(Last Updated On: )
دھڑ بن چکے تھے ۔ ان دھڑوں پربس سر رکھنے باقی تھے ۔ اس کے بعد اس کی مہینوں کی محنت رنگ لے آئے گی۔ گردن ہلانے والی نئے ڈھنگ کی مورتیاں مکمل ہو جائیں گی۔
وہ مورتی کی گردنوں پرکیلیں ٹھونک رہا تھا کہ لڑکا پوچھ بیٹھا،‘‘اچھا بابا،اگر ماں درگاکے دھڑ پر مہیسہ سُر کی منڈی اور مہیسہ سُر کے دھڑ پر ماں درگا کی منڈی رکھ دی جائے تو کیاہو گا ؟ مزہ آجائے گا ،نا؟’’
بیشو پال ٹھٹک گیا۔اس کے ہاتھ تھم گئے۔جیسے کاٹھ مار گیا ہو۔سوچنے لگا، ” اس طرح کے اٹ پٹے خیالات اس کے ذہن میں کیسے آجاتے ہیں؟“
کل بھی جب وہ مورتیوں کی منڈیاں بنا رہا تھا تب بھی اس نے کچھ ایسا ہی اٹ پٹا سا سوال پوچھ لیا تھا،”اچھابابا، آدمی کی منڈی کاٹ دینے سے کیا ہوتا ہے؟“
کل بھی وہ لمحہ بھر کے لیے ٹھٹک گیا تھا۔ مگرجب لڑکے نے اپنا سوال دہرایا تو اس نے خود پر قابو پاتے ہوئے کہہ دیا تھا،”مرجاتا ہے۔“
”تو پھر تم اس کی بھی منڈی جوڑ دینا۔ وہ زندہ ہو جائے گا۔ ہے نا؟‘ ‘
”نہیں بیٹا، میں تو بس مورتیاں بنا سکتا ہوں۔ زندگی تو وہ ایشور دیتا ہے۔“ اس نے شہادت کی انگلی آسمان کی طرف دکھاتے ہوئے کہا۔
ماں اندر کمرے میں بیٹی کا ٹفن بھر رہی تھی۔ جب اسے لگا کہ بیٹا باپ کے کام میں رخنہ ڈال رہا ہے تو ہانک لگائی ،”پنکو، آ ۔ میرے پاس آ۔ میں سنا تی ہوں آدمی کی منڈی کٹنے اور جڑ نے کا قصہ۔“بیٹی پیٹھ پرکتاب کا بستہ لاد کر مسکراتی ہوئی باہرچلی گئی ۔
لڑکا دوڑا ہوا آیا اور ماں کی چھاتی سے لپٹ گیا ۔
ماں نے کنپٹیاں تھام کر بیٹے کے گال پرایک بوسہ لیا اور کہا،” بیٹھ یہاں، ٹاٹ پر بیٹھ ۔ مگر بیچ میں کوئی سوال مت کرنا ۔ آج کل تو سوال بہت کرنے لگا ہے۔ یاد رکھ،اگر تو نے کوئی سوال کیا تو میں قصہ سنانا بند کر دوں گی ۔“
اور ماں نے قصہ سنانا شروع کیا ۔ بیٹا ہتھیلی پہ ٹھوڑی ٹیکے سننے لگا :
اور ان دونوں میں گھمسان کی جنگ چھڑ گئی ۔ ببروواہن نے ایسا بان مارا کہ ارجن کا سر دھڑ سے الگ ہو گیا۔ اوروہ دھم سے زمین پرگر گیا۔ چترانگدا آئی توارجن کی لاش دیکھ کر رونے لگی ۔ بولی،” بیٹا ببروواہن، تو نے یہ کیسا انرتھ کر ڈالا! یہ تیرے پتا ہیں ۔ “
اور تب ببرو واہن نے لکڑیاں کاٹ کاٹ کر چتا جلائی اور اس میں کودکر جان دینی چاہی۔ماں نے دیکھا تودوڑتی ہوئی آئی،بولی،”بیٹا ،ایسا نہ کر۔یہ انرتھ تو تجھ سے انجانے میں ہوا ہے۔ “
جبھی کرشن جی پرکٹ ہوئے۔بولے،”اگر ناگ منی مل جائے تو ارجن کا سر دھڑ سے جڑ سکتا ہے اور وہ پھر سے زندہ ہو سکتا ہے۔“
اور تب اپنے باپ کو زندہ کرنے کے لیے ببراواہن ناگ منی لانے ناگ دیش چلا گیا۔
ارجن کی لاش بستر پر پڑی تھی کہ چانڈک نام کا ایک اسُرچپکے سے آیا اور ارجن کا سر لے کر بھاگنے لگا۔ جب ببروواہن ناگ منی لے کر آیا تو دیکھا ،دھڑ تو ہے مگر سر غائب !
۔ دو ۔
لڑکا غور سے ماں کا چہرہ تاک رہا تھا، چپ چاپ قصہ سن رہا تھا۔جب بھی کوئی سوال ذہن میں ابھرتا، اسے ماں کی تنبیہ یاد آجاتی ۔ مگراس بار اس سے رہا نہ گیا۔ پوچھ بیٹھا،” چانڈک سر لے کر کیوں بھاگا، ماں؟ وہ بہت برا آدمی تھا، نا؟“
لکھی پال گہری آہ بھرکر بولی،”اس دنیا میںکون بھلاہے، کون برا، یہی تو جان پانا دشوار ہے۔“ مسکراتے ہوئے لڑکے کی طرف دیکھی اور بولی،” تو نے سوال پوچھا، اس لیے قصہ ختم! پیسہ ہضم!!“
لڑکا ماں کے رخسار پر ہتھیلیاں پھیرنے لگا۔ خوشامد کرتا ہوا بولا،”ماں سنا نا، اب نہیں بولوں گا۔ درگا ماں کی سوگند ۔“
اچھا تو سن ۔ ماں نے پھرسے کہانی شروع کی :
چانڈک بھاگا جارہا تھا کہ کرشن جی پرکٹ ہو گئے۔ بولے،” ارجن کا سر مجھے دے دے، چانڈک ۔“
چانڈک بولا،” نہیں، کبھی نہیں۔ میں اسے شمشان لے جا کر بھسم کر دوں گا۔ اس کے بعد میں راجا بن جاؤں گا۔“یہ کہہ کرچانڈک نے منڈی کو اور بھی مضبوطی سے پکڑ لیا ۔
کرشن جی نے سمجھایا،”غصے اور آہنکار نے تجھے اندھا کردیا ہے، چانڈک ۔ تو اس یوگیہ نہیں کہ ارجن کی جگہ لے سکے۔ وہ سوریا ونشی ہے ۔ وہی راج پارٹ کا یوگیہ ہے۔“
چانڈک نے جھلّا کر کہا،” سوریا ونشی ہے تو کیا ہوا۔ بہت دنوں تک راج کر لیا ہے اس نے ۔ مگرکیا کیا ہے پرجا کی خاطر؟ اپنے ہی سر پر ہیرے موتی کا تاج رکھتا رہا، سونے چاندی کے زیورات پہنے گھومتا رہا، شکار کھیلتا رہا۔ آرام سے محلوں میں رہا۔ عیاشیاں کیں۔ شازسیں رچیں، دیش کا بٹوارہ کیا۔ بھائیوں سے لڑتا رہا۔ ذرا بتاؤ تو سہی، اس سے پرجا کو کیا ملا؟ ہم ناگ ونشی ہیں۔ عیاشی نہیں کرتے۔ ہم آپس میں نہیں لڑتے۔ میں تو ایک ایک کر کے ان سوریا ونشیوں کو ڈس لوں گا۔ مٹا دوں گا ان کا نام و نشاں اس دنیا سے۔“
کرشن جی نے اسے پھر سمجھایا،” پاگل مت بن ،چانڈک ۔ تو راج کرنے کے یوگیہ نہیں ہے۔ لا، وہ سرمجھے دے دے ۔“
اور جب چانڈک نہیں مانا تو کرشن جی طیش میں آگئے ۔ سدرشن چکراس کی طرف دے مارا ۔ چانڈک کا سر دھڑ سے الگ ہو گیا ۔ اب وہاں دو سر پڑے تھے۔“
لڑکا بولا،”ہاں ،ایک ارجن کا اور دوسرا چانڈک کا، ہے نا،ماں؟ “
ماں بولی،”ہاں۔ تو بڑاہوشیارہو گیا ہے۔“
اس کے بعد لڑکے نے تجسس بھرے انداز میں پوچھا،”ماں،اس کے بعدکرشن جی نے کیا کیا؟“
”کرشن جی نے ارجن کا سر اٹھایا اور۔۔۔۔“
”اور ناگ منی کی مدد سے ارجن کا سردھڑسے جوڑ دیا اور ارجن زندہ ہو گئے۔ ہے نا، ماں ۔ “ اوراس طرح لڑکے نے قصہ مکمل کیا ۔
” واہ ! میرا بیٹا، تو واقعی بڑا ہوشیار ہو گیا ہے، رے ۔ “یہ کہہ کر ماں نے ہاتھ پکڑکرکھینچا اور بیٹے کو گود میں بھرلیا۔
۔ تین ۔
لکھی پال دروازے کے باہر نل پر برتن مانجھ رہی تھی ۔ وہاں سے اسے بیشو پال صاف نظر آرہا تھا۔
بیشو پال خاموشی سے اپنا کام کر رہا تھا ۔ ایسی خاموشی جس میں سیکڑوں طوفان کا شور چھپا ہوتا ہے۔ اسے تشویش ہوئی۔ اندر آئی اور بیٹے سے بولی،”پنکو، اندر اُسارے سے المونیم والی پتیلی لے آ ۔ بچہ اُسارے میں چلا گیا تو اس نے شوہر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پھیکی سی ہنسی ہنستے ہوئے کہا،”ابھی بچہ ہے۔ اسے کیا سمجھ ، دیب اوراسُرمیں فرق کیا ہوتا ہے۔ ’’
وہ اپنے شوہر کی خاموشی کی وجہ بھلی بھانتی جانتی تھی ۔ لڑکے کا نام تو اس نے بس یوںہی لے لیا تھا ۔ شوہر نے بھی خود پر قابو پاتے ہوئے بات بدل دی ،”پوجا کو بس دو دن بچے ہیں ۔ اب تک مورتیاں تیار ہو جاتیں مگر اس الیکشن نے مجھے کہیں کا نہیں چھوڑا۔ سالا، جب دیکھو چناؤ ! یہاں جلسہ، وہاں جلوس، اِدھر ریلی، اُدھر ریلا ۔ یہاں دوڑو، وہاں بھاگو ۔ وہ تو مزے میں پیر پر پیر چڑھائے بیٹھے رہتے ہیں، مرتے ہیں ہم غریب لوگ ! “
مسائل اور بھی تھے۔ گذشتہ سال مٹی پوال کے تاجروں نے واضح طور پر دھمکی دے دی تھی، جب تک پرانے حساب چکتا نہیں ہو جاتے، ہم مال نہیں دیں گے۔
دھیرن بابونے کہا تھا،” گھبرا نہیں بیشو، تو تو جانتا ہے۔ مکھر جی صاحب کتنا دان پُن کرتے ہیں۔ برسوں سے پوجا کراتے آ ئے ہیں۔ منسٹر بن گئے ہیںتو کیا، ماں کی پوجا پارٹ چھوڑ دیں گے۔ اب تو پوجا اور بھی دھوم دھام سے کرائیں گے۔ مگر اب انھیں وقت کم ملتا ہے۔ وزارت کی ذمہ داریوں کا بوجھ سر پر آن پڑا ہے۔ اس لیے اب پوجا پاٹ کی ذمہ داری میرے سر آگئی ہے۔ میں بھی کیا کروں رے، بیشو۔پارٹی کاکام کاج دیکھوں کہ پوجا پارٹ کی ذمہ داری نبھاؤں۔ سب میری ہی گردن پکڑتے ہیں۔ چندے کی رسیدیں جن لوگوں کے نام کاٹی گئی تھیں انھوں نے اب تک پورے پیسے نہیں دیئے۔ سوئنیر چھپ رہا ہے۔ بڑے بڑے کاروباریوں کے اشتہارات ہیں اس میں، مگر پیسے تو سوئنیر چھپ جانے کے بعد ہی ملیں گے نا۔ “
” مگر دھیرن بابو، دلیپ تو کہہ رہا تھا، اس بار کی پوجا کو بڑے بڑے ،’کارپاریٹ(کارپوریٹ) ہاؤس‘ نے اسبانسر(اسپانسر) کیا تھا۔“
”ارے اسپانسر تو کر دیتے ہیں مگر وقت پر مٹھیاں کہاں کھولتے ہیں۔ اور ویسے بھی انھوں نے تو بس پنڈال اورلائٹ ہی اسپانسر کیے تھے ۔ مورتی، ڈھاکی، مائیک، پنڈت، پھل پھول، بھوگ پرساد، ان کے پیچھے کتنے اخراجات آتے ہیں تجھے معلوم بھی ہے؟ کروڑوں کا بجٹ بنتا ہے۔“
بیشو نے آنکھیں پھاڑ کر کہا،”کروڑوں کا!“
”ہاں رے، کروڑوں کا۔“ یہ کہہ کر انھوں نے جیب سے روپے نکالے اور بیشو کے ہاتھ میں تھماتے ہو ئے کہا،”لے یہ رکھ، آٹھ ہزار۔ کل ملا کر سترہ ہزارہو گئے۔ انھوں نے لفظ سترہ کو اس قدر لمبا کھینچا کہ بیشو کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ یعنی باقی روپے!“
بیشو روپے مٹھی میں دابے سوچنے لگا تھا، یہ تو پوال اور ٹھٹری والوں کے لیے ہی کم پڑ جائیں گے۔ رنگ، پوشاک، اور سجاوٹ کے سامان والوں کو کیا جواب دوں گا۔ اور پھر گھر کے اخراجات سو الگ ۔ آٹا چاول، کپڑا لتّا، بیٹی کی پڑھائی لکھائی !“
مگر اس سے کچھ کہا نہ گیا۔بت بنا کھڑا رہا۔ دھیرن بابو سے بھلا وہ کہہ بھی کیا سکتا تھا ۔ان کے احسانوں تلے دبا ہوا تھا۔
۔ چار۔
وہ جیسا تھا گاؤں میں خوش تھا۔ اپنا گھر تھا۔ اپجاؤ زمین تھی ۔سال میں تین فصلیں اگا کرتی تھیں۔ بوائی اور کٹائی کے درمیانی وقفے میں وہ مورتیاں بنایا کرتا۔ لکشمی ہو کہ سرسوتی ، گاؤں والے اسی کے ہا تھوں بنی مورتیاں خریداکرتے تھے۔ مگر بنیادی طور پروہ تھا کسان ہی ۔ فصل اگانا اس کا دھرم تھا۔ بوائی کٹائی کے وقت بیوی ہاتھ بٹا یا کرتی۔ پیڑ کے سائے میں چٹائی بچھا کر بیٹی کو بٹھا دیتی کہ سامان کی حفاظت ہو۔ اور خود ساڑی کو گھٹنوں سے اوپراٹھا کراس طرح باندھ لیتی کہ سائے کا ایک چوتھائی حصہ نیچے لٹکا رہتا ۔ پلّو کو لپیٹ کر دائیں کولھے سے اوپر پیٹھ اورپھر بائیں شانے سے نیچے پیٹ کی جانب لے جا کر کولھے میں اڑس لیتی ۔ بیٹے کو پیٹھ پر لادتی اور گمچھے کی مدد سے اس طرح باندھ لیتی کہ بچے کا اوپری حصہ قدرے آزاد رہتا ۔ بیج بوتے وقت اگرچھاتیاں جھول جاتیں، یا فصل کاٹتے وقت لپلپانے لگتیں تو اسے کوئی پروا نہیں ہوتی کہ اصل مقصد تو کھیت میں کام کرنا ہوتا تھا۔ اکثران کی محنت رنگ لاتی اور فصلیں لہلہا اٹھتیں ۔ سو اس دن بھی لہلہارہی تھیں کہ گاؤں میں منادی پھر گئی ، کھیت اب ان کے نہیں رہے، سرکاری تحویل میں چلے گئے ہیں۔ اب یہاں بڑی بڑی کمپنیاں کارخانے لگائیں گی ۔
اور پھر مار دھاڑ، دنگا فساد کا ایسا بازارگرم ہوا کہ بیشو پال جیسے لوگوں کو گھر بار چھوڑنا پڑا۔
گاؤں سے لُٹ لُٹا کر وہ شہر آگیا تھا۔ جوان بیوی اور بچوں کو لے کردردر کی ٹھوکریں کھا رہا تھا کہ دھیرن بابو کی نگاہ پڑ گئی۔ انھوں نے رہنے کو جھونپڑا دیا اور لکھی پال کو درگا دیوی کے گھر جھاڑ و پونچھے پر لگایا۔ درگا دیوی پارٹی کی سربراہ تھیں۔ مکھرجی صاحب ان کے بیٹے تھے، اس پر کچھ زیادہ ہی مہربانیاں لٹانے لگے ۔ لکھی پال کی بھی چل پڑی ۔
دھیرن بابو نے ضروری سمجھا کہ بیشو پال کو بھی کسی ایسے کام سے لگا دیا جائے کہ وہ مصروف بھی رہے اور اسے دو پیسے بھی ملتے رہے۔ لہٰذا اسے مورتیاں بنانے کے کام پر مامور کردیا۔ گاہے گاہے اسے ایک کام اورکرنا پڑتا تھا۔ کندھے پر جھنڈا اٹھائے چلچلاتی دھوپ میں کولتارکی سڑکوں پرنعرہ لگاتے ہوئے چلنا! اس کام میں اس کا دل لگتا نہ تھا، البتہ یہ دیکھ کرہمت بندھتی تھی کہ اس راہِ پُر خار میں وہ اکیلا نہیں ہے۔ ہزاروں لوگ قطاردرقطار بھوکے ننگے اُس منار کی طرف بڑھے جارہے ہیں جو شہیدوں کی یادگار کہلاتا ہے۔ جہاں بڑے بڑے رہنما سفید پوشاک پہنے، کالی کالی عینک لگائے اونچے سائے دار پنڈال پر مخملی کرسیوں میں دھنسے اپنی اپنی باری کے منتظررہتے۔ درگا دیوی دھواں دھار تقریر کرتیں۔ جب مائیک پر آتیں، توچاروں طرف سے شورو غوغا اٹھتا، جے جے کار ہوتی ۔ بیشو اترانے لگتا۔ چھاتی تانے لوگوں کا چہرہ تکتا ۔ اور جب لوگ اسے حسرت بھری نگاہوں سے دیکھنے لگتے تو اس کی چھاتی پھول جاتی ۔ وہ اس بات پر نازاں ہوتا ہے کہ مکھرجی پریوار سے اس کے خاص تعلقات ہیں ۔
آگے چل کر یہ تعلقات دہرے ہو گئے۔ ایک دن دھیرن بابو کسی کام کے سلسلے میں اس کے یہاں آئے تھے ۔ لکھی پال الگنی پر کپڑے پسارر ہی تھی۔انھوں نے پوچھا، ”بیشو کہاں ہے؟ “
دھیرن بابو کو اچانک دیکھ کروہ چونک پڑی ۔سینے اور کندھے پر پلّو ڈالتے ہوئے بولی ،” وہ تو نہیں ہیں۔ بازار گئے ہیں۔“
دھیرن بابوکی نگاہ اس کا پلّو چھیدکرگئی ۔ انھوں نے وہاں تک دیکھ لیا جہاں تک ان کی نظریں دیکھنا چاہتی تھیں۔ مر مری بانہیں، نیم عریاں شانہ اور شانے کے نیچے بلاؤز پر پڑے پسینے کے دھبے اور ان دھبوں سے اٹھنے والی بو !
دھیرن بابو مضطرب ہو اٹھے۔ بڑی مشکل سے خود کو سنبھالا۔ لڑکھڑاتے ہوئے لہجے پوچھا، ” اور بچے کہاں ہیں؟“
لکھی پال نے نگاہیں جھکا کر کہا،” بیٹی اسکول گئی ہے اور بیٹا باپ کے ساتھ بازار۔ آپ بیٹھیے، وہ آتے ہی ہوں گے۔ “
”کوئی بات نہیں، اس سے پھر کبھی مل لوں گا۔“ لمحہ بھر توقف کے بعد پھر گویا ہوئے،” ایسا کرنا کل مکھرجی صاحب کے یہاں سے لوٹتے وقت میرے گھر چلی آنا۔ میرے یہاں جوعورت کام کرتی تھی چوٹّی تھی ۔ رنگے ہاتھوں پکڑی گئی۔ نکال دیا سالی کو۔“
اورسن اس بارے میں مکھرجی صاحب سے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ۔“
لکھی پال دھیرن بابو کا ارادہ بھانپ گئی تھی، لیکن کر بھی کیا سکتی تھی۔ بے چاری کو اثبات میں سر ہلانا پڑا۔
۔ پانچ ۔
بیوی کے رنگ ڈھنگ اور بدلے ہوئے تیور سے بیشو پال افسردہ رہنے لگا تھا۔ پڑوسیوں کی معنی خیز نگاہوں کا مطلب بھی وہ جان چکا تھا۔ مگر بیوی سے کچھ کہنا سانپ کے بل میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف تھا۔ مکھرجی صاحب اوردھیرن بابو جیسے لوگوں کی نظرِالتفات کو ٹھوکر مارنا اس کے بس میں نہ تھا۔ اسے یہ بھی معلوم تھا کہ درگا دیوی سے مکھرجی صاحب اور دھیرن بابو کی شکایت کرنا گویا، ماں سے ماسی کا قصہ بیان کرنا ہے۔ درگا دیوی بیٹے کی تمام حرکتوں سے باخبر تھیں۔ گوش مالی کرنے کے بجائے اس پر پردے ڈالا کرتی تھیں۔ اور اب تو دو اور آفتیں اس کے سر آن پڑی تھیں۔ ایک پوجااور دوسرا الیکشن۔
دھیرن بابو پہلے ہی کہہ چکے تھے، ”بیشوپال، دیکھ اس بار ناک کی لڑائی ہے۔ چناؤ کے میدان میں بھی اور پوجا کے منڈپ میں بھی ۔ مقابلہ بڑھ چکا ہے۔ اس بھینسے نے پوری طاقت جھونک دی ہے۔ چناؤ کے مقابلے سے تو میں نپٹ لوں گا۔ مگر مورتیوں کے مقابلے کا دارومدار تجھ پر ہے۔ ایسی مورتی بنا کہ سارا شہر چونک جائے ۔“
بیشو پال دھیرن بابو کا منہ تکنے لگا۔لب خاموش تھے مگر دل میں نفرت کی لہر موج زن تھی ۔ مرد عورت کو اپنا لباس تصور کرتا ہے۔ وہ اپنا لباس کسی اورکے بدن سے چپکا ہوا بھلا کیسے دیکھ سکتا ہے۔
دھیرن بابو تاڑ گئے ۔ دھیان بانٹنے کی غرض سے بولے،” اچھابیشوپال، گزشتہ سال کا تو کوئی بقایا نہیں ہے۔ ٹھٹری ، مٹی اور پوال سبھی حساب چکتا ہوگیا ہے نا؟ ‘ ‘
بیشو پال دھیمے لہجے میں بولا،”نہیں، مٹی اور پوال والے کا حساب چکتا اب تک نہیں ہوا ہے۔ انھوں نے چتاونی دے دی ہے، اب اور مال نہیں دیں گے۔“
”مال نہیں دیں گے؟ ان کی یہ مجال! تو فکر نہ کر۔کل وہ مٹی اور پوال خود ہی دے جائیں گے۔ تو کام شروع کردے۔ مگریاد رہے کانٹے کی ٹکر ہے؟ اور ہاں، سنا ہے اگلے ہفتے اس علاقے میں اس بھینسے نے میٹنگ بلائی ہے ۔ محلوں والوں پر نظر رکھنا ۔ کون کون اس کی حمایت میں بول رہا ہے، ایسے لوگوں کی لسٹ تیار کرکے مجھے دینا۔ اور ایک بات اور، تیس تاریخ کو پارٹی کی ریلی ہے۔ شہید منار کے پاس مہا سبھا ہوگا۔ یاد رہے۔“
بیشو پال کو ہر بات یاد رہتی تھی ۔ اوریہی اس کی ذہنی الجھن کا سبب بھی تھا۔ اسے یہ بات بھی یاد تھی کہ اُس کا زیادہ تر وقت انتخابی ریلیوں اور سبھاؤں میں ہی گزرہا ہے ۔ دن بدن درگا پوجا کا وقت قریب آرہاہے۔ کئی بار دھیرن بابو نے خودہی تقاضہ دے ڈالا ہے ۔ مگر اس کی ہمت نہ ہوئی کہ وہ انھیں ترکی بہ ترکی جواب دے سکے۔ کہہ سکے کہ آپ نے کیا مجھے زر خرید غلام سمجھ رکھا ہے۔ محلے والوں پر نگاہیں رکھوں، ریلی اور سبھاؤں میں جاؤں، مورتیاں بھی بناؤں۔اوراپنی۔۔۔۔ “
اس سے آگے کے خیال کو وہ ذہن سے جھٹک دینا چاہتا تھا۔ مگر اس کی یاد داشت ہی اس کی سب سے بڑی دشمن بن گئی تھی۔ لکھی پال کو بھی اس بات کا پوراپورا احساس تھا ۔ اسے اب شوہر کی حا لتِ زار پر ترس آنے لگا تھا ۔ مگر بے چاری کربھی کیا سکتی تھی ۔ شیشے پر پڑے بال صاف کرنا اس کے بس میں نہ تھا ۔
۔ چھ ۔
بیشو پال کے ہاتھ تیزی سے حرکت کر رہے تھے۔ دھڑ بن چکے تھے۔ بس اب ان دھڑوں پر سرلگانا باقی تھا۔ اس نے اس بار نئے ڈھنگ کی مورتیاں بنائی تھیں۔ گردن ہلانے والی مورتیاں!
اندر کمرے میں لکھی پال بیٹے کو قصہ سنا رہی تھی ۔ وہ مورتی کی گردنوں پرکیلیں ٹھونک چکا تھا۔ اب ان کیلوں پر اسپرنگ ڈال رہا تھا۔ قصہ بھی سن رہا تھا ۔
”اور جب چانڈک نہیں مانا تو کرشن جی طیش میں آگئے اور اپنا سدرشن چکر اس کی طرف دے مارا۔ چانڈک کا سر دھڑ سے الگ ہو گیا۔ اب وہاں دو سر پڑے تھے۔“
”ہاں، ایک ارجن کا اور دوسرا چانڈک کا!“
یہ سن کر بیشو پال چونک گیا۔ اس نے پلٹ کر دیکھا۔ وہاں زمین پر بھی دوسر پڑے تھے۔ اس کے ہاتھ تھم گئے۔ وہ باری باری ان سروں کو دیکھنے لگا۔
اس کے چہرے پر عجب ایک ہنسی ابھر آئی تھی۔
۔ سات ۔
گذشتہ سال کے مقابلے اس بار کا پنڈال اور بھی شاندار طریقے سے سجایا گیا تھا۔ منڈپ میں مورتیاں بھی نئے ڈھنگ کی نصب کی گئی تھیں ۔ درشن کو پورا شہر امنڈ پڑا تھا۔
فضا میں دھندلاہٹ چھا گئی تھی۔ اگر بتی اور لوبان سے اٹھنے والا دھواں خوشبو بکھیر رہا تھا ۔ پنڈت شلوک جاپ کر رہے تھے۔ ڈھاک بھی زور زور سے پیٹے جا رہے تھے۔ نوجوان جوڑے لوبان کا کٹورا ہاتھوں میں لیے دیوانہ وارناچ رہے تھے ۔ عورتیں اُلو دے رہی تھیں۔ پیر فرتوت بھی جھوم رہے تھے۔ چاروں طرف جوش و خروش کا عالم تھا۔ عقیدت مندوں کا گروہ اپنی اپنی رسموں میں گم تھا۔ کسی نے توجہ نہیں کی :
ماں درگا فرش پرلہو لہان پڑی تھرتھرا رہی تھی ! شیر ببر پر بیٹھا مہیسہ سُر گردن ہلا رہا تھا !! ماں درگا کی چھاتی میں برچھا گھونپے ہنس رہا تھا !!!٭٭٭
………………………………………………………………………………….
پریورتن : بدلاؤ، Change
مہیسہ سُر : ایک راکشش جسے مارنے کے لیے ماں درگا دھرتی پر آئی تھیں۔ (ہندو عقیدے کے مطابق)
چترانگدا : ارجن کی ایک بیوی جو منی پور کی شہزادی تھی۔ (مہابھارت کے مطابق)
ببروواہن : ارجن اور چترانگدا کا بیٹاجسے ماں نے باپ کا نام نہیں بتایا تھا ۔
انرتھ : مصیبت
پرکٹ : نمودار
چانڈک : منی پور کا سیناپتی
یوگیہ : لائق
اُلو : سماجی تقریبات میں بنگالی عورتوں کا ہونٹ اور زبان کی مدد سے ’لولو‘ کی آواز نکالنا۔