر یہ آخری پھانس نِکال کر وہ سُکون کے ساتھ کروَٹ لے کر لِیٹ گئے –
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...