آسمان گہرے سیاہ بادلوں سے ڈھکا ھوا تھا ۔ ٹھنڈی ھوا چل رھی تھی ۔ ابھی اکتوبر کا آغاز ھی تھا مگر کچھ روز پہلے ھوئی بارش کی وجہ سے موسم دسمبر کی طرح سرد ھو گیا تھا ۔ دور کسی مسجد میں فجر کی اذان ھو رھی تھی ۔ ھر طرف مہیب تاریکی تھی۔ ایسے میں دو موٹر سائیکلوں کی ھیڈ لائٹس اس تاریکی کا سینہ چیرتی آگے پیچھے دوڑ رھی تھیں ۔ سڑک دور تک سنسان پڑی تھی ۔ پھر بھی ان موٹر سائیکلوں کی رفتار ذیادہ نہ تھی ۔ شاید ھڈیوں میں گھستی سرد ھوا کی وجہ سے موٹر سائیکل سوار آھستہ چل رھے تھے یا حقیقتا” انہیں کہیں پہنچنے کی جلدی نہ تھی ۔ دونوں موٹر سائیکل د س منٹ مزید اس سڑک پر چلتی رھیں پھر ایک بستی میں داخل ھوئیں اور مختلف راستوں سے گزرتی ایک چوراھے پر آکر رک گئیں ۔
دائیں طرف ھی مڑنا ھے نا ؟ ، موٹر سائیکل سوار نے اپنے پیچھے بیٹھے آدمی سے پوچھا ۔
جی ، مختصر جواب ملا ، اور وہ موٹر سائیکل اس گلی میں مڑ گئی ۔ دوسری موٹر سائیکل بھی اس کے پیچھے لپکی اس پر بھی دو ھی آدمی سوار تھے ۔ چاروں نے سیاہ لباس پہنے ھوئے تھے ۔ یہاں موٹر سائیکلوں کی ھیڈ لائٹس بجھا دی گئیں ۔ اس گلی میں دونوں طرف مکانات کا سلسلہ تھا مگر کہیں بھی روشنی نہ جل رھی تھی اس لیے تاریکی ابھی تک ماحول پر مسلط تھی ۔ ایسے میں وہ دونوں موٹر سائیکلیں بھی اس تاریکی کا حصہ ھی معلوم ھو رھی تھیں ۔ کچھ دور جا کر وہ پھر رک گئے ۔
یہ عمارت کا پچھواڑا ھے ۔ اگلی موٹر سائیکل کی پچھلی سیٹ پر بیٹھے شخص نے اپنے ساتھی سے کہا ۔ وہ سامنے ایک چھوٹا دروازہ ھے ھم یہاں سے اندر جائیں گے ۔
رحیم آؤ ؟ ،۔ آخری جملہ اس نے دوسری موٹر سائیکل کی پچھلی سیٹ پر بیٹھے نوجوان کو مخاطب کر کے کہا ۔ اور دراوزے کی طرف بڑھا ۔ رحیم بھی اس کے پیچھے لپکا ۔ پہلا کچھ دیر تک دروازے سے کان لگائے سن گن لیتا رھا پھر اندر داخل ھو گیا رحیم نے بھی اس کی تقلید کی تھی ۔
وہ ایک وسیع صحن میں تھے سامنے ایک چھوٹی سی چوکور عمارت تھی جس کے صحن کی طرف تین دروازے تھے ۔
تم ان دروازوں میں سے کسی ایک سے اندر جاؤ گے جب کہ میں بغلی گلی کی طرف سے کھڑکی تک جاونگا۔ پہلے نے جیکٹ کی سامنے والی زپ کھولی اور اندر چھپائی گن اپنے ھاتھ میں لے لی رحیم نے بھی ایسا ھی کیا تھا ۔
تمھارے ھاتھ کیوں کانپ رھے ھیں ، پہلے نے رحیم کو گھورا
نن نہیں تو ، رحیم نے بے اختیار اپنے ھاتھوں کی طرف دیکھا ۔ ھاتھ واقعی کانپ رھے تھے ۔
سس سردی کی وجہ سے ۔ رحیم کے منہ سے نکلا ، اس کی آواز میں بھی کپکپاھٹ تھی ۔
پتہ نہیں اس آپریشن کے لیے تمھارا انتخاب کیوں کیا گیا ، مجھے تو تم شروع سے ھی گھبرائے ھوئے لگے ھو ۔
میں گھبرایا ھوا نہیں ھوں ، محض سردی کی وجہ سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رحیم نے کچھ کہنا چاھا مگر پہلے نے اس کی بات کاٹ دی۔
بزدلی کی باتیں نہ کرو ۔ اس نے گھڑی پر وقت دیکھا اور بولا
آؤ میرے ساتھ ۔ وہ صحن سے گزرتے ھوئے عمارت تک پہنچے ، رحیم ایک دروازے کی طرف بڑھا جبکہ دوسرا شخص اس تنگ سی گلی میں داخل ھو گیا۔ جو عمارت اور اس بیرونی دیوار کو جدا کرتی تھی ۔ اس گلی میں عمارت کی کھڑکیاں تھیں ۔ وہ تیزی سے آگے بڑھا کھڑکیاں بند تھیں اس نے ایک جھری سے اندر جھانکا ، چند لمحوں تک حالات کا جائزہ لیتا رھا پھر پیچھے ھٹ آیا اگلے ھی لمحے اس نے کھڑکی پر بے تحاشا فائرنگ شروع کر دی ۔ لکڑی کی کھڑکی میں کئی سوراخ ھو گئے ۔ اس نے گن کی پشت سے ان سوراخوں پر زور کی ٹھوکر رسید کی ۔ کھڑکی میں ایک بڑا سوراخ ھو گیا ایک لمحہ ضائع کیے بغیر اس نے پھر فائرنگ شروع کر دی ۔ اندر سے قیامت کا شور اٹھا ۔ آہ و بکا ، چیخ و پکار اس نے لوگوں کے جسموں سے خون کے فوارے چھوٹتے ھوئے دیکھے ۔ اگلے ھی لمحے وہ تیزی سے واپسی کے لیے پلٹا جب وہ صحن میں پہنچا تو رحیم بیرونی دروازے کی طرف بھاگتا ھوا نظر آیا ۔ باھر موٹر سائیکل اسٹارٹ کیے ان کے دونوں ساتھی تیار کھڑے تھے ، وہ دونوں اچھل کر ان کے پیچھے بیٹھ گئے اور موٹر سائیکلیں تیر کی طرح نکلتی چلی گئیں ۔
وہ سارا دن ان کے لیے بڑا ھنگامہ خیز گزرا ۔ جب وہ اس آپریشن کے بعد اپنے ٹھکانے پر پہنچے تو ان کے گروپ انچارج نے ان کے لیے ایک طویل سفر کا بندوبست کر رکھا تھا ۔ انہیں فوری طور پر یہ علاقہ چھوڑ کر ملک کے ایک شمالی شہر پہنچنا تھا اور اس وقت تک وھاں قیام کرنا تھا جب تک یہ معاملہ کچھ پرانا ھو جاتا،
وین کے ایک طویل اور تھکا دینے والے سفر کے بعد جب وہ شمالی ریاست کے شہر میں داخل ھوئے تو انہیں کسی قدر تحفظ کا احساس ھوا ۔ ورنہ تمام راستے انہیں پولیس سے مڈ بھیڑ کا خطرہ رھا تھا ۔ جب وہ اس ٹھکانے پر پہنچے جہاں انہیں کچھ عرصہ قیام کرنا تھا تو رات ھو چکی تھی ۔ ان میں سے تین تو لیٹتے ھی نیند کی آغوش میں چلے گئے جب کہ چوتھا اپنے بستر پر لیٹا چھت کو گھورے جا رھا تھا۔ یہ رحیم تھا نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی ۔ وہ ابھی تک صبح کے واقعے کی ھولناکیوں میں کھویا ھوا تھا بلکہ سارے سفر کے دوران ایک لمحے کو بھی وہ اس منظر کو فراموش نہ کر پایا تھا جب اس کے سامنے انسانی جسم خون میں نہائے گئے تھے ۔ وہ آہ و بکا ، چیخ و پکار اور خون میں لتھڑا ھوا منظر ۔ اس کی آنکھوں میں ٹھر گیا تھا ۔ راستے میں اس کے ساتھی خوش گپیوں میں مصروف رھے تھے مگر وہ گم صم پچھلی سیٹ پر جا بیٹھا تھا ، حتٰی کے کھانے کے لیے جب اس کے ساتھیوں نے بلایا تو بھی اس نے معذرت کر لی ۔
وہ دیر تک بستر پر پڑا چھت کو تکتا رھا ۔ حلق خشک ھو رھا تھا ، وہ اٹھ کر کچن میں آیا ۔ پانی پینے کے بعد وہ بالکونی میں جا کھڑا ھوا ۔ رات کافی بھیگ چکی تھی ۔ اس نے دیکھا دور تک چھوٹی بڑی عمارتیں اندھیرے میں ڈوبی کھڑی تھیں ۔ آسمان آج بھی بادلوں سے ڈھکا ھوا تھا اس وجہ سے بھی رات کچھ ذیادہ ھی تاریک معلوم ھو رھی تھی ۔
اسے اپنے پیچھے قدموں کی چاپ سنائی دی ۔ مڑ کر دیکھا اس کا ایک ساتھی چلا آ رھا تھا ، اس نے قریب آکر کہا
کیوں نیند نہیں آ رھی ۔؟
نہیں ۔ وہ تاریکی کو گھورتا رھا
میں محسوس کر رھا ھوں کہ تم صبح کے واقعہ کے بعد بہت خائف ھو ۔
رحیم خاموش رھا ۔
کیا تم شرمندگی محسوس کر رھے ھو ؟
شرمندگی ۔ ۔ ۔ ۔۔ رحیم نے ٹھرے ھوئے لہجے میں کہا ، مجھے اپنے آپ سے نفرت محسوس ھو رھی ھے
تم اگر اتنے نرم دل ھو تو تمھیں ھمارے ساتھ نہیں جانا چاھیے تھا۔
مجھ سے کہا گیا تھا کہ کچھ لوگ اس جگہ جمع ھو کر ھمارے خلاف مسلح کاروائی کی سازش تیار کر رھے ھیں ۔ مگر حقیقت اس کے بر عکس نکلی ۔
بہرحال وہ لوگ ھیں تو ھمارے دشمن ۔
کیا نہتے دشمن پر گولیاں برسانا بہادری ھے ؟
وہ کافر ھیں ، زندیق ہیں ، مرتد ہیں۔ تمھیں ان کے ساتھ ھمدردی نہ ھونی چاھیے ۔
کیا ھر کافر واجب القتل ھوتا ھے ۔؟
جس کا کفر جتنا سنگین ھو گا وہ اتنا ھی سزا کا حق دار ھو گا ۔ اور مرتد تو قطعی واجب القتل ہے۔
سلیم ، بہت سے لوگ ھمیں بھی کافر اور مرتد سمجھتے ھیں ۔ اگر وہ بھی اسی اصول پر عمل کریں کہ کافر اور مرتد واجب القتل ھیں تو پھر یہ دنیا ایک عظیم فساد گاہ بن جا ئے گی ۔
اگر تم تنظیم سے متفق نہیں ھو تو پھر ھم میں شامل کیوں ھوئے تھے ۔
بتاتا ھوں ، آج سے قریبا” ایک سال پہلے ایک مذھبی جلسے میں بم دھماکہ ھوا تھا جس میں درجنوں لوگ شہید ھو گئے تھے ۔ تمھیں یاد ھو گا ؟
ھاں ، مجھے یہ واقعہ کیسے بھول سکتا ھے ، سب ھمارے ھی لوگ تھے ۔ سلیم نے کہا
“مرنے والوں میں میرے تین بڑے بھائی اور والد بھی شامل تھے ۔” رحیم کی آواز درد سے بھر گئی
نہیں ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ سلیم کی ھلکی سی چیخ نکل گئی
جب ایک ھی وقت گھر سے تین جوان بیٹوں اور خاوند کا جنازہ اٹھا تو میری والدہ کا ھارٹ اٹیک ھو گیا اور محلے والوں کو پانچویں جنازے کا بھی بندوبست کرنا پڑا ۔ رحیم کی آواز رندھ گئی تھی ۔
سلیم اسے دیکھے جا رھا تھا
تم تصور کر سکتے ھو کہ اس وقت میری کیا حالت ہوئی ھو گی ۔؟
سلیم سر ھلا کر رہ گیا ۔
مجھے ھفتوں اپنی سدھ بدھ نہ رھی تھی ۔ کھانے پینے کا ھوش نہ پہننے کا ۔ پاس پڑوس والے کبھی کبھار خبر گیری کر جاتے ۔ صدمے کی اس اتھاہ گہرائی کی حالت میں مجھے منصور صاحب ملے ۔ انہوں نے مجھے تسلی تشفی دی اور مخالف مسلک کے خلاف بہت سا لٹریچر پڑھنے کو دیا ۔ میرے دل میں تو پہلے ھی آگ لگی ھوئی تھی ۔ منصور صاحب کی باتوں نے اسے دو چند کر دیا ۔ انہوں نے مجھے یقین دلایا کہ میرے والد صاحب کے قاتل فلاں فلاں لوگ ھیں ، تب میں باقاعدہ تنظیم میں شامل ھوا ۔ تاکہ ان سے بدلہ لے سکوں ۔ پھر کئی ماہ تک میری ٹریننگ ھوتی رھی ، آخر کل منصور صاحب نے مجھے خاص طور پر بلا کر کہا کہ تمھارا انتقام لینے کا وقت آ چکا ھے ، تیار ھو جاو ۔
“اور تم تیار ھو گئے ۔”
ھاں میرے سینے میں انتقام کی آگ سلگ رھی تھی ۔ میں بڑے جوش اور ولولے سے اس کاروائی میں حصہ لینے گیا تھا ۔ صلاح الدین نے مجھے سامنے کے دروازے سے اندر جانے کے لیے کہا ، خود وہ بغلی گلی سے فائرنگ کرنا چاھتا تھا ۔ اس نے مجھے کہا تھا سامنے نظر آنیوالے ھر شخص کو گولیوں سے بھون ڈالنا ۔
“اور تم نے بھون ڈالا ؟”
نہیں ، میں ان لوگوں پر فائر نہ کر سکا ۔
سلیم نے بے یقینی سے اسے دیکھ کر کہا ۔ “مگر ھم نے تو دو گنوں کے چلنے کی آواز سنی تھی ۔”
جب میں اندر داخل ھوا تو فائرنگ کرنے ھی والا تھا کہ اندر کا منظر دیکھ کر گن خود بخود جھک گئی ۔ رحیم کہتے کہتے رک گیا ۔ کچھ دیر باھر پھیلی تاریکی کو گھورتا رھا پھر بولا
وہ لوگ عبادت کے لیے صفیں بنائے کھڑے تھے ، اور سب سے پچھلی صف میں ذیادہ تر بچے تھے ۔ آٹھ سے بارہ سال تک کی عمر کے بچے ۔ اگر میں فائرنگ کرتا تو سب سے پہلے یہ بچے ھی میری ذد میں آتے ۔ ۔ ۔۔ ۔ سلیم ۔ ۔۔ ۔ ۔ گن میرے ھاتھ میں منوں وزنی ھو گئی ۔ اسکی نال کا رخ فرش کی طرف تھا اور میری فائرنگ سے فرش اکھڑتا رھا ۔ دوسری طرف صلاح الدین نے کھڑکی سے فائرنگ شروع کر دی تھی ۔ میرے سامنے صفیں باندھے ، عباد ت کرتے لوگ خون میں نہاتے چلے گئے ۔ رحیم دم لینے کے لیے رکا ۔
صرف صلاح الدین کی فائرنگ سے تو ذیادہ لوگ نہ مرے ھونگے ۔ کیونکہ وہ کھڑکی سے ھال کے کچھ مخصوص حصہ پر ھی فائرنگ کر سکتا تھا ۔ سلیم نے خیال ظاھر کیا
” ایسا ھی ھوا ھے ۔ اس وقت ھال آدھے سے ذیادہ بھرا ھوا تھا ، اگر میں بھی فائرنگ کرتا تو شاید ھی کوئی زندہ بچتا ۔”
تم نے یہ بات مجھے تو بتا دی ھے ۔ صلاح الدین یا منصور سے اس کا ذکر بھی نہ کرنا ۔ سلیم نے ادھر ادھر دیکھ کر آھستہ سے کہا ۔
یہ بات چھپی نہ رہ سکے گی ۔ نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں انہیں صاف صاف بتا دونگا ۔ کہ ان لوگوں کو عبادت کرتا دیکھ کر میں ان پر فائرنگ نہ کر سکا ۔ بلکہ ان پر یہ بھی واضح کر دونگا کہ میں آئندہ ایسی کسی کاروائی میں حصہ نہیں لونگا ۔
بھول کر بھی تنظیم سے الگ ھونے کی بات ان کے سامنے نہ کرنا ۔
کیوں ۔؟
وہ تمھیں زندہ نہیں چھوڑیں گے ۔
مجھے ان لوگوں کا خوف نہیں ھے ۔
پھر تمھیں کس بات کا خوف ھے ۔
اللہ کی پکڑ کا ۔
ایک عبادت گاہ میں خدا کی پرستش کرنے والوں کو خون میں نہلایا گیا ھے ، کیا خدا خاموش رھے گا ۔ مجھے آسمان پر چھائی اس ھولناک تاریکی سے ڈر لگ رھا ھے ۔ ۔ ۔۔ ۔ کچھ ھونے والا ھے کچھ ھو کر رھے گا ۔ رحیم کی آواز لرز رھی تھی ۔
کچھ نہیں ھو گا ، ایسے کتنے ھی واقعات ھو چکے ھیں مگر نہ آسمان گرا نہ زمین ھی پھٹی ۔
یہی تو خوف کی بات ھے کہ اب ظلم کی انتہا ھو چکی ھے ۔ زمین پر بہت خون ناحق بہہ چکا ، آسمان آخر کب تک خاموش رھے گا ۔
تم اپنے دماغ پر ذیادہ بوجھ نہ ڈالو ، چلو میرے ساتھ اندر ۔
سلیم نے اس کا ھاتھ پکڑ کر کہا ۔ تمھیں آرام کی ضرورت ھے ، اور ھاں ایک بار پھر کہتا ھوں کہ اپنے ان خیالات کا اظہار کسی پر نہ کرنا ۔
اگلی صبح ناشتے کے بعد جب صلاح الدین نے اخبار میں یہ پڑھا کہ کل والے فائرنگ کے واقعہ میں صرف آٹھ لوگ مارے گئے تھے تو آگ بگولا ھو گیا ۔ اور رحیم کو مخاطب کر کے کہا ۔
تمھیں میں نے اسی لیے ھال کے دروازے سے بھیجا تھا کہ تم نئے آدمی ھو ۔ ٹارگٹ کو نشانہ بناتے وقت تمھیں کوئی دشواری نہ ھو ۔ مگر شاید تم نشانے پر فائر نہیں کر سکے ۔
رحیم نے اثبات میں سر ھلا دیا ۔
کیوں ؟؟اس کے لہجے میں سختی آ گئی ۔
رحیم نے کوئی جواب نہیں دیا وہ گم صم بیٹھا میز کے کونے کو تکے جا رھا تھا ۔
شاید گھبراھٹ میں نشانے پر فائرنگ نہ کر سکا ۔ سلیم درمیان میں بول پڑا ۔
میں نے منصور سے پہلے ھی کہا تھا کہ اس آپریشن کے لیے یہ لڑکا موزوں نہیں ھے ۔ صلاح الدین کی آواز ابھی تک درشت تھی ۔
ابھی نیا ھے ، آھستہ آھستہ ٹھیک ھو جائے گا ۔ سلیم نے کہا
اور یہ کل سے اتنا سہما ھوا کیوں ھے ؟
اسے پکڑے جانے کا ڈر ھے ۔ سلیم کے منہ سے نکلا
ھا ھا ھا ، صلاح الدین نے ایک طویل قہقہہ لگایا ۔ پھر رعونت سے بولا ۔
ھمیں کون پکڑ سکتا ھے ۔
سلیم ، اسے کچھ دیر کے لیے یہاں سے لے جاو ، مجھے رہ رہ کر اس پر غصہ آ رھا ھے ۔
سلیم نے رحیم کا ھاتھ پکڑا اور اسے راھداری میں لے آیا ۔
تم کچھ دیر کے لیے باھر چلے جاو ۔ تھوڑی دیر میں صلاح الدین کا غصہ ٹھنڈا ھو جائے گا ۔ پھر آ جانا ۔ ابھی جاؤ ۔
رحیم چپ چاپ بیرونی دروازے کی طرف مڑ گیا ، یہ ایک فلیٹ تھا جو ایک پانچ منزلہ عمارت کی تیسری منزل پر تھا ۔ وہ سیڑھیاں اتر کر نیچے سڑک پر آ گیا ۔ سڑک کی دوسری طرف ایک وسیع میدان تھا جس کے بعد پہاڑوں کا ایک سلسلہ تھا جو دور تک چلا گیا تھا ۔ وہ ٹہلتا ھوا میدان عبور کرنے لگا ۔ عین اسی وقت بڑے زور کی گڑگڑاھٹ سنائی دی ۔ زمین ھلنے لگی تھی ۔ رحیم کی نگاہ سامنے کی عمارتوں کی طرف اٹھ گئی جو بڑے مہیب دھماکوں کے ساتھ زمین بوس ھو رھی تھیں جبکہ میدان کی دوسری جانب واقع پہاڑوں سے بڑے بڑے پتھر لڑھکتے ھوئے نیچے آ رھے تھے ۔ رحیم نے بھاگنا چاھا مگر زمین کی ھِلَنت کچھ اور بڑھ گئی اور وہ منہ کے بل نیچے گرا ۔ اس کے حواس جواب دیتے جا رھے تھے ۔ غنیمت ھوئی کہ جہاں وہ گرا تھا وہ جگہ گرتی ھوئی عمارتوں کے ملبے اور پہاڑوں سے لڑھک کر آنے والے پتھروں سے محفوظ تھی ۔
اختتام
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...