سچی بات تو یہ ہے کہ میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ عادل حیات ایسی پرزور مخالفت پر کمربستہ ہو جائے گا ۔ بچپن کا دوست عادل ۔۔۔۔۔۔۔۔ جب سے ہوش سنبھالا اور اسکول کے ابتدائی درجے میں داخلہ ہوا، وہ میرا ہم جماعت رہا۔ تعلیم سے فراغت کے بعد ملازمت کے سلسلے میں مختلف شہروں میں میری تعیناتی ہوتی رہی جب کہ اسے مقامی سِول کورٹ میں کلرک کی نوکری مل گئی تھی۔ لہذا اس کی فیملی مستقل طور پر اسی شہر میں مقیم رہی۔
اب ہوا یوں کہ ایک روز قیصر امام میرے گھر آئے۔ جیسے عادل میاں ویسے ہی قیصر امام ۔۔۔۔۔۔ یعنی بچپن کے یار۔ ہم دونوں میں مشترکہ بات یہ تھی کہ دونوں دوست تقریباً ساتھ ہی ساتھ ملازمت سے سبک دوشی حاصل کر چند ماہ قبل گھر آ بیٹھے تھے۔ میں نے اس سے ازراہِ مذاق کہا بھی کہ بھائی ہم دونوں ملازمت سے سبک دوش ہو چکے، آخر یہ عادل حیات کب ریٹائر ہوگا ؟ اس نے ہنستے ہوئے جواب دیا کہ ابھی اس کی سبک دوشی میں تقریباً دو سال کا عرصہ باقی ہے۔ ضرور اس کے گارجین نے اسکول میں داخلے کے وقت اس کی عمر جان بوجھ کر کم لکھوائی ہوگی۔ ہم دونوں یونہی کافی دیر تک آپس میں ہنسی مذاق کرتے رہے اور اپنی کم عمری کی نادانیوں بلکہ بےوقوفیوں کو یاد کر قہقہے لگاتے رہے۔ اخیر میں اس نے کچھ سنجیدگی اختیار کرتے ہوئے کہا کہ میں تمھارے پاس ایک خاص مقصد کے تحت آیا ہوں۔ قصہ مختصراً یہ ہے کہ مجھے محلے والوں نے مسجد کا سکریٹری منتخب کیا ہے۔ مجلسِ عاملہ میں بہ طور رکن میں نے تمھارا نام شامل کروا دیا ہے۔ کل گیارہ بجے سے مسجد میں مجلسِ عاملہ کی ایک ضروری میٹنگ رکھی گئی ہے جس میں تمھیں شامل ہونا ہے۔ میں نے اس سے کچھ ناراضگی جتاتے ہوئے کہا کہ تم نے مجھ سے دریافت کیے بغیر میرا نام کیوں دے دیا ؟ میں اس طرح کے عہدوں سے ذرا دور ہی رہنا پسند کرتا ہوں۔ لیکن وہ بہ ضد ہو گیا۔ اس نے کہا کہ وہ مسجد کی ترقی کے لیے کام کرنا چاہتا ہے اور اسے میرے سپورٹ کی ضرورت ہے۔
بہرحال دوسرے دن میں اس بیٹھک میں شریک ہوا۔ ابوالفضل صاحب جنھوں نے مسجد کی تعمیر کے لیے اپنی زمین دی تھی کمیٹی کے تاحیات صدر تھے۔ قیصر امام سکریٹری، شمیم صاحب خازن، عادل حیات، مسجد کے پیش امام اور دیگر اراکین بھی موجود تھے۔ مسجد کی دوسری منزل کے فرش پر ماربل لگوانے اور وضو خانہ کے ادھورے پڑے کام کو مکمل کرنے پر غور و خوض کیا گیا۔
قیصر امام پوری سنجیدگی اور تندہی سے مسجد کی خدمت میں لگ گئے تھے۔ محلے میں گھوم گھوم کر ہر فرد سے ملنا اور فرش و وضو خانہ کی تعمیر کے لیے زیادہ سے زیادہ مالی تعاون حاصل کرنا ان کا معمول بن چکا تھا۔ اس نیک کام میں محلے کے چند پرجوش نوجوانوں کا ساتھ بھی انھیں حاصل تھا۔ جلد ہی کام کا آغاز بھی ہو گیا۔
چند ماہ بعد ایک روز وہ پھر مجھ سے ملنے آئے۔ دورانِ گفتگو کہنے لگے کہ آج میں پھر ایک خاص مقصد سے تمھارے پاس آیا ہوں۔ استفسار کرنے پر بتایا کہ ” کل مسجد کے مؤذن صاحب مجھ سے ملنے آئے تھے۔ گزشتہ چھ سال سے ان کی اور امام صاحب کی تنخواہوں میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ آئندہ بیٹھک میں دونوں حضرات کی تنخواہوں میں مناسب اضافہ کرنے کا فیصلہ لیا جائے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کمیٹی کے اندر ایک طرح کی گروہ بندی ہے۔ اس دفعہ چند لوگ کسی خاص شخص کو سکریٹری بنانا چاہتے تھے لیکن رائے عامہ میرے حق میں تھی اس لیے ان کی مجبوری ہو گئی۔ مجھے تمھاری مدد کی سخت ضرورت ہے۔ تم لیکھک آدمی ہو اس مسئلے کو کمیٹی کے روبرو بہتر طور پر رکھ سکتے ہو۔”
میرے دریافت کرنے پر بتایا کہ امام صاحب کو ماہانہ دس ہزار اور مؤذن صاحب کو سات ہزار روپے ملا کرتے ہیں۔
امام صاحب سے میں پہلے سے واقف تھا کیونکہ وہ اسی محلے کے رہنے والے ہیں اور ان کا مکان مسجد کے قریب ہی واقع ہے۔ ان کے والد مرحوم شبیر صاحب جنھیں ہم لوگ بھولا چچا کہا کرتے تھے کورٹ میں پیش کار تھے۔ ان کی کوئی اولاد زیادہ دنوں تک زندہ نہیں رہتی تھی۔ آخر کار ان کی بیگم نے منت مانی کہ اگر اب کے اولاد نرینہ ہوئی تو اسے اللہ کی راہ میں لگا دیں گے۔ امام صاحب اللہ تعالی کے فضل و کرم سے باحیات رہے اور ان کا داخلہ کسی اسکول میں نہ کروا کر مدرسے میں کروایا گیا۔ انھوں نے بنارس کے کسی مدرسے سے حافظ و قاری کی سند حاصل کی اور وہیں کی جامع مسجد میں امامت فرمانے لگے۔ شبیر چچا کے بستر پکڑ لینے کے بعد گھر واپس آ گئے اور تب سے محلے کی مسجد کی امامت کا فریضہ انجام دینے لگے۔ نہایت شریف النفس اور کم گو انسان تھے۔ صبح شام مسجد میں ہی محلے کے بچوں کو عربی اور اردو زبان کی تعلیم دیا کرتے تھے۔ کبھی کسی طرح کی فیس نہیں مقرر کی، جس نے جو دیا رکھ لیا۔ زبان پر کبھی حرفِ شکایت نہیں رہی۔
مؤذن صاحب کسی قریبی گاؤں کے رہنے والے تھے۔ مسجد سے ملحق ایک کمرہ انھیں حاصل تھا۔ کھانا محلے والوں کے ذمہ تھا۔ فاضل وقت میں ایک دو گھروں میں جاکر بچوں کو عربی کی تعلیم دیا کرتے تھے جس سے کچھ آمدنی ہو جایا کرتی تھی۔ ان کے ذمہ مسجد کو ماہانہ عطیہ دینے والوں کی رجسٹر تھی اور وہ ہر ماہ کی شروع تاریخوں میں محلے کے لوگوں سے عطیہ وصول کیا کرتے تھے۔ دراصل اسی رقم سے امام صاحب اور مؤذن صاحب کی تنخواہیں ادا کی جاتی تھیں۔ جمعہ کی نماز کے دوران جو وصولی ہوتی تھی اس سے بجلی بل کی ادائیگی اور دیگر اخراجات پورے کیے جاتے تھے۔
چھ سال سے دونوں حضرات کی تنخواہوں میں کسی طرح کا اضافہ نہ ہونا ایک تکلیف دہ بات تھی۔ ایسا نہیں کہ مسجد کے پاس فنڈ کی کمی تھی اور اگر تھی بھی تو تھوڑی محنت کر آمدنی میں اضافہ کیا جا سکتا تھا۔ دو چار میٹنگوں میں شرکت کے بعد یہ بات میرے علم میں آ چکی تھی کہ پچھلے سکریٹری صاحب مسجد فنڈ کا صحیح حساب کتاب پیش کرنے سے قاصر رہے تھے۔ بہرحال قیصر امام اور میں نے یہ طے کیا کہ امام صاحب کو کم از کم پندرہ ہزار اور مؤذن صاحب کو دس ہزار روپے ماہانہ ملنے چاہئیں۔
بس ۔۔۔۔۔۔ یہی وہ بات تھی جسے میرے ذریعہ مجلسِ عاملہ کی میٹنگ میں رکھتے ہی عادل حیات ہتھے سے اکھڑ گیا تھا۔ اس نے نہایت تلخ لہجہ اپناتے ہوئے کہا کہ تم دونوں نئے نئے سکریٹری اور ممبر بنے ہو۔ تم دونوں کو کوئی تجربہ نہیں ہے۔ تم لوگ جس طریقے سے کام کر رہے ہو اس سے آئندہ نئے سکریٹری اور اراکین کو کافی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ زیادہ سے زیادہ امام صاحب کی تنخواہ میں دو ہزار اور مؤذن صاحب کی تنخواہ میں ایک ہزار روپیوں کا اضافہ کیا جا سکتا ہے۔
میں نے نہایت ضبط و تحمل سے کام لیتے ہوئے مجلس عاملہ کے اراکین کے سامنے اپنی یہ دلیل پیش کی کہ گزشتہ چھ سال کے درمیان مہنگائی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ کسی عام مزدور کو چھ سال قبل ہم جتنی مزدوری دیا کرتے تھے آج اس کی دوگنی بلکہ بعض اوقات دوگنی سے بھی زاید مزدوری ادا کرنی پڑ رہی ہے۔ امام صاحب جن کے پیچھے سارا محلہ پانچ وقت کی نماز ادا کرتا ہے ان کی تنخواہ یومیہ مزدوری پانے والے سے بھی کم رہے یہ ہم تمام لوگوں کے لیے نہایت شرم اور افسوس کی بات ہے۔ گزشتہ چھ سال میں محلے کی آبادی میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ نئے نئے مکانات تعمیر ہوئے ہیں، یک منزلہ عمارات دو منزلہ سہ منزلہ بن گئیں، دیگر شہروں سے آنے والے ملازمت پیشہ افراد بہ طور کرایہ دار ان میں آکر رہنے لگے۔ ان سے ملاقات کر ماہانہ عطیہ دینے والوں کی فہرست میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ جو پرانے عطیہ دہندگان ہیں ان سے مل کر عطیہ کی رقم میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح مزید آٹھ دس ہزار روپے ماہانہ مستقل آمدنی کی صورت پیدا کی جا سکتی ہے۔
مجلس عاملہ میں عادل حیات کے سپورٹر کم نہ تھے۔ خیر کافی حیل و حجت کے بعد امام صاحب کی تنخواہ میں تین ہزار اور مؤذن صاحب کی تنخواہ میں دو ہزار روپے کے اضافے کی بات طے پا گئی. میں نے کارروائی میں یہ بات درج کروا دی کہ اب سے ہر دو سال بعد تنخواہ میں اضافے کے تعلق سے خصوصی میٹنگ ہوا کرے گی، حالانکہ یہ بات درج کروانے کے لیے بھی مجھے کافی مشقت کرنی پڑی.
میٹنگ کے چوتھے دن عصر کی نماز ادا کرنے مسجد پہنچا تو وہاں کچھ سرگوشیاں ہو رہی تھیں۔ بعد نماز دعا سے قبل امام صاحب نے اعلان کیا کہ مجلس عاملہ کے ایک رکن جناب عادل حیات کے ساتھ حادثہ پیش آ گیا ہے۔ فی الحال وہ میڈیکل کالج میں زیر علاج ہیں، آپ تمام حضرات ان کے لیے دعا فرمائیں۔
مسجد سے باہر نکلا تو کئی لوگ آپس میں باتیں کرتے نظر آئے۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ گزشتہ کئی دنوں سے نیا پے اسکیل لاگو کروانے کے لیے صوبے میں ٹریڈ یونینس کی غیر معینہ ہڑتال جاری ہے۔ صوبائی حکومت نئے پے کمیشن کی سفارشات لاگو کرنے کے معاملے میں طویل عرصہ سے محض ٹال مٹول کرتی آ رہی ہے۔ آج راجدھانی سے فنانس منسٹر یہاں دورے پر آئے تھے جن کا یونین لیڈروں نے محاصرہ کر دیا۔ نوبت پولیس والوں سے دھکا مکی اور لاٹھی چارج تک پہنچ گئی۔ اس افراتفری میں عادل صاحب کے ماتھے پر پولیس والوں کی لاٹھی سے ضرب لگی یا وہ خود سے گر پڑے یہ کہنا مشکل ہے لیکن سر میں چوٹ آئی ہے، کئی ٹانکے بھی لگے ہیں۔ فی الحال وہ ہوش میں نہیں ہیں۔
میں بھاگم بھاگ میڈیکل کالج پہنچا۔ وہاں ان کے افراد خاندان، قیصر امام اور محلے کے کئی لوگ موجود تھے۔ معلوم ہوا ابھی تک ہوش نہیں آیا ہے۔ سی ٹی اسکین کی رپورٹ کا انتظار ہے۔
میں ایمرجنسی وارڈ میں داخل ہوا۔ عادل بیڈ پر آنکھیں بند کر پڑا تھا۔ سر پٹیوں سے ڈھکا تھا، سرہانے ہُک کے سہارے لٹکتے بوتل سے سلائن واٹر قطرہ قطرہ اس کے جسم میں منتقل ہو رہا تھا۔ مجھے یوں محسوس ہوا گویا اس کے پپوٹوں میں کچھ ہلچل سی واقع ہوئی ہے۔ میں اس کے قریب جا کھڑا ہوا اور غور سے اس کے چہرے کی جانب دیکھنے لگا۔ کچھ وقفے سے اس کے پپوٹوں میں دوبارہ حرکت پیدا ہوئی پھر اس کی آنکھیں نیم وا ہوئیں۔ چند ثانیوں کے بعد اس کے ہونٹوں میں لرزش پیدا ہوئی اور وہ خشک ہونٹوں پر اپنی زبان پھیرنے لگا تھا۔ وہ کچھ بڑبڑا سا رہا تھا۔ میں نے جھک کر اس کے چہرے سے قریب تر ہوتے ہوئے اسے آواز دیتے ہوئے پوچھا ” عادل ۔۔۔۔۔ عادل ۔۔۔۔ کیسے ہو؟ ٹھیک تو ہو نہ؟؟
اس نے چندھیائی ہوئی نگاہوں سے مجھے دیکھا پھر اس کے ہونٹ تھرتھرائے۔ اس کی آواز جیسے کسی اندھے کنوئیں سے آ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ” نن ۔۔۔۔ یا ۔۔۔۔ پے اسکیل ۔۔۔۔۔ لا گو ک ۔۔۔۔ کرو ۔۔۔۔۔۔ اِن ۔۔۔۔قلاب ۔۔۔۔۔ زندہ باد ۔۔۔۔۔ !!
***
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...